کیا ہیرا کیا پتھر : ماریہ غزال
’’ ارے میاں جی ،کیا بیٹی کو گھر بٹھا کر رکھیں گے لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں ۔کل آپ کی آپا کا فون آیا تھا، پوچھ رہی تھی کہ کیا مختار نے بیٹی کی کمائی ہی کھانی ہے بیاہنا نہیں ہے؟‘‘ ماں جی نے قدر ے تلخ ہو کر کہا۔
’’تو کیا کہا تم نے؟‘‘
’’میں کیا کہتی ؟کہہ دیا کہ اپنے بھائی سے بات کریںـ‘‘
’’کیوں ان کو نا بتایا کہ کیوں منع کیا ہے؟تمہاری آپا کہتی تو بات تھی میری بہن ہو کر انہیں خاندان کی ہسٹری نہیں معلوم ۔‘‘
’’ایسی بھی کوئی بات بڑی بات نہیں جس کو آپ نے سر پر سوار کر لیا ہے؟‘‘ ماں جی کا دبا دبا احتجاج ابھرا ۔
’’آپا بیگم سے پوچھنا تھا کہ ان کی ہمت کیسے ہوئی اکلوتے لڑکے کا رشتہ بھیجنے کی؟‘‘ابا جی کی گھن گرج۔
’’ارے باؤلی ہوئی ہوں جو ایسی بات کروں ۔ کل آ رہی ہیں خود ہی سب پوچھ پاچھ کر لیجئے گا اور خبردار جو آپ گھر سے بھاگے ۔‘‘ اب اماں جی بھی شیر ہوئیں ،اور وہ جس کے لیے یہ سارا ہنگامہ بپا تھا وہ بیزاری سے لیپ ٹاپ بند کر کے کمرے میں چلی گئی ۔ مجال ہے جو یہ دونوں کبھی بغیر چک چک کے سکون سے کوئی بات کرلیں ۔
یہ دونوں حضرات بظاہرثنا مختار کے ماں باپ تھے، مگر بوڑھا اور بچہ برابر ہونے والے محاورے کے بقدراب یہ دونوں کبھی کبھی اسے اپنے بچے یا چھوٹے بہن بھائی لگتے ۔ہر وقت کسی نہ کسی بات پر دانتاکل کل کرتے ہوئے ۔ اور آخر میں بیچ بچاؤ اسے ہی کروانا پڑتا ۔ لیکن اس مسئلے کے لیے بھلا وہ بولتی کچھ اچھی لگتی ۔مسئلہ بھی تو ایسا تھا مگر شاباش ہے اس مشرقی لڑکی کی مشرقیت پر جو ہر مسئلہ، ہر موضوع ،بلکہ بہنوں کے رشتے پر بھی ہمیشہ سمجھانے بجھانے اور بیچ بچاؤ کرانے کا فرض بے بیگار ادا کرتی رہی تھی ۔ مگر اب اس بار کیا بولے بلکہ گزشتہ دو سال سے وہ سخت بیزار ہو گئی تھی ان دونوں کی اس کھینچا تانی سے ۔ اور اسی ہی لیے اب کی دفعہ اسے اپنی بڑی پھوپھی سے رابطہ کیااور مدد مانگی ۔ کل ہی اس نے آفس سے فون کر کے ان کو گھر میں ہونے والی خانہ جنگی جس کو ختم کرنے کےلیے پھپوجی کوبلوایا تھا مگر اسے پھپوجی کا آنے سے پہلے ہی فون کھڑکا دیناکچھ پسندنہیں آیا ، کیونکہ اب تو یقینا اباجی گھر سے غائب ہوں ہی جائیں گے۔
اس نے سوچا ویسے تو ماں جی اور ابا جی زیادہ تر شیر و شکر رہتے تھے مگر اس گھرانے میں جنگ کی حالت عموما ان کے گھر میں بیٹے بیٹیوں کی رشتہ فائنل کرنے پر ہوتی تھی ۔ عثمان کو لڑکی پسند آگئی تو ابا جی کو اعتراض ، بجیا کو عبید بھائی نے پسند کر لیا تو اماں جی کو اعتراض ۔ عجیب مشکل تھی اور اس کے رشتے میں مسئلہ یہ تھا کہ اماں جی جس پر راضی ہوتیں، اس سے ابا جی کو اختلاف ہوتا اور ابا جی نہ جانے کس پر راضی ہوں گے ؟
حالات کی ستم ظریفی دیکھے کہ جس بات سے ابا جی کو چڑتھی وہی بات تقریبا ہر مناسب رشتے میں موجود تھی ۔ اور وہ بات تھی اکلوتا لڑکا اب اکلوتے کی کسی ڈیفینیشن کی ضرورت تو ہے نہیں ،مگر ابا جی اپنے برے تجربات کے تحت اس کی شادی کسی اکلوتے سے کرنے پر راضی نہ تھے ۔
پہلی اکلوتی شادی ابا جی کی خاندان میں ان کی خالہ کی تھی جو شادی کی رات رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ دراصل پرانے زمانے کی شادی تھی دلہا کے علاوہ کسی کو دلہن کی شکل دیکھنے کی اجازت نہ تھی بیچاری دلہن بیاہ کر مشرق سے مغرب تک جا رہی تھی ۔ساری رات اور آدھے دن کا سفر، سخت گرمی کا موسم ،بس کا سفر ۔ اس زمانے میں ایئر کنڈیشن نگوڑ مارا تو ایجاد ہوا نہیں تھا ۔ ابا جی کے بقول خالہ کی ساس کو دلہن سے زیادہ اکلوتے بیٹے کے ارمانوں کی فکر تھی ۔ سو بیچاری ابا جی کی خالہ کا سفر تمام تمت بالخیریابالجبر ثابت ہوا، وہ سسرال کو پیاری ہونے کے ساتھ ساتھ خالق حقیقی کو بھی پیاری ہو گئیں۔
دوسرا صدمہ منجھلی بہن کی صورت تھا کہ اکلوتا بہنوئی بغیر گاجے باجے کے آیا اور بہن کوبیاہ کر لے گیا ۔ بہن کا کم عمری میں نکاح ہو چکا تھا ۔ بعد میں بہنوئی سے کافی دوستی ہو گئی ، وہ بیچارے بیگم کے دکھ بھرے گیتو ں کے طفیل سسرال کے قریب ا ٓ بسے ۔پھوپھاہر کام کے لئے پھوپھی کے محتاج بنے رہتے ۔ حد یہ کہ وہ آفس سے پیر خارش کرانے بھی گھر چلے آتے ۔ ویسے پھوپی بیگم نے بہت خوش باش زندگی گزاری مگر ابا جی ان چیزوں اور حرکتوں سے نہایت نالاں تھے ۔ دیکھ کر کڑھتے تھے ۔ حالانکہ ثنا اور سندس کا خیال تھا کہ یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہ تھا ۔بلکہ سندس کا خیال تھا کہ وہ پھوپی بیگم کے حسن کے عاشق تھے موبائل کا زمانہ نہیں تھا ۔ تصاویر تارکول کے ڈرم کے مشابہ بھلا بٹوے میں کیسے سجائیں، سو شکل دیکھنا آ جاتے ہوں گے ۔ اور اس ہی لیے پھو پی کے مرتے ہی سال بھر بعد خود بھی دارفانی سے کوچ کر گئے ۔ مگر بھلا ابا کو کون سمجھائے۔
تیسرا صدمہ بجو کے میاں سے ملا ۔ عبید بھائی نے پسند کر لیا خالہ جان ہی کے صاحبزادے تھے ۔ خالہ جانی نے دوپٹہ پپیروں تلے ڈال کر ابا کو منایا مگر اکلوتے سے بغض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ عبید بھائی کی اماں نے نہ رسم ورواج اپنائے نہ ہی توڑے اورعبید بھائی نے نہ ہی ہر کام کے لیے بجو کو تنگ کیا ، مگر بجو میکہ آ کر رک نہ پاتی اور ابا جی کو شکایت کا بہترین موقع مل گیا ۔ آپا کے میاں بچوں کی چھٹی ہونے سے پہلے ہی ان لوگوں کو چھوڑ جاتے تھے ۔ ثنا کا خیال تھا کہ بندر کی بلا طویلے کے سر ہو جاتی تھی ۔ اپیا اوروامق بھائی نے بچوں کو اس قدر بگاڑا ہوا تھا کہ ان کے آنے پر عموما بجو نعرہ تکبیر بلند کرتیں ۔ اعلان جنگ کچھ اس طرح کا ہوتا ایف ٹو تھری بلاک بی کے باسیوں چنگیز خان کی فوج ظفر موج نے ابھی ابھی حملہ کر دیا ہے ۔ اب وہ فوج گیٹ سے اندر داخل ہو گئی ہے اور ٹڈی دل کا حملہ ناکام کرنے کے لیے سب اپنے اپنے قیمتی سامان کو چھپا دیں اور خود بھی بستر پر چادر اڑھ کر سوتے بن جائیں ۔
بہر کیف یہ قصہ تو ایسے ہی چلنا تھا ۔ ابا جی کو دراصل بہن بیٹی بیاہنے کا شوق ہی نہیں تھا بقول اماں جی کے ۔ اور جب یہ اقوال کسی نہ کسی طرح ابا جی کے تک پہنچ جاتے تو پتا چلتا !خیر اب اماں جی نے عرفان کے لیے لڑکی پسند کر لی تھی ۔ بات طے تھی ۔بس ماں جی کو ثنا کے رشتے کی تلاش تھی ،تاکہ ساتھ ہی دونوں کے فرش سے سبک دوش ہوں۔
پھوپی بیگم آئیں ۔ وہ اس وقت آفس سے لوٹی تو خوش گوار ماحول میں چائے پی جا رہی تھی ۔حیرت صد حیرت اس نے سوچا اور سلام دعا کے بعد کمرے کا ر خ کیا ۔پون گھنٹے بعد روز کی طرح فریش ہو کے کمرے سے برآمد ہوئی تو اپیا کو گھر میں موجود پایا،مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ ۔
’’ خیریت کس کا رزلٹ آگیا۔‘‘
’’ ہماری دلہن رانی کا۔‘‘ اپیا نے شوخ ہو کر کہا ۔
ارے ابا جی کو لڑکا پسند آگیا ماں جی بھی راضی ہو گئی ہیں ۔ دراصل پہلے پہل اس سے پوچھا جاتا تھا مگر دونوں کے اس قدر متضاد فیصلوں کے نتیجے میں اس نے کلی اختیار والدین کے سپرد کر دیا۔ بعض دفعہ اس رسہ کشی پر بجو چڑ کر کہتیں’’ ارے یار اتنا پڑھا لکھا یونیورسٹی کالج سب گئی وہیں کوئی پسند کر لیتی اس چکر نجات ملتی۔‘‘ اور وہ سوچتی کہ عثمان بھائی کی درگت اپنی پسند بتا کر جو بنتے دیکھی تھی ،اس کی وجہ سے پسند کی شادی کے تصور سے خوف آتا تھا ۔ یہ وہ شجر ممنوعہ ٹھہرا جو کھانا تو دور کی بات اس نے دیکھنا بھی گوارا نا کیا۔
’’چلو جی خس کم جہاں پاک ۔ ‘‘ ثنا کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اپیا حیرانی رہ گئیں ۔
Nahi samjh aayi ye kahani… Plz koi explain krdein