یہی داغ تھے : تیسرا حصہ
’’جو بھی بات ہے بنا ڈرے بنا جھجھک کے بتائیں۔۔‘‘ اسکے مضبوط لہجے پر اسکی ڈھارس بندھی۔
’’ہیو فیسڈ ورسٹ لیول آف حراسمنٹ۔۔۔‘‘ اس سے آگے کچھ بولا نہیں گیا۔آنسوؤں کا گولا تھا جو گلے میں اٹک گیا تھا۔وہ کچھ لمحے سن سا بیٹھا رہا۔ یہ شاید آخری چیز تھی جو وہ معظم سے ایکسپیکٹ کر رہا تھا۔
بنا کچھ کہے اسنے اسے آہستہ سے ساتھ لگایا۔ وہ اب ہچکیوں میں رو رہی تھی۔
’’آئی کڈ۔ میں کبھی بول نہیں سکی ۔۔۔ میرے بھائی پہلے ہی میری وجہ سے جیل میں تھے ۔۔۔۔اس۔۔۔۔اس معاملے میں بھی میری کوئی غلطی نہ تھی پھر بھی سب نے مجھے بدکردار کہا ۔۔۔ میں نے بہت suffer کیا اس جاب کے لیےمگر ادھر آکر بھی وہی سب فیس کرنا پڑا ۔۔۔ کس منہ سے میں کہتی بتاتی کسی کو ۔۔۔ فیملی کو پھر سے میں ہی غلط لگتی ۔۔۔اور یہ جاب بھی میرے لیے ہر صورت ضروری تھی مگر معظم شاہ کی ڈیمانڈز میں پوری نہیں کرسکی ۔۔۔۔ اسنے مجھے تماشہ بنا کر رکھ دیا۔۔۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر ٹوٹےہوئے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بتا رہی تھی ۔ جبکہ ہونٹوں کو زور سے بھینچے وہ ضبط کی آخری حد تک تھا۔
’’ایک اتنی اہم پوسٹ پر ہوکر بھی میں کوئی سٹینڈ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔۔۔ میرے پاس کوئی نہیں تھا۔۔۔ کوئی بھی نہیں جس سے میں سب کہہ سکتی۔ جس لڑکی پر پہلے ہی الزام ہوکہ اسکا بھائی اسکے عاشق کو مارنے پر سزائے موت کا مجرم بنا کال کوٹھری میں پڑا ہے ۔۔۔ وہ کس منہ سے کہے کہ اسکو ہراساں کیا جارہا ہے۔۔۔۔‘‘ شدت گریہ سے اسکی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔
’’مسیجز،کالز،وڈیوز ، دفتر میں بلانا ،بہانے بہانے سے، بلیک میلنگ۔۔۔ مجھے نہیں پتہ ان سب چیزوں پر میرے سائن کہاں سے ہوگئے ۔میں نے کرپشن نہیں کی کوئی بھی کبھی بھی۔‘‘ اسکے آنسوؤں سے اسکی شرٹ بھیگ چکی تھی ۔
’’اپنے بھائی کے لیے۔۔۔ اپنی فیملی کے لیے میں نے سب برداشت کیا، زبان بند رکھی۔‘‘ اسکا سانس اکھڑ رہا تھا ۔ عمر نے جھک کر آہستہ سے اسکی آنکھوں پر ہونٹ رکھے تھے بہت نرمی سے۔
’’بس کافی ہے۔۔۔‘‘ سوال بہت تھے ابھی اسکے ذہن میں مگر وہ اسے مزید تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا ۔ اپنا چہرہ اسکا شدت ضبط سے سرخ ہوگیا تھا۔
’’مجھے مزید کچھ نہیں جاننا ۔۔۔ نہ ہی ضرورت ہے۔‘‘ اسکےبالوں کو پیچھے کرتا وہ اسکا سر سہلا رہا تھا۔
’’مجھے پہلی بار اپنے مرد ہونے پر شرمندگی ہوئی ہے۔۔۔‘‘ اسکے لہجے میں غصہ، بے بسی، افسوس اور شرمندگی تھی۔
’’اور وعدہ کرتا ہوں آپ سے آپکو انصاف ضرور ملے گا ۔ اس آدمی کو اسکا انجام اسی دنیا میں دیکھنے کو ملے گاانشااللہ۔‘‘ اسنے اس سے زیادہ یہ وعدہ خود سے کیا تھاجو سب کہہ دینے کے بعد اب کچھ پرسکون لگ رہی تھی۔
’’ثبوت میرے خلاف ہیں ۔ میری جاب نہیں بچے گی آئی نو ۔ مجھے اب ضرورت بھی نہیں اس جاب کی ، میں صرف آپکو کلیئر کرنا چاہتی تھی سب۔‘‘ آنسو پونچھتی وہ قدرے سائیڈ پر ہوئی۔
’’کچھ نہیں ہوگا آپکی جاب کو ۔ سی ایس ایس کوئی مزاق نہیں ہے ۔لوگ ساری زندگی لگا دیتے ہیں اسے کلیئر کرنے میں ۔ آپ ایسا کچھ طے نہ کر کے بیٹھیں ۔سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔جس بھی حد تک مجھے جانا پڑا میں جاؤں گا۔‘‘ اسکے لہجے کی ضد اسنے پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔ وہ چپ چاپ اسکے کھڑے نقوش کو دیکھ رہی تھی جو خاصے تنے ہوئے تھے ۔ حادثاتی طور پر وہ اسکی زند گی میں آیا تھا اور بس اب وہی ایک ہی تھا اسکی زندگی میں ۔ کیا واقعی اسے اسکی ہر تکلیف کا ازالہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اسکے یوں دیکھنے پر وہ نرمی سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
’’آپ سوجائیں جا کرآرام سے ۔ بھول جائیں سب۔‘‘ اسکے کہنے پر وہ کھڑی ہو گئی۔
’’آپ سوجائیں کمرے میں، تھکے ہوئے ہیں۔میں ادھر ہی سو جاؤں گی۔‘‘ وہ ہونٹ چباتی صوفہ سیٹ کرنے لگی۔ اسکی بات پر اسنے مسکراہٹ دبائی۔
’’میں واپس جارہا ہوں ۔ اسکینڈل افورڈ نہیں کرسکتا۔‘‘ اسکے شرارتی لہجے سے ماحول کی سنجیدگی کافی حد تک کم ہوگئی تھی۔
’’میں نے تو ویسے ہی کہا تھا۔‘‘ وہ شرمندگی سے انگلیاں مسلتی بولی جبکہ وہ بمشکل سفید دوپٹے میں اسکے چمکتے چہرے سے نظریں ہٹاتا کھڑا ہوا۔
’’آئی نو مگر میرا جانا ضروری ہے ۔ کچھ گیسٹ ڈی سی ہاؤس میں ہی ہیں ۔اس لیے میرا وہاں ہونا بہت ضروری ہے ۔‘‘ رات کے اس پہر اسے چھوڑ کر جانا اسکے لیے کس قدر مشکل تھا کاش وہ بتا سکتا ۔ اسے لاک کرنے کاکہہ کر ، خیال رکھنے کی نصیحت کرتا وہ اسکے چاندی بنے وجود سے دامن بچاتا تیزی سے وہاں سے نکلا تھا جبکہ دروازہ لاک کرتی وہ الجھی سی اپنے اندر پھیلتی اداسی کو محسوس کر رہی تھی ۔ فلیٹ کا خالی پن یکدم بہت بڑھ گیا تھا۔
٭…٭…٭
اگلی صبح وہ اعتماد سے سب انتظامات دیکھتی وقت پر وہاں موجود تھی ۔
وہ بے انتہا خوش ہوا تھا اسکو وہاں ایسے دیکھ کر ۔جبکہ اسنے ایک نگاہ غلط بھی اسپر نہیں ڈالی تھی ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ گریز اسکے امیج کے لیے ہی کیا جارہا ہے مگر یہ بے نیازی اور ایٹی ٹیوڈ اس پر سوٹ بھی بہت کرتا تھا ۔ اسکے برعکس اسے اپنی نگاہوں کی سمت پر قابو پانا کافی مشکل لگ رہا تھا۔
معظم شاہ کو اسکی طرف دیکھتا پا کے اسکے تن بدن میں گویا آگ لگ گئی تھی۔ فاطمہ کا روتا ہوا چہرہ بار بار اسکی نظروں کے سامنے آجاتا تھا ۔مگر وہ طیش میں آکر کوئی بھی معاملہ خراب کرنا اسکی پرسکون فطرت کے خلاف تھا ۔ وہ بہت ٹھنڈے مزاج سے مخالف کو بے خبری کی موت مارتا تھا ۔پہلی دفعہ اسے اپنا غصہ آوٹ آف کنٹرول ہوتا محسوس ہورہا تھامگر وہ ضبط کر رہا تھا۔
لنچ ٹائم میں اسنے نیا موبائل معظم کو گفٹ کیا۔
’’یار اسکی ضرورت نہیں ۔ مجھے وہی موبائل چاہیئے وہ میرا پرسنل سیل ہے۔۔میرا بہت ڈیٹا ہے اسمیں۔‘‘ معظم نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ بھی ٹریس کروارہے ہیں مگر سم آف ہے اور یہ تو بس ایک تحفہ ہے ۔ دوست کے پاس آئے ہو پہلی دفعہ ۔ایسے تھوڑی جانے دے سکتا۔‘‘ اسکی آواز پاس سے گزرتی فاطمہ کے کانوں میں بھی پڑی تھی۔پتہ نہیں وہ کیا کررہاہے معظم کے ساتھ۔کس شیشے میں اتار رہا۔ وہ الجھی سی تھی۔
’’سنیں فاطمہ۔‘‘ اسکی آواز پر وہ بے اختیار اچھلی۔
’’جی؟‘‘ اسنے حیرت سے دیکھا ۔ معظم کی غلیظ نظریں اسکے صبیح چہرےپر جمی تھیں۔
’’آج رات قوالی نائٹ کا اہتمام کیا ہے سٹیڈیم میں ہمارے معزز مہمانوںکے لیے۔ آپ وہاں کے انتظامات دیکھیں جاکر۔‘‘ وہ مزید اسے معظم کے سامنے برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔ اس لیے سختی سے ہدایات دے رہا تھا جبکہ وہ اسکے کہنے پر فورا یس سر کہتی وہاں سے غائب ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
ایبٹ آباد کی تقریبا ساری اشرافیہ اس قوالی نائٹ میں مدعو تھی ۔ وسیع و عریض ہال بڑی دلکشی اور خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔ تمام انتظامات کے بعد وہ ایک آخری جائزہ لیتی نظر ہال پر ڈال رہی تھی جب ضویا اسکےپاس آئی تھی ۔ وہ ریونیو آفیسر کے طور پر ڈپٹی کمشنر آفس میں پوسٹڈ تھی اور فاطمہ کی اس سے اس سارے عرصے میں اچھی خاصی ہیلو ہائے ہو چکی تھی۔
’’میرا خیال ہے اب ہمیں بھی چلنا چاہیے تھوڑا ہی ٹائم بچا ہے ۔ ‘‘ اسکے تیز تیز کہنے پر وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’ہم نے کہاں جانا ہے؟‘‘ اسنے نا سمجھی سے پوچھا۔
’’چینج کرنے ۔ اور کیا ایسے ہی شرکت کریں گے ہم۔‘‘ اسنے اسکے سیاہ عبایہ اور اپنے سمپل سے سوٹ کی طرف اشارہ کیا۔
’’بہت بڑی تقریب ہے ۔بہت اوڈ لگیں گے۔‘‘ وہ فکرمند تھی ۔ فاطمہ کو اپنا آپ یاد آیا ۔وہ بھی ایسی ہی تو تھی ۔ہر تقریب کے حساب سے سب سے اچھی ڈریسنگ فیشن کا جنون ہوتا تھا اسے۔
’’تم کر آؤ چینج ۔میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔‘‘ فاطمہ نے آہستہ سے انکارکر دیا تھا مگر اسنے اسکی ایک نہیں سنی تھی اور زبردستی اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ لائٹ گرین کلر کے کرتا پاجامہ میں بڑا سا دوپٹہ دونوں طرف پھیلائے بالوں کو پونی میں مقید کیے ہال میں پہنچ گئی تھی ۔ ضویا اب تک نہ پہنچی تھی ۔ عمر کی اندر آتے ہوئے اسکے باہر لان میں کھڑے روشنیاں بکھیرتے وجود پر نظر پڑی تھی ۔ وہاں کی گہما گہمی میں وہ سب سے نمایاں ہو رہی تھی۔
سادہ ،باوقار ، خوبصورت ۔۔۔ اسکے ذہن میں یہی الفاظ آئے تھے ۔ وہ اپنے بڑھتے قدموں کو روک نہیں سکاتھا جبکہ اسکو ادھر آتا دیکھ کر وہ قدرے کنفیوژ ہوگئی تھی ۔
’’چینج کیوں کرلیا آپ نے۔‘‘ اس کے گہرے لہجے پر وہ سراسیمہ سی اسے دیکھنے لگی ۔ وہ کچھ ستائشی فقرے سننے کی امید لگائے بیٹھے تھی مگر اس کی اس بات پر وہ ساکت ہوگئی تھی۔
’’تو کیا ان کو لگ رہا کہ میں معظم کو دکھانے کے لیے تیار ہوئی ہوں۔ پہلے کبھی ہوئی جو نہیں، آخر ہے تو مرد ہی سوچ تو آجاتی ہے۔‘‘ اس خیال کے آتے ہی اسنےآنکھوں میں جمع ہوتا پانی پلکیں جھپک جھپک کر چھپانے کی ناکام کوشش کی۔
’’فاطمہ۔‘‘ اس کے اس طرح کے ریسپانس اور آنسوؤں پر وہ گھبرا گیا تھا ۔ بے اختیار ہی اسکا ہاتھ تھاما جسے اسنے سرعت سے چھڑوالیا تھا۔
’’میں پہن لیتی ہوں عبایہ۔‘‘ اس سے نظریں ملائے بغیر وہ کہہ کر رکی نہیں فورا مڑ گئی اور تیز تیز قدم اٹھاتی گاڑی کی طرف بڑھی ۔ وہ پریشان ہو کر اسکے پیچھے بھاگا مگر عین اسی وقت معظم کو اندر آتا دیکھ کر اسکے قدم تھم گئے ۔ ایک زور دار مکا اسنے دیوار پر مارا تھا ۔ اب وہ اسکے پیچھے نہیں جاسکتا تھا ۔ ایسا تو میں کچھ کہا بھی نہیں ۔ وہ پریشان یہی سوچ رہا تھا ۔
’’کس بات نے آخر اسکو ہرٹ کیا۔‘‘ ہونٹ بھینچے اسنے کھا جانے والی نظروں سے معظم کو دیکھا۔
’’اس واہیات انسان کو بھی ابھی آنا تھا۔‘‘ دانت پیستے ہوئے اسنے مصنوعی مسکراہٹ سجائی اور اسے لے کر ہال میں چلا گیا ۔ تمام لوگ تقریبا پہنچ چکے تھے ۔ وہ ڈی ایس پی کو ریسیو کرنے باہر آیا جب اسے وہ بھی آتی دکھائی دی۔ سیاہ عبایہ ان اسکے وجود کو ڈھانپ چکا تھا۔
اس پر ایک نگاہ غلط بھی ڈالے بغیر وہ انجان بنی اسکے پاس سے گزر کر اندر داخل ہوگئی تھی جبکہ وہ کچھ سمجھی نہ سمجھی کی کیفیت میں کھڑا رہ گیا۔
قوالی نائٹ شروع ہوچکی تھی۔ بیورو کریسی میں ایسی سب چیزوں کو ایک سٹینڈرڈ مانا جاتا تھا ۔بڑے بڑے آفیسر جھوم رہے تھے ، انجوائے کر رہے تھے جبکہ اسکی نظریں بے چینی سے اسے ہال میں ڈھونڈھ رہی تھیں مگر ناکام رہی تھیں۔ سب کو اپنے آپ میں مگن دیکھتا وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا کھڑا ہو کر پیچھے آیا تھا ۔ آخری ستون کے پیچھے اسے اسکی جھلک نظر آئی تھی۔ وہ تیزی سے اسکی طرف آیا۔ ستون سے ٹیک لگائے وہ چپ چاپ کھڑی تھی۔
اسکے آنے پر اسنے نگاہ اٹھائی ۔ وہ ادھر ہی ساکت ہوگیا۔۔ سرخ ہوتی آنکھیں، وہ یقینا روئی تھی۔
’’فاطمہ۔‘‘ اسکے لہجے میں بے قراری حد سے سوا تھی۔
’’کیا ہوا ہے آپکو۔‘‘ وہ پریشان ہو کر پوچھ رہا تھا۔
’’کچھ نہیں ۔‘‘ اسنے سرد لہجے میں جواب دیا ۔
’’میری کوئی بات بری لگی ہے آپکو؟‘‘ عمر کے کہنے پر اسنے بڑی تیکھی نظر اس پر ڈالی تھی ۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ اتنے انجان نہ بنیں۔
لوٹ لیتے ہیں یہ مسکرا کر
ان کی چالوں سے اللہ بچائے
حسن والوں سے اللہ بچائے
قوال ایک لے میں اس فقرے کی گردان کر رہا تھا۔
’’یار میں تو کوئی بات ہی نہیں کی ۔ صرف اتنا کہا کہ چینج کیوں کیا۔ میں تو ویسے ہی گھائل ہوں ۔ یہ تو ابھی کہنا تھا میں۔۔۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ ایکدم رکا۔ پھر کچھ سوچتی ہوئی نظر اسنے اس پر ڈالی جو قدرے رخ موڑ کر کھڑی تھی ۔ سیاہ سکارف میں اسکی سائیڈ پوز سے نظر آتی سرخ ہوتی ناک دیکھ کر اسنے بے اختیار ہی سر پکڑا ۔
’’جتنا میں میچور سمجھتا تھا نہ آپکو ۔۔۔ اتنا ہی آپ مجھے غلط ثابت کرنے پر تلی کوئی ہیں۔‘‘ اب کہ اسکا لہجہ سنجیدہ تھا۔
’’میں ایسا آدمی نہیں ہوں فاطمہ ۔۔۔ آپ تو بہت جلدی اعتبار کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔‘‘ اسکے لہجے کی خفگی پر وہ مڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور ہوئی ۔ بلیک کلف لگی شلوار قمیض پر بلیک ویسکوٹ ۔ اتنا شاندار سا بندہ تھا پھر بھی اسکے پیچھے خوار ہوتا پھرتا تھا ۔ اسے اپنے رویے کی تلخی کا بڑی شدت سے احساس ہوا۔
’’یہ کم ازکم آخر پابندی ہوگی جو میں لگاؤں گا آپ پر کہ آپ سے اپنی مرضی سے پہننے اوڑھنے کا حق چھین لوں کسی شک کی بنیاد پر۔‘‘ وہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا اور یہ اب اسے ضروری لگا تھا ورنہ وہ ہمیشہ اسے جج کرتی رہتی۔
’’آپ کو لگتا ہے کہیں سمجھوں گا کہ یہ تیاری کسی کے منفی جذبات اور ذہن کی غلاظت کو ابھارنے کے لیے کی گئی ہے؟ اتنا منفی کیسے سوچ لیتی ہیں یار آپ۔‘‘ وہ قدرے غصے میں آگیا تھا مگر وہاں گرتے ٹپ ٹپ آنسو ۔۔۔ وہ پشیمان لگ رہی تھی ۔ جس طرح کے حالات سے وہ گزر کر آئی تھی ایسا سوچنے میں وہ حق بجانب بھی تھی ۔ خود کو سمجھاتے ہوئے اسے ہمیشہ کی طرح خود ہی پیش قدمی کرنا پڑی تھی۔
’’کیوں خود کو اور مجھے تکلیف دیتی ہیں۔‘‘ اب کہ اسکا لہجہ نرم مگر جذبات کی شدت سے بوجھل تھا۔
’’سوری۔‘‘ وہ رندھے ہوئے لہجے میں بمشکل بولی۔
’’ایک تو یہ آپکی بن بادل برسات۔ ادھر تو میں چپ بھی نہیں کروا سکتا۔‘‘ اسکے شرارتی لہجے پر وہ تیزی سے آنسو صاف کرنے لگی۔
’’رئیلی سوری ۔ میں نے آپکو بھی بہت پریشان کردیا ۔ میں ٹھیک ہوں اب ۔ آپ پلیز گیسٹس کو ٹائم دیں۔‘‘ وہ اب مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی مگر اسکی اندر اترتی گہری نظروں سے نظر پھر بھی نہیں ملا رہی تھی۔ اس اجتیاط پر وہ ہلکے سے مسکرایا۔
ہر بلا سر پر آجائے لیکن
حسن والوں سے اللہ بچائے
وہ قدرے اسکی طرف جھک کر بے بسی سے گنگنایا ۔پھر اسکے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھتا سیدھا ہوگیا اور گال تھپتھپاتے ہوئے وہاں سے چلا گیاجبکہ وہ دل کی تیز ہوتی دھڑکن اور چہرے سے نکلتی تپش کو ہاتھ رکھ کر کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
٭…٭…٭
رات کے ڈھائی بجے وہ سب فری ہوئے تھے ۔ سب کو وہیں سے روانہ کرتا وہ خدا حافظ کہہ رہا تھا ۔ ٹریننگ سیشن اسکی توقع سے بھی زیادہ اچھے سے مینج ہوگیا تھا ۔ اسے سیکرٹری صاحب اور اعلی حکام کی طرف سے خصوصی اسناد سے نوازا گیا تھا اس لیے اختتامیہ پر وہ بے حد خوش تھا ۔ سب کے جانے کے بعد اسنے ایک دفعہ سوچا کہ فاطمہ کے پاس چلا جائے فلیٹ پر مگر پھر آج کی تھکاوٹ کے باعث اسنے ڈرائیور کو ڈی سی ہاؤس جانے کا حکم دیا ۔ابھی وہ آدھے راستے میں تھا جب ’’موبائل پرفاطمہ ڈرائیورکالنگ ‘‘ دیکھ کر اسنے فوری کال اٹینڈ کی تھی۔
’’ایک گاڑی RP.2341 نمبر پلیٹ کے ساتھ مسلسل ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ میں بہت ڈاج دیا مگر وہ پھر بھی پیچھے ہے۔ بی بی کو اب کیا چھوڑ دوں فلیٹ پر یا نہیں۔‘‘ دوسری طرف سے بہت آہستہ مگر مودب انداز میں بتایا گیاجبکہ گاڑی کا نمبر سن کر اسکا منہ سرخ ہوا تھا اور ضبط کے مارےہاتھوں کی رگیں ابھر آئی تھیں ۔ معظم اپنی غلاظت سے باز آنے والا نہیں تھا۔