یہی داغ تھے : تیسرا حصہ
تین دن سے وہ مسلسل بارہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی ایبٹ آباد میں ہونے والی دو روزہ ٹریننگ سیشن کے انتظامات میں اس قدر مصروف رہا تھا کہ اس سے مزید کوئی بات ہی نہیں ہوسکی تھی ۔ رات گئے وہ فری ہوتا تھا، آتے جاتے بس آفس میں اس کا حال چال پوچھ لیتا تھا اور بس ۔ تمام تحصیلوں کے اے سی صاحبان بھی انہی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ فاطمہ کے ذمے بھی اس نے کافی کام لگائے ہوئے تھے تاکہ وہ مصروف رہے اور وہ بڑے پروفیشنل طریقے سے ساری مینجمنٹ کر رہی تھی ۔ آج ٹریننگ کا پہلا روز تھا ۔ آج کا سیشن انہوں نے فائیو سٹار ہوٹل میں رکھا تھا ۔ سیاہ ٹو پیس میں خوشبوئیں بکھیرتا وہ نو بجے وہاں موجود تھا تاکہ تمام انتظامات کا جائزہ لے سکے مگر وہ اس سے بھی پہلے وہاں پہنچی ہوئی تھی ۔
وہی سیاہ عبایہ ، سیاہ سکارف جس میں وہ کوئی یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ لگتی تھی ہمیشہ۔۔۔ صبح صبح اسے وہاں دیکھ کر اس کے سارے وجود پر ہی بہت خوشگوار سا اثر پڑا تھا ۔ کچھ لوگوں کی صرف موجودگی ہی کافی ہوتی ہے آپ کے موڈ کو خوشگوار بنانے کے لیے ۔ وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ مڑی۔
’’وعلیکم اسلام۔‘‘ بڑی سنجیدگی سے جواب آیا تھا۔
’’کیسی ہیں؟‘‘ اس نے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔
’’فائن۔‘‘ یک لفظی جواب ہی آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ، پی اے اسکی طرف آیا تھا۔
’’سر ! ایک دو گیسٹ پہنچ چکے ہیں۔‘‘ اسکے بتانے پر وہ اسے باقی انتظامات ایک دفعہ دیکھنے کی ہدایت کرتا دوبارہ اسکی طرف مڑا تھا۔
’’آئیں ریسیو کریں ان کو ۔‘‘ کہتا ہوا وہ بیرونی دروازے کی جانب بڑھ بھی گیا تھا جبکہ وہ جو انکار کرنے کا سوچ رہی تھی اسکے اس طرح حکم صادر کرنے پر جھنجھلاتی ہوئی اس کے پیچھے گئی جہاں وہ باقی تینوں اے سی کے ساتھ استقبالیہ پر موجود تھا ۔ وہ خاموشی سے ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئی مگر پہلی ہی گاڑی سے نکلتے شخص کو دیکھ کر اس کے رنگ اڑ گئے تھے جو گرمجوشی سے اس سے معانقہ کر رہا تھا ۔ فاطمہ کے دل کی دھڑکن بے حد تیز ہوگئی تھی ۔ اس سے ملنے کے بعد اس نے طنزیہ نظر فاطمہ کی طرف ڈالی تھی۔
’’ان کو کیا فری نہیں کیا آپ نے اب تک؟‘‘ اسکے لہجے میں چھپی حقارت ۔۔ وہ فاطمہ کی طرف اشارہ کر کے پوچھ رہا تھا ۔ عمر نے ایک نظر اس پر پھر فاطمہ پر ڈالی تھی جس کا رنگ اسے پیلا پڑتا محسوس ہوا تھا۔
’’کردیں گے فری بھی، ابھی انکوائری چل رہی ہے۔‘‘ وہ عام سے لہجے میں بولا مگر اس کی نظریں معظم شاہ پر تھیں۔
’’حیرت ہے اتنے ثبوت ہونے کے بعد بھی چل رہی۔‘‘ اس کی ذات کو وہ بہت آرام سے موضوع گفتگو بنا رہا تھا ۔ وہاں سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ غصے، بے بسی اور اپنی کم ہمتی پر اسے بے اختیار رونا آیا۔
’’تمہاری تو جان چھوٹ گئی پھر تمہیں کیا ٹینشن ہے ۔ ‘‘ عمر بڑی بے تکلفی سے کہہ رہا تھا ۔وہ بے یقین سی ہو کر اسے دیکھ رہی تھی، کہیں نہ کہیں اسے لگتا تھا کہ وہ اسکے حق میں بات کرے گا مگر…
’’معظم شاہ میرا بہت اچھا دوست ہے، اگر اس نے آپ کے بارے میں یہ سب لکھا ہے تو ٹھیک لکھا ہے۔‘‘ اسے عمر کی بات یاد آئی تھی۔
مجھے تو کوئی ٹینشن نہیں مگر میں چاہتا میرے دوست کو بھی کوئی ٹینشن نہ رہے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتا ہوا اندر بڑھ گیا ۔ باقی سب بھی اس کے ساتھ ہی چلے گئے تھے ۔ جبکہ وہ ذلت، توہین ، بے عزتی بے بسی کے احساس میں گھری وہیں کھڑی تھی ۔ شدت جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا ۔ تو یہ شخص چنا تھا مسکین بھائی نے اس کے لیے ۔ اس آدمی نے یقینا معظم شاہ کا بدلہ لینے کے لیے اس سے نکاح کیا ہے یا پھر یا پھر وہ بھی اسکے ہی جیسا ہے ۔۔ جس نے آج مجھے ذلیل کردیا، جو سب کے سامنے مان رہا کہ میں قصوردار ہوں وہ کیوں مجھ سے شادی کرے گا۔۔۔ وہ دس لاکھ بھی اس نے مجھے کوئی ایسی لڑکی سمجھ کر ہی دیئے اور میں نے بیوقوفوں کی طرح اعتبار کر لیا ۔سوچوں کی ریلی تھے جو اسے پاگل کر رہی تھی ۔ یہ تھی اسکی زندگی۔۔۔ ایک عذاب سے پھنس کر دوسرے میں۔ نہ گھر رہا تھا، نہ رشتے، نہ کوئی مان۔۔۔۔
اس سے بہتر تھا کہ وہ مرجاتی ۔آنسو پونچھتی وہ گویا کسی نتیجے پر پہنچی اور تیزی سے باہر کو طرف بڑھی ۔اس سب سے مرجانا بہتر تھا ۔زندگی میں کون سا سکون تھا ، یہاں بھی جہنم آگے بھی جہنم ۔ وہ خود اذیتی کی انتہا پر تھی۔
٭…٭…٭
مرنے کے لیے بھی زندگی سے بیزار ہونا پڑتا ہے ورنہ اس دنیا کو چھوڑنے کا کس کا جی چاہتا ہے ۔ گالوں کو رگڑتکر اس نے گاڑی کو زیادہ سے زیادہ سپیڈ دی تھی ۔ فون بج رہا تھا مگر اسے مطلق پرواہ نہ تھی ۔ اسے مزید اس کھیل کا حصہ نہیں بننا تھا ۔ گاڑی فل سپیڈ پر آگے بڑھ رہی تھی جب فائر کی تیز آواز پر اس کے ہاتھ سے اسٹیئرنگ چھوٹا تھا ، گاڑی نے ہچکولا کھایا زور سے، اس نے فورا سے پہلے بریک پر پاؤں کا دباؤ بڑھایا دیا تھی ۔ فائر گاڑی کے ٹائرز پر ہوا تھا یقینا ۔ گاڑی کی طرف دوڑتے قدموں کی آواز پر اس نے شیشے لاک کر دیئے تھے۔
’’کھولو فورا۔‘‘ باہر سے ہلکی سی آواز اس کے کانوں تک آرہی تھی مگر وہ گونگی بہری بن کے بیٹھی رہی ۔جوابا اسے لاک توڑنا پڑا تھا ۔ اب وہ اسے دیکھ رہا تھا جو بے تاثر بیٹھی تھی سامنے شیشے پر نظریں جمائے ۔ عمر شہزاد کی طرف دیکھے بغیر بھی وہ جانتی تھی کہ اس کے کانوں سے اس وقت غصے سے دھواں نکل رہا ہے مگر وہ گارڈز کی وجہ سے ضبط کر رہا تھا۔
’’آپ اتریں گی یا اس کے لیے بھی میں کوئی حل نکالوں۔‘‘ اس کی آواز پر وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہوئی تھی ۔ غصے کی سرخی کے ساتھ اس کے چہرے پر خوف کی واضح لکیر تھی جو مدھم ہو چکی تھی ۔ وہ عجیب تھکا ہوا، ہارا سا لگ رہا تھا۔
وہ چپ چاپ اتر آئی تھی ۔ گارڈز کو ہدایت دیتا وہ اسے گاڑی کی طرف لے کر بڑھا تھا ۔ کتنا پریشان کرتی تھی یہ لڑکی اسے ۔ ڈرائیور کے بتانے پر وہ سیشن ، گیسٹ، اپنا امیج، تین دن کی دن رات کی محنت ہر چیز بھولتا اس کے پیچھے بھاگا تھا ۔ ابھی تک اس کے دل کی دھڑکن غیر مری ہوئی تھی ۔ اگر اسے کچھ ہوجاتا۔۔۔
یہ سوچنا بھی اسقدر تکلیف دہ تھا کہ وہ باوجود کوشش کے اس خوف سے باہر نہیں آسکا تھا۔
’’اس حرکت کا مقصد جان سکتا ہوں میں؟‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی برسا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔ لٹھ مار جواب آیا تھا ۔ اس نے بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا اور خود کو ریلیکس کیا۔
’’زندگی سے اس قدر ناشکری کوئی اچھی چیز نہیں ہے ۔‘‘ وہ اب ٹھنڈے لہجے میں کہ رہا تھا۔
’’آپ کو اندازہ بھی ہے کہ میں کس طرح یہاں تک پہنچا ہوں، اگر کچھ ہوجاتا پھر ۔‘‘ اس نے معاملے کی سنگینی اس کے سامنے رکھی۔
’’بہت اچھا ہوتا ، آپ آئے ہی کیوں ۔۔۔ جو بھی آپ کے مقاصد ہیں ، میں ہرگز آپ کو ان میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی ۔ سمجھے آپ۔‘‘ اس کے غصے پر وہ حیرت سے اس کو دیکھنے لگا ۔
’’آپ کا واقعی کوئی نفسیاتی ایشو ہے یا جان بوجھ کر کرتی ہیں۔‘‘ اب کہ اسکا لہجہ حیرت کے ساتھ ساتھ شرات لیے ہوئے بھی تھا۔
’’جو سمجھنا چاہتے شوق سے سمجھیے ۔‘‘ اس نے تڑخ کے جواب دیا اور رخ موڑلیا۔
’’ویسے ایک چیز کی تو داد بنتی ہے آپ کو ۔۔۔ واقعی بے حد باذوق خاتون ہیں آپ ۔۔۔ موقع کی مناسبت سے رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔‘‘ اس نے فاطمہ کے سیاہ عبایہ اور خودکشی پر چوٹ کی۔
’’شٹ اپ ۔‘‘ اس کی برداشت جواب دے گئی تھی۔
’’بدتمیز بھی بہت ہیں آپ ۔۔۔ ذرا جو شوہر سے بات کرنے کی تمیز ہو ۔ یہی اگر چک نمبر ایک سو بتالیس کی کسی لڑکی سے کرتا نا شادی ، آگے پیچھے پھرتی وہ میرے ۔‘‘ وہ باز آنے کی بجائے افسوس کر رہا تھا ۔
’’ابھی تو گنجائش ہے تین کی، لے آئیں چک نمبر ایک سو بتالیس سے بھی ایک اعلی نمونہ ۔‘‘ اس کا لہجہ اب آنسوؤں کی آمیزش لیے ہوئے تھا ۔ اور یہیں وہ ہارتا تھا ۔ بہرحال اسے روتا دیکھنا اس کے بس سے باہر تھا ۔
’’معظم شاہ میرا دوست ہے فاطمہ ! آپ کا ایکس باس وہ بعد میں ہے میرا دوست پہلے ہے ۔ میں آپ کی سپورٹ میں کچھ کہہ کر اسے شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔ یہ بات آپ کو سمجھنی چاہیے۔۔۔‘‘ اس کے سنجیدہ لہجے پر اب وہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھی ۔ آنسو گالوں پر ویسے ہی تھم گئے تھے۔
’’پر آپ نے ابھی تک اس معاملے میں ٹرسٹ نہیں کیا نہ ہی کچھ شیئر کیا مگر پھر بھی آپ مجھ سے چاہ رہی ہیں کہ میں اس آدمی کو جواب دوں ۔‘‘ اب کہ اس کے لہجے میں شکوہ بھی تھا ۔ گویا وہ سب جانتا تھا کہ اسے کیا برا لگا ہے ۔
’’ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کہ کوئی میرے لیے جواب دے۔ میں خود دے سکتی ہوں جواب۔‘‘ خفا لہجے میں کہتی وہ اپنی ذات کے عیاں ہونے پر ماننا بھی نہیں چاہ رہی تھی ۔ گہری سانس بھرتا وہ گاڑی فلیٹ کے سامنے پارک کرنے لگا۔
’’جاؤ اندر اور دوبارہ ایسی حرکت کا سوچنا بھی نا۔‘‘ اسکے سختی سے کہنے پر اس نے میکانکی انداز میں سر ہلایا جبکہ اس فرمانبرداری پر وہ اپنی مسکراہٹ نہیں چھپا سکا۔
’’کیا چیز ہیں آپ ۔۔۔‘‘ اس نے بمشکل خود کو کسی پیش قدمی سے باز رکھا۔
’’وہ ٹریننگ۔۔۔ آپ کو کچھ کہیں گے تو نہیں سب؟‘‘ اس کی فکرمندی پر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
’’ان کا تو پتہ نہیں مگر دو منٹ آپ نے مزید ایسے بات کی تو میں یہاں سے جا نہیں پاؤں گا۔‘‘ گھمبیر آنچ دیتا لہجہ۔۔۔ فاطمہ نے فورا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔
اخلاقیات کی بھی کمی ہے کافی۔ خداحافظ بھی نہیں کہا۔‘‘ وہ جزبز ہوتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا مگر ہونٹوں پر مسلسل مسکراہٹ تیر رہی تھی۔
٭…٭…٭
سیشن ختم ہوتے ہی اسکی توقع کے عین مطابق معظم شاہ اسکے پاس آیا تھا۔
’’تمہاری اسسٹنٹ نظر نہیں آرہی ۔‘‘ اس نے گویا پوچھا سرسری لہجے میں تھا مگر عمر شہزاد کی گہری نظریں اسکے اندر جھانک رہی تھیں ۔کھوجتی ہوئی۔۔۔
’’تم نے اس سے کیا کہنا ہے ۔کوئی پیغام ہے تو مجھے دے دو ۔پہنچ جائے گا۔‘‘ وہ کہتے ہوئے نظریں اسکے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر گاڑے ہوئے تھا۔
’’تمہیں لگتا ہے کہ مجھے اس جیسی لڑکی کو کوئی پیغام دینے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔‘‘ معظم نے نخوت سے کہتے ہوئے سر جھٹکا۔
’’نہیں لگتا تو نہیں تھا مگر تمہاری دلچسپی دیکھ کر لگ رہا ہے۔‘‘ عمر کے پرسکون لہجے پر وہ کچھ چونک کر اسے دیکھنے لگا ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا پیچھے سے آتا آدمی بہت زور سے اس میں لگا اور وہ اوندھے منہ نیچے گرا ۔اس کے گرتے ہی سب انکی طرف متوجہ ہوگئے جبکہ وہ غصے سے بھرا اپنی مٹی میں لتی پتی شرٹ اور اس پر گرا جوس دیکھ رہا تھاجو ہاتھ سے گلاس چھوٹنے پر اسکی شرٹ پر گرا تھا ۔
’’ارے۔‘‘ عمر نے فورا جھک کر اسکو اٹھنے میں مدد دی اور ویٹرذز کو ڈانٹتے ہوئے اسے واش روم لے جانے کا کہا ۔ اسکے جاتی ہی اس نے سب سے معذرت کی اور سب کو ڈنر کا کہہ کر وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے موبائل جیب سے نکالا جس پر مٹی کے نشان تھے ۔ صاف کرکے اسنے سم نکالی اور موبائل آف کر کے گاڑی کی سیٹ کے نیچے دبا دیا تھا ۔ پھر ٹشو سے اچھی طرح جیب پر لگے ہلکے سے مٹی کے نشان صاف کرتا وہ باہر آیا تھا ۔۔۔۔ ہال کی طرف جاتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ دوڑ رہی تھی۔ اس کے جانے تک معظم شاہ ہال میں آچکا تھا۔
’’معظم صاب کا موبائل گم ہوگیا ہے۔۔وہ بہت شور مچا رہے ہیں۔‘‘ گارڈ کے کہنے پر وہ پریشانی چہرے پر سجائے معظم کی طرف بڑھا، جو پریشان سا سیکیورٹی آفیسر کے پاس کھڑا اسے بتا رہا تھا کہ گرنے سے پہلے اسکے ہاتھ میں تھا ۔ اسکے چہرے پر پریشانی دیکھ کر اسے یک گونہ سکون ملا تھا۔
’’جلد تمہیں ایکسپوز کروں گا معظم شاہ۔‘‘ دل ہی دل میں مصمم ارادہ باندھتا وہ سیکیورٹی آفیسر کو سب کی تلاشی لینے کا حکم صادر کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
دور کہیں سے مدھم سی آتی ڈور بیل کی آواز اسے آہستہ آہستہ نیند کی دنیا سے باہر لے کر آرہی تھی ۔ کچھ دیر بعد اسنےآنکھیں ملتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا ۔ لاؤنج کی لائٹ جل رہی تھی، نجانے کب صوفے پر لیٹی لیٹی اسکی آنکھ لگ گئی تھی ۔ ڈور بیل کی آواز جو نیند میں اسے کہیں دور سے آتی لگ رہی تھی اب گویا کان کے پردے پھاڑ رہی تھی ۔ اسنے گھڑی پر ٹائم دیکھا جو رات کے بارہ بجا رہی تھی۔
’’اس وقت ادھر کون آگیا۔‘‘ وہ پریشان سی دروازے پر آئی۔
’’کون ؟‘‘ اسنے اونچی آواز میں پوچھا۔
’’دروازہ کھولیں۔‘‘ عمر کی آواز پر اسکی جان میں جان آئی ۔دروازہ کھولتے ہی سامنے تھا وہ صبح والے ٹو پیس میں ملبوس تھا جو اب کافی سلوٹ زدہ سا ہوگیا تھا۔
’’سو رہی تھیں آپ ؟ ‘‘ اسنے بغور اسکی آنکھوں کے سرخ ہوتے کناروں کو دیکھ کر پوچھا۔
’’ہاں آنکھ لگ گئی ، پتہ نہیں چلا ۔‘‘ دروازہ بند کرتے ہوئے وہ اسکے پیچھے پیچھے لاؤنج میں آگئی۔
’’آپ اسوقت یہاں؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی ۔ اس وقت اسکو ڈی سی آفس ہونا چاہیئے تھا نہ کہ یہاں ۔
’’کیوں ،میں اس وقت یہاں نہیں آسکتا؟‘‘ صوفے پر گرتے ہوئے وہ اسکے چہرے کو فوکس میں لیتا اپنی تھکاوٹ کم کررہا تھا ۔
’’آپ کا فلیٹ ہے جب مرضی آئیں ۔ ۔میں تو آپکی وجہ سے ہی کہ رہی تھی کہ کسی نے دیکھ لیا تو آپکا سکینڈل ہی نہ بن جائے ۔۔۔ آخر اتنی احتیاط کرتے ہیں آپ۔‘‘ اسنے بھی فورا حساب چکایا تھا۔وہ بے اختیار ہنس پڑا اسکے طنز پر ۔۔۔
’’مصلحت پسند سا بندہ ہوں ۔ آپ جس طرح کی ہیرو گیری مجھ سے ایکسپیکٹ کرتی ہیں، افسوس میں ویسی ابھی شو کرنے کے پوزیشن میں نہیں ۔‘‘ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ بٹھاتے ہوئے بولا۔
’’میں بالکل بھی کوئی ہیروگیری ایکسپیکٹ نہیں کرتی ۔‘‘ اسکا ہاتھ سائیڈ پر کرتی وہ کچن کی طرف بڑھ گئی ۔تھوڑی دیر بعد وہ کچن سے پانی کے ساتھ برآمد ہوئی تھی۔
’’کچھ کھائیں گے آپ ؟‘‘ وہ اسکے تھکے تھکے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ یقینا وہ صبح سے بالکل بھی ریسٹ نہیں کرسکا تھا۔
’’نہیں میں کھانا کھا کر آیا ہوں ۔آپ نے کھایا ہے کچھ؟‘‘ وہ اس سے پوچھ رہا تھا جو گھر کے کپڑوں میں کافی کمزور سی لگ رہی تھی۔
’’ہاں میں نے کھایا تھا مگر اب بھوک لگ رہی دوبارہ ۔‘‘ وہ قدرے بے بسی سے اعتراف کر رہی تھی ۔ جانے انجانے میں اسے ہر بات ہی اسے کہہ دینے کی عادت ہوگئی تھی۔
’’تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔منگوا لیتے ہیں کچھ ۔۔‘‘ اسنے فورا آرڈر کیا تھا۔
’’ادھر آکر بیٹھیں میرے پاس ۔ مجھے کچھ باتیں کرنی ہیں آپ سے۔‘‘ اسکے گھمبیر سنجیدہ لہجے پروہ کنفیوژ سی ہوتی وہاں آکر بیٹھ گئی تھی ۔عمر نے آہستگی سے اسکا سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور انکی ٹھنڈک محسوس کرتے ہوئے دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لیا تھا ۔
’’آپ تو ہم جیسوں کو گھبرانے پر مجبور کردیتی ہیں ۔۔۔ پھر یہ اتنی ٹینشن کیوں۔‘‘ نرمی سے کہتے ہوئے اسنے اسے چھیڑا جو پوری ٹھنڈی ہورہی تھی ۔ وہ اپنے ہاتھوں کی گرمائش سے اسکو کمفرٹیبل فیل کروانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
’’آپ سیشن میں لازمی آئیں گی۔‘‘ وہ مدعے پر آیااور توقع کے عین مطابق وہ بڑھکی تھی۔
’’میں نے نہیں آنا وہاں اپنی انسلٹ کروانے ۔‘‘ اسنے زبردستی ہاتھ چھڑوایا۔
’’اتنا جزباتی کیوں ہیں آپ آخر ۔۔۔‘‘ وہ سر پکڑے پوچھ رہا تھا۔
’’میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ معاملہ فہمی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔۔۔‘‘ وہ اب افسوس کر رہا تھا مگر اس پر کوئی اثر ہوتا نہیں نظر آرہا تھا۔
’’معظم شاہ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہیں آپ؟‘‘ گہری نظروں سے اسکے تاثرات دیکھتے ہوئے اسنے پوچھا۔
’’جو پوچھنا چاہتے ہیں مجھ سے آپ پوچھ لیں ۔‘‘ نروٹھے لہجے میں اسنے جواب دیا۔
’’پوچھنا ہوتا تو بہت پہلے پوچھ لیتا ۔۔۔ میں تو انتظار میں ہوں کہ آپ خود مجھے اس قابل سمجھیں ۔۔۔ میں بالکل بھی پوچھنے پچھانے والا بندہ نہیں ہوں یار ۔ سیدہ سا سادہ سا انسان ہوں ۔ آپ کا کل کیا تھا، مجھے اس سے کوئی بھی غرض نہیں ، نہ ہی میں کسی پلڑے میں انسانوں کا ماضی دیکھ کر انکو تولتا ہوں۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتا اس وقت اسے خود پر یقین کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔
’’جب اللہ سے اپنے ہر گناہ یا غلطی ، ہر معاملے میں اپنے لیے نرمی کی توقع رکھتا ہوں تو خود بھی یہی کوشش کرتا ہوں کہ جج نہ بنوں، آسانی کروں ۔۔۔ میں نے پوری ایمانداری سے آپکو اپنی زندگی میں شامل کیا ہے اور اس رشتے کو ہر حد تک نبھاؤں گامگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم آپس میں عزت اور بھروسے کو سب سے آگے رکھیں گے۔‘‘ اسکی آواز بہت خوبصورت تھی، گھمبیر، نرم مگر سنجیدہ، قائل کرتی ہوئی۔فاطمہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو جمع ہونے لگے۔ دل چاہ رہا تھا اعتبار کرلے۔
’’معظم شاہ انسان کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے۔‘‘ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ عمر نے دوبارہ ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا تھا۔