شکر الحمدللہ: ام اقصٰی

’’صحت بھی برقرار رہنے کے لیے دولت مانگتی ہے ، فاقے بیماری سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔‘‘ یہ بات صرف سوچ کر رہ گئی ۔
دادی بی نے واپسی پر تھوڑے سے چاول اور آٹا ہمراہ کردیا۔ اگلے دن صدا م مزدوری پر گیا ۔ واپسی پہ کچھ راشن لیتا آیا۔
’’اتنی مقدار میں کالے چنے اور سفید آلو۔‘‘ معظمہ نے حیرت سے صدام کو دیکھا ۔
’’چنے بھگو دینا رات کو ، صبح ابال کے چاٹ بنا دینا ، سکول کے سامنے بیچوں گا۔‘‘ صدام سودا رکھنے میں اس کی مدد کرتا اسے بتا رہا تھا ۔
معظمہ نے ناشتے کے بعد سے ہی چنے ابلنے کے لیے رکھ دیے تھے ، ساتھ ہی آلو بھی ڈال دیے ۔ صفائی کر کے برتن دھوئے ، ساتھ ساتھ چولہے میں آگ بھی سلگاتی رہی ، چنے اور آلو ابل گئے تو آلو چھیل کے کاٹ لیے ، ساتھ ہی ایک بڑی پلیٹ میں پیاز سبز مرچیں بھی کاٹ دی، نمک دانی میں چاٹ مصالحہ ڈالا اور پلاسٹک کی بوتل میں چٹکی بھر ٹاٹری ڈال کر پانی سے بھردی۔ گرم سلاخ سے ڈھکن کے اوپر سوراخ کر دیا ۔ کل کی سبزی میں سے ایک مولوی اور گاجر بھی کش کر کے ساتھ رکھی ۔ جہیز میں سے کروشیے کا دستر خوان نکال کر ڈال دیا۔
صدام سب اشیا قرینے سے سجاکر لے گیا ۔
چھٹی ٹائم لگ سب چنے بک گئے ۔ صدام واپسی پہ پلاسٹک کی کٹوریاں اور چمچ بھی لیتا آیا ۔ کام تو چل نکلا پر کام تھا محنت طلب۔ گزارے لائق پیسے ہو جاتے ، پرآگ جلا کر پھونکے مار مار کر کسیلے دھوئیں سے معظمہ کی آنکھیں چبھنے لگتی ۔
دادی بی ایک دوپہر اس کے گھر آئیں ۔ اس کی مصروفیات دیکھ کر خوش ہو گئی پرمعظمہ ابھی بھی ناخوش دکھائی دی۔
’’دادی بی سب کام مجھے کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’ صحت کے ساتھ کام کرنا پڑتے ہیں سوچو اگر صحت بھی نہ ہو اور پھر بھی کام کرنا پڑیں تو۔۔۔‘‘ دادی بی نے شکر کا ایک اور پہلو دکھایا ۔
رات چنے بھگو کر ائی تو صدام کہہ رہا تھا کہ تھوڑی اور بچت ہوتی ہے تو پریشر ککر لے لیں گے ٹائم اور ایندھن دونوں کے بچت ہوگی۔
’’اس دن چنے ابالتے معظمہ کو زیادہ ہی دقت ہوئی ۔ اس کی اب اولین خواہش میں پریشر ککر بھی شامل ہو گیا تھا۔ کیا ایسی بھی کسی کی خواہش ہوتی ہے؟
آپ کی نہیں ہے تو آپ بھی شکر الحمدللہ کہیے ، کمال اس میں آپ کا نہیں ، آپ نواز ے ہوئے ہیں۔
پریشر ککر تو نہ آیا البتہ چنا چاٹ کا کام بھی ٹھپ ہوگیا ۔ وہ یوں کے سکولز میں گرما کی تعطیلات ہو گئی اور چل پھر کے گلیوں میں زیادہ بِکری نہ ہوتی ، اوپر سے ایک اور فرد اسود کا اضافہ ہو گیا ۔
معظمہ اسے حفاظتی ٹیکہ لگوانے سردار وِلا کے گھر سے آگے سے گزری ۔ انہوں نے اپنی کوٹھی دو منزلا کرلی تھی۔ سیاہ چمکتاپتھر بیرونی دیوار پر لگا تھا ۔ سامنے خوبصورت سا ڈیرہ تھا ۔
’’کیا ہوتا اگر اللہ ان سے ذرا سا رزق ہمارے حصے میں لکھ دیتے۔‘‘
٭…٭…٭
سویرے سانجھے اٹھ کر معظمہ عبادت سے فارغ ہوئی تھی۔ پھر باہر آکر موسم کا جائزہ لیا ۔ بادلوں کی ٹکریاں جڑ رہی تھیں۔ رات بھی وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی تھی ۔ کچے سہن میں کیچڑ کا فرش تھا۔ آج صدام منڈی تو نہ جائے گا کہ کیچڑ ہے ۔ آج پھر پھیری نہ لگ سکتی تھی کہ گلیاں کیچڑ سے بھری ہوئی تھیں ، تو آج وہ کیا کرے گا ۔ معظمہ وہیں سوچتی رہی۔ لوگ ہر روز صبح اٹھتے اور رزق کے لیے نکل پڑتے اور وہ ہر روز رزق ڈھونڈنے کا ذریعہ سوچتے ۔
صدام نے سائیکل پہ پھیری لگانی شروع کر دی تھی ۔ سردیوں میں سبزی اور فروٹ کی گرمیوں میں گولے گنڈے ۔۔۔ پر اس میں مسئلہ موسم بنتا۔ بارش وغیرہ کے موسم میں کیچڑ کے سبب دہاڑی نہ لگتی ۔
دادی بی نہ رہی تھیں پر ان کے قول معظمہ کو ازبر تھے۔ وہ کہتی تھی تنگی ترشی کے دن کٹ جاتے ہیں ،تنگی ترشی کے دن کٹ گئے تھے ۔ سہانے میٹھے دن آٹھہرے تھے۔
کباڑی سے صدام نے ریڑھی خرید لی تھی ، سستے داموں میں بھر کے سبزی وہ گلی گلی بیچتا ۔ تھوڑی بہت بچت ہوئی تو بازار میں بچوں کے کپڑے کی ریڑھی لگانے لگا ، چند سال لگ گئے تھے اب کرائے کی دکان میں مال ڈال دیا تھا۔ اسود پرائیویٹ سکول میں پڑھنے لگا تھا معظمہ نے اسے ٹرالی بیگ لے دیا تھا ۔ زندگی میں عیاشیاں نہیں آئی تھی مگر ضروریات خوش دلی سے پوری ہو رہی تھیں۔
مگر بچپن کی وہ ایک عادت معظمہ کی اب بھی نہ گئی تھی ۔ سرداروں کےگھر کے آگے سے گزرتی ، وہ اب بھی چند پل کو صحیح ٹھہر جاتی ذرا سی درز سے جھانکتی ۔ ان دنوں تو خبر مشہور تھی سردار کی بڑی بہو روحا کی طبیعت کورونا کی وجہ سے خراب تھی، حالت کافی تشویش ناک تھی ۔ سردار پیسہ پانی کی طرح بہا رہے تھے ۔ اپنی پولٹری فار کی مرغیوں کا صدقہ دیا ، گاؤں بھر میں اعلان کروایا تھا۔ لوگ پولٹری فارم پر جاتے روحا کی صحت یابی کے لیے دعا کرتے اور مرغی ذبح کروا لاتے۔ دو دن بعد دو بیل ذبح کر ڈالے ، شاپر بھر بھر لوگوں میں تقسیم کیے، گھر میں مسلسل پانچواں روز تھا قرآن خوانی ہو رہی تھی ، مساجد میں دعائیں، کوٹ سرداراں کے سردار رہمدل بنے ہوئے تھے ۔ دوپہر باجی شہنی کسی کام سے آئی تو معظمہ نے روحا کا حال پوچھا ۔
’’مشکل ہے ۔‘‘ اس نے دائیں بائیں دیکھا اور معظمہ کے کان میں گھسی ۔
’’سردار ڈیرے کی صفائی کروا رہا ہے ۔ ایک دو دن میں کام ختم سمجھو ۔ ‘‘وہ سیدھی ہوئی اورحیرت سے پوچھا۔
’’کیا واقعی؟‘‘
’’سیتالیس لاکھ لگ چکا ہے ۔ امید آنے کی بھی نہیں کی بچ جائیں۔‘‘
’’اللہ رحم کرے۔‘‘شہنی باجی چلی گئی تھیں، معظمہ حیرت زدہ تھی۔
’’سیتالیس لاکھ میں بھی ٹھیک نہیں ہوئی ۔۔یاحیرت۔۔۔ تو کیا یہ وہ بڑی مصیبت ہے جو امیروں پہ بیٹھے بٹھائے آتی ہے ۔‘‘ ٹرالی بیگ پیسوں سے فل بھی ہو تو صحت نروٹھی رہتی ہے ، زندگی نہیں رہتی ۔
صبح نو بجے خبر آئی روحا کے مرنے کی اور دو بجے ڈیڈ باڈی آگئی۔
لوگ جوق در جوق دیکھنے جا رہے تھے ۔ پولیس گیٹ کے باہر ہی کھڑی تھی اور بغیر ماسک کسی کو اندر نہ جانے دیتی تھی۔ معظمہ بھی شہنی باجی کے ساتھ چلی آئی ۔ گلی میں داخل ہوتے ہی، دوپٹہ کان کے پیچھے سے اڑس کر ناک سے اوپر سے گزار لیا۔
ڈیڈ باڈی صحن کے وسط میں تھی اور عورتیں فاصلے پر بیٹھی تھیں، ہر آنکھ اشکبار تھی اور خود کو ظاہر بھی کرتی تھی ۔ سرداروں کی فوتگی تھی سب کا رونا بنتا تھا ۔ معظمہ کو موقع ملا تھا گھر دیکھنے کا چاہے جیسے بھی صحیح ، وہ کیوں گنواتی ۔۔
وہ قدم پیچھے ہٹی اور گرل کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی ۔ ایک لائن میں بنے کئی کمرے تھے۔ ایک کمرے کے پاس سے گزری اور ٹھٹکی اور ٹھہر گئی اس کمرے میں دروازہ نہیں تھا ، دروازے کی جگہ جیل نما سلاخیں تھی۔آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھی کے اندر کوئی تھا ۔
معظمہ نے سلاخوں کے اندر جھانکا، جہاں کا کوئی وجود تھا ، جو لپک کے آیا تھا۔ ہاتھ جوڑ کے کچھ مانگ رہا تھا ۔ چوڑے قد کاٹھ کا ڈھانچہ نما موجود تھا ۔
تبھی پیچھے سے کسی نے معظمہ کو کھینچا ۔ باجی شہنی کو دیکھ کر اس نے سانس میں سانس لیا۔
’’یہاں کیا کر رہی ہو۔‘‘
’’ یہ کون ہے ۔‘‘ معظمہ کی آواز میں خوف بھرا تھا ۔
’’سردار منیر نشے نے یہ حالت کردی ہے۔‘‘
’’علاج نہیں کروایا؟‘‘
’’لاکھوں جھونکے ہیں، تین ماہ ہسپتال داخل رہا۔ واپس آیا تو ہفتہ بعد ہی وہی روٹین۔۔۔ بس اب یہ حالات ہوگئے کہ بند کرنا پڑا۔ سگریٹ تھما دیتے اور نشے کی گولی بھی جب زیادہ حالت ابتر ہوتی ہے۔اسود آنے والا ہوگا ،آؤ تمہیں گھر چھوڑ دوں ورنہ رش ہوجائے گا۔‘‘
معظمہ خاموشی سے باہر نکل آئی۔ رونگٹھے کھڑے تھے اور انگ انگ شکر گزاری کے سجدے کرتا تھا۔امیروں کے مسئلے بھی امیرانہ تھے۔ گھر آکر اپنے کچے فرش پہ وہ سجدے میں گر گئی، جسے باوجود کوشش کہ وہ پکا نہ کرواسکی تھی۔
دل اطمینان سے لبالب ہوا اورخدا کی تقسیم پہ شکر گزار ہوئی کہ اس مالک نے اسے چھوٹے مسئلے والوں میں رکھا تھا اور بڑی مصبیتوں سے دور رکھا تھا۔
٭…٭…٭