ناولٹ

زندگی اے زندگی : طارق محمود شامل

عالم کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں واضح تھیں۔ میں نے کندھے اچکا کر بے فکری کا اظہار کیا اور مسکرانے لگی میری ہنسی بالکل پھیکی سی تھی۔
’’اب تم کھل کے ہنسنے کے لیے تیار ہو جاؤ کیوں کہ بابا نے جھیل سیف الملوک وزٹ کی اجازت دے دی ہے۔‘‘ عالم کی یہ خوشی والی بات سن کر وقتی طور پر جس وجہ سے میں پریشان تھی وہ وجہ مجھے بھول گئی، اور ہم جھیل وزٹ کی تیاری کرنے لگے۔
ناران، جھیل سیف الملوک…اس جھیل کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تو تھا ہی عالم سے بھی بہت سنا تھا ، مگر آج یہاں جا کر ہی معلوم ہوا کہ حقیقت کیا ہے ۔ کہتے ہیں اس جھیل کی کہانی کا شاعر میاں محمد بخش نے اپنے کلام میں تذکرہ کیا ۔ عظیم مصری بادشاہ عاصم بن صفوان کا بیٹا شہزادہ سیف الملوک اور پریوں کی شہزادی بدیع الجمال کی محبت کی لوک کہانی مشہور ہے ۔ کہتے ہیں اسی شہزادے کے نام پہ جھیل کا نام سیف الملوک مشہور ہواہے ۔ یہاں پر صرف لالہ زار اور جھیل سیف الملوک ہی وہ پرکشش مقامات نہیں جو ناران و کاغان میں پائے جاتے ہیں بلکہ یہاں تھوڑی ہی مزیداونچائی پہ اک اور جھوٹی سی جھیل بھی ہے جسے آنسو جھیل کہتے ہیں ۔ ناران سے جھیل سیف الملوک تک تقریباً اک مضبوط قسم کی جیب میں سفرآ دھا گھنٹہ سے پونے گھنٹے تک کا تھا ۔ 2002 اپریل کا آ خری دن تھے ۔ سامنے نظر آ تی پہاڑیوں کی چوٹیوں پہ کہیں کہیں سفیدی نظر آ رہی تھی، جو کہ یقیناً یہاں نومبر دسمبر میں ہونے والی برف باری کی باقیات تھیں ۔ کہیں کہیں کھڈوں میں ذیادہ برف جمی نظر آ جاتی تھی ۔ راستے میں اک چیڑ اور صنوبر کے جنگل میں سے گزرتے پیدل لوگ دیکھے تو عالم نے جیپ روک کر ان سے پوچھا ۔
’’ وہ آ دمیوں کا سکیچ بنانے والا آدمی اسی جنگل میں ہے۔ ‘‘ انہوں نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا ۔
عالم مجھے ساتھ لے کر اترا اور پھر ہم جیپ کے پاس دونوں ملازموں کو چھوڑ کر اس جنگل میں گھس گئے ۔ عالم نے مجھے بتایا کہ اسے ناران سے پتہ چلا ہے کہ اس جنگل میں اک انوکھا آرٹسٹ ہے جو پنسل سکیچ بناتا ہے اور بہت ہی بہتریں بناتا ہے ۔ ہو بہو آدمی کے چہرے کے خدوخال جیسا ہی سکیچ بناتا ہے۔ اور پھر دس منٹ کے پیدل سفر کے بعد ہی اس سے ملاقات ہوگئی ۔اس جنگل میں سے بہت سے منچلے پیدل ہی جھیل کی طرف محو سفر تھے ‘ کچھ واپس بھی آرہے تھے ۔ ہم رات ناران میں رک کرکے صبح نو بجے نکلے تھے لیکن مجھے لگتا تھا کہ یہ منچلے تو سوئے ہی نہ ہوں اور ہوسکتا ہے ان میں سے کسی نے رات اوپر ہی گزاری ہو، یہ سوچ آ تے ہی میں کانپ کر رہ گئی۔
ہم نے اس آرٹسٹ سے ایک ایک سکیچ الگ الگ بنوایا اور اک سکیچ دونوں کا میرا اور عالم کا اکھٹا بنا ‘ جس میں ہمارے چہرے اک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ، اور یہی یادیں آج تک میرے پاس محفوظ ہیں۔
جھیل سیف الملوک سورج کی صبح کی روشنی میں واقعی کسی پریوں کا بسیرہ لگی اور اس کے بعد آنسو جھیل نے اس وزٹ کا مزہ دوبالا کردیا ۔ اگر آنسو جھیل کو لمبائی کی طرف سے کھڑے ہوکر دیکھیں تو واقعی کسی آ نکھ سے گرا اک شاہکار آنسو ہی لگتی ہے ۔ تین دن کی اس سیر سے واپسی پہ میں بہت ہی ایکسائٹڈ محسوس کر رہی تھی ‘ تھکن تھی لیکن اللہ کی شان کے اتنے پیارے نظارے دیکھ دیکھ کر دل باغ باغ سا بھی تھا۔
میں، عالم اور دومحافظ ڈبل ڈور پک اپ پہ ناران تک آئے تھے جبکہ فور بائے فور جیپ دو الگ سے ملازم ہم سے پہلے لے کر ناران پہنچے تھے ۔ واپسی بھی اسی طرح ہوئی ہم دونوں محافظوں کے ساتھ ڈبل ڈور پک پہ تھے اور جیب وہی دو ملازم لا رہے تھے جو کہ ہمارے ساجھیل تک گئے تھے ۔ سفر بہت ہی اچھا اور یاد گار رہا،دوسرے دن صبح ہی صبح منہ اندھیرے ہم وہاں سے نکلے اور رات کے پچھلے پہر واپس حویلی پہنچے اور فریش ہوکر ایسے بیڈ پہ گرے کہ دوپر تین بجے آنکھ کھلی ، وہ بھی بابا جان کے ساتھ اکھٹے کھانا کھانے کے بلاوے پر۔
پاکستان کا یہ سفر اور پھر شمالی علاقہ جات مجھے بہت اچھے لگے ’’دل چاہتا یہی رہ جائیں ‘‘میں نے عالم سے کہا ۔
’’ تو ٹھیک ہے تم یہیں رہ جاؤ ‘ ایک دو سال کے لیے … میں اپنا ہوٹل اسٹیبل کرتے ہی تمہیں بلوالوں گا۔‘‘ اس نے شرارتی انداز میں کہا۔
میں نے بس ہلکا سا مسکرانے پہ ہی اکتفا کیا ۔دل تو نہیں چاہتا تھا لیکن واپس اپنے ملک جانا بھی ضروری ‘ جہاں میرے والدین میری واپسی کی راہ دیکھ رہے تھے اور اپنی ڈگری بھی مکمل کرنی تھی تاکہ عالم کے ساتھ اس کے کاروبار میں ہاتھ بٹاسکوں ۔ واپسی کا سفر پھیکا پھیکا سا تھا دل کچوکے لگا رہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ واپس نہ جاؤ دونوں ادھر ہی اس پیاری دنیا میں بس جاؤ۔
ائیرپورٹ پہ امی ابو دونوں ہی آئے ہوئے تھے ۔ اس سے پہلے میں اپنے والدین سے اک دن کے لئے بھی دور نہ گئی تھی اور اب تو کچھ دن کم دو ماہ بہت دور اک ملک میں گزار کر آئی تھی ۔ والدین کے ساتھ گھر پہنچتے ہی دل مطمئن سا ہوا۔
عالم نے میرے ابو کے مشورہ سے شہر سے مضافات جاتی ایک سڑک پہ اپنا ہوٹل سٹارٹ کیا ۔ پاس ہی چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ اور اس سے کچھ آ گے صحراء بھی تھا ‘ جہاں کہیں لوگ گھومنے ، کچھ نوجوان صحرا کی ریت چھاننے جن کا منتہائے نظر شاید کوئی چھپا خزانہ تھا ۔ وہاں سے مضافات آتے جا تے لوگوں کا بھی جب یہاں سے گزر ہوتا تو راستے میں پہاڑی سلسلہ کے دامن میں اس ہوٹل کو دیکھ کر اک بار ضرور وزٹ کرتے ۔ عالم نے ایک تو ہوٹل کی بلڈنگ اتنی خوبصورت بنوائی تھی کہ دیکھنے والا ضرور اندر سے دیکھنے کی خواہش کرتا اور جب اندر آتا تو سہولتیں فورسٹار جیسے ہوٹل کی اور کھانے کے ریٹ مناسب دیکھ کرکھانا کھائے بغیر نہ جاتا ۔ غرض دوسال کے ہی عرصہ میں ہوٹل خوب رنگ میں آگیا ۔ میرے فائنل امتحان ختم ہوتے ہی میں نے بھی عالم کے ساتھ ہی اپنے ہوٹل کے اوپر بنی رہائش میں رہائش رکھ لی۔
بہت ہی اچھی زندگی گزر رہی تھی ۔ عالم نہ صرف اک بہترین بزنس مین تھا بلکہ اک خیال اور کئیر کرنے والا شوہر بھی تھا ۔ بعض اوقات ہوٹل کے ملازموں کی بڑی بڑی غلطیاں بھی معاف کر دیتا تھا اور دینی لحاظ سے وہ خود تو پانچ وقت کا نمازی تھا ہی مجھے بھی نماز کا پابند بنایا ۔ ہوٹل کے صحن میں ہی چھوٹی سی مسجد بنائی جہاں وہ خود جماعت کراتادو ملازم بھی مسلمان تھے جو عالم کے پیچھے باقاعدہ نماز پڑھتے اور کبھی کبھار کوئی مسلمان گاہک بھی آجاتا تو نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ۔ میں کمرے میں ہی نماز ادا کرتی ۔ جمعہ کی نماز ہم باقاعدگی کے ساتھ اسلامک سنٹر کی مسجد میں ادا کرتے تھے ۔ ہماری شادی شدہ زندگی بھی بھرپور جارہی تھی جب اک دن عالم کاروبار کی ترقی دیکھ بہت خوش تھا تو میں نے موقع جان کر اس سے پوچھا ۔
’’ عالم تمہاری حویلی میں جو ہم نے دن گزارے تھے مجھے کتنی ہی دفعہ لگا کہ جیسے ہمیں کوئی چھپ چھپ کر دیکھتا ہو، اگر مائینڈ نہ ہو تو بتا دو کہ وہ کون تھا ۔ ‘‘ عالم میری بات سن کر چونک اٹھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
’’ وہ … وہ میری اک دور کی کزن تھی ۔ تھوڑی سی کھسکی ہوئی تھی ‘ بچپن سے ہی کہتی تھی کہ، عالم سے شادی کروں گی ۔‘‘
اس نے بات ہنسی میں اڑائی یا پھر سچ ہی کہہ دیا لیکن اب میں مطمئن ہو گئی تھی ۔ عالم میرا شوہر تھا اور میرے پاس ہی تھا ۔ تین سال سے کچھ اوپر ہوچکے تھے ہماری شادی کو میں حالت ذچگی میں تھی ۔ میں تو خوش تھی ہی عالم تو جیسے ہواؤں میں اڑ رہا تھا عالم کو اتنا خوش ہوتا دیکھ میرے لیے آنے والا مشکل وقت بھی مشکل نہ لگتا۔
جمعرات کا دن تھا ذچگی قریب تھی اسی لیے مجھے ہسپتال میں ایڈمٹ کرادیا گیا ۔ رات کو امی اور عالم میرے پاس تھے ‘ دوپہر جمعہ کے وقت تک عالم میرے گرد ہی رہا اور پھر جمعہ کا وقت ہوتے ہی وہ مجھے حوصلہ اور دعائیں دیتے ہوئے اسلامک سنٹر کی مسجد میں جمعہ ادا کرنے چلا گیا ۔ میرے کمرہ سے نکلتے ہوئے اس نے دو دفعہ پلٹ کر دیکھا ۔
’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں حوصلہ رکھو، امی تمہارے پاس ہیں ‘ ابو بھی آ نے والے ہوں گے اور میں بھی نماز پڑھ کر جلدی آنے کی کروں گا۔ ‘‘
مجھے حوصلہ دے رہا تھا اور خود گھبرایا ہوا تھا ۔ میری امی عالم کی یہ بے تابی دیکھ زیر لب مسکرا رہی تھیں ۔ عالم کے نکلتے ہی بول اٹھیں ۔
’’ ہم نے اس لڑکے کے ساتھ تمہاری شادی کا فیصلہ کر تو دیا تھا ‘ تمہارہ اس کی طرف جھکاؤ دیکھ کر لیکن ہم دونوں کے دل مطمئن نہ تھے، پر عالم نے ہمارے سارے خدشات دور کردیے ہیں۔‘‘ میں ان کی بات سن کر مسکرا کر رہ گئی۔
عالم کے جاتے ہی ابو میرے کمرہ میں آئے اور میرے پاس کھڑے ہوکر میری توجہ بٹانے کی باتیں کرتے رہے لیکن درد اچانک حد سے بڑھا تو میرے منہ سے چیخ نکلی ۔ وہ مجھ پہ اک نظر ڈال کر منہ ہی منہ کچھ پڑھتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور امی جلدی سے میرے قریب آئی تب تک حوصلہ جواب دے چکا تھا میں بے ہوش ہوگئی۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں دو جڑواں بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔ شام ہونے والی تھی امی میرے پاس ہی تھیں لیکن نہ ہی ابو نظر آئے اور نہ ابھی تک عالم واپس آیا تھا۔
’’امی ابو کدھر ہیں اور ابھی تک عالم بھی واپس نہیں آیا ۔‘‘
’’آ جائیں گے ۔‘‘ امی نے آہستہ سے کہہ کر منہ پھر لیا ۔ ان کا یہ جواب اور بات کرتے ہی منہ پھر لینا مجھے کھٹک گیا ‘ میرے دل کو جیسے کچھ ہونے لگا۔
مجھ پہ غشی سی طاری ہونے لگی ۔ پہلی دفعہ ماں بنی تھی اس لیے یا پھر عالم کے نظر نہ آنے سے، اس نے تو جاتے ہوئے جمعہ پڑھتے ہی واپس آنے کا کہا تھا ۔ اچانک مجھے جاتے ہوئے اس کی بات یاد آئی تو دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جھکڑ سا لیا ۔ عالم جب بھی کوئی کام کرنے کا کہتا تو ساتھ انشا ء اللہ ضرور کہتا تھا لیکن جمعہ کو جاتے وقت انشاء اللہ کہنا اسے بھول گیا تھا۔
رات نیم غشی کی حالت میں گزری اور پھر عالم آگیا ۔
ایمبولنس میں سفید کفن میں لپٹا عالم ، جس ہسپتال میں اس کی بیوی اور دو نومولود بچے اس کی راہ دیکھ رہے تھے ‘ اسی ہسپتال میں وہ زندگی سے لاتعلق ہو کر سرد کھانے میں چلا گیا، لیکن وہ مرا نہیں تھا بلکہ وہ شہید تھا ۔ ایک ایسا شہید جس نے اپنے سینے پہ چھ گولیاں کھاکر نماز جمعہ پڑھتے ہوئے سینکڑوں نمازیوں کی جان بچا لی ۔ جب دورانِ نماز اک متعصب انگریز کلاشنکوف لہراتا اسلامک سنٹر کی مسجد مین گھس گیا ۔ اس نے دو تین فائر ہی کیے تھے کہ آخری صف میں کھڑے اک شیر دل پٹھان مسلمان نے صف سے نکل کر اس کو جھپا ڈال لیا ۔ جھپا ڈالتے ہوئے چھ گولیاں عالم کو لگی تھیں لیکن اس نے حملہ آور کو قابو کر لیا اس کے پکڑتے ہی کچھ لوگوں نے اس حملہ آور سے گن چھین کر اسے قابو کر کے باندھ دیا گیا۔
عالم اپنی طرف سے اس لیے آخری صف میں کھڑا ہوا تھا کہ جماعت ہوتے ہی وہ وہاں سے جلدی نکل کر اپنی بیوی علیشہ شیرون کے پاس آئے گا لیکن اللہ نے اس کو شہادت کے لیے چن لیا تھا۔
بعد میں متعصب انگریز کا مئوقف سن کر میں حیران رہ گئی کہ ’’یہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں اس لیے میں نے غصہ میں ان کے سنٹر پہ اٹیک کیا۔‘‘
کیسے مسلمان دہشت گرد ہیں ۔ میں خود اک اچھے مسلمان کو دیکھ کر مسلمان ہوئی اور میرا ان تین ساڑھے تین سالوں میں عالم سے جو رشتہ رہا میں نے اسے ایک بہترین مسلمان پایا۔
اک دفعہ ہمارے گھر کے سامنے بنے پارک میں سڑک کے فٹ پاتھ کے ساتھ لگا درخت تیز ہوا سے گر گیا ۔ اس درخت کو اٹھوانے کے لیے بلدیہ کو فون کر دیا گیا کیوں کے یہ انہیں کاکام تھا لیکن عالم نے دیکھا تو بے چین ہو گیا اور جاکر اس درخت کو فٹ پاتھ سے ہٹادیا تا کہ گزرنے والے لوگ بآسانی گزر سکیں‘ حالانکہ کچھ ہی دیر لگی بلدیہ کی گاڑی کو پہنچنے میں لیکن عالم کو انسانوں کی یہ چند منٹ کی تکلیف بھی گوارہ نہ تھی۔
اتنا درد دل رکھنے والے اپنی چھوٹی سی انسانوں کی تکلیف جسے گوارہ نہ تھی وہ کیسے دہشت گرد ہو سکتا ہے۔
اب میرے سامنے اک لمبی کٹھن زندگی پڑی تھی ۔ اللہ کے بعد والدین ہی سہارہ تھے کیوں کہ بچے تو ابھی خود کفالت کے محتاج تھے ۔ اس کھٹن زندگی کا سب سے پہلا مشکل مرحلہ عالم جان کا جسد خاکی اس کے آبائی وطن پہنچانا اور جسد خاکی کے ساتھ اس کے اپنوں کا سامنا کرنا تھا، اس سے آ گے جانے اور کتنی کھٹنائیاں منتظر ہوں گی۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے