شریکِ غم : ماریہ کامران
کبھی کبھی زندگی بہت الجھا دیتی ہے …کب…؟
جب ہم دیکھتے ہیں لوگوں کے رویے جو وقت اور حالات کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور اس قدر بدل جاتے ہیں کہ آپ کچھ کہہ نہیں پاتے، کچھ کر نہیں پاتے، بس حیرانی سے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اس وقت ان حالات میں اپ کے لیے سخت ترین چٹان بنے ہوئے تھے اور آج…
٭٭…٭٭
ان کی نئی نئی بیاہی بیٹی حیا ‘ پورے مہینے بعد اپنے ماں باپ سے ملنے آئی تھی ۔ نک سک سے تیار حیا کی آنکھوں میں ماں باپ سے ملتے ہوئے نمی سی تھی ، جنید (داماد) کچھ دیر بیٹھ کر چلا گیا تھا، حیا ایک دن رکنے کے ارادے سے آئی تھی۔
’’ صرف ایک دن کیوں بیٹا کچھ دن تو ٹھہر جاتی پورے مہینے بعد شکل دیکھی ہے تمہاری۔‘‘ ماں نے محبت سے استفسار کیا تو حیانے نگاہیں چرائی تھیں۔
’’ بس ماما پھر آؤں گی ، اصل میں ان کو آفس جانا ہوتا ہے تو پریشانی ہوتی ہے ناشتہ وغیرہ…‘‘ حیا کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ بیچ میں باپ نے بھی فکر مندی سے پوچھا۔
’’ ارے تو بیٹا تمہارے گھر میں خیر سے تمہاری ساس نندیں بھی ہیں کچھ دن تو وہ بھی سنبھال سکتی ہیں یہ سب ۔‘‘ حیا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری تھی ۔
’’نہیں پاپا میری ساس اور نند گھر کا کوئی کام نہیں کرتی ہیں ساری ذمہ داری اب میرے ہی کندھوں پر ہے۔‘‘
’’ کیا کہہ رہی ہو حیا ، ابھی تو تمہاری شادی کو ڈیڑھ ماہ ہی ہوا ہے بمشکل ۔ ‘‘ ماں ایک دم گھبرا سی گئیں۔ لاڈلی بیٹی تھی نازوں سے پالا تھا ۔
’’نئی دلہن کے چاؤ بھی پورے نہ کیے کچھ دن تمہاری ساس نے۔‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بول گئیں۔
’’ماما وہ ایک روایتی ساس ہیں ۔ بہوؤں کا زیادہ آنا جانا ، گھومنا پھرنا بھی انہیں زیادہ پسند نہیں ہے ۔ میکے میں بھی نہیں… وہ کہتی ہیں کہ بس ایک بار مہینے میں کچھ دیر کے لیے ہوآیا کرو۔‘‘
حیا نے اب کہ کھل کر وضاحت کی ‘ اگرچہ پہلے پہل وہ سسرال کی بات کرتے ہوئے جھجھک رہی تھی مگر شاید اسے بھی اس وقت کسی غمگسار کی ضرورت تھی ۔ اور ماں باپ سے بڑھ کر بھلا کون ہوگا خیر خواں ، ماں باپ تو اولاد کے دکھوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کے عادی ہوتے ہیں ، اولاد کو تکلیف میں دیکھتے ہی دعاؤں کے ورد جاری ہو جاتے ہیں ان کے لبوں پر…
’’یہ کیا بات ہوئی بھلا نوکرانی چاہیے تھی تو بتا دیتے ۔ کرتا ہوں بات جنید سے، ابھی بھلا دن ہی کتنے ہوئے ہیں جو انہوں نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیے۔‘‘ باپ کو ایک دم ہی غصہ آگیا تھا۔
’’ نہیں ، نہیں پاپا جنید تو اچھے ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘‘ حیا نے ایک دم گھبرا کر ماں کو دیکھا تھا ۔ ماں نے معاملے کی نزاکت کو سمجھ کر بات سنبھال لی تھی۔
’’ ہاں ہاں بیٹا داماد اچھا ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کسی سے کچھ بھی کہنے سننے کی ۔ ویسے بھی حیا شادی کے بعد گھر اور گھر داری ، یہی دو چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں عورت کے لیے۔‘‘ انہوں نے نرمی سے بیٹی کو سمجھایا تھا۔
’’ ہاں ہاں الٹی پٹیاں ہی پڑھاؤ ۔ لاوارث ہے وہ جو دوسروں کے اشاروں پر ناچے گی ۔ ‘‘ باپ نے غصے سے حیا کی ماں سے کہا اور اٹھ کر چل دیے ۔ حیا کی ماں نے حیرانی سے اپنے جاتے ہوئے شوہر کو دیکھا تھا۔
’’یہ وہی مرد تھا…ہاں وہی سخت چٹان…‘‘
’’کیا یہ وہی مرد ہے…؟‘‘
وقت کی چکی نے تیزی سے الٹا گھومنا شروع کر دیا تھا۔
٭٭…٭٭
وہ ایک نئی نویلی دلہن تھی جس کی شادی کو محض دو ہفتے ہی گزرے تھے۔
’’میں سوچ رہی تھی کہ آج امی کے گھر ہو آؤں۔‘‘ بڑی ہمت مجتمع کر کے اس نے اپنے سنجیدہ مزاج شوہر سے کہا تھا۔
’’امی سے پوچھو جا کر ۔ اگر وہ کہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، خود سے کچھ مت سوچا کرو۔‘‘ ارسلان نے ٹی وی سے نگاہ ہٹائے بغیر جواب دیا تھا ۔
’’دراصل آج باقی دونوں بہنیں بھی آرہی ہیں امی کے گھر تو میں بھی…‘‘ بشری کی بات ابھی ادھوری ہی تھی۔
’’ کہا نا کہ امی سے پوچھو ۔‘‘ ارسلان نے پھر لا تعلقی سے کندھے اچکائے تھے ۔ وہ ایک نئی مشکل میں گھر گئی تھی ۔ ساس بلا کی سخت مزاج تھیں ، ان سے بات کرتے ہوئے تو ویسے ہی اسے گھبراہٹ ہوتی تھی۔ بڑی ہمت جمع کر کے وہ کچھ دیر بعد ساس کے کمرے میں گئی تھی،
’’ اگر آپ اجازت دیں تو آج امی کے گھر چلی جاؤں ؟‘‘ ڈرتے ڈرتے اس نے اپنا مدعا بیان کیا تھا۔ ساس نے چشمے کے اوپر سے آنکھیں نکال کر اسے گھورا تھا۔
’’ آج کیسے جا سکتی ہو۔ آج تو پانی آنے کا دن ہے۔ جس دن پانی آتا تھا میں اسی دن مشین لگا کر گھر بھر کے کپڑے دھو ڈالتی تھی ۔ اب خیر سے تمہارا گھر ہے تو یہ سب تم نے سنبھالنا ہے۔ جاؤ جا کر مشین لگا لو باورچی خانہ میں دیکھ لوں گی ۔‘‘
ساس صاحبہ نے نیا حکم جاری کر دیا تھا وہ دل مسوس کے رہ گئی تھی۔
’’ اصل میں آج ساری بہنیں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ مشین میں کل صبح لگا لوں؟‘‘ بڑی آس اور امید سے بشری نے آخری کوشش کی تھی۔
’’ خیر سے بہنیں تو آتی جاتی رہتی ہیں پھر چلی جانا۔‘‘ ساس نے جیسے ناک پر سے مکھی اڑائی تھی۔
وہ پلٹ آئی تھی ۔ سارے گھر کے کپڑے اکٹھے کر کے مشین لگا لی تھی۔ نم آنکھوں اور بشاش لہجے میں ماں کو بھی فون کر کے مطمئن کر دیا تھا۔ سارا دن کپڑوں کا ڈھیر دھو کر رات گئے تک سارے کام نبٹا کر بستر پر لیٹی تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ جسمانی تھکاوٹ سے زیادہ ذہنی تھکن تھی جس نے ہلکان کر دیا تھا ۔ شوہر کی حددرجہ لا تعلقی، ساس کی سخت طبیعت ، سسرال کے ڈھیروں جھمیلوں کے ساتھ نبھا کرتے کرتے کبھی کبھی وہ تھک کر اپنا سر تھام لیتی تھی ۔ تب ننھی حیا کا مسکراتا چہرہ اس کے سامنے آ جاتا ۔حیا کی کلکاریوں نے اس کی زندگی میں رنگ بھرے تھے۔ پھیکی پڑتی زندگی کچھ رنگین ہوئی تھی۔ بیٹی کے سہارے اس نے وہ ماہ و سال صبر سے کاٹ لیے تھے۔ سارے دردو غم برداشت کیے ۔ اپنی ماں کے ہاتھوں کٹ پتلی بنی بیوی کا کبھی احساس نہ کرنے والے ارسلان احمد بلا کے بے حس تھے۔
اس رات بشری کو شدید سر درد تھا ۔ صبح تک تیز بخار نے گھیر لیا ۔ تمام تر ہمت جما کر کے بھی وہ صبح معمول کے مطابق اٹھ نہیں پائی تھی ۔ ارسلان احمد جھنجھلائے ہوئے اس کے سر پر کھڑے تھے۔
’’عجیب عورت ہو تم، کم سے کم چائے کا پانی ہی رکھ دیتیں۔ بندہ مکھن ڈبل روٹی ہی زہر مار کر لیتا ۔‘‘
’’ میں ابھی رکھ دیتی ہوں ۔ بس اٹھا ہی نہیں گیا بہت کوشش کہ باوجود۔‘‘ بشریٰ نے اپنے چکراتے سر کو تھام کر اٹھنے کی کوشش کی تھی ۔ ابھی وہ کمرے کے دروازے تک ہی پہنچی تھی جب کچن سے آتی ساس کی تیز آواز نے قدم روک لیے تھے۔
’’ارے بھئی ایسی بھی کیا نازک مزاجی کہ اٹھ کر شوہر کو ناشتہ دینا بھی گوارا نہ کیا ۔ ہمارے وقتوں میں یہ حیلے بہانے نہ تھے ، نہ ہی بیماری کے ڈرامے تھے، جیسی بھی حالت ہوتی کام دھندے سے لگے رہتے تھے ۔ آج کل کی لڑکیاں تو بس ذرا سا سر میں درد کیا ہوا پلنگ سے ہی لگ گئیں۔‘‘ ساس کی زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی تیزی سے چل رہے تھے ۔ غالبا وہ ناشتے کی تیاری کر رہی تھیں ۔ بشری کی دو نندیں بھی گھر میں موجود تھیں ۔ انٹر کے پیپرز دے کر فارغ ہوئی تھیں اور اس وقت بے خبر سوئی ہوئی تھیں۔ وہ دونوں دیر سے اٹھنے کی عادی تھیں۔ بشری کی ساس نے بیٹیوں پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی ہوئی تھی یہ کہہ کر کہ اگلے گھر جا کر بھی کرنا ہی ہے ‘ ماں باپ کے گھر تو سکھ چین سے رہ لیں۔
’’ دوا کھا لواور شام تک بھلی چنگی ہو جانا ۔امی کو پسند نہیں ہیں یہ چونچلے۔ دیکھو کتنی خفا ہو رہی ہیں وہ۔‘‘ ارسلان احمد ٹائی کے ناٹ باندھتے ہوئے عجلت میں کمرے سے نکلے تھے ۔ اس کے سرخ پڑتے چہرے اور بخار سے پھکتے وجود سے یکسر نظریں چرا کر وہ ناشتے کی ٹیبل پر جا بیٹھے تھے ۔
وہ بے جان قدموں سے واپس پلٹ آئی تھی ۔ بے دم سی ہو کر بیڈ پر ڈھے گئی تھی۔ بھلا دو لفظ ہمدردی اور محبت کے اس کے لیے کیوں نہیں تھے ارسلان کے پاس … کیا وہ اتنا بھی حق نہیں رکھتی،اتنی اہمیت بھی نہیں اس کی کہ اس کو بیوی اور بہو سے ہٹ کر ایک انسان ہی سمجھ لیا جاتا ۔ آنسو آنکھوں سے ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے۔ وہ اس وقت بہت اکیلا پن محسوس کر رہی تھی۔
ساری زندگی صبر اور برداشت کے کئی ان گنت سبق پڑھتے ہوئے یہ عورت کس اذیت سے گزری تھی۔ آس پاس والوں کو خبر تک نہ ہوئی ۔ زندگی کے ایسے اور اس جیسے کئی دھندلے منظر بشری کی آنکھوں میں محفوظ تھے۔
وقت خوبصورت گزرا ہو تو ماضی کی جھولی میں یادوں کے ’’انمول سکے ‘‘ہوتے ہیں ورنہ تو بس یہی بچتے ہیں…جو بشری کی جھولی میں تھے ’’کھوٹے سکے‘‘
ایک بار بشری کے ماں باپ نے تنگ آ کر دبے لفظوں میں بشری کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی شکایت کرنی بھی چاہی تو ارسلان احمد ہتھے سے اکھڑ گئے تھے۔
’’ ایسا بھی کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہو رہی بشری کے ساتھ میرے گھر میں ۔شادی کے بعد تو شوہر کا گھر ہی اہم ہوتا ہے ۔ گھر اور گھر داری کے علاوہ کام کیا ہے عورت کا ۔ آپ کا کام ہے اس کو سمجھائیں کہ وہاں پر دل لگائے اور میری ماں کو شکایت کا موقع نہ دے ۔ الٹا آپ لوگ مجھ سے شکایت کر رہے ہیں ۔ ‘‘ ارسلان کے اکھڑے اکھڑے لہجے پر بشری کے ماں باپ گھبرا گئے تھے ۔بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر ارسلان احمد کو ٹھنڈا کیا تھا۔
اس کے بعد سے بشری کے ماں باپ نے توبہ کرلی تھی اس کے معاملات میں بولنے سے ۔ بشری بھی سمجھدار لڑکی تھی ہر طرح کے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد سے تو اس نے اپنی ذات کی بلکل ہی نفی کر دی تھی ۔اس کی زندگی کا محور بس اس کا گھر اور اولاد تھی۔
٭٭…٭٭
ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتی بشری کو حیا کی آواز حال میں کھینچ لائی تھی۔ حیا جھجکتے ہوئے بشری سے کہا تھا۔
’’امی آپ بابا سے کہہ دیجیے گا کہ وہ جنید سے کوئی شکایت نہ کریں۔ جنید کا ان سب معاملات میں کوئی قصور نہیں ہے بس وہ اپنے گھر کے اصولوں کی وجہ سے مجبور ہیں ورنہ وہ مجھے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔‘‘ حیا کی بات سن کر بشری بیگم کے دل کو ڈھارس ملی تھی (شکر ہے کہ ان کی بیٹی کا شریک سفر، شریک غم بھی تھا)۔
’’بے فکر رہو میں تمہارے بابا کو سمجھا دوں گی ،وہ کوئی بات نہیں کریں گے ۔ جس جگہ آج تم کھڑی ہوئی ہو‘ میں اس راستے سے گزر چکی ہوں بیٹا ۔‘‘وہ دھیرے سے اس کا گال تھپتھپا کر اٹھ گئی تھیں۔
٭٭…٭٭
’’شام میں جنید آئے تو اس سے کوئی ایسی ویسی بات مت کیجئے گا آپ ۔ ‘‘ بشری بیگم کی بات سن کر ارسلان احمد نے بے اختیار اخبار سے نگاہ اٹھائی تھی۔
’’ کیوں بھئی ، کیوں نہ کروں ۔ بات توکی جائے گی ‘ لاوارث نہیں ہے میری بیٹی ۔ ابھی اس کا باپ زندہ ہے ۔ کوئی زیادتی برداشت نہیں کروں گا۔‘‘ ان کی دبنگ انداز پر بشری بیگم نے ایک سردآہ بھری تھی۔
’’وہ داماد ہے اور گھر آئے داماد کی عزت…‘‘ بات ادھوری ہی تھی کہ ارسلان احمد پھر بول اٹھے۔
’’ہاں داماد ہے،ہماری بیٹی کا شوہر ہے سر آنکھوں پر… مگر اس کوسمجھنا ہوگا کہ ہم نے بیٹی بیاہی ہے کوئی نوکرانی نہیں دی ہے انہیں ۔ شوہر ہونے کے ناطے اس کا فرض ہے کہ بیوی کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائے ۔‘‘ وہ اپنی دھن میں بول رہے تھے اس بات سے بے خبر کہ سامنے کھڑی عورت ان کی وہی بیوی ہے جس کے ساتھ ہونے والی ہر نا انصافی پر وہ زندگی بھر خاموش رہے ۔ آج وہی سب جب ان کی بیٹی پر بیتا تو ان کے لیے ناقابل برداشت ہو رہا تھا ۔
’’آپ سمجھ نہیں رہے ۔ ایک بار اماں ابا نے بھی آپ سے بات کرنا چاہتی تھی ، تب اپ کو بھی اچھا نہیں لگا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ جنید کو بھی نہ لگے، وقت اور عمر کے ساتھ عہدے بدلتے رہتے ہیں کل آپ مضبوط پوزیشن پر تھے اور اماں ابا کمزور، آج آپ جس پوزیشن پر ہیں وہ کمزور ہے اور سامنے والا مضبوط…‘‘ بشری بیگم نے دھیمے لہجے میں اپنی بات مکمل کی تھی اور کمرے سے چلی گئی تھیں۔
ان کے لہجے میں کوئی گلا یا شکوہ نہیں بول رہا تھا مگر پھر بھی ارسلان احمد کی پیشانی ندامت سے عرق آلود ہو گئی تھی ۔ جو بات وہ کبھی نہ سمجھ سکے آج وقت نے بخوبی سمجھا دی تھی۔
’’بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور بیاہی بیٹیوں کے دکھ ماں باپ کا سکھ چرا لیتے ہیں ، رویوں کا تضاد رشتوں کی خوبصورتی چھین لیتا ہے۔‘‘ آج کسی بھی عمل سے، کسی بھی معافی تلافی سے گزرے وقت کا ازالہ ممکن نہ تھا۔ احساس ندامت نے زندگی بھر کے لیے ارسلان احمد کو گھیر لیا تھا۔