افسانے

او میرا دل لے گئی: نظیر فاطمہ

پھر جو ڈولی کا عشق سر چڑھ کر بولا تو دور دور تک لوگوں نے سنا اور دیکھا۔آغا جان ’’ او میرا دل لے گئی، او میرا دل لے گئی۔‘‘ گنگناتے رہتے۔ آغاجان ڈولی کو بیاہ کر لے گئے اپنے اُس گھر میں جو شادی سے دس دن پہلے اُنھوں نے کرائے داروں سے ہنگامی بنیادوں پر خالی کروایا تھا۔یہ گھر بھی آغا جان کی ملکیت تھا اور برسوں سے کرائے پر چڑھا ہوا تھا۔ آغا جان ڈولی کو لے کر اسی گھر میں گئے کہ وہ اپنی اور ڈولی کی زندگی میں کسی کی مداخلت نہیں چاہتے تھے۔
’’یار ! آغاجان کو کیا ہو گیا ہے پورے پچاس لاکھ روپے حق مہر بوقت نکاح ادا کر دیا اور امّاں جان کا سارا زیور بھی اس کی ملکیت میں لکھ دیا ۔‘‘ ان لوگوں نے امّاں جان کا زیور کبھی آغا جان سے مانگا ہی نہ تھا۔ انھی کے پاس پڑا تھا ۔ پتا ہوتا وہ یہ کریں گے تو پہلے کوئی حل نکال لیتے۔ پورے تیس تولے زیور تھا امّاں جان کا جو بہووں کو چڑھانے کے بعد ان کے پاس باقی بچا ہوا تھا۔آغا جان کے نکاح کے بعد عقیل ،عاتکہ ، سجیل اور لبنیٰ لاونج میں رنجیدہ سے بیٹھے تھے۔ البتہ ان کے بچوں نے بڑے جوش سے داد ا کی شادی میں شرکت کی ، نہ صرف شرکت کی بلکہ سوشل میڈیا پر اس کا پرچار بھی کیا۔
’’ چلو سب سو جاؤ چل کر، کل آغا جان کا ولیمہ بھی بھگتانا ہے۔‘‘
٭…٭
آغا جان اپنی نئی نویلی دولھن کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ محبت سے دھڑکتے دو دل ، نئی نویلی شادی اور تنہائی۔آغا جان تو مارے غرور کے چاند پر ہی ہو آئے تھے۔
’’ میں تھک گئی ہوں ، کافی پینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ میں بنا کر لاتا ہوں۔‘‘ آغا جان جو دولھن کے سامنے بیٹھنے لگے تھے۔ دوبارہ کھڑے ہو گئے ۔
’’ کیسی باتیں کرتے ہیں نور ڈارلنگ ، آپ بیٹھیں میں بنا کر لاتی ہوں ہم دونوں کے لیے کافی۔پھرمل کر پہلے کافی انجوائے کریں گے اور پھر…‘‘ ڈولی نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ کر لب دانتوں تلے دبا لیا اور آغاجان کی تو جیسے روح ہی پرواز کر گئی۔
ڈولی کافی بنا کر لے آئی ۔
’’آپ نے آج میری تعریف نہیں کی۔‘‘ڈولی اٹھلائی۔
’’ہاں نہیں کی اور کروں گا بھی نہیں۔‘‘آغا جان کی آنکھوں میں دو سو پاور کا بلب جل رہا تھا۔
’’کیوں؟ ‘‘ڈولی انداز سے بولی۔
’’کیونکہ حسن ِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں۔‘‘ آغا جان گنگنائے اور پھر قہقہہ لگایا۔ دونوں باتیں کرنے کے دوران کافی پیتے رہے ۔آدھی رات کو ان کی محبت کا سورج نصف النہار پر پہنچ چکا تھا۔ پھریکا یک ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔
٭…٭
اگلی صبح عقیل کا موبائل مسلسل بجے جا رہا تھا ۔وہ واش روم سے باہر آیا تو موبائل پھر بجنے لگا۔ عاتکہ اور لبنیٰ آغا جان اور ڈولی کے لیے ناشتہ تیار کر رہی تھیں ۔ مجبوری میں یہ سب کرنا پڑ رہا تھا کہ جس گھر میں وہ لوگ رہائش پذیر تھے۔ آغاجان کے نام تھا۔اب جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا اب اگر ان سے بگاڑتے تو کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ گھر سے نکال دیے جاتے۔
وہ لوگ ناشتہ لے کر آغا جان کے گھر پہنچے۔بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ لوگ لاونج میں پہنچے تو دیکھا کہ آغا جان کے بیڈ روم کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا اور آغا جان بیڈ پر بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔ ایک بازو بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا۔ کسی انہونی کے احساس سے مغلوب ہوکر عقیل ، سجیل آغا جان کو اُٹھا کر اسپتال پہنچے۔پیچھے عاتکہ اور لبنیٰ ڈولی کو ڈھونڈتی رہیں جسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔اسپتال میں آغا جان بے ہوشی میں بھی’’ او میرا دل لے گئی، او میرا دل لے گئی‘‘ ، بڑبڑا رہے تھے۔
’’ ہو ش میں آئیں آغا جان ، مجھے تو لگتا ہے وہ دل کے علاوہ آپ کا سب کچھ لے گئی ہے۔‘‘عقیل نے افسردگی سے سوچا۔
’’ رات وہ میرے اور اپنے لیے کافی بنا کر لائی تھی ۔ جسے پینے کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا ۔‘‘ آغا جان بس اتنا ہی بتا سکے تھے۔
ڈولی پچاس لاکھ حق مہر اور تیس تولے زیور ، قیمتی کپڑوں اور آغاجان کی الماری میں رکھی تمام رقم سمیت غائب ہو گئی تھی۔ وہ آغا جان کو لوٹ کر چلی گئی تھی اور آغاجان کو یہ بات صدمے کے ساتھ ساتھ شرمندگی سے بھی دوچار کر رہی تھی کہ ان کے بچّے شاید انھیں یہی سمجھانا چاہ رہے تھے مگر وہ اس عمر میں بھی ’’بہک‘‘ گئے تھے ۔
’’ آغا جان! بس کریں یار، جو ہونا تھا ہو گیا۔چھوڑیں بھول جائیں سب۔‘‘ عقیل سجیل آغاجان کو تسلی دیتے۔
’’ یار میری حق حلال کی کمائی تھی ایسے کیسے جا سکتی ہے۔‘‘
عقیل سجیل کا ایک دوست پولیس محکمے میں اچھی پوسٹ پر تھا۔ اس کے تعاون سے کوئی ایک مہینے بعد ڈولی مع اپنی والدہ اور اس گینگ کے گرفتار ہو گئی جو ڈولی اور اس جیسی چند اور خوب صورت لڑکیوں کے ذریعے ا میر بوڑھوں کو پھنسا تے، اس سے شادی کا ڈرامہ رچاتے، بھاری حق مہر جو نکاح کے وقت وصول کر لیا جاتا اور سارا زیوراپنی ملکیت میں لے کر یہ لوگ رات کو کارروائی کر کے غائب ہو جاتے تھے۔
’’ آغا جان! یہ لیں یہ آپ کا سارا سامان واپس مل گیا۔‘‘عقیل سجیل نے رقم اور زیور سامنے رکھے تو آغا جان نظر چرا گئے ۔غم انسان کو عقل مند بنا تا ہے مگر عورت کا دیا ہوا غم انسان کو نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ ڈولی کا دیا غم بھی آغا جان کو اپنی ہی نظروں میں گرا گیا تھا۔
’’شادی ہی کرنا تھی تو میں اپنے جیسی کسی خاتون سے کر کے اس کا سہارا بن جاتا ، مگر میں تواس عمر میں جوان لڑکی دیکھ کر پھسل گیا۔‘‘ بس اب یہ پچھتاوا آغا جان کے ساتھ رہنا تھا۔
٭٭

پچھلا صفحہ 1 2

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page