ناولٹ

زندگی اے زندگی : طارق محمود شامل

میں اپنے مخصوص سنگی بینچ پہ بیٹھی پارک میں گھومتے پھرتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ ہم عمر لڑکیاں جو کہ زیادہ تر کسی نوجوان ساتھی کے ساتھ گپ شپ لگاتیں ‘ درختوں کے پیچھے غائب ہوجاتیں ، کچھ اسی عمر کے نوجوان جوڑے پھولوں کی کیاریوں کے ساتھ بیٹھے کیاکیا عہدوپیماں کر رہے تھے اور بوڑھے جوڑے چہل قدمی کرتے پارک کے جوگنگ ٹریک پہ انجوائے کر تے نظر آ رہے تھے ۔ کبھی میں ان سب کو دیکھتی اور کبھی ادھر ادھر سرسبزوشاداب گھاس کو، تو کبھی پارک میں چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں کھلے رنگ برنگے پھولوں کو۔
میرا اتوار کے علاوہ پچھلے قریباََ دو سالوں سے یہی معمول بن گیا تھا ۔ میں اتوار کو اپنے والدین کے ساتھ چرچ جاتی تھی۔ میرے والدین مزہبی تھے اور اس مغربی ماحول سے بچپن ہی سے مجھے ایسے دور رکھا کہ میں بھی اپنے مذہب میں اک کنوتی سی تھی ‘ اسی لیے بچپن ہی سے مجھے وقتاََ فوقتاََ جو کلاس فیلو سہیلیاں ملیں جلد ہی مجھ سے اکتا جاتیں اور ہمارے معاشرہ کے لڑکے تو میرا رویہ دیکھ کر پرے ہٹ جاتے ۔ اور اگر اس سے بھی باز نہ آ تے تو مجبوراََ مجھے اپنے بابا کو بتانا پڑتا جوکہ پولیس سپریڈنٹ تھے ۔ اسی لیے لڑکے بھی مجھ سے دور ہی رہتے، غرض والدین نے مجھے اس آ زاد ماحول میں رہتے ہوئے بھی اس کا عادی نہ بننے دیا ۔ میں بھی اپنے والدین کی ہر بات اور خواہش کا احترام کرتی ، انہوں نے میری ہر ضرورت ہر خواہش پوری کی لیکن بدلہ میں بس مجھے مشرقی ماحول کا پابند ہونے کا درس دیا اور اچھے برے ماحول کے فرق کی پہچان کروائی ۔ میں اپنے اس اکیلے پن سے اکتاتی نہیں ‘ بلکہ مطمئن ہوں میں اک عام سی لڑکی ہوں ۔ علیشہ شیرون…
میں جب بھی شام کو ٹاؤن کے اس چھوٹے سے پارک میں آ تی تو پارک میں چہل قدمی کرتے اک چکر لگا کر گیٹ کے ساتھ ہی دائیں تھوڑا ہٹ کر اس سنگی بنچ پر بیٹھ کر پارک کا نظارہ کرتی رہتی ۔ گیٹ والی سائیڈ باقی پارک سے قدرے اونچی تھی اسی لیے یہاں بیٹھ کر پورا پارک نظرآ تا سوائے درختوں کے پیچھے کے مناظر ، جنہیں دیکھنے کی مجھے چاہ بھی نہ تھی۔
میں کس ملک سے ہوں یہ نہیں لکھ پا رہی لیکن پڑھنے والے جب میری مکمل کہانی پڑھیں گے تو انہیں ضرور میرے ملک کا علم ہو جائے گا۔
میں پچھلے دو تین دن سے اپنے دل کوکچھ اداس اداس اور گھبرایا گھبرایاسامحسوس کر رہی تھی ۔ بغیر کسی وجہ کے دل خفا خفا سا تھا ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کسی اور کام میں بھی دل ہی نہیں لگ رہا تھا ۔ بس یہی چاہتی کہ لیٹ جاؤں تو لیٹی ہی رہوں اور اگر کہیں بیٹھوں تو وہاں سے اٹھنے کا من ہی نہیں چاہتا ۔ پتہ نہیں اس سے پہلے اپنے ہوش سنبھالنے سے سترہ سال کی اس عمر تک ایسا دل اداس نہ ہوا تھا ‘ جیسا ان دو تین دنوں میں ہوتا جا رہا تھا ۔ یونی ورسٹی میں بھی کلاس لگتے لیتے غائب دماغ سی ہو جاتی ۔ لیکچر پہ جب توجہ نہ ہوتی تو لیکچرر کی بات کیا خاک پلے پڑنی تھی ۔ پہلے پہل میں اپنے آ پ کو اک نفسیاتی مسئلہ سمجھنے لگی اور میں نے اپنی ساری کنڈیشن نفسیات کی پروفیسر سے ڈسکس کی ۔ انہوں نے میری نجی زندگی کے بارے میں چند سوال پوچھے ۔ میری زندگی تو اک بھرپور زندگی تھی ‘ والدین کی طرف سے نہ صرف مجھے وافر سہولیات تھیں بلکہ آزادی بھی تھی ۔ لیکن اک حد تک ابو نے مجھے تمام سہولیات دی تھیں ‘ یہاں تک کہ میرے پاس اپنی گاڑی تھی ، جیب میں ہر وقت خرچ کرنے کے لئے پیسے تھے۔
’’ علیشہ دوستوں کے ساتھ ویک اینڈ مناؤ کسی پکنک پوائنٹ یا سرکس وغیرہ پہ جا کر دل بہلاؤ طبیعت ٹھیک ہو جائے گی ۔‘‘ پروفیسر نے پوری بات سن کر اک بہترین مشورہ دیا۔
’’ شکریہ سر کوشش کرتی ہوں۔‘‘
ان کا شکریہ ادا کرتے ہی میں وہاں سے نکل آئی ۔ دوست تو میرے تھے ہی نہیں ‘ ہاں امی سے بات کی انہوں نے رات ڈنر پر ابو کو بتایا۔
’’ علیشہ بور فیل کر رہی ہے ۔ اس سنڈے کو پکنک پہ چلتے ہیں کیا خیال ہے آ پ کا۔‘‘ امی کی بات سن کر ابو مسکرانے لگے ۔
’’ کیوں نہیں میری بیٹی گھر یونیورسٹی اور پھر شام کو پارک تک محدود زندگی سے اکتا گئی ہے تو اس سنڈے کو فنڈے مناتے ہیں پھر۔‘‘ ابو نے مجھے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے پیار سے کہا ۔ ان کے اس انداز سے ہم ماں بیٹی کھلکھلا کر ہنسے تو وہ بھی ہنسنے لگے۔
اور پھر سنڈے کو پکنک اور شام کو میوزیم … خوب انجوائے کیا میں نے ‘ دو دن خوب اچھے گزرے لیکن دل نے پھر سے اداسی کی چادر اوڑھ لی مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پھر سے دل اداس اور خفا خفا کیوں ہے۔ اس دفعہ امی بھی مجھے نوٹ کررہی تھیں ۔ شام کو ابو کے آ نے سے پہلے ہم ڈنر کے لیے ٹیبل تیار کر لیتے تھے اور ابو آ تے ہی ’’ ہیلو ہائے‘‘ کرتے اور فریش ہوکر ہمارے ساتھ ٹیبل پہ ڈنر کے لئے آ جاتے ۔ ان کے فریش ہوتے وقت ہم دونوں کھانا ٹیبل پہ لگا دیتے ۔ روزانہ کا یہی معمول تھا ۔ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا اکھٹے کھانا ممکن نہ تھا ۔ اسی لیے ہماری چھوٹی سی فیملی رات ڈنر پہ اکھٹے ہوتی تھی ۔ اس شام ابو کے آ نے سے پہلے امی کے میری اس گم صم حالت کا پوچھتے ہی (میری امی میری رازدار سہیلی ہیں میں ان سے اپنی ہر بات شیئر کرتی ہوں)یہ بات بھی امی سے شیئر کی ۔ جب میں نے اپنی اس اداس طبیعت کے بارے میں بتایا تو امی نے پہلے تو مجھے کسی میڈیکل ڈاکٹر کی طرح مکمل چیک کیا۔ نبض ، بلڈ پریشر اور بخار وغیرہ لیکن جب سب کچھ ٹھیک نکلا تو مسکرا کر میرے گال پہ بوسہ دیا اور مسکرا کر کہنے لگیں۔
’’ نوجوانی میں ہر کسی پہ اک دفعہ ایسی حالت آتی ہے اس میں کوئی گھبرانے کی بات نہیں ۔ ‘‘
میں ان کی بات سن کر چپ ہوگئی لیکن مطمئن نہ ہو سکی ۔ آ ج میں اس بینچ پہ بیٹھی امی کی بات پہ ہی غور کررہی تھی کہ اچانک جوگنگ سوٹ پہنے ‘ جوگنگ کرتا اک نوجوان بھاگ کر میری طرف آ یا ۔ میں اس کے اس طرح بھاگتے ہوئے اپنی طرف آ تے دیکھ کر ڈر گئی اور اٹھ کر وہاں سے ہٹنے کا سوچا ہی تھا کو وہ نوجوان چھوٹا سا جمپ لگا کر عین میرے سامنے اپنے گھٹنے کے بل آ بیٹھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا رنگ رنگ کے پھولوں کا اک گلدستہ میری طرف بڑھاتے ہوئے بہت ہی شائستہ لہجے میں بولا۔
’’ کیا آ پ مجھ سے شادی کریں گی ۔‘‘
اس کے چہرہ پہ اک عجیب سی معصومیت ، چمک اور کشش تھی ۔ ابھی اس کے داڑھی کے بال ٹھوری پہ ہی آئے تھے ۔ سنہرے بال بہت ہی بھلے لگ رہے تھے ۔ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی گلدستہ میں نے کسی معمول کی طرح پکڑ لیا تھا اور پھر اس کی بات سن کر میں چونکی ضرور لیکن مجھے اس کے الفاظ برے نہ لگے ۔ مجھے پھول پکڑتے دیکھ اس کے چہرہ پہ اک دلکش مسکراہٹ نظر آ ئی اور وہ میرے ساتھ ہی اجازت لی کر درمیان میں جگہ چھوڑ بنچ پہ بیٹھ گیا۔
میری عالم جان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔
اس نے اپنے اس طرح پرپوز کرنے پہ معافی مانگی اور بتایا کہ وہ مجھے کئی روز سے پارک میں دیکھ رہا ہے۔میں اسے اچھی لگی تھی۔ اس لیے اس نے مجھے سیدھا پرپوز کرنے کا سوچا۔
اس کے چہرہ کے ساتھ ساتھ اس کا بات کرنے کا انداز بھی بڑا جاذب تھا ۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اک مرد دوست بنایا تھا اور مجھے اپنا یہ فیصلہ اچھا بھی لگ رہا تھا ۔ اس شام میں اس سے باتیں کرنے لگی تو میری ڈھل سی طبیعت جیسے اعتدال پہ آنے لگی۔ زیادہ تر میں اسے ہی سنتی رہی ‘ مجھے بہت ہی اچھا محسوس ہونے لگا ۔ عالم جان مجھے تو بہت ہی اچھا لگا تھا ۔ اس کے ساتھ پہلی شام ہی میرے لیے طبیعت کی بحالی کا پیغام لائی تھی اور اب عالم جان کے لیے اپنے والدین کو مطمئن کرنا تھا۔ ہم عیسائی تھے اور عالم جان اک پاکستانی مسلمان جو کہ پڑھائی کے لئے ہمارے ملک میں آ یا تھا ۔ ان دنوں امتحان دے رہا تھا ساتھ ہی پارٹ ٹائم کام بھی کرتا تھا۔
میں پہلے مسلمانوں کے بارے میں سنتی تھی اور پڑھا بھی تھا کہ دل کے بہت اچھے اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں اور جب عالم جان سے دوستی ہوئی تو میں اس کی گرویدہ ہوگئی اور سوچنے لگی کہ باقی مسلمان بھی ایسے ہی ہیں ۔ اک دوسرے کا خیال رکھنے والے ، ذرا سی کسی انسان کی تکلیف پر دل میں درد محسوس کرنے والے تو پھر وہ معاشرہ ضرور کامیاب ہوگا۔
اب میں جب بھی شام کے وقت پارک جاتی تو عالم بھی پہنچ جاتا اور جب تک وہ نہ آ تا تو مجھے شدت سے اس کا انتظار رہتا ۔ میرا دل پھر سے اداسی زدہ ہوجاتا اور جب میں اسے پارک کے دروازے سے اندر داخل ہوتا دیکھتی تو مجھے خوشی کے ساتھ اک سکون سا مل جاتا ، دل مطمئن ہو جاتا ۔ وہ آ تے ہی اگر لیٹ ہوتا تو مجھ سے معذرت کرتا ۔ اسے بھی میری بے چینی کا ادراک ہو چکا تھا ۔ اس کے آ تے ہی میں بے چینی سے اٹھتی اور اس کی طرف بڑھتی وہ مسکرا کر کہتا ۔
’’ اتنی دور سے پیدل چل کر آیا ہوں چند ساعت بیٹھنے تو دو۔‘‘ میں اس کے یہ کہتے ہی شرمندہ نہ ہوتی بلکہ مسکراتے ہوئے اسے کہتی۔
’’ تشریف رکھئے جناب۔‘‘ میرے اس انداز سے وہ ہنسنے لگتا ۔
زندگی کتنی خوبصورت ہوتی جارہی تھی ۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے اداس اور خفا خفا سی تھی ‘ شاید اوپر والے نے اسی لیے مردو زن بلکہ تمام زی روح چیزوں کے جوڑے بنائے تھے تاکہ ایک دوسرے کو سکون و دل بستگی کرسکیں ۔ چند منٹ بیٹھ کر وہ جمپ لگا کر کھڑاہو جاتا اور کہتا ۔
’’ چلو جی سرسبز گھاس اور پارک میں لگے رنگین پھولوں سے بھی کچھ باتیں ہو جائیں ۔ ‘‘ میں اس کی ایسی بامعنی باتوں سے محظوظ ہوتی اور مسکرا کر اس کا خیر مقدم کرتی ۔
’’ ویسے اس سے پہلے اولمپک گیمز میں جمپ مقابلوں میں حصہ لیتے رہے ہو کیا۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسا ۔
’’ اصل میں پہاڑی علاقہ کا رہنے والا ہوں ۔ سارا دن ہی آ تے جاتے کبھی پہاڑوں پہ جمپ تو کبھی اونچے نیچے راستوں پہ جمپ کرتے ہوئے چڑھنا اک عادت سی بن گئی ہے۔ ‘‘
اور پھر ہم پارک کے ٹریک پہ چہل قدمی کرتے ۔ وہ اپنے بارے میں ، اپنے گھر والوں ، گاؤں کی باتیں کرتا ۔ اس کے پاس سنانے کے لیے ڈھیروں باتیں تھی ۔ وہ اتنی باتیں کرتا کہ مجھے لگنے لگا ‘ باتیں کرنا اس کی مشغلہ ہی ہو جیسے … بعض اوقات باتیں کرتے کرتے وہ میری طرف دیکھتا اور فوراً کہتا ۔
’’ علیشہ تم بھی کچھ کہوناں۔‘‘ اس کے اس انداز سے میں بہت محظوظ ہوتی اور مسکرانے لگتی ۔
’’ میرے پاس اتنا کہنے کو کچھ نہیں ۔‘‘
میں اسے اپنے والدین گھر اور سکول کالج یونیورسٹی کے بارے میں سب بتا چکی تھی ۔ بس میری زندگی کے معمولات یہی تک تو تھے ۔ اس کے علاوہ چرچ تھا جس کے بارے میں اسے بتانا میں مناسب خیال نہیں کرتی تھی ۔ ویسے بھی جب عالم میرے ساتھ ہوتا تو میں اسے ہی سنناچاہتی تھی ۔ اس کے بات کرنے کا لہجہ بات کرنے کا انداز اور باتیں کرتے ہوئے ساتھ ہاتھوں کو ہلانا ‘ مجھے مسحور سا کیے رکھتا ۔اس کی باتوں کا اک ٹرانس سا مجھ پہ حاوی ہوگیا تھا اور اس ٹرانس کی حالت میں میرا بات کرنا مشکل تھا ۔ اسے سننا ہی مجھے اچھا لگتاتھا ۔شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے ہی وہ مجھ سے جانے کی اجازت لیتا اور مسکراتے ہوئے الوداع کہہ کر چلا جاتا۔
چہل قدمی کے بعد جب ہم آ کر بینچ پہ بیٹھتے تو پاس سے بہت سے چہرے گزرتے ہوئے ہماری طرف دیکھ کر مسکان دیتے ۔ جو چہرے عالم سے پہلے مجھے اکیلا بیٹھے تعجب سے دیکھتے تھے ان میں کچھ بزرگ مرد و عورتیں بھی تھیں جو اس سے پہلے مجھے اکیلا بیٹھے دیکھ کر افسردہ سی ہو جاتیں ۔ وہ ضرور سوچتے کہ اس ماحول میں پلی لڑکی اور وہ بھی اکیلی۔
اب جب وہ مجھے عالم کے ساتھ بیٹھے دیکھتے تو گزرتے ہوئے بہترین مسکراہٹ سے نوازتے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے محسوس ہوتے ۔ شاید میرے لیے دعا کر رہے ہوتے ۔ مجھے تو ان کے منہ ہلنے سے اور ان کی مہربان مسکراہٹ سے یونہی لگتا تھا ۔ جمعرات کی شام ہم پارک کا چکر لگا کر واپس بینچ پر آ کر بیٹھے ہی تھے کہ عالم نے اچانک ہی میرے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھتے ہوئے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’ علیشہ شیرون کیا تم نے شادی کے لیے مجھے سلیکٹ کر لیا ہے ۔‘‘
’’ میری طرف سے تم سلیکٹ ہی سلیکٹ ہو لیکن میں اپنے والدین سے بھی پوچھوں گی ۔ ان کا نقطہ نظر جانوں گی ‘ اس کے بعد ہی فیصلہ کروں گی۔ ‘‘ میں نے کہا تو اس کے چہرے پہ خوشی سے بھرپور مسکراہٹ رینگ گئی ۔
’’ مجھے اس لمحے کا شددت سے انتظار ہے ۔‘‘
عالم اک بڑے شاپنگ پلازہ کے سپر سٹور پہ کام کرتا تھا ۔ پہلے پارٹ ٹائم تھا اب چونکہ امتحان ہو چکے تھے اسی لیے مستقل ہی کام کر رہا تھا ۔ عالم پاکستان ناردرن ایریا کا رہنے والا تھا ۔ سات بھائی اور اک بہن تھی وہ سب میں اک ہی پڑھا لکھا تھا ۔ سب سے چھوٹا تھا اسی لیے لاڈلا بھی تھا۔ اپنی ہر خواہش کسی فرماہش کی طرح ہی پوری کروا لیتا تھا ۔ والدین حیات تھے اور سب بھائی مل کر لکڑی کا کام کرتے تھے لیکن عالم کو پڑھائی اچھی لگتی تھی ۔ یہاں آکر اس نے یونیورسٹی میں بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کی اور امتحان دے کر رزلٹ کا انتظار کرنے کے ساتھ اس سپر سٹور پہ منیجر کے ساتھ ہیلپر کی جاب کر رہا تھا۔
اس کی رہائش ہمارے ٹاؤن کی ہی اک بوڑھی عورت کے گھر پیانگ گیسٹ کی تھی ‘جس کا بیٹا آ رمی میں تھا اور اس کا شوہر اک جنگ میں کام آ چکا تھا ۔
جب ہم شام کو پارک سے اٹھنے لگے تو عالم نے مجھے دوسرے دن یعنی جمعہ کی دوپہر کو اسی پارک میں آ نے کا کہا ۔ اس سے پہلے ہم لوگ دن میں نہیں ملتے تھے ۔ اس کی بات سن کر میں سرپرائز سی ہوگئی اور میں نے بھی آ نے کی حامی بھر لی کیوں کہ اس کو انکار کرنا میرے بس میں ہی نہ تھا۔
دوپہر کو جب میں وہاں پہنچی تو سفید رنگ کے کھلے ڈریس میں میرا انتظار کررہا تھا ۔ سفید لباس میں وہ پرستان کا اک شہزادہ لگ رہا تھا ۔ میں نے اس کے چہرے پہ نگاہ کی تو ہٹانا جیسے بھول گئی۔
’’ نظر لگاؤ گی کیا۔‘‘ اس نے لڑکیوں کی طرح شرماتے ہوئے کہا ۔ اس کے اس انداز پہ میرا قہقہہ نکل گیا۔
’’ نظر مطلب ۔‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا ۔
’’ کچھ نہیں ہمارے علاقہ میں ہوتی ہے اک چیز۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور پھر مجھے لیکر چل دیا ۔
میں اب بھی اس سے نہ پوچھ سکی کہ جانا کہاں ہے ۔ میں اسے اپنی ہی گاڑی میں ادھر ادھر لے کر جاتی تھی ۔ پہلے پہل اس نے چہرہ پہ تھوڑی سی ناراضگی پہ طاری کی اور پھر اک دن پٹرول ڈھلواتے ہوئے پیمنٹ دینے کی بھی کوشش کی لیکن میں نے انکار کردیا۔
’’ اب تو میرے پاس والدین کا سب ہے ۔ ہاں اگر اللہ نے چاہا تو ہم زندگی کے ساتھی بنے تو شوق سے اٹھانا میرے تمام اخراجات ۔ ‘‘ میری اس بات سے اس کے چہرہ پہ اک امید بھری مسکراہٹ کھیلنے لگی اور اس نے آ ہستہ سے کہا ۔
’’آ مین۔‘‘
میرے منہ سے بھی ’’ آمین‘‘ نکلا ۔ ہم پارک سے نکلے تو عالم نے مجھے اک مسلم کمیونٹی سنٹر کی طرف گاڑی گھمانے کا کہا ۔ میں نے بھی چپ چاپ کوئی بات کئے بغیر گاڑی اس سنٹر کو جانے والے روڈ پہ ڈال دی اور ترچھی نظروں سے عالم کو دیکھا اس کے چہرہ پہ حیرت سی تھی ۔
’’ میں تمہیں جس طرف چلنے کا کہتا ہوں تم بغیر کسی آ رگومنٹ کے چلنے لگتی ہو ۔ بندہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کیوں کس لیے کیا وجہ ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’ عالم مجھے تم پہ اعتبار ہے اور اپنے خدا سے یہ امید کہ وہ کبھی بھی مجھے کسی نقصان دینے والے راستہ پہ نہیں جانے دے گا۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا تو عالم میری بات سن کر بہت ہی ایکسائیٹڈ ہوا۔

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page