مہندی سے لکھ دو: محمد طاہر رفیق
اماں نے کئی بار رشتے کرانے والی سے آمنہ کے لئے کہا لیکن ایسا لگتا کہ جیسے اس کے نصیب سے خوشیاں روٹھ گئی ہیں ۔ ہر بار بات بنتے بنتے رہ جاتی۔ایک بار رشتہ کرانے والی رضیہ خالہ آئیں تو خوشی سے چہکتی ہوئی آواز میں بولیں۔
’’یاسمین اس بار تو میں تم سے سونے کی ٹاپس لوں گی اور شگن کے پیسے ان کے علاوہ ہوں گے۔”
” خالہ لگتا ہے اس بار کوئی خوشی کی خبر لائیں ہیں۔”یاسمین نے بھی آدھی ادھوری بات کو خود سے مکمل کیا۔
” ہاں یاسمین پہلے منہ میٹھا کرواؤ تو تفصیل بتاؤں۔”رضیہ خالہ نے تخت پر پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
خالہ آپ کے منہ میں گھی شکر۔ بس میری بچی کا نصیب کھل جائے تو منہ مانگا تحفہ دوں گی۔”یاسمین بیگم کا دل زور زورسے دھڑکنے لگا۔
” لڑکا دبئی میں ہوتا ہے اور بہت اچھی پوسٹ پر ہے ایک ہی بڑی بہن ہے وہ بھی شادی شدہ۔ اور وہی بہن بھائی کا رشتہ کروا رہی ہے۔ نہ ساس نہ سسر نہ دیورانی نہ جٹھانی اور نہ ہی نند کی آئے روز کی پخ پخ۔ شادی کے بعد اپنی آمنہ کو ساتھ رکھے گا لڑکا۔”خالہ نے ایک ہی سانس میں ساری تفصیلات یاسمین کے گوش گزار کیں۔
یاسمین بیگم تو مارے خوشی کے گنگ ہی ہو گئیں۔جب ہوش آیاتو رضیہ خالہ سے پھر تصدیق کی۔
” خالہ سچ کہہ رہی ہیں۔ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی۔”
’’جی یاسمین بالکل سچ کہہ رہی ہوں۔ لڑکے کی بہن کو آمنہ کی تصویر بہت پسند آئی ہے وہ تو ہر شرط ماننے کو تیار ہے اور جلد از جلد آمنہ کو اپنے بھائی کی دلہن بنانا چاہتی ہے۔”خالہ نے پھر یاسمین بیگم کی امیدوں کو نئے رنگ دکھائے۔
یاسمین نے خالہ کو چائے کے بعد کھانا بھی کھلایا۔ خالہ اگلی بار لڑکے کی بہن کو ساتھ لانے لا کہہ کر رخصت ہو گئیں۔پھر تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔وسیم صاحب کو لڑکے کی بڑی عمر پر اعتراض تھا جو یاسمین بیگم نے مسترد کر دیا۔
لڑکا ابھی باہر ہی تھا لہٰذا طے یہ پایا کہ پہلے نکاح کر لیا جائے تاکہ آمنہ کے ویزے کے لیے پیپر ورک میں آسانی ہو اور چار ماہ بعد جب لڑکا پاکستان آئے تو رخصتی کے بعد وہ آمنہ کو اپنے ساتھ دوبئی لے جائے۔یاسمین بیگم کو تو یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا وہ بار بار آمنہ کی بلائیں لیتیں اور منہ ہی منہ کتنے وظائف کر کے پھونکتی رہتیں۔آمنہ نے تو اس سارے عرصے میں صبر اور قناعت کے سارے اسباق پڑھ لیے تھے۔ اس لئے وہ شانت رہتی تھی ۔ جب یاسمین بیگم بھی کوئی مایوسی بھری بات کرتیں تو وہ ان کو بھی سمجھاتی ۔
” اماں اللہ نے ہر انسان کا خوشیوں پر حق رکھا ہے سب کو اس کے حصے کی خوشیاں ضرور ملتی ہیں۔ لیکن کسی کا وقت پہلے آ جاتا ہے کسی کا بعد میں۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ وقت سے پہلے نہیں اور مقدر سے ذیادہ نہیں۔ وہ بالکل سچ کہتے ہیں۔”آمنہ کی باتیں سن کر یاسمین بیگم وقتی طور پر بہل جاتی تھیں اور پھر کسی لڑکی کی شادی کا ذکر سن کر ان کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے۔لیکن اس بار ان کی نیم شب کی دعائیں رنگ لائی تھیں اور بہت جلد آمنہ کے مقدر کے آسمان پر اس کے نصیب کا چاند چمکنے والا تھا۔سب کے صلاح و مشورے سے ٹیلیفون پر نکاح ہو گیا اور رخصتی چار ماہ بعد سنیل کے پاکستان آنے پر طے پائی۔عرصے بعد آمنہ کے خوابوں میں اس کی بے رنگ ہتھیلیاں مہندی کے سرخ رنگ سے سجنے لگیں۔
یاسمین بیگم شادی کی تیاریوں میں لگ گئیں گو کہ سنیل کی بہن نے کہا تھا کہ ان کو جہیز کے نام پر کچھ نہیں چاہیے ۔ ایسے بھی تو شادی کے بعد آمنہ کو سنیل کے ساتھ دبئی چلے جانا ہے ۔یاسمین بیگم نے کہا کہ ان کو اپنے ارمان پورے کرنے دیں کیونکہ جب کبھی وہ پاکستان کا چکر لگائیں گے تو ان کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہو۔
” سجنے لگے آنکھوں میں کچھ ایسے سپنے ، جیسے بلائے کوئی نینوں سے اپنے۔”
آمنہ آنکھیں موندھے لتا کی آواز کے ساتھ سر ملا رہی تھی اور یاسمین بیگم اس کو خوش دیکھ کر خوشی سے نہال ہوئی جا رہی تھیں۔ چار ماہ کا عرصہ پلک جھپکتے ہوئے گزرا ۔ جاتی گرمیوں اور آتے جاڑوں کے دن تھے کہ دروازے پر نامانوس سی دستک ہوئی۔
یاسمین بیگم نے دروازہ کھولا تو ڈاکیا منتظر کھڑا تھا۔
’’بی بی جی یہاں دستخط کر دیں اور یہ رجسٹری لے لیں۔”ڈاکیے نے ایک خاکی لفافے کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے دستخط کرنے کے بعد دھک دھک کرتے دل کے ساتھ وہ خاکی لفافہ تھاما۔
کچھ انہونی ہونے کا احساس ان کے رگ وپے میں دوڑ گیا ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ لفافہ چاک کیا تو اندر جیسے کوئی کالا ناگ بند تھا جس نے ایک بار پھر آمنہ کی خوشیوں کو ڈس لیا تھا ۔سنیل نے آمنہ کو طلاق نامہ بھیجا تھا۔یاسمین بیگم اس بار تو نڈھال ہو گئیں ۔ وسیم صاحب اور آمنہ سے بھی سنبھالے نہ سنبھلتیں۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو پہلے سنیل کی بہن اور پھر رضیہ خالہ کو بے نقط سنائیں۔ سنیل کی باجی کو بار بار کال کرنے پر انہوں نے بہت شرمندگی کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ دلی ہمدردی جتائی۔رضیہ خالہ کے ذریعے کسی سے معلوم ہوا کہ سنیل دبئی میں غلط لڑکیوں کے چکر میں تھا۔ بھائی کو راہ راست پر لانے کے لیے اس کی بہن نے چٹ پٹ اس کا رشتہ طے کیا اور آنا فانا نکاح بھی کر دیا۔ چار ماہ بہن نے سنیل پر بہت زرو دیا لیکن وقتی طور پر بہن کی جذباتی بلیک میلنگ میں آکر نکاح کرنے والا بھائی ذیادہ دیر تک اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکا ۔ اس کے مطابق شادی کر کے وہ اپنے پاؤں میں بیڑیاں نہیں ڈالنا چاہتا۔
”میرے ساتھ تو وہ حادثہ ہوا کہ کوئی چار ماہ تک جس فصل کو بیج سے لے کر ہر روز سینچ کر خون جگر پلا کر جوان کرے اور جب کٹائی کا وقت آئے تو کوئی آگ لگا دے۔”
اماں پرسے کے لئے آئی کسی رشتے دار خاتون کو دل کا حال سنا رہی تھیں ۔ آمنہ ایک بار پھر اپنی بے رنگ ہتھیلیوں کو تکے جا رہی تھی۔اس بار اس کے دل کے ساتھ ساتھ اس کی مہندی سے جڑی محبت کی بھی موت ہوئی تھی ۔ کتنا ارمان تھا اسے لے شادی کے بعد وہ اپنی ہتھیلیوں کو کبھی بے رنگ نہیں رہنے دے گی ۔ کیونکہ پھر روک ٹوک کرنے کو اماں بھی ساتھ نہیں ہوں گی ۔ مدت بعد اس نے اماں سے چوری چھپے گوگل سے مہندی کے نت نئے ڈیزائن دیکھنا شروع کر دیے تھے ۔سو اس بار آمنہ نے اپنے ارمانوں کے ساتھ ساتھ مہندی کے خواب بھی جلائے تھے۔
” دیکھا میں نہ کہتی تھی کہ آمنہ ہے ہی منحوس ۔ نصیبوں جلی کا نام جس جس کے ساتھ بھی جڑتا ہے اس کی زندگی کو اماوس کی رات بن جاتی اور پھر اندھیرے اس کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔”پھپھو نے اپنے بھائی وسیم کے گھر جا کر افسوس نہ کیا لیکن چھوٹے بھائی آصف کے گھر جا کر خوب مزے لے لے کر آمنہ کے نصیبوں کو دہائی دی۔
پھپھو کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ دنیا بھر کے برے واقعات آمنہ سے منسوب کر دیتیں۔کمرے کے اندر مصطفی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح پھپھو کا منہ بند کر دیتا۔
” نجمہ میں تو کہتی ہوں کہ تم تو خوش نصیب ہو جو اس کرموں جلی کی مار سے بچ گئی ہو۔ نہیں تو مصطفی کو تو اس نے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔‘‘ برآمدے سے آتی آوازوں نے ایک بار مصطفی کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
”وہ تو میں ہی آنکھوں کی اندھی تھی کہ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے چلی تھی نجمہ۔‘‘ پھپھو نے نجمہ کا گھٹنا ہلا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔