بھنورہ: منعم ملک
یہ سب ایک گفٹ سے شروع ہوا…
ڈیڑھ سال بعد جب اچانک اس نے مجھے گفٹ دیا تھا۔پہلی مرتبہ اپنی طرف سے کوئی تحفہ…میری ساری دعائیں, میری ساری محنت جیسے قبول ہونے جارہی تھی… میرے لیے بے یقینی سی بے یقینی تھی کہ جب خواہش حسرت بننے کو تھی ۔ اس روز میرے پیر زمین پر ٹکنا مشکل تھے۔گوکہ وہ تحفہ بہت مہنگا تھامگر میرے لیے تحفے سے ذیادہ وہ جذبات معنی رکھتے تھے۔جن سے مجبور ہوکر اس نے مجھے پہلی بار کچھ دیا تھا۔
’’شناور !میں یہ نہیں لے سکتی پلیز۔‘‘
’’ میں نے بہت دل سے لیا ہے شزا۔‘‘اس کے چہرے پر بیچارگی آئی تھی۔اور میری حیرانی دوچند ہوئی۔
’’ تم نے میری بہت دفعہ ہیلپ کی، گفٹس دیے۔ میں سمجھتا تھا ہم اچھے دوست ہیں؟‘‘
’’میں گھر میں کیا جواب دوں گی؟‘‘مجبوری بیان کی۔
’’کہنا کلاس کی دوستوں نے مل کر یہ گفٹ دیا ہے۔ ورنہ دیکھو میرا دل ٹوٹ جائے گا۔‘‘اس نے اداس ہوکر دیکھایا۔ میرے پیشانی پر پسینہ چمک گیا تھا۔یہ اک نئے ماڈل کا مہنگا موبائل تھا اور وہ جیسے جانتا تھا کہ میں اسے انکار نہیں کرسکوں گی۔
’’اچھا میں رکھ لیتی ہوں۔‘‘
’’ میرا دل؟‘‘وہ محظوظ ہوا اور میرے چہرے کی رنگت اڑی۔ یعنی وہ اتنا بھی غافل نہیں تھا جتنا اسے میں سمجھتی تھی۔ یا پھر وہ اپنی کشش سے اچھی طرح واقف تھا۔
میں گھبراہٹ چھپا کر بات ہنسی میں اڑانا چاہتی تھی کہ تمہارے دل کی قیمت یہ ہے؟ پر میں ہنس نہ سکی۔ بول نہ سکی۔
میری دنیا ایک دم سے بدل گئی…حیرت در حیرت…جیسے کوئی خواب… گمان یا سراب…یقین سے دور ۔ کیا وہ میری قسمت ہوسکتا تھا؟ وہ جس کی حسرت کی سلوٹیں میرے دل پر تھیں۔کروٹ در کروٹ ادھورے خواب تھے۔
شناور شاہ اب میرا منتظر رہنے لگا تھا۔ یونیورسٹی آنے سے پہلے اس کا میسیج موجود ہوتا۔
’’جلدی سے یونیورسٹی پہنچو۔ کہو تو پک کرلوں؟‘‘
’’ تمہارے پاس بلیک کلر کا ڈریس ہے؟ میرے ساتھ میچنگ کرلو۔‘‘
’’ شزا محمود! آئی مس یو۔‘‘
’’ شزا! تمہاری جیسی لڑکی اس پوری یونیورسٹی میں کوئی نہیں ۔ ‘‘
اس کی باتیں…اس کی بے تابیاں سب کچھ جو میں خوابوں میں سوچتی تھی۔ وہ حقیقت بن گیا تھا۔اس کی ذات کا محور میں بن گئی تھی۔ اور میں جسے یہ خواب کانچ کا ہونے سے خوف آتا تھا۔
’’ آج ہم سنیما میں مووی میں دیکھیں گے۔‘‘اس نے میرے ہاتھ میں آئس کریم دی اور ٹکٹس دکھائیں۔
’’شناور لیکچرز…؟‘‘
’’شناور شاہ کے ہوتے ہوئے لیکچرز؟‘‘اس نے آنکھیں میچ کر لاڈ سے دیکھا۔ کچھ کہے بغیر گاڑی کا ڈور کھول دیا۔ مجھ میں جانے کیسی ہمت آئی کہ میں ہنس کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔میں اپنے سنہری پنکھ اتار کر کسی قید میں نہیں رکھ سکتی تھی جن کا احساس میرے کندھوں پر ابھی ابھی ہوا تھا۔
یہ دن یادگار رہا ۔ شناور بہت پیارے دل کا مالک تھا ۔ مجھے ہمیشہ سے وہ شاید اس لیے خاص لگتا تھا کہ اس میں عام لڑکوں والی بات نہ تھی ۔وہ عزت دینا جانتا تھا ۔ اسے سب کی قدر تھی ۔ اور میں اسے ہر پل احساس دیتی تھی کہ وہ کتنا قیمتی ہے۔اور اسے کسی میرے جیسے انسان کی ضرورت تھی۔
’’ شزا جس طرح تم مجھے ٹریٹ کرتی ہو خوامخواہ خود پر پیار آنے لگتا ہے ۔ ‘‘اس روز اس نے مڑ کر کہا اور الٹے قدموں چلنے لگا ۔ اس کی نظر مجھ پر سے ہٹتی تک نہ تھی۔ میں کھلکھلا کر ہنستی چلی گئی۔
’’ اک تمہاری وجہ سے میری ساری دوستیں چھن گئیں ۔ ‘‘میں نے جتایا تھا۔
’’ کیا یہ وجہ کافی نہیں؟‘‘اس نے ذومعنی انداز اختیار کیا۔میں نے زور زور سے سر ہلا کر تائید کی ۔یہ سچ تھا۔ جب سے شناور شاہ میری طرف مائل ہورہا تھا میری سب دوستیں مجھ سے دور ہوگئی تھی۔ عجیب نظروں سے تکتیں۔
جیسے انہیں میری خوش قسمتی پر یقین نہ آتا ہو؟ مجھے ان کی آنکھوں سے جلن عیاں ہوتی دکھتی۔ پر مجھے پروا کہاں تھی۔ یہ رشک و جلن بھی لطف آمیز تھا۔
لیکن میری محبت کی عمر کتنی دراز تھی ۔میں بے خبر ہی رہی کہ ایک سال کتنی جلدی بیت گیا ۔وہ ایک سال جیسے مجھے نئی دنیا دکھاتے گزرا تھا… وہ دنیا جو پہلے کبھی نظر نہ آئی تھی ۔
میں انتظار میں تھی اور انتظار ہی کرتی رہی کہ جب سپنوں کی بارات میری پلکوں کے آنگن میں اُتری…
وہ موسمی بخار تھا جس نے مجھے دو دن یونیورسٹی نہ جانے دیا ۔یا شاید وہ بخار کم ایک ’’بیریئر ‘‘ (رکاوٹ)ذیادہ تھا جس نے میرے راستے کی غبار صاف کرنی تھی ۔کہتے ہیں محبت بار بار ہوتی ہے ۔لیکن شاید وہ محبت ہوتی نہیں … شناور شاہ نے مجھے خیال رکھنے کا کہہ کر فون بند کردیا تھا۔
اور دو دن بعد دنیا بدل گئی۔نجانے کیوں مجھے لگا عشنا اور ماریہ کی نگاہوں میں میرے لیے تمسخر ہے … طنز ہے اور افسوس … میں نے شناور شاہ کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی۔مجھے ان کی نگاہیں برداشت نہیں ہورہی تھیں۔ وہ مجھے تخلیق بلڈنگ کے سامنے نظر آیا۔ اس کی میری طرف پشت تھی۔اور وہ کسی لڑکی سے کہہ رہا تھا۔
’’سنیما میں نئی مووی لگی ہے۔اور میرے پاس دو ٹکٹس ہیں۔‘‘
’’لیکن سر اعظم کے لیکچرز؟‘‘ مسکراتے لبوں نے اک ادا سے کہا۔
’’ میرے ہوتے ہوئے لیکچرز؟‘‘
’’تم اصرار کرتے ہو تو لے لیتی ہوں۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھایا۔ قہقہہ لگایا۔
’’ ٹکٹس یا میرا دل؟‘‘یہ الفاظ جو ان گنت سماعتوں نے سنے ہوں گے ۔میری غیر موجودگی میں اس سے دو دن کا انتظار نہ ہوا تھا یا شاید انتظار ہوتا ہی وہاں ہے جہاں محبت ہو۔ میرے سامنے وہ مڑا تو مجھے دیکھ کر ٹھٹکا ۔ ایک پل کو رنگت اُڑی۔ شاید ہر دفعہ اُڑتی ہو…خود پر قابو پایا اور ہاتھ ہلا کر ایک مسکراہٹ اچھالی۔ شاید ہر دفعہ اُچھالتا ہو۔ اور میرے آگے سے گزر کر وہ ایک نئے چہرے کے ساتھ نئے سفر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
مجھے لگا میرے چہرے کا رنگ آج سیاہ ہے۔ یا پھر زرد…تیز پیلا…ہاں پیلا!تخلیق بلڈنگ کی کیاریوں میں لہراتے ان پھولوں کی طرح پیلا…پیلے پھول جو نفرت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ مگر میرا ماننا ہے کہ یہ افسوس کی علامت ہونے چاہیئیں…ملال کی علامت۔
میں تخلیق بلڈنگ کی سیڑھیوں پر زرد چہرے کے ساتھ بیٹھی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ قصور شناور شاہ کا کہاں ہے؟ یہی سب تو تھا جو میں چاہتی تھی…میں اسے پانا چاہتی تھی۔
سب کچھ میں نے اس کے لیے کیا تھا۔میں اس کی طرف بڑھی تھی، جب اسے ضرورت نہ تھی ۔ اور تب وہ میری طرف بڑھا جب اسے میری ضرورت محسوس ہوئی۔ اب اسے کوئی ’’شزا محمود ‘‘ پسند آگئی تھی…
مجھے ماریہ کی بات یاد آئی۔ ’’کچھ محبت میں کچھ لالچ میں…‘‘ میں خود سے سوال نہ کرسکی کہ میں نے یہ کیوں کیا۔مگر میں شناور شاہ سے بھی کوئی سوال کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی کہ اس نے میرے ساتھ بیوفائی کی۔
کیونکہ نہ یہ محبت تھی …
نہ یہ کشش تھی…
یہ صرف میں تھی جس نے اس کی فطرت کو خوش گمانی میں کوئی دوسرا نام دے دیا تھا۔کبھی اریبہ…کبھی شزا…کبھی دانیہ…
وہ نہ کوئی خاص انسان تھا…
نہ وہ مختلف تھا…
وہ صرف ایک ’’بھنورہ‘‘ تھا…
جسے سمجھنے میں، میں نے کچھ دیر کردی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭