صنم ۔ حفیظہ لعل دین
”جاؤ مجھے سونے دو۔” اور وہ لیٹ گیا تھا۔ چہرے پہ بازو رکھے۔ فاطمہ نے چند لمحے اسے دیکھا پھر خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ ابو کے کمرے کی طرف گئی تو وہاں کلثوم اپنے شوہر کے آنسو صاف کر رہی تھی۔
وہ وہیں سے مڑ کر اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
اگلی صبح یہ خبر پھیل چکی تھی کہ اشعل کا باپ فالج سے جنگ لڑتے لڑتے مر گیا تھا۔
٭٭…٭٭
ہر سمت شور ہی شور تھا۔ باجوں کا شور۔ کلارنٹ بج رہی تھی۔ ڈھول تاشے ہر سو تھے ۔ آسمان رنگینیاں دیکھ رہا تھا اور مسرور ہو رہا تھا۔ اسی شور کے ساتھ حورم کی آنکھ کھلی تھی ۔ اس نے دکھتے سر کے ساتھ چند حرف بھیجے اور تکیے کو اپنے کانوں پہ رکھ لیا مگر پھر بھی شور تھا تو وہ بڑھ رہا تھا پھر اسے یاد آیا کہ آج تو ڈولیاں آنی ہیں ان کے آستانے پر ۔
یہی یاد آنے پر اس نے خود کو بستر سے اتارا اور وہ باتھ روم میں گھس گئی پھر نہا کر اس نے کپڑے بدلے اور برقع پہن کر باہر آ گئی ۔ اس دروازے پر جہاں سے ڈولیوں نے گزرنا تھا اس کے دادا کے مزار کی طرف۔
سید اعظم شاہ کی اکلوتی بیٹی حورم ہی تھی۔ اللہ سے انھوں نے بیٹا مانگا مگر بیٹی کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ اسی پہ انھوں نے اکتفا کر لیا کیونکہ ان کے پاس گدی تھی اپنے باپ سید کاظم شاہ کی تو وہ اسی پہ جا بیٹھے مگر گدی لڑکی تو نہیں چلا سکتی تھی۔ اسی وجہ سے انھوں نے اپنے دور والے رشتے داروں سے ایک لڑکا لے لیا ۔ حورم پچیس سال کی تھی اور وہ لڑکا ابراھیم سات سال کا۔ کاظم شاہ کی وصیت کے مطابق انھیں اسی کمرے میں دفن کیا گیا جہاں وہ رہتے تھے ۔ وہ گھر تھا ان کا مگر پھر اس گھر کو آستانہ بنا دیا گیا ۔ اسی آستانے کے اوپر ان کی رہائش تھی۔
حورم نے برقع پہنا اور وہ باہر چلی آئی ۔ اسے لوگوں کی باتیں جو سب کرتے تھے انھیں سن کر پورا کرنے کی بڑی خواہش تھی اور اسی خواہش کی وجہ سے ان کے مریدوں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
آج کے دن عرس میں ناچ گانے والوں کی چادریں بھی آنی تھیں اور پھر صحن میں میلا لگ گیا تھا ۔ اسی میلے میں وہ بھی آن کھڑی ہوئی۔
بس پھر وہ آ گئی تھی اور پھر وہاں سے جا نہ سکی تھی۔
وہ نور جہاں کا گانا تھا جو کہ چل رہا تھا۔ تھاپ اس کی تھی تو وہ ردھم پہ آ کر رکتی تھی ۔ جسم کا انگ انگ تھا تو وہ گانے کے ہر بول پہ ادا ہو رہا تھا۔ جو کوئی بھی اس کا ناچ دیکھ رہا تھا ۔ اس کے منہ سے واہ ہی نکل رہی تھی ۔ حتیٰ کہ وہ زنانہ ڈانس کر رہا تھا مگر پھر بھی وہ ناچ رہا تھا۔
حورم گنگ سی بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی ۔ اسی رقص کو دیکھ کر حورم مر مٹی تھی کیونکہ اس نے زندگی بھر رقص دیکھے تھے مگر اس کے جیسا نہیں دیکھا تھا۔ اور نہ ہی اس جیسا کوئی تھا وہاں۔ جونہی اس نے رقص ختم کیا تو وہ بھی کسی ٹرانس سے باہر آئی۔
وہ وہیں سے مڑ گئی۔
اس کے لیے آگے کا مرحلہ آسان تھا ۔ اگلے دن وہ اسی لڑکے کے ساتھ ایک پیزا اسٹور میں بیٹھی تھی۔
٭٭…٭٭
اسی ملاقات نے پھر محبت بڑھا دی تھی۔ اور اسی کے انجام سے وہ گھر تہس نہس ہو گیا تھا جس کی جڑوں کو سید کاظم نے اپنے خون کے ساتھ بھرا تھا اور عزت سے اسے سینچا تھا۔ اس کی باسط سے محبت کے بارے میں کسی کو بھی علم نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کسی کو بتانے کی زحمت گوارا کی تھی۔
رات کے اندھیرے میں وہ برقع پہنے باسط کے ساتھ نکل آئی تھی ۔ یہ جانے بغیر کہ جس رات وہ گھر سے نکلی تھی۔ اس کا باپ اعظم ہارٹ اٹیک کی وجہ سے خاموش کمرے میں جان کی بازی ہار گیا تھا۔
٭٭…٭٭
وہ جس جگہ رہ رہے تھے وہاں باسط کو سبھی ڈانسر بلاتے تھے کیونکہ وہ مشہور ہی اسی نام سے ہوا تھا اس وجہ سے مگر حورم کو اس سے کوئی غرض نہ تھی ۔ اسے باسط سے محبت تھی اور وہ رہنی تھی ۔ محبت کا یہ بڑا عجیب اصول ہے یہ ہو جائے تو اس میں ہر گھاٹا سہہ لیا جاتا ہے ۔ لیکن اسے رقص پسند تھا تو وہ اسے گھاٹا نہیں کہتی تھی۔ گھر میں سب سے اچھی کمائی باسط کی تھی۔ شادی سے پہلے وہ جو لاتا دوسروں میں تقسیم کردیتا تھا۔ سارا پیسہ اپنی بہن، بھائیوں اور دوستوں میں لٹاتا رہتا تھا۔شادی کے بعد بھی اس کی یہی روٹین بن رہی تھی۔
” تمھیں یہ دکھ تو نہیں کہ میرے پاس وہ سب کچھ نہیں ہے جو کسی مرد کے پاس ہونا چاہیے اور بیوی اسی پاس ہونے کو حق سمجھ کر اترائے…” باسط نے ایک بار یہ کہا تھا۔
” تمھاری محبت بہت ہے باسط اور یہ آسائشیں مجھے قبول نہیں ہیں ۔ یہ روٹی جو تم مجھے کھلاتے ہو یہ بہت ہے۔” حورم نے کہا۔
” تمھارا نام اس جگہ سبھی کو پتہ ہے کہ تم ان کی بیٹی ہو ۔ تم اپنا نام کلثوم رکھ لو، حورم۔” اس نے ایک خدشہ ظاہر کیا۔
”تمھارے گھر کی عورتیں تو مجھ سے واقف نہیں ہیں۔ ”
” مرد واقف ہیں کہ حورم نام سید اعظم کی بیٹی کا ہے۔ اسی وجہ سے…”
”جی بہتر۔ میرا نام کلثوم ہے۔” سر تسلیم خم کر دیا گیا تھا۔
٭٭…٭٭
ایک سال بعد…
وہیں ان کے گھر اشعل پیدا ہوا تھا اور اسی اشعل کے ایک سال بعد فاطمہ۔
اشعل جیسے سمجھدار ہوتا گیا اسے ڈانسر لفظ سے نفرت ہونے لگی اور جیسے ہی اس نے میٹرک کیا ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو دوسری جگہ منتقل ہونے کا کہہ دیا اور وہ ہو گئے ۔ وجہ کلثوم بنی تھی۔
اس نے اپنی ایک مریدنی سے کہا تھا گھر کا ۔ یہ وہی تھی جس نے باسط کو خبر دی تھی اور اس کا پتہ بتایا تھا ۔ مریدنی کھاتے پیتے گھرانے سے تھی ۔ اس نے باسط کو نوکری بھی لگوا دی تو گھر کا سسٹم چلنے لگا مگر چند مہینوں بعد باسط کو فالج کا اٹیک ہوا ۔ جس کی وجہ اشعل تھا۔
” بابا! آپ کو ڈانس کے علاؤہ کچھ نہیں آتا تھا۔ کوئی کام بھی نہیں۔”
” تمھاری ماں کو اسی وجہ سے مجھ سے محبت ہوئی تھی اور تم اسے فضول گردان رہے ہو۔”
” جو زمانہ باتیں کرتا ہے آپ کے بارے میں۔”
”زمانے نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا اشعل پتر۔ تو پھر میں کیا چیز ہوں۔”
” یہ ڈانس عورتیں کرتی ہیں۔ مردوں کو یہ چیز نہیں بھاتی۔”
”میں چھوڑ چکا ہوں ڈانس اشعل ۔ ”
” مگر ابھی تک میرے کان میں آوازیں آتی ہیں محلے والوں کی ۔ ان کا میں کیا کروں۔!”
”بھول جاؤ۔۔”
”نہیں بھول سکتا میں۔ اسی وجہ سے میں نے اپنا نام آپ کے ساتھ نہیں لگوایا ۔ میرے شناختی کارڈ میں میں نے اپنا نام تبدیل کروا لیا ہے۔ میرا نام ہوگا اشعل کلثوم نہ کہ اشعل باسط۔”
وہ باہر چلا گیا۔ مگر پیچھے انھیں آدھی جان کر گیا تھا۔
٭٭…٭٭
پوری دنیا اس کے جنازے میں آئی تھی۔ کیونکہ فاطمہ نے پیچھے محلے میں فون کر دیا تھا۔ سبھی تعزیت کر رہے تھے اشعل سے تبھی کسی نے کہا۔
”باسط بھلا ڈانس کرتا تھا مگر اس کی کمائی سے کئی گھر پلتے تھے ۔ وہ گھر جہاں چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے تھے اور کلثوم بھابھی بھی ایسی ہی نکلی۔ سب کا خیال کرنے والی ۔ باسط کے پاس اور کوئی ہنر بھی نہیں تھا۔ اَن پڑھ جاہل گنوار تھا وہ مگر نماز آتی تھی اسے، وہ پڑھتا بھی تھا۔ ڈانس اس کی کمائی تھی ۔ چاہے وہ بری تھی یا بھلی ۔ یہ بات اللہ کے علم میں ۔ باقی انسان اچھا تھا ۔” اشعل پہ گھڑوں پانی پڑ گیا تھا ۔
اس نے اپنا رخ کمرے کی طرف کیا جہاں کلثوم بیٹھی تھی کیونکہ باسط کو باہر صحن میں رکھا ہوا تھا ۔جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے والا منظر دیکھ کر دیوار سے جا لگا ۔ کلثوم باسط کے گھنگھرو باندھے بنا کسی میوزک کے ڈانس کر رہی تھی ۔ گھوم رہی ہے، ہنس رہی ہے۔ارد گرد بیٹھی عورتیں حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھیں اور فاطمہ سر اٹھائے اشعل کو دیکھ رہی تھی ۔ جیسے کہہ رہی …
”خوش ہو… محبت مار کر…”
٭٭…٭٭