آخری خواہش : محمد زین عزمی
جنگ ختم ہو چکی تھی۔ بادشاہ جیت چکا تھا۔ اپنے محل میں وہ جیت کا جشن منا رہا تھا۔ جشن بھی کیوں نہ ہوتا آخر وہ اتنے عرصے بعد اپنے مخالف حاکم سے جیتا تھا ۔ کب سے وہ اس دن کا انتظار کر رہا تھا۔ محل کے ساتھ ہی ایک کال کوٹھری تھی ۔ جس میں چار سپاہی اور ایک بوڑھا وزیر خون سے لت پت پڑے تھے۔
یہ مخالف بادشاہ کے لوگ تھے جنہیں بندی بنایا گیا تھا۔
وہ کراہ رہے تھے۔ کبھی وہ ایک دوسرے کو دیکھتے پھر کبھی ایک امید سے اس چھوٹے روشن دان کی طرف دیکھتے جہاں سے روشنی آرہی تھی۔
ان میں سے ایک نوجوان سپاہی بھی تھا ۔جو شاید ابھی نیا ہی سپاہی بنا تھا ۔ اس پر خوف کے سائے لہرا رہے تھے ۔کبھی کبھی وہ رونے لگتا پھر دوسروں کو دیکھ کر کچھ تسلی مل جاتی۔
’’کچھ دیر میں فرمان جاری ہو جاے گا کہ ان کو سولی پہ لٹکا دو ۔‘‘ ان میں سے ایک بولا۔
’’ابھی تک ہمارے بادشاہ نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیااور شاید کچھ بھی نا کرے ۔‘‘ اس کی بات سن کے سوائے بوڑھے وزیر کے سب پریشان ہو گئے۔
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔ ہمارا بادشاہ ایسے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے گا جبکہ اس کے قابل سپاہی اور خاص وزیر اس کے قبضے میں ہوں۔‘‘ایک اور سپاہی بولا۔
’’ہمارے بادشاہ کے پاس اتنا خزانہ تو ضرور ہو گا کے وہ سونے کے بدلے ہماری رہائی کروا دے ۔ ‘‘ نوجوان سپاہی چمک کے بولا ۔
بوڑھا وزیر ان کی باتیں خاموشی سے سنتا گیا۔
پھر اچانک اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔
’’بے وقوف ہو تم لوگ ۔ پتا نہیں کس امید میں بیٹھے ہوئے ہو ۔ہمارے لیے کوئی مدد نہیں آنے والی۔ وہ ہم پر اپنی دولت ضائع نہیں کریں گے۔ تو بہتر یہی ہے کہ اب ہمارے پاس جو وقت بچا ہے اس کو اچھے سے گزاریں۔‘‘ بوڑھے وزیر کی بات سن کر سب کے چہروں پر اداسی پھیل گئی۔
کچھ دیر تک وہ سب ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھتے رہے ۔ جیسے وہ ایک دوسرے کو آخری بار دیکھ رہے ہوں ۔موت ان کی منتظر تھی ۔ واپس جانے کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں تھیں۔ اتنے میں وہ بوڑھا پھر ہنسا۔
’’چلو سب اپنے اپنے بارے میں بتاتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو گھر میں ہمارے منتظر ہیں ۔‘‘
وہ سب جانتے تھے بوڑھا ہمیں آخری وقت میں دلاسہ دینے کے لیے یہ سب کر رہا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی نا بولا۔
پھر اس بوڑھے وزیر نے خود بات شروع کی۔
’’میں نے اپنے بادشاہ کے ساتھ ایک اچھا وقت گزارا ہے ۔کئی جنگیں لڑیں۔ ہمیشہ جان دینے کے لیے تیار رہے ۔شکست بھی کھائی۔ جیت بھی ہوئی مگر کبھی بادشاہ کا ساتھ نا چھوڑا۔ اب تو عمر بھی پوری ہو چکی ۔ جنگیں لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہی۔ اب اگر موت یوں ہی آنی ہے تو یہ بھی قبول ہے ۔ یہ جان بادشاہ کے نام پہ قربان ہونا تھی سو آج اگر جاتی ہے تو شکایت کیسی۔‘‘
’’تمہارا کوئی اپنا نہیں ہے جس کے لیے واپس جانا چاہو ۔‘‘ نوجوان سپاہی اپنی ہمت جٹا کے بولا۔
’’میرا اپنا…‘‘ بوڑھا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا۔
’’میرا اپنا … ہے نا میرا بیٹا ہے۔ ‘‘ بوڑھے کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’اس کے گھر بہت جلد بچے کی ولادت ہونے والی ہے۔ اور میں دادا بننے والا ہوں۔ دادا (اس نے قہقہہ لگایا )لیکن اب اپنے پوتے کو شاید نہ دیکھ سکوں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’تم سب بتاؤ اپنے بارے میں۔ ‘‘ بوڑھے نے ان سب کی طرف نظریں جما کر کہا..
انہیں اس بات کا تو یقین تھا کہ جلد یا بدیر موت ان پر آپہنچے گی مگر اب بوڑھے کی باتوں سے ان کے دل سے کچھ خوف دور ہو گیا تھا۔ اب سب اپنی اپنی زندگی کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتانے لگے ۔ پھر وہ ہلکی پھلکی ہنسی ہنس دیتے جیسے وہ آنے والے وقت کو بھلانے کی کوشش کر رہے ہوں ۔ لیکن کہیں نہ کہیں ان کے دل میں ڈر تو تھا۔
’’تو بتا تیری شادی ہو چکی ہے؟ ‘‘بوڑھے نے نوجوان سپاہی سے پوچھا۔
’’نہیں ابھی تو نہیں مگر ہو جائے گی ۔‘‘ اس نے جواب دیا پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ کچھ غلط کہہ گیا ہے۔
اب بھلا اس کی شادی کہاں ہو سکتی تھی وہ اداس ہو گیا۔ اس کو اداس دیکھ کر بوڑھے نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
’’کوئی بات نہیں ۔ قسمت میں ہوا تو تم اس سے ضرور ملو گے اور دھوم دھام سے تمہاری شادی ہو گی۔‘‘ بوڑھا ہنسا تو پھر سب کے چہروں پر رونق آگئی۔
اسی اثنا میں کال کوٹھری کا دروازہ بڑی زور سے کسی نے کھولا۔
وہاں پہ دو سپاہی کھڑے تھے ۔ ان کے پیچھے سے سورج کی روشنی ان دونوں کو چیرتی ہوئی قیدیوں پر پڑ رہی تھی ۔ ان دونوں کو دیکھ کر سب کے چہروں پر دہشت ہو خوف کے سائے لہرا رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے موت کے فرشتے کو دیکھ لیا ہو۔
وہ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے جیسے آخری بار دیکھ رہے ہوں۔ اتنے میں دروازے میں کھڑا سپاہی بولا ۔
’’تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔‘‘ بوڑھے وزیر کی طرف اشارہ کیا۔
وزیر مسکرایا ۔
’’چلو اب زیادہ دیر نہ کراؤ ہمارے بادشاہ کو۔‘‘
وزیر اپنے ساتھیوں سے آخری ملاقات کرنے لگا ۔کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ کچھ بول سکتا ۔آخر میں نوجوان سپاہی سے ملا اور اپنے سینے سے لگا لیا ۔نوجوان سپاہی اس کو گلے لگا کے جزباتی ہو گیا۔ وہ رونے لگا۔
’’چل اب جانے دے ان کے بادشاہ کو دیر نہ ہو جائے ۔‘‘ بوڑھے نے قہقہہ لگایا۔
یہ کہہ کر وہ سپاہیوں کے ساتھ باہر نکل گیا اور دروازہ کھٹاک سے بند ہو گیا۔
٭…٭
’’سنا ہے بادشاہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کا سر قلم کریں گے۔‘‘ ایک سپاہی دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
وزیر ان کے پیچھے بندھے ہاتھ اور جھکے سر کے ساتھ خاموشی سے چل رہا تھا۔
’’ہاں آخر وزیر جو ہے … اس کا اختتام بادشاہ کے ہاتھ ہونا بھی اعزاز کی بات ہے۔‘‘ دوسرا سپاہی بولا۔
’’اس نے اپنی آخری خواہش بھی تو سوچی ہوگی۔‘‘
’’سوچی ہے کیا؟‘‘ وہ دونوں پیچھے وزیر کو دیکھ کر بولے۔
’’ آخری خواہش!‘‘ وزیر بڑبڑایا۔
’’تم تو وزیر ہو ۔ تمہیں پتا ہونا چاہئے کہ ہمارے بادشاہ آخری خواہش پوچھے بغیر کسی کو نہیں مارتے۔‘‘ سپاہی بولتا چلا گیا۔
وزیر سوچ میں گم ہو گیا۔ وہ یہ بھول گیا کہ اس کے ساتھ اور بھی سپاہی قید ہیں۔ وہ بھول گیا کہ ابھی اسے مرنا تھا۔ اس کے دماغ میں اپنے بیٹے اور ہونے والے پوتے کے خیالات آنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں وہ مطمئن سا ہو گیا۔ جیسے اس نے کوئی فیصلہ کر لیا ہو۔ اس آخری خواہش کا…
چلتے چلتے وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں اس کا انجام ہونا تھا
٭…٭
دوسری طرف باقی چاروں سپاہی اس امید سے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابھی وزیر واپس آئے گا اور ہمیں قید سے نکال لے گا۔
مگر جب زیادہ دیر ہو گئی تو ان کی امید کی جگہ مایوسی نے لے لی۔
’’مجھے لگتا ہے وہ اب نہیں آئے گا۔‘‘ان میں سے ایک بولا۔
’’ہو سکتا ہے ہماری جان کے بدلے اس کی جان بخشی کر دی گئی ہو۔‘‘نوجوان سپاہی بولا۔
’’آخر وہ بادشاہ کا خاص بندہ تھا۔ اسے واپس بھیج دیا جائے شاید ۔ ‘‘نوجوان سپاہی کو اپنی ہونے والی بیوی یاد آئی۔
سب اپنے پیاروں کو یاد کرنے لگے وقت ہوا چاہتا تھا۔ موت آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔
٭…٭
’’بتاؤ کوئی آخری خواہش ہو تو تمہاری! ‘‘ بادشاہ نے وزیر سے پوچھا۔
’’اپنی آخری خواہش کو میری طرف سے میرا احسان سمجھنا۔ ہر کسی کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
’’چلو اچھا ہے زندگی میں کوئی وقت تو ایسا آیا جب یہ یقین ہے کے خواہش پوری ہو گی ۔‘‘ وزیر کے لہجے میں درد تھا۔
’’میرے خیال سے تمہیں شکر کرنا چاہئے کیونکہ موت آخری وقت میں ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔‘‘بادشاہ نے فخر سے کہا۔
’’ٹھیک ہے اس کو جلدی ختم کرتے ہیں۔ بتاؤ خواہش…آخر پورا بھی تو کرنا ہے۔‘‘
وزیر کو بیٹا یاد آیا۔ اب وہ ان سے مل سکتا تھا ۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے پوتے سے بھی مل سکے۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا ۔ دفعتاً اسے کچھ یاد آیا تھا۔
٭…٭
’’کیا بادشاہ ہمیں معاف نہیں کر سکتا۔‘‘ ایک قیدی بولا۔
’’اب بس بہت ہوا۔ تم لوگوں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ اب ہم مرنے والے ہیں اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ۔‘‘ نوجوان سپاہی چڑ کے بولا ۔ آنسو بے شک اندھیرے میں نظر نہ آرہے ہوں پر محسوس سب ہی کر رہے تھے۔
اتنے میں کال کوٹھری کا دروازہ کھلا۔
قیدیوں کے چہروں پر ہیبت طاری ہو گئی۔ موت کا پروانہ نکل چکا تھا۔ وہی دو سپاہی ان کو لینے کے لیے آئے تھے۔
’’چلو سب باہر نکلو۔‘‘ ایک سپاہی بولا۔ سارے قیدی ڈر سے کانپنے لگے۔
’’باہر نکلو۔‘‘اس بار زور دار آواز آئی۔
سب قیدی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ روتے، ڈرتے وہ سب باہر نکلے۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔
یہ شاید ان کی آخری شام تھی۔ پھر یہ منظر ان کے نصیب میں نہ ہو۔
سبھی ایک دوسرے کے پیچھے سہمے ہوئے کھڑے تھے۔ اتنے میں ایک سپاہی نے بادشاہ کا پیغام پڑھ کے سنایا۔
’’وزیر کی آخری خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے تم سب لوگوں کو آزاد کیا جاتا ہے۔ صبح ہونے سے پہلے اس زمین سے نکل جاؤ ۔‘‘
قیدی ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آیا کے ان ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ایک طرف موت کا ڈر تھا اور اب آزادی… اور وزیر …آخری خواہش … سب گڈ مڈ ہونے لگا تھا۔ان کی پریشانی دیکھ کر ایک سپاہی آگے بڑھا اور کہا ۔
’’تمہارے دوست نے اپنی جان کے بدلے تمہیں آزادی دی ہے ۔‘‘
’’اس کی آخری خواہش تھی کے میرے ساتھیوں کو وطن واپس بھیج دیا جائے۔‘‘
’’اور تم۔‘‘ اس نے نوجوان سپاہی کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ انگھوٹی وزیر نے تمہیں دینے کے لیے کہا تھا۔‘‘
نوجوان سپاہی نے انگھوٹی لے لی۔ انگھوٹی لیتے ہی وزیر کے قہقہے فضا میں گونجنے لگے ۔ نوجوان سپاہی زاروقطار رونے لگا۔
’’وہ ہمارے لیے قربان ہو گیا۔‘‘
. سب قیدی خاموشی سے وطن کی طرف چل پڑے۔ کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ ایک نظر محل کی طرف دیکھ لیتے۔
٭٭