یہی داغ تھے : دوسرا حصہ
’’آپ کے سابقہ باس معظم صاحب میرے بہت اچھے دوست ہیں، اور وہ کسی کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں سے نہیں ، آپ کے خلاف اتنی لمبی چارج شیٹ انہوں نے ایک بھی الزام بنا ثبوت کے نہیں لگایا۔‘‘ اس کی بات نے گویا اس کے کیریئر کے دفن ہوتے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی تھی ۔ وہ جو ایک لمحے کی سوچ اسے آئی تھی بھروسہ کرنے کی، وہ بھی ساتھ ہی دفن ہوگئی تھی۔
’’آپ اعتراف کرلیں تو شاید آپ کی جاب کچھ میجر پینلٹیز کے بعد بچ جائے، اس عمر میں غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‘‘ وہ گویا ہر طرح سے اس کی جاب بچانے کی کوشش کر رہا تھا، وہ واقعی ایک نرم دل انسان تھا مگر سیاہ عبایہ میں اس کے سامنے بیٹھی لڑکی پر اسے کسی پتھر کا گمان ہوا تھا ۔ اس کے لیے کسی بڑے آدمی کی سفارش کی کال نہیں آئی تھی اس کو ، وہ جان گیا تھا کہ وہ ایک غریب فیملی سے ہے اور امیر ہونے کا شارٹ کٹ جو اس نے ڈھونڈھا تھا وہ اسے پھنسا گیا تھا ۔ اسے غصے کے ساتھ ساتھ بہت افسوس تھا ۔
مگر سامنے بیٹھے وجود کے چہرے پر اسے کوئی ایک تاثر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا تھا ۔ وہ بالکل بےتاثر چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی۔
’’آپ کو واقعی فرق نہیں پڑ رہا ؟ آپ کی جاب جا رہی ہے ، یہ کوئی آسان نہیں ، نجانے کتنے لوگ کس قدر محنت کے بعد سی ایس ایس کرتے ہیں پھر بھی کلیئر نہیں کر پاتے۔‘‘ اس نے گویا آخری کوشش کی تھی اسے سمجھانے کی مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔
’’جو بھی رزلٹ اس انکوائری کا لکھنا چاہتے ۔۔۔۔ ‘‘ اسے لگا اس کی آواز بھرا رہی ہے۔
’’لکھئے،مجھے مزید کوئی صفائی نہیں دینی ۔‘‘ وہ یقیناََ اب کنٹرول کر چکی تھی اپنے آپ پر ۔ آخری فقرہ اس نے بہت مضبوطی سے کہا تھا اور کہتے ہی وہ اٹھ کے باہر چلی گئی ، جبکہ وہ ایک بار پھر ان کانچ جیسی شفاف آنکھوں میں آتی اور خشک ہوتی نمی میں الجھا بیٹھا رہ گیا تھا ۔ ہر چیز سامنے تھی مگر وہ ڈر رہا تھا اللہ سے کے کہیں کوئی زیادتی نہ ہو جائے اسکے ہاتھوں ورنہ کوئی اور ہوتا تو بہت پہلے ہی یہ کیس کلیئر کر جاتا۔
’’انہتاکی ڈرامے باز اور بہت ہی بڑی فلم ہے یہ لڑکی، تمہارے سامنے مظلوم بننے کے ڈرامے بھی بہت کرے گی ۔ اپنی معصوم شکل دکھا دکھا کر، مگر میں اسے بھگت چکا ہوں اور ہر ثبوت تمہارے سامنے ہے۔‘‘ اسے معظم کی بات یاد آئی تھی ۔ اس سے بہتر اسے بھلا کون جانتا ہوگا، اس کے انڈر کام کیا ہے ۔ اسے مہندی میں اس قیمتی ساڑھی میں ملبوس وجود یاد آیا تھا اور دفتر میں تو وہ سیاہ عبایہ پہن کر آتی تھی ۔ وہ الجھتا جارہاتھا، معظم کی باتیں اسے سو فیصد سچ لگ رہی تھیں ۔ وہ صرف ادھر ہی مظلوم بن کے آتی ۔ وہ مزید اسے بینیفٹ آف ڈاؤٹ نہیں دے سکتا تھا، اس نے طویل سانس بھر کے اس کی فائل اٹھائی تھی اور اس پر’’کیس کلوزڈ‘‘ لکھتا کھڑا ہوا تھا کہ فون پر ہوتی میسج ٹون پر وہ چونکا تھا ۔
یہ اس کا فون نہیں تھا، وہ ٹیبل پر پڑے فون کی جلتی سکرین لائٹ کو دیکھ رہا تھا، وہ اپنا فون ادھر بھول گئی تھی ۔ اس نے آہستہ سے فون اٹھایا اور سائیڈ پر رکھا ریسیور اٹھایا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، فون کی سکرین پر آئے میسج پر اس کی نظر پڑی تھی ۔ فون لاکڈ تھا مگر سکرین پر میسج کا چھوٹا سا حصہ اور نمبر نظر آرہا تھا ۔
’’میں انتظار کررہا ہوں کب تم ریکویسٹ کرو گی کہ آؤ بچاؤ ۔ ‘‘ اس سے زیادہ کچھ نظر نہیں آیا تھا گو کہ کچھ ایسی خاص بات نہیں تھی میسج میں مگر وہ چونکا اس لیے تھا کہ میسج جس نمبر سے آیا تھا وہ نمبر سیوڈ نہیں تھا اس لیے سکرین پر نظر آرہا تھا مگر میسج کا انداز بتا رہا تھا کہ کوئی فرینک انسان کا ہی میسج تھا ۔
’’ہوسکتا اس کا فون نیو ہو، نمبر سیو کیے ہی نا ہوں۔‘‘ اس نے سر جھٹکتے ہوئے سوچا تھا اور پھر اپنی اس قدر انوالومنٹ پر خود کو سرزنش کرتا وہ پی اے کو اندر بلا کر اس کا فون اسے دینے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے آفس سے نکل گیا ۔مگر اس کے باوجود بھی وہ نمبر اس کی میموری میں کہیں سیو ہو کر رہ گیا تھا۔
٭…٭…٭
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
کمرے میں پھیلی مدھم روشنی میں اس کے گالوں پر سے پھسلتا پانی سیل رواں کی طرح گردن سے ہوتا ہوا بازؤں پر آرہا تھا۔باقی کی ساری زندگی اسے شاید رونا ہی تھا ۔ ایک بھی شخص اسے اپنی زندگی میں ا س وقت ایسا نہیں لگا تھا جسے وہ کہہ سکے سب، جو اسے دیکھتے ہی سمجھ جائے، اسے جج نہ کرے، جس کو اپنی داستان سنانے کے لیے اسے کسی بھی لفظوں کا چناؤ نہ کرنا پڑے، بس ایسا ہو کہ وہ گلے لگ جائے اور وہ سب سمجھ جائے ۔ اگر مرنا کوئی آپشن ہوتا تو وہ کب کا یہ بھی کر چکی ہوتی مگر وہ یہ بھی نہیں کرسکتی تھی ۔ فون کی بجتی بیل پر اس نے ہاتھوں کی پشت سے دونوں گال رگڑے تھے اور پھر فون اٹھا یا تھا ۔ دوسری طرف امی تھیں۔
’’کیسی ہو فاطمہ۔‘‘ ماں کی آواز اس دنیا میں شاید ہمارے ذہن کو سکون پہنچانے والی سب سے مضبوط آواز ہوتی ہے ۔ اس کا جی چاہا وہ چیخ چیخ کر روئے اور بتا دے کی کیسی ہے ۔
’’ٹھیک ہوں امی، آپ کیسی ہیں؟‘‘ اس کی آواز باوجود کوشش کے بھرا رہی تھی۔
’’کیا بات ہے؟آواز کیوں بھاری بھاری لگ رہی؟‘‘ امی کو تشویش ہوئی تھی۔
’’ نہیں تو، زکام ہو رہا اصل میں تھوڑا سا اس لیے لگ رہی۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ شاید مطمئن ہو گئی تھیں۔
’’آصف کی پیشی ہے اس جمعہ، وکیل آیا تھا آج۔‘‘ امی کا تھکا تھکا لہجہ اسے مزید ہرا رہا تھا۔
’’بتا رہا تھا کہ سزائے موت اس دفعہ لازمی عمر قید میں بدل جائے گی ، مخالف مان گئے ہیں مگر دس لاکھ مانگ رہے ۔‘‘ امی کے کہنے پر اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔
’’دس لاکھ ۔۔۔۔‘‘ اس نے بے اختیار دہرایا تھا۔
’’فاطمہ تم ایڈوانس سیلریز لے لو بینک سے، وکیل نے کہا ہے کہ لازمی ایک ہفتے میں ارینج کر دیں۔‘‘ امی رو رہی تھیں۔ بیٹے کی سزائے موت معاف کروانے کے لیے تو وہ کچھ بھی کرسکتی تھیں۔
’’ارینج ہوجائے گا امی، آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ اس نے ان کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تسلی دی تھی ۔ پھر کچھ دیر مزید ان کو ریلیکس کرنے کے بعد اس نے فون بند کردیا تھا اور اکائونٹ بیلنس چیک کیا تھا جہاں پچپن ہزار کا فیگر جگمگا رہا تھا ۔ وہ دس لاکھ کہاں سے لائے گی ۔ اس کا بھائی جو ا س کی وجہ سے کال کوٹھری کا مہمان بنا ہوا تھا پچھلے پانچ سالوں سے، اس کی زندگی کے لیے تو وہ اپنی زندگی بھی دے سکتی تھی ۔ کس سے مانگے آخر، سیلری تو سسپینشن کے بعد سٹاپ ہو گئی تھی۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے نتاشہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، اپنی سیلف ریسپیکٹ کو ایک سا ئیڈ پر رکھ کر فی الحال اسے ہر صورت پیسوں کا ارینج کرنا تھا اور اپنے لیے کوئی جاب ڈھونڈنی تھی ۔ اس فیصلے پر پہنچ کر وہ کچھ مطمئن ہوگئی تھی مگر نتاشہ سے پیسے مانگنا اس کے لیے فی الحال سب سے مشکل ٹاسک تھا ۔ وہ اس کی دوست تھی مگر اس دوستی میں اس نے کبھی بھی اپنی خودداری پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا تھا مگر اب تو زندگی اس سے ہر ایک وہ کام کروانے پرتل گئی تھی جو اس نے کبھی نہیں کیے تھے۔
٭…٭…٭
’’بلیک گاڑی والا لڑکا ہر روز ہمیں فالو کرتا ہے ، میں ایک ہفتے سے نوٹ کر رہی اس کو۔‘‘ سحرش نے اس کی توجہ پیچھے آتی بلیک گاڑی پر دلوائی تھی جو آہستہ آہستہ ا ن کے پیچھے آرہی تھی۔
’’دفعہ کرو تم، ہمیں کیا ۔‘‘ اس کے قدموں میں تیزی آگئی تھی ۔ اسٹاپ آنے ہی والا تھا۔
’’کیوں دفعہ کریں، دیکھو کتنا ہینڈسم لڑکا ہے، یہ ضرور تمہاری وجہ سے آتا ہمارے پیچھے ۔‘‘ سحرش کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر وہ اسے گھورنے لگی۔
’’ شٹ اپ سحرش ۔‘‘ اس نے دھوپ سے بچنے کے لیے ہاتھ میں پکڑا رجسٹر سر کے آگے کر لیا تھا۔ وین اب تک نہیں آئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا گاڑی سے اتر کر ان کی طرف آتا دکھائی دیا تھا۔
’’ یہ تو ادھر ہی آرہا ہے یار۔‘‘ سحرش اب گھبرا گئی تھی۔
’’ اوور ایکٹنگ مت کرو سحرش۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔ گھبرا تو وہ بھی رہی تھی مگر شو نہیں کر رہی تھی۔
’’ مے آئی ہیلپ یو!‘‘ وہ پاس آکر بڑی شائستگی سے پوچھ رہا تھا۔
’’اس سارے کراؤڈ میں کیا صرف ہم ہی آپ کو بیچاری مسکین لگی ہیں جو آپ مدد کی آفر لے کر پہنچے ہیں ۔ ‘‘ اس نے اپنی فطرت کے عین مطابق بنا کوئی لحاظ رکھے تڑ سے جواب دیا تھا ۔ مقابل نے بڑی دلچسپی سے اسکے دھوپ اور غصے کے باعث سرخ پڑتے رخساروں کو دیکھا تھا جو تپش کے باعث ایک الگ ہی طرز پر چمک رہے تھے۔
’’ آپ بالکل درست سمجھی ہیں، مجھے واقعی آپ کو دیکھ کر ایسا لگا تبھی تو میں آیا ۔‘‘ وہ مسکراہٹ دباتا ہوا کہہ رہا تھا۔
’’ مسٹر!اپنا راستہ ناپو، ورنہ میں نے جوتا اتارلینا ہے اپنا تو تمہاری مدد کرنے کوئی نہیں آئے گا ۔ ‘‘ وہ مزید تپی تھی۔جبکہ اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
’’اتاریئے ناں۔ ‘‘ اس نے معصومیت سے کہا تھا ۔ جواباََ اسکا چہرہ دیکھ کر سحرش نے اس کا بازو پکڑ کر اسے پیچھے کھینچا تھا ورنہ وہ شاید ایک دو لگا دیتی ۔
’’ آپ ہمیں تنگ نہ کریں پلیز! ‘‘ سحرش کہتی ہوئی تیزی سے اسے لیتی دوسری سائیڈ پر چلی گئی جبکہ وہ کچھ سوچتا ادھر ہی کھڑا تھا۔
٭…٭…٭