یومِ مجنوں: نظیر فاطمہ
یوم ِ مجنوں
نظیر فاطمہ
فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ماجد رانا کے اندر کا مجنوںپوری شدت سے جاگ اُٹھتا تھا ۔ ویسے تو مجنوں کے علاوہ فرہاد، رانجھا، پنوںاور نہ جانے کون کون سے عاشقوں کی فہرست ہے مگر ماجدرانا مجنوں کا بہت بڑا عقیدت مند تھا۔ ا س کا بس چلتا تو وہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگا کر ’’یوم ِ مجنوں ‘‘ منانے کا حکم صادر کر دیتا ۔ لیکن کیا جائے کہ لوگ مجنوں کا نام سن کر بُرے بُرے منہ بنانے لگتے ہیں۔ نوجوان ویلنٹائن کے اتنے دیوانے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کی تیز و تند آندھی میں اُن سوکھے پتوں کی طرح اُڑنے لگتے ہیں جنہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ آندھی تھمنے کے بعد گریں گے کہاں ؟
’’ تم لوگوں کو ویلنٹائن ڈے مناتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ اتنا بڑا عاشق موجود ہے تم لوگوں کے پاس مجنوں ، مگر تم لوگ مغرب کی اندھی تقلید میں اس عظیم ہیرو کو بھول چکے ہو۔ تم سب کو تو مجنوں کے حوالے سے محبت کا عالمی دن منانا چاہیے اور وہ بھی عین چودہ فروری کو تاکہ مغرب والوں کو اس ویلنٹائن ڈے کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے ۔ ‘‘ماجد رانا کے پانچ دوستوں کا گروپ چھپ چھپا کر ویلنٹائن ڈے منانے کی تیاریوں میں مصروف تھا ۔ چھپ کر اس لیے کہ اگر ان کے ابائوں کو پتہ چل جاتا تو چھترول لازمی تھی ۔ وہ سب تیاریوں میں مگن تھے اورماجدرانا انہیں شرم دلا رہا تھا۔
’’ ارے جائو، بڑا آیا مجنوں کا جانشین،اب کون مجنوں کی طرح لیلیٰ کے غم میں پاگل ہو جائے اور گریبان چاک کرکے بکھرے بالوں کے ساتھ صحرائوں کی خاک چھاننے جائے ۔اُوپر سے ستم یہ کہ اظہار ِ محبت بھی نہ کر سکے ۔ ویلنٹائن کی طرح صاف ستھرے پینٹ کوٹ اور ٹائی میں سر پر ہیٹ رکھ کر ہاتھوں میں ایک خوب صورت گلاب لیا اور بس اظہار ِ محبت کر دیا ۔‘‘ عدیل نے بڑی بے رحمی سے مجنوں پر تنقید کی۔
’’ مرے تو دونوں محبت میں ہی نا ۔‘‘ ماجد رانا نے اکڑ کر دلیل دی۔
’’ ہاں ! مگر ویلنٹائن نے محبت کا اظہار تو کر دیا تھا پھر بھلے سے مر گیااورمجنوں صرف لیلیٰ کو ایک نظر دیکھنے کے لیے اس کی گلی کے سو چکر لگاتا ۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو پاگل ہو گیا اور اب یوم ِ مجنوں منانے کا مطلب ہے کہ ہم بھی اپنے سروں میں خاک ڈال دیں۔‘‘سبحان کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔اب کے ماجد راناکو خاموشی اختیار کرنا پڑی ۔
٭…٭
آج کل ماجدرانا کو یونیورسٹی میں اپنی ایک کلاس فیلو مشی سے محبت میں مبتلا ہونے کا احساس ہو رہا تھا ۔ وہ دل میں ٹھان چکاتھاکہ اس سال ۱۴ فروری کو وہ اپنے دوستوں کو ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کی بجائے ’’یوم ِ مجنوں‘‘ منا کر دکھائے گا ۔ آج فروری کی پانچ تاریخ تھی ۔ اس کے پاس آٹھ دن تھے جن میں اُس نے اپنے پروگرام کو ترتیب دینا تھا اور نویں دن اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانا تھا۔
ماجدرانا ہر روز مشی کے آگے پیچھے پھرنے لگا۔ مختلف طریقوں سے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے لگا۔مگر اُدھر کسی کو پروا نہیں تھی۔مشی برقعے میں لپٹی ہوئی آتی ،کلاسزز لیتی اور خاموشی سے واپس چلی جاتی ۔ وہ کبھی بھی کلاسز کے بعد کسی سرگرمی یا تقریب کے لیے نہیں رُکتی تھی۔ ماجد رانا اپنی یک طرفہ محبت کی پینگیں چڑھاتے گئے،چڑھاتے گئے یہاں تک کہ تیرہ فروری کا دِن آن پہنچا۔
’’ ہائے ! اب میں کیا کروں؟ویلنٹائن ڈے منانے والوںنے تو گلاب اور امپورٹڈ چاکلیٹ خرید لیے ہیں ،میں کیا خریدوں؟‘‘ اب اسے مجنوں کی تہی دامنی کا شدت سے احساس ہوا۔
’’ اچھا چلو کوئی بات نہیں ،میں امپورٹڈ کی بجائے لوکل چاکلیٹ لے لیتا ہوں اور سرخ گلاب کون سا ویلنٹائن کی ملکیت ہے۔ میں دیسی سرخ گلاب خرید لوں گا ۔ اب بھلے ’’یوم ِ مجنوں ‘‘ ہی منانا ہو ’’محبوبہ‘‘ کے پاس خالی ہاتھ تو نہیں جایا جاسکتا ۔‘‘ اُس نے خود کو تسلی دی۔
٭…٭
چودہ فروری کی صبح ایک اور مسئلہ ان کا منتظر تھا کہ وہ اپنی ’’محبوبہ‘‘ کو یہ چیزیں کیسے پہنچائیں۔
’’ ہاں ! میں کون سا ویلنٹائن ڈے جیسا واہیات دن منا رہا ہوں ۔ میں سیدھا مشی کے گھر چلا جائوں گا۔‘‘ ماجد رانا نے اپنے اس ’’بے وقوفانہ خیال‘‘ پر خود کو ایک خیالی تھپکی دی۔
ماجد رانا نے لوکل چاکلیٹ کا ایک بڑا ڈبّہ خریدا ، ایک دیسی گلاب لے کر مشی کے گھر کے دروازے پر جا پہنچا اور اطلاعی گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔
’’ السلام علیکم ۔‘‘ ایک مضبوط تن و توش والا آدمی باہر آیاتو ماجد رانا نے فوراً سلام جھاڑا۔
’’ وعلیکم السلام۔ ‘‘ اُس آدمی نے ماجد رانا کا گھور کر جائزہ لیا تو وہ تھوڑا سا گھبرا گیا۔
’’ مشی ، میری کلاس فیلو ہے ۔ میں اسے یہ چاکلیٹ اور پھول دینے آیا ہوں۔‘‘ ماجد رانانے جھٹ سے دونوں چیزیں اُس آدمی کے سامنے کر دیں۔اُس کے چہرے پر جلال چھا گیا ۔
’’ ارے ! آپ غلط سمجھ رہے ہیں ،میں ویلنٹائن ڈے جیسی بے ہودہ رسم کا قائل نہیںہوں ،میں تو چودہ فروری کو ’’یوم ِ مجنوں ‘‘ قرار دے کر آیا ہوں ۔ ‘‘ ماجد رانانے تھوڑا سا سینہ پھلا کر کہا۔اُس آدمی نے گردن گھما کر گھر کے اندر آواز دی۔
’’ارے ! سب سن رہے ہو ،یہ لونڈا،مجنوںکا جانشین بن کر اپنی مشو کو پھول اور چاکلیٹ دینے آیا ہے۔‘‘ آناً فاناً ساٹ آٹھ اُونچے لمبے آدمی ، جو مشی کے بھائی تھے، ہاتھوں میں ڈنڈے اور ہاکیاں پکڑے باہر آئے اور سب مل کر ماجد بھائی پرٹوٹ پڑے ۔سب نے مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا ۔ماجد رانا اپنا بچائو کرتے ہوئے ضربیں کھاتا رہا اور منہ سے نکلنے والی چیخوں کا گلا گھونٹتا رہاجو روکتے روکتے بھی حلق سے بر آمد ہو رہی تھیں۔
’’ارے ! اسے چھوڑو،یہ اب اُٹھنے کے قابل نہیں رہا،جائو،اندر سے کتا لے کرآئو اور اس پر چھوڑ دو تاکہ اسے ہماری مشو کو پھول اور چاکلیٹ دینے کا مزا ساری زندگی یاد رہے۔‘‘ کتا شاید زیادہ ہی طاقت ور تھا جو سب کے سب اندر دوڑ گئے۔ماجد رانا کے دوستوں کے لیے بس اتنی مہلت کافی تھی۔ وہ سب جو گلی کے نکڑ پر چھپ کر ماجد رانا کو پٹتے دیکھ رہے تھے ، دوڑ کر آئے ، ان کو ٹانگوں ، بازوئوں ، گردن ، سر ، بالوں غرض جہا ں کسی کا ہاتھ پڑا ، ڈالا اور اسے اُٹھا کر بھاگ گئے اور گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا ،جب وہ لوگ کتا لے کر آئے تو خالی گلی سائیں سائیں کر رہی تھی ۔وہ سب ناک پر انگلیاں دھرے حیران کہ لونڈے کو زمین کھا گئی یا آسمان۔
٭ …٭
’’ یہ لے ،مر ، اب،اگر تیری پراسرار حرکتوں کی وجہ سے تیرا پیچھا نہ کرتے تو آج تُو مرا ہی مرا تھا ۔‘‘ ماجد رانا کے دوستوں نے اسے اسپتال کے بستر پر پٹخا۔
’’ارے جگر! ’’یوم ِ مجنوں ‘‘ ہو یا ویلنٹائن ڈے ‘‘ کسی کے گھر جا کر علی الاعلان نہیں بلکہ چوری چھپے کرنے والے کام ہیں ۔ سرِ عام کروگے تو یہی ہو حال ہو گا۔ تو کیا سمجھ رہا تھا کہ ’’ یوم ِ مجنوں ‘‘ منانے پر تمھیں پھولوں کے ہارپہنائے جائیں گے ۔ ‘‘سبحان نے اس کو آئینہ دکھایا۔
’’ ویسے یار! ہم وہی کام چھپ کر کرتے ہیں جو غلط ہو ،تو کیا یہ ویلنٹائن ڈے منانا بھی غلط ہے۔‘‘عدیل نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ ہے تو غلط، اب ہم مانیں یا نہ مانیں،انجوائے منٹ کہہ کر گزر جائیں یا کچھ اور ،مگر حقیقت حقیقت ہی رہے گی۔‘‘ سبحان نے کندھے اُچکا کر پتے کی بات کی۔
ماجد رانا ان کی باتوں کے جواب میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ہونٹو ںسے آہ و بکا کے علاوہ کچھ نہیں نکل رہا تھا۔ البتہ ایک بات اس کی سمجھ میں بہت اچھی طرح آگئی تھی کہ ویلنٹائن ڈے ہو یا یوم ِ مجنوں ، تجدیدو اظہار ِ محبت کا ہر وہ طریقہ جو ہمارے معاشرے اور دین کے اُصولوں کے خلاف ہو وہ غلط ہے اور اس میں اسی طرح پٹنے کا اندیشہ ہے۔
٭٭