زندگی اے زندگی : طارق محمود شامل

رات کا پچھلا پہر تھا کہ مجھے عالم کی آ واز سنائی دی ’’ علیشہ اٹھو، علیشہ اٹھو‘‘ پہلے مجھے لگا کہ میں خواب میں عالم کی آواز سن رہی ہوں ۔ اس نے مجھے پاؤں سے پکڑ کر ہلایا تو میری آ نکھ کھل گئی ۔
’’ عالم کیاہوگیا ہے ۔‘‘میں غنودگی ہی میں تھیں۔
’’ چلو اٹھ بھی جاؤ اب ایڈونچرٹائم ہے ۔‘‘ اس نے مجھے سہارہ دے کر بیڈ پہ بٹھا دیااور جلدی سے تیار ہونے کا کہا۔
میں اس کی بات نہ سمجھ سکی لیکن تیار ہوکر اس کے پاس آ گئی ۔ اس نے بڑی چادر اوڑھ رکھی تھی ، مجھے بھی بڑی چادر اوڑھنے کا کہا ۔ اور پھر وہ آ گے اور میں اس کے پیچھے پیچھے حویلی کے رہائشی عمارت کے پیچھے بنے اک جنگلہ گیٹ پر پہنچے جہاں پہلے سے ہی اک آدمی ہمارے لیے کھڑا تھا ۔ اس نے گیٹ کا تالہ کھول کر ہمیں باہر نکالا ، میں چپ چاپ عالم کے پیچھے محو حیرت بنی چلتی جارہی تھی ۔ ہم ایک پہاڑی راستے پہ چڑھنے لگے ۔ عالم میرے دائیں ہاتھ میں اپنا دایاں ہاتھ جھکڑے مجھے سہارہ دیئے اپنے ساتھ پہاڑی پہ چڑھاتا جا رہا تھا ۔ چوٹی پہ چڑھ کر ہم دوسری طرف اترے ہی تھے کہ اچانک برقی قمقموں سے پہاڑی کے پیچھے کا چھوٹا سا میدان روشن ہوتا چلا گیا ۔ میں وہاں کا منظر دیکھ حیران رہ گئی ۔ میدان کوترپال کی کناتوں سے چاروں طرف سے لگاکرایک پنڈال سا بنا دیا گیا تھا اور اک طرف کونے پہ اونچاکرکے بڑا سا سرخ رنگ کا شامیانہ لگا تھا جس کے سامنے میدان میں ترپالیں بچھی تھیں ‘ جن پہ اک طرف عورتیں اور اک طرف مرد بیٹھے تھے ۔
میں یہ سب دیکھ کر حیرت ذدہ تھی ۔ عالم جان نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور مجھے آگے بڑھنے کا کہا ۔ میں ابھی تک حیرت کے حصار سے نکل نہ سکی تھی ‘ کسی معمول کی طرح آ گے بڑھنے لگی ۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان گزرنے کے لیے راستہ چھوڑا گیا تھا ۔ دائیں طرف بیٹھی عورتیں میرے ان کے پاس سے گزرتے ہی کھڑی ہونے لگیں ‘ پہلے میرے سر پہ ہاتھ پھیرتی اور پھر مجھے دعائیں دے کر ہاتھ میں پکڑے پانچ دس روپے کے نوٹ پکڑائے جاتیں ۔ میں نے عالم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ، اس نے سر کے اشارہ سے مجھے پیسے لے لینے کا اشارہ کیا ۔ دوسری طرف مرد بھی عالم کے ساتھ یہی کر رہے تھے ۔ یہ لوگ اپنے کپڑوں اور ہمیں دیتی منہ دکھائی کے پیسے دینے سے نہایت ہی غریب طبقہ کے لگ رہے تھے ۔ ہم یونہی چلتے ہوئے شامیانہ تک پہنچے جہاں سٹیج لگا تھا اور اس کے سامنے مختلف رنگ کی موم بتیاں جل رہی تھیں ۔ پہاڑوں کے اندر یہ شامیانہ برقی قمقمے ، رنگین موم بتیاں ، رنگ برنگے کپڑے پہنے مرو و عورتیں … یہ تو سچ میں کوئی ماورائی دنیا تھی ۔
ہمارے بیٹھتے ہی صاف ستھرے اور چمکتے برتنوں میں کھانا لگایا جانے لگا ۔ یہاں ایک فسوں سا تھا ‘ لیکن پرسکون ماحول تھا ۔ صبح حویلی کے ولیمہ میں شور ہنگامہ سا تھا لیکن یہاں کوئی آواز تک نہ تھی ۔ کھانا ہمارے سامنے لگتے ہی سب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ جس طرح اکھٹے دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تھے ایسے ہی اکھٹے نیچے بھی ہوگئے۔ مجھے اس عمل سے وہ پورے پنڈال کے لوگ روبوٹک لگے۔
’’ بسم اللہ کریں ۔‘‘ عالم کے کہتے ہی سب نے کھانا شروع کردیا ۔ ایک تو وہ سب مرد و عورتیں سلجھی ہوئی لگ رہی تھیں دوسرا وہاں بچے نہیں تھے ‘ اسی لئے شاید وہاں شور شرابہ نہ تھا ۔ ہم دونوں نے ہی شام کو کھانا کھایا تھا اسی لیے بس ہلکا پھلکا تناول کیا۔ کھانا کھاتے ہی ہم اٹھے تو سارا پنڈال ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ آپ سب بیٹھیں کھانا کھا کر آ رام سے اٹھنا اور اب ہمیں اجازت دیں آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ ۔‘‘ میں نے بھی ان سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر ہم دونوں وہاں سے اٹھ کر باہر نکل آئے۔ تین آدمی ان ہی میں سے ہمیں چھوڑنے حویلی کے پیچھے والے گیٹ تک آئے۔ اندر سے دروازہ کھلتے ہی انہوں نے منہ دکھائی میں ملنے والے پیسوں کی پوٹلی عالم کی طرف بڑھاتے ہوئے اجازت لی اور واپس چل پڑے، اندر داخل ہوکر میں نے عالم سے پوچھا ۔
’’ یہ کیا ماجرہ ہے اور وہ سب کون لوگ تھے۔‘‘
’’ یہ سب جنات تھے جو میرے دوست ہیں اور صدیوں سے ان پہاڑوں میں آباد ہیں۔ ‘‘ عالم نے نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا اور آگے منہ کیے چل پڑا ۔
اس کی بات سن کر سچ میں میرے ہوش اڑ گئے اور میں گیٹ کے پاس ہی سن سی کھڑی رہ گئی ۔ عالم نے پلٹ کردیکھا ہی نہیں کہ میں اسی جگہ کھڑی رہ گئی ۔عالم کچھ آگے تک گیا ہی تھاکہ مجھے اپنے پیچھے نہ آتے پاکر اس نے جلدی سے پلٹ کر پیچھے دیکھا ۔ میں جنگلے والے گیٹ سے لگی سن سی کھڑی تھی۔
’’ علیشہ،کیا ہوا ۔‘‘ وہ دوڑ کر واپس میرے پاس آیا ۔ میں ویسے ہی چپ کھڑی اس کے چہرے پہ حیرت سے آ نکھیں جمائے اسے دیکھے جارہی تھی ۔
’’ کیا ہوگیا تمہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں واضح تشویش تھی ۔
’’ جھوٹ بھول رہا تھا میں ‘ یہ سب تو پڑوسی ملک کے پناگزین ہیں ، جنہیں ہم نے ان پہاڑوں میں بستی آباد کرنے کے لیے جگہ دی تھی۔ ‘‘اس نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ۔
میرے منہ سے اک قہقہہ نکلا جسے سن کر وہ چونکا اور میرے اداکاری سمجھتے ہی مجھے چھوڑ دیا گھناگھاس تھا جس پہ گرتے ہوئے مجھے چوٹ نہ لگی۔
’’واہ جی تم مزاق کر سکتے ہو تو کیا میں نہیں کر سکتی۔‘‘
میں اٹھی اور اپنے آپ کو جھاڑکرہنستے ہوئے کہا ۔عالم میری اس بات پر خوب ہنسا، یونہی ہنستے ہوئے حویلی کی رہائشی عمارت کے سامنے پہنچتے ہی ہم چپ کر گئی۔
اس بڑی حویلی کے رہائشی حصہ کے ساتھ الگ الگ پورشن تھے لیکن آپس میں دیواریں جڑیں ہوئی، اور اندر سے الگ الگ ان سب کے آ نے جانے کے دروازے الگ الگ ہی تھے اور سب کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کے لیے پورچ بنا تھا ۔ ساتوں بھائیوں کے الگ الگ رہائش تھی حویلی اور صحن اک ہی تھا، جس پورشن میں ہم رہ رہے تھے ، وہ عالم کے لیے تھا ۔ اس میں بہنوں کی شادیوں کے بعد اس کے والدین اور عالم کا خاندان رہتا یعنی کہ میں عالم جان اور ہمارے ہونے والے بچے ۔
’’ جی ابھی سے لمبے خواب لمبی امیدیں ، جانے زندگی کس موڑ پہ چھوڑ جا۔‘‘ عالم کے یہ بات کہتے ہی میں نے آ گے بڑھ کر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔
’’ کیسی باتیں کر رہے ہو ابھی تو ہماری نئی زندگی کی شروعات ہوئی ہیں ۔‘‘ میری آ نکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ عالم نے میری آ نکھوں سے نکلتے آنسو اپنی چادر سے صاف کئے۔
’’ سوری ، سوری میں تو ویسے بات کر رہا تھا ۔ تم نے بہت سنجیدہ لے لیا ۔ ‘‘مجھے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے عالم نے کہا۔
’’ اس کے بعد مزاق میں بھی ایسی بات نہ کرنا۔‘‘ میں اس کے گلہ سے لگ کر سسک پڑی ، وہ مجھے اپنے ساتھ لپٹائے دلاسے دیتا رہا۔
اپنے پورشن میں داخل ہوتے ہی ہم دونوں سنبھل گئے، اچانک مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی ہم دونوں کو چھپ کر دیکھ رہا ہے۔
دوسری شام سے اگلے چھ دن تک عالم، میری روشنہ اور عالم سے بڑے بھائی ارباز جس کی شادی تھی کی دعوتیں ہوتی رہیں ۔ حویلی کے سامنے بھی اک ہرا بھرا پہاڑی سلسلہ تھا جس کے اندر سے گرم میٹھے پانی کے چشمہ پھوٹتے تھے ‘کبھی عالم کے ساتھ تو کبھی زاکرہ کے ساتھ میں ان پہاڑوں کی سیر کو جاتی۔ پناہ گزیں بستی میں بھی عالم کے ساتھ گئی ،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ولیمہ والی رات ہماری دعوت کی تھی ۔ اتنی سردی میں بھی یہ لوگ بیچارے ٹینٹ اور سرکنڈوں کی جھونپڑیاں بنائے گزارا کر رہے تھے ۔ اپنی ملک میں لگی غیروں کی جنگ نے انہیں اس حال تک پہنچا دیا تھا ۔ اپنی زمین اپنے گھر بار ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور تھے ۔
’’ عالم ان کے لیے کوئی شلٹرہوم ٹائپ بندوبست نہیں ہوسکتا ۔‘‘ ان کی حالت دیکھ کر میرا دل عجیب سا ہونے لگا۔
’’ کیوں نہیں ہو سکتا ‘ لیکن اتنا میرے بس میں نہیں ۔ بابا تو انہیں اس علاقہ میں پناہ دینے کے بھی خلاف تھے ، بس میری وجہ سے اپنی پہاڑی علاقہ میں بستی بنانے کی اجازت دے دی۔‘‘ عالم کی بات سن کر میں چپ کر گئی لیکن دل مطمئن نہ ہوسکا اور میں نے سوچا کہ، جب بھی موقع ملے گا ضرور ان لوگوں کے لئے کچھ کروں گی ۔ اتنی مشکلات کے باوجود بھی ان میں سے کسی کے منہ سے بھی حالات کا کوئی گلہ شکوہ نہ سنا،وہ اتنے مشکل حالات میں بھی مطمئن سے لگ رہے تھے۔
عالم سے بڑے بھائی ارباز اور روشنہ کی شادی بہت ہی اچھے انداز سے کی گئی ۔ تین دن کھانے کا پروگرام چلتارہا، میں نے بھی اس شادی کو جہاں خوب انجوائے کیا وہیں مجھے یہ سوچ بھی آئی کہ اس سے کم خرچہ کرکے پڑوسی ملک کے پناہ گزینوں کے لئے شلٹر ہومز بن سکتے تھے لیکن میں یہ صرف سوچ ہی سکتی تھی ۔ کہتے ہیں کہ کسی کے لیے اچھا سوچنا بھی نیکی ہے اور اس کا بھی اجر ملے گا ۔
دو ماہ کی چھٹی تھی مجھے ابھی میری ڈگری مکمل ہونے میں دوسال تھے ۔ عالم نے مجھے بخوشی آ گے پڑھنے اورتعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی تھی ۔ ہمارے مستقبل میں اپنا اک فور سٹار ہوٹل کھولنے کا پروگرام تھا جس کے لئے عالم نے ہوٹل منیجمنٹ کی ڈگری لی تھی ۔ ہم دونوں ہی نے اپنی نئی زندگی کے کیا کیا سپنے سجائے تھے ۔عالم کے اپنوں کے پاس رہتے ہوئے ایک ماہ اور بیس دن ہوچکے تھے ۔ شادیوں کے بعد کے کچھ دنوں میں ، میں اور عالم تقریباً پورے پہاڑی علاقہ کے مشہور مقامات گھوم چکے تھے ، لیکن ابھی تک جھیل سیف الملوک نہیں دیکھی تھی ‘ جس کے قصے اپنے ملک میں عالم سے اور یہاں آکر مختلف لوگوں سے سنے تھے ۔ جب بھی میں کسی سے سیف الملوک کے بارے میں سنتی تو اسے دیکھنے کی خواہش زور پکڑتی جاتی ۔
’’ عالم پانچ دنوں بعد ہماری واپسی ہے بابا سے اجازت لے کر دکھا لاؤ نہ جھیل سیف الملوک ۔‘‘ اس دن اس نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور چپ چاپ اٹھ کر بابا کے کمرے کی طرف چل دیا ۔ میں دعا کرنے لگی کہ بابا مان جائیں اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے عین پیچھے کوئی کھڑا ہو۔ میں نے یہ احساس ہوتے ہی جلدی سے چہرہ پیچھے کی طرف گھماکر دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔ مجھے پھر بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے کوئی دیکھ رہاہو ، میں کھڑی ہوئی اور ادھر ادھر گھوم پھر کر پورا کمرہ دیکھنے لگی ۔ عالم واپس آکر میری طرف حیرانگی سے دیکھنے لگا ۔
’’ کیا ہوا کیا دیکھ رہی ہو۔‘‘وہ میرے اس طرح ادھر ادھر دیکھنے سے چونک اٹھا۔
’’کچھ نہیں بس تمہاری واپسی کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی ۔‘‘ میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔