زندگی اے زندگی : طارق محمود شامل
’’ میں یہ بھی نہیں کہتی کہ آدمی شناس ہوں یا چہرہ شناس ۔‘‘ میری بات سن کر عالم ہاں کے انداز میں سر ہلانے لگا۔
ہم اپنے شہر کے مسلم کمیونٹی کے سنٹر میں گئے جہاں دو پورشن بڑے بڑے ہال نما بنے تھے ‘ جن کے پیچھے لائبریری تھی ۔ وہ ہال مرد اور عورتوں کے الگ الگ تھے ۔ جہاں اسلامی سیمینار ہوتے ، اسلامی تعلیمات دی جاتی ، بچوں کو قرآن کی تعلیم اور اسلامی طور طریقے سکھائے جاتے تھے ۔ نماز کے لئے مسجد تھی ۔ اس کے بھی عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ حصے تھے ۔ عام نماز کے علاوہ نمازِجمعہ مرد اور عورتیں الگ الگ باجماعت ادا کرتے تھے ۔ میں عورتوں والے ہال کے پیچھے لگی دیوار کے ساتھ چند کرسیوں میں سے اک پہ بیٹھ گئی ۔ ہال عورتوں سے بھرا ہوا تھا ۔ میں پہلی بار مسلمانوں کی کسی مسجد میں آ ئی تھی ۔ میرا جسم سنسناہٹ زدہ تھا ۔ دیواروں پہ لگے سپیکر پہ بہت ہی اچھی اور دل کو سکون دینے والا بیان جاری تھا ۔ اتنی عورتیں ہونے کے باوجود ایک آواز تک بیان کے علاوہ نہ تھی ۔ میں چپ چاپ بیٹھی ان عورتوں کو دیکھ رہی تھی اور بیان کو سن رہی تھی ۔ میرے اندر سکون سا پھیلتا جارہا تھا ۔ دل کرتا تھا کہ بس یہی بیٹھی رہوں اور سنتی رہوں ۔ پھر کچھ منٹ کا وقفہ آ یا ۔ عورتیں کھڑی ہوئیں اور اپنی اپنی عبادت کرنے لگیں ۔ اس کے بعد ساری دوزانوں ہو کر بیٹھی اور عربی پڑھی جانے لگی اس کے بعدساری عورتیں اٹھیں اور اپنی صفیں درست کر کے کھڑی ہوئی اور اس کے بعدباجماعت عبادت شروع ہوئی ۔ امام صاحب کی آ واز میں اک سوز سا تھا جس نے مجھے بہت اٹریکٹ کیا۔ اس سنٹر اور مسجد کا ماحول پرسکون تھا۔
اسلامک سنٹر سے واپسی پر عالم چپ تھا ۔ میری گاڑی تھی جس پہ ہم سفر کر رہے تھے جو کہ ڈرائیو بھی میں ہی کر رہی تھی ۔ وہ من ہی من میں کچھ پڑھتے پڑھتے گاہے بگاہے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ لیتا ۔ میری ترچھی نظر اسی پہ لگی تھی ۔ شاید اس کی آنکھیں میرے چہرہ پہ کچھ کھوجنا چاہتی تھیں ۔ شاید وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ میرے تاثرات اسلامک سنٹر کے بارے میں کیا ہیں ۔ کچھ کہوں گی یا اس سے دینِ اسلام اور نماز وغیرہ کے بارے میں پوچھوں گی ۔ یہ بھی میں خود سے نہیں کر سکتی تھی ۔ مجھ پہ عالم سے پہلے حق والدین کا تھا ۔ ابھی تک تو میں گھر میں عالم کے بارے میں بات نہ کر سکی تھی ۔ اگر ہمارے مقدر میں زندگی بھر کا ساتھ ہوا تو پھر بھی پہلے میں مکمل تحقیق کروں گی اور اس کے بعد ہی اگر مجھے لگا کہ میرے لیے اسلام ہی بہتر ہے تو پھر ضرور عالم سے اور اسلامی سنٹر سے راہنمائی لوں گی ۔ میں نے اسے اس کی رہائش کے سامنے اتارا اور اک مسکراہٹ کے ساتھ اسے الوداع کہا۔ وہ بھی مسکرا رہا تھا لیکن اس کی آ نکھیں اب بھی میرے چہرہ پہ کچھ تلاش کرنا چاہ رہیں تھیں ۔ میں مسکراتے ہوئے وہاں سے گاڑی نکال لائی اوربیک مرر میں اسے سڑک پہ کھڑا اپنی طرف دیکھتا پایا ۔ میرے دل میں اک ٹیس سی اٹھی ۔
’’ عالم میں اپنی طرف سے ابھی کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘ یہ سوچتے ہی میری آ نکھوں سے دو آ نسو نکلے اور گالوں پہ لڑہکتے ہوئے گریبان میں غائب ہوگئے۔
امی ٹی وی پہ اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھ رہیں تھی میرے ٹی وی لاؤنج میں گھستے ہی وہ بولیں۔
’’ علیشہ ادھر آ جاؤ میرے پاس بیٹھوں بہت اچھا پروگرام چل رہا ہے ۔‘‘
’’ امی میں چینج کر کے آ تی ہوں ۔‘‘
میں امی کو ہائے کرتی منہ گریبان میں ڈھانپے جلدی سے اپنے کمرہ میں چلی گئی اور پھر جب تک منہ ہاتھ دھو کر میں فریش ہوکر آ ئی تو پروگرام ختم ہو چکا تھا اور امی ڈنر لگانے کی تیاری کررہی تھیں ۔ میں بھی ان کا ہاتھ بٹانے لگی ۔ میری امی ہنس مکھ سی ہیں ‘ ان کے پاس ہر وقت مجھے اور ابو کو سنانے کے لئے کوئی نہ کوئی لطیفہ رہتا تھا ، لیکن آ ج امی کی بھی آ نکھیں میری طرف کھوجتی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سنجیدہ سنجیدہ لگ رہی تھیں ۔
’’ تمہارے ابو کے آ نے کا وقت ہورہا ہے ان کے آ نے سے پہلے اپنے ان دنوں کی روٹین اور اس لڑکے کے متعلق سب جلدی سے بتا دو۔‘‘
ان کی بات سن کر مجھے جھٹکا لگا ، لیکن ماں ماں ہی ہوتی ہے ۔ انہیں میری آ نکھوں اور میرے ان دنوں میں کبھی ایکسائٹڈ اور کبھی کھوئی تو کبھی پریشان طبیعت سے ادراک ہو چکا تھا کہ میرے زندگی میں کوئی اور آ چکا ہے۔میں نے مناسب الفاظ میں عالم سے ملاقات اور اس کے ساتھ گزارے دنوں کے بارے میں بتا دیا ۔ امی غور سے سنتی رہیں ‘ عالم کا مسلمان سن کر چونکیں اور اسلامک سنٹر میں جانے کا سن کر مضطرب سی نظر آ نے لگیں ۔ یہ اک فطری ردعمل تھا، ہم عیسائی تھے ہمارا اسلامک سنٹر میں کیا کام۔
’’ تمہارے ابو سے بات کر کے دیکھتی ہوں ‘ لڑکے کا تو انہوں ہی نے مجھے بتایا ہے ۔ اب باقی بات جان کر ان کا کیا ردعمل ہوگا ، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ کچن سے کچھ لینے چلی گئیں۔
اسی وقت ابو آ گئے اور جلدی سے فریش ہوکر ہمارے ساتھ ڈنر کرنے لگے ۔ مجھ سے ساتھ ساتھ پڑھائی کے بارے میں بھی سوال کرتے جاتے اور کھانا بھی کھاتے جاتے میں نے تسلی سے ان کے ہر سوال کا جواب دیا اور جلدی جلدی کھانا کھا کر اندر کمرہ میں چلی گئی۔
اس کے بعد دو دن ہمارے گھر کا ماحول کچھ سرد سا رہا ۔ ابو رات لیٹ آ تے ‘ اس سے پہلے ہی امی مجھے ڈنر کروادیتیں اور میں ڈنر کرتے ہی کمرہ میں گھس جاتی ۔ امی نے ابو کو جانے کیسے بتایا ہوگا ۔ تیسری شام جب ہم ڈنر پہ ہی بیٹھے تھے تو ابو اک بڑا سا اٹیچی کیس لیے داخل ہوئے ۔ آج وہ جلدی آ گئے تھے ‘ ان کے ہاتھ میں اٹیچی دیکھ کر میں اور امی ابھی حیران ہو ہی رہے تھے کہ ابو اٹیچی ہمارے سامنے رکھ کر باہر چلے گئے اور اس دفعہ جب وہ واپس آئے تو ان کے پاس کچھ اور سامان تھا ، لیکن ان کے پیچھے کوئی مہمان بھی سر جھکائے اندر داخل ہوا جسے دیکھتے ہی میں حیرت سے اچھل پڑی۔
وہ عالم تھا جسے ابو اس کے سامان سمیت گھر لے آئے تھے ۔ میرا خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا اور امی بھی مسکراتے ہوئے میری ہی طرف دیکھ رہیں تھی۔
عالم ہمارے گھر کے اوپر والے پورشن میں ہی رہنے لگا ۔ والدین نے نہ صرف اسے میرے لیے قبول کر لیا تھا بلکہ مجھے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا بھی حق دیا تھا ۔ ان کی اجازت سے میں مسلمان ہوئی ۔ عالم اچھے نمبروں سے پاس ہوکر بزنس منیجمنٹ کا ڈگری ہولڈر بن گیا ‘ جہاں وہ خوش تھا ۔ میں اور میرے ساتھ میرے والدین بھی بہت خوش تھے ۔ عالم ہمارے ہی ملک میں اک ہوٹل بنانے کا سوچ رہا تھا ۔ ابو نے اسے نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ بھرپور مدد اور ساتھ دینے کا بھی وعدہ کیا ۔ میرے بھی امتحان ہوچکے تھے اور رزلٹ قریب ہی تھا ۔ عالم پاکستان کا چکر لگانا چاہتا تھا ۔ اس کے بھائی اور بہن کی شادی تھی اسی لیے اس نے میرے ابو سے بات کی ۔
’’ علیشہ شیرون کو میرے نکاح میں دے دیں تاکہ میں اسے اپنے گھر والوں سے ملا لاؤں ۔اس کے بعد پتہ نہیں قسمت میں جانا ہو یا نہیں۔ ‘‘ اور پھر اسلامک سنٹر میں ہی ہمارہ نکاح ہوا ۔ سادا طریقہ سے ولیمہ کی چھوٹی سی دعوت ہوئی، امی کے کچھ رشتہ دار ، ابو کے دوست اور کچھ آ فیسر تھے ۔ عملہ کے بھی کچھ آ دمی تھے ۔ بظاہر وہ چھوٹی سی پارٹی تھی ، لیکن ڈیڑھ سو سے اوپر بندہ ہوگیا تھا ۔ ہمارے جاننے والے عالم سے مل کر بہت ہی خوش ہوئے۔
شادی کے بعد دس دن ہم نے ادھر ہی گزارے مضافات گھومتے پھرتے بھی رہے اور عالم کے گھر والوں کے لیے خریداری بھی کرتے رہے ، میں بہت ہی ایکسائٹڈ تھی ۔ عالم جان سے پاکستان اور اس کے علاقہ شمالی وزیرستان کے پہاڑوں اور چشموں کی باتیں سن سن کر مجھے اس کے علاقہ پہ پرستان کا گھمان ہونے لگا تھا ۔اس علاقہ کی لوک داستانیں ، ان کی بہادری کے قصے … میرا دل چاہتا تھا کہ میں بس اڑ کر عالم کے ساتھ وہاں پہنچ جاؤں۔
اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب میں نے اپنے محبوب شوہر عالم کے ساتھ جہاز کی اڑان بھری ، راستہ میں اک جہاز چینج کرتے ہوئے ، دوایئرپورٹس پہ کچھ گھنٹے ریسٹ کرکے تیرہ گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور کاروباری شہر کراچی کے ایئرپورٹ پہ لینڈ ہوئے ۔ عالم نے کلفٹن کے علاقہ میں ایک ہوٹل میں روم بک کروایا ۔ میں منع کرتی ہی رہ گئی ۔
’’ مجھے تمہارے گاؤں جانے کی ‘ تمہارے ماں باپ ، تمہارے بھائیوں سے ملنے کی تمہارا خوبصورت علاقہ دیکھنے کی جلدی ہے ۔‘‘
’’ کراچی بھی بہت خوبصورت ہے ۔ میں نے بھی نہیں دیکھا ‘ اسی بہانے سے میں بھی گھوم لوں گا۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے اردو میں کہا ‘ لیکن لہجہ انگریزوں والا استعمال کیا ۔ اس کے انداز پہ ہنستے ہوئے میرے پیٹ میں بل سے پڑ گئے۔ میری حالت دیکھ کر عالم بھی ہنسنے لگا ۔ عالم نے مجھے اردو اور پشتو زبان کے بہت سے لفظ سکھا دیئے تھے ۔ میں بول تو نہیں سکتی تھی سمجھ لیتی ۔
ہم دونوں نے تین دن میں کراچی کی خوب سیر کی ۔ ہاکس بے ، سی ویو،پیراڈائیز مختلف جگہوں میں گھوم پھر کر جب تھکے ہوئے لوٹتے تو شام کے بعد کھانا کھاتے ہی کلفٹن کی سیر کرتے ۔ سمندر کے کنارے پانی میں گھومتے آتی جاتی لہروں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے۔
’’ یہ اتنی بڑی بڑی تصویرے وہ بھی شیٹس کے اوپر لگائے یہ لوگ کیوں گھوم رہے ہیں ۔‘‘ سمندر کنارے میں دیکھ کر حیرت سے عالم سے پوچھنے لگی ۔
’’ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کسی سے پوچھ کر بتاتا ہوں ۔‘‘
یہ کہتے ہی عالم پاس کھڑے اک چچا جی کی طرف چلا گیا ۔ عالم نے چچا سے بات کی اور ان کا کچھ طویل سا جواب سن کر میراتھن ریس سٹائل میں میری طرف بھاگتے ہوئے آیا، میرے پاس پہنچتے ہی خوب ہنسا ۔میں حیرت سے کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔
’’کیا چچا جی نے کوئی لطیفہ سنایا ہے جو اتنا ہنس رہے ہو۔‘‘میں نے عالم کے کندھے پہ ہار مار کر کہا ۔
’’ تم بھی سن کر ہنسوں گی اور خوب ہنسوں گی ۔‘‘
’’بتابھی دو اب۔‘‘عالم ہنسے ہی جا رہا تھا۔
’’ یہ جو بڑی بڑی پوسٹر ٹائپ فوٹوگراف ہیں ناں‘ یہ پاکستان فلم ہیروز کے ہیں اور یہاں آ ئے بہت سے منچلے ان کے ساتھ کھڑے ہوکر فوٹو کھنچواتے ہیں۔‘‘
’’ اس سے انہیں کیا مل جاتا ہے ۔‘‘ میرے لہجہ میں واضح بے یقینی تھی
’’ اک تو ان منچلوں کے شوق کی تسکین ہوتی ہے اور دوسراادھر ادھر سے آئے لوگ جب اپنے گاؤں وغیرہ جاتے ہیں تو اپنے لوگوں پہ رعب جھاڑنے کے لیے یہ فوٹو دکھاتے ہیں،کہ دیکھوں ہم نے فلاں ہیرو کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویر کھچوائی ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر عالم پھر سے ہنسنے لگا۔
مجھے اب بھی اس کی بات پہ یقین نہ آیا ۔ اسی وقت عالم نے مجھے کہا۔
’’ پیچھے دیکھو…‘‘
میں نے جلدی سے مڑ کر پیچھے اسی طرف دیکھا ‘ جہاں فوٹو پکڑے لوگ کھڑے تھے ۔ لمبی لمبی قمیض پہنے دیہاتی کچھ لڑکے مختلف پوز بنا بنا کر ان فلمی ہیروز کے فوٹوز کے ساتھ تصویرے بنوا رہے تھے ۔ میں حیرت سے انہیں دیکھتی رہی اور مسکراتی رہی ۔ کتنے سادہ لوگ ہیں یہاں کے، ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگ ہو اور میری نظروں میں نہ آئے ہو۔
کراچی سے بزریعہ ٹرین مختلف علاقوں کی سیر کرتے ‘ ہم لوگ پشاور پہنچے ۔ زیادہ تر اپنا اور گھر والوں کے لیے کی گئی خریداری کا سامان عالم نے کارگو کے زریعہ پہلے ہی کراچی سے بجھوادیا تھا ۔ ہوٹل ہی کے لینڈلائن سے عالم نے ہماری پہنچنے کی اطلاع کردی تھی ۔ اس کے گھر والوں کو ہمارا بے صبری سے انتظارتھا کیوں کہ فون پہ ہلکی پھلکی پیچھے سے آتی آوازیں سنی جاسکتی تھیں ۔ یہاں مجھے بھی عالم کے گھر والوں سے ملنے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا ۔ پشاور ریلوے سٹیشن پر اترتے وقت عالم نے بیگ سے اک بڑی سی چادر اور گرم جیکٹ نکال کر مجھے پکڑادی ۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، لیکن وہ کچھ بتانے کی بجائے ریل سے اترنے کا اشارہ کرنے لگا ۔ ہیٹر والے کوپے سے باہر نکلتے ہی مجھے سردی کا احساس ہوا ۔ مارچ کا مہینہ تھا کراچی کا موسم معتدل اور یہاں اتنی سردی…میں نے جلدی سے عبایااور حجاب کے اوپرہی جیکٹ پہن کر چادر اوڑھ لی ۔
عالم کے بڑے دو بھائی آئے جن سے عالم ’’لالا‘‘کہتے لپٹ گیا ، دوبہنیں بھی ہمیں ریسیو کرنے آئی تھیں ۔ دونوں لالاؤ نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور ‘‘ستڑے ماشے‘‘ کہا ۔ جبکہ عالم کی دونوں بہنیں جو کہ میری ہم عمر ہی تھیں مجھ سے’’سنگا اخکلہ دا زمنگہ ارندار(کتنی خوب صورت ہے ہماری بھابھی) ‘‘ کہتے ہی گلے ملیں اور پھر جیسے ساتھ چپک کر ہی رہ گئیں ۔ کچھ ملازم بھی ان کے ساتھ تھے ۔ ہمارے پاس اب سامان تو اتنا تھا نہیں کہ ملازموں کو لانے کی ضرورت پڑتی، جب ہم سٹیشن سے باہر نکلے تو مجھے پتہ چلا کہ وہ ملازم اصل میں باڈی گارڈ تھے ۔ باہر نکلتے ہی انہوں نے گاڑیوں سے اسلحہ نکالا ، اور ڈبل ڈور پیک اپ کی پیچھی باڈیوں پہ چڑھا کر گنز پکڑے مستعد کھڑے ہوگئے ۔ یہ تین گاڑیوں کا قافلہ چل پڑا آ گے والی گاڑی میں عالم کے دونوں لالا اور عالم بیٹھے تھے درمیانی گاڑی میں عالم کی دونوں بہنیں روشنہ، زاکرہ اور میں تھی،جبکہ پیچھے گاڑی شاید کور دینے کے لیے تھی ۔ قریباً صبح دس بجے ہم پشاور ریلوے سٹیشن سے نکلے تھے ، سہ پہر تین کا وقت ہوگا کہ پہاڑی علاقہ میں اک چھوٹے سے ہوٹل پہ کچھ دیر کا سٹے کرکے، چائے اور ایک ایک نان کھا کر مردوں نے نماز ادا کی ۔ یہ قافلہ پھر سے چل پڑا رات آ دھی سے زیادہ گزر چکی تھی ‘ ہم نیند میں تھے کہ گاڑیوں کے ہارن سن کرآ نکھ کھلی ۔
سامنے ہی بڑا سا پرانے قلعے کے بڑے گیٹ جیسا گیٹ کھل رہا تھا ۔ اندر داخل ہوکر میں نے دیواروں پہ نظر ڈالی ،کسی قلعہ ہی طرح اونچی اور مضبوط دیواریں تھیں ۔ یہ سب کچھ واقعی کسی خواب جیسا ہی تھا ۔ گاڑیاں جب قلعہ نمارہائش کے سامنے بنے پورچ میں جا کر کھڑی ہوئی تو عالم کے ماں باپ باقی بھائی اور خاندان کے دیگر افراد ہمیں خوش آ مدید کہنے کے لیے منتظر کھڑے تھے ۔اترنے سے پہلے ہماری گاڑیوں پہ سرخ پھولوں کی بارش کی گئی ۔ روشنہ اور ذاکرہ نے مجھے بڑے پیار سے سہارہ دے کر اٹھایا ، گاڑی سے باہر نکلے تو ان دونوں ہی نے فرداً فرداً سب سے ملوایا ۔ عالم کی امی نو بچوں کے بعد بھی خوش شکل اور اپنی عمر سے کم لگتی تھیں ، شاید دیسی خالص خوراک اور صاف ستھری آ ب و ہوا کا اثر تھا ۔ عالم کے بابا بڑی عمر کے تھے لیکن دائیں ہاتھ میں لاٹھی تھامے کسی جوان ہی کی طرح مضبوطی سے کھڑے تھے ۔میرے سر پہ شفقت و پیار سے ہاتھ رکھا اور’’سدا خوش و خرم رہو ‘‘ کی دعابآواز بلند دی ، جس پہ سب ہی نے آ مین کہا۔
مرد حویلی کے پیچھے بنے حجرہ میں چلے گئے ، جہاں سے سحری تک گانے بجانے کی آ وازیں آ تی رہیں ۔ عالم کی ماں اور بہنیں ہم نے مل کر فریش ہوئے اور رات کا کھانا کھا کر سونے کی کوشش کرنے لگے، روشنہ میرے ساتھ ہی میرے کمرہ میں سو گئی ۔ گانے کا شور شرابہ کم ہوتے ہی میں بھی سوگئی۔
دوسری صبح دن دس کے قریب ہمیں اٹھایا گیا۔
’’ کچھ دیر مزید نہیں سوسکتی ؟‘‘میں نے معصومیت سے اٹھانے والی روشنہ سے کہا۔
’’ اٹھ جاؤ آج تمہاری شادی کا ولیمہ ہے تمہیں تیار بھی کرنا ہے۔ ‘‘ اس کی بات سن کر میں چونک اٹھی لیکن ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق اٹھنا تو تھاہی، اسی لیے جلدی جلدی فریش ہوئی تو دونوں بہنوں کے ساتھ ایک اور نوجوان فربا‘ سی خوبصورت سی لڑکی تھی۔
’’ بھابھی ہمارے ساتھ یہ لڑکی آپ کو تیار کرنے میں مدد کرے گی۔‘‘
سرخ مختلف رنگ کے چمکتے ستاروں سے مزین سوٹ سونے کی چوڑیاں ، ہار ، جالی دار پھولوں کی پچکاری ، سرخ چادر سر پہ اوڑھا دی گئی ۔ مجھے حویلی کے اسی پورشن کے حال میں بنے سٹیج پہ بٹھا دیا گیا ۔ علاقہ کی بچیوں سے لے کربوڑھی عمر کی عورتوں تک کھانا لگنے سے پہلے میری منہ دکھائی کے لیے آ تیں اور مجھے دیکھتے ہی ان کے منہ سے کچھ نہ کچھ میری خوبصورتی کو دیکھ کر ضرور نکلتا ‘حالانکہ ان میں زیادہ تر عورتیں خود بھی بہت خوبصورت تھیں۔
’’ داخو انگریز جینا دا (یہ تو انگریز لڑکی ہے)۔‘‘ اک بوڑھی اماں کی بات سن کر میں خوب ہنسی ، منہ دکھائی میں ہر اک پانچ سو ضرور دے رہاتھا اور کوئی کوئی ہزار بھی ۔ پہلے مجھے اک دھڑکا سا لگا تھا کہ آ ج جانے کیا ہو لیکن محبت بھری باتوں نے نہ صرف ڈر دور کیا بلکہ میں کافی ریلکس بھی ہوگئی ۔ دو بجے کھانا شروع ہوا، کھانے کے دوران بھی عورتیں منہ دکھائی کے لیے آتی رہیں ۔ میں نے گھر والوں کے ساتھ شام کو اکھٹے ہی کھانا کھایا ۔ دن کی تھکن جسم اوردماغ پہ چڑھ گئی ۔اب سمجھی کہ عالم نے کراچی تین دن کا سٹے کیوں کیا تھا ، کیوں کہ یہاں ولیمہ کا پروگرام تھا اور اس سے پہلے وہ مجھے تھوڑا فریش کرنا چاہتا تھا۔