یہی داغ تھے : دوسرا حصہ
’’اللہ اپنے نیک لوگوں پر آزمائشیں ڈالتا ہے، مایوس نہیں ہوتے ایسے ۔‘‘ وہ سر تھپکتا ہوا اسے بہلا رہا تھا، اسکے بہتے آنسوؤں میں مزید تیزی آئی تھی۔
’’ہم ملتان کے لیے نکل رہے ہیں، چلیں اٹھیں۔‘‘ اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر وہ کھڑا کر رہا تھا ۔ وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ ملتان نہیں جائے گی، وہ کیسے دیکھے گی امی کو بھابھی کو مگر اتنے میں میت کو انکے حوالے کردیا گیا تھا اور وہ ایک بار پھر ایمبولینس میں بیٹھی اپنے جان سے عزیز باپ جیسے بھائی کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر ایک سکون رقم تھا۔
’’آپ کو یقین نہیں تھا کہ میں لڑلوں گی آپ کے لیے،آپ نے ہار مان لی۔‘‘ وہ نرمی سے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی سرگوشی کر رہی تھی ۔۔۔شکوہ کر رہی تھی جبکہ عمراپنے کندھے پر اس کے ٹکے سر اور اپنی شرٹ کو متواتر بھیگتا ہوا چپ چاپ خاموشی سے دیکھ رہا تھا ۔ اس کا فون بج رہا تھا، یقینا سیکرٹری صاب پہنچنے والے تھے یا پہنچ گئے تھے مگر اس نے فون اٹینڈ نہیں کیا تھا۔ اسکی آٹھ سالہ سروس میں یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی، ورنہ وہ موسٹ پروفیشنل ڈی سی کے طور پر جانا جاتا تھا۔
٭…٭…٭
ایک کہرام تھا جو وہاں برپا ہوا تھا ۔ ہر آنکھ نم تھی، ہر دل اشکبار تھا ۔ ایک چپ تھی تو وہ تھی بس، اس نے جتنا رونا تھا رو لیا تھا سارے راستے، گھر پہنچ کر وہ بالکل خاموش تھی، چپ چاپ امی اور باقی سب کو روتا دیکھ رہی تھی۔
کیا چیز ہے زندگی، کیا سوچتے ہیں ہم، کیا ہوتا ہے ہمارے ساتھ۔
امی کی غیر ہوتی حالت پر وہ ان کی طرف بڑھی تھی مگر انہوں نے بری طرح اسکے ہاتھ جھٹکے تھے۔
’’دور ہوجاؤ، چلی جاؤ یہاں سے۔‘‘ وہ چلائی تھیں، اس نے سنبھلنے کے لیے بے اختیار ہی دیوار کا سہارا لیا تھا۔
’’ہر ایک فساد کی جڑ ہو تم، کاش تمہیں پیدا ہوتے ہی مار دیتی میں ، میرا بیٹا میرا شہزادہ مر گیا تمہاری وجہ سے۔‘‘ وہ اپنا آپا کھو چکی تھیں ۔ عورتیں مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہی تھیں جو چپ چاپ دیوار کے ساتھ لگی ان کی باتیں سن رہی تھی۔
’’چچی! جنازے کا ٹائم ہے، ایسی باتیں بعد میں کرلیجیے گا۔ ‘‘ مسکین بھائی نے انہیں سہارا دے کر میت سے پیچھے کرنا چاہا تھا مگر انہوں نے ان کے بھی ہاتھ جھٹک دیئے تھے۔
’’جنازے سے پہلے اسے کہو چلی جائے میرے گھر سے، اسے نکالو یہاں سے۔‘‘ وہ کسی طرح قابو میں نہیں آرہی تھیں۔
انہوں نے بے بسی سے فاطمہ کی طرف دیکھا تھا جو ساکت تھی ۔ عدالت لگی ہوئی تھی اور اب تو کٹہرے میں کھڑے ہونے کی اسے عادت ہوگئی تھی ۔ لوگوں کی چبھتی سوالیہ نظریں اسے اب کچھ محسوس نہیں کرواتی تھیں مگر امی کے منہ سے نکلا ہر لفظ اسے تکلیف دے رہا تھا ۔ ایک ہی بندہ تھا جو اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتا تھا اور وہ منوں مٹی تلے جا سویا تھا ۔
’’ پلیزپھپھو چلی جائیے یہاں سے۔‘‘ یہ رمنا تھی ۔ اس کے لہجے میں التجا نہیں تھی نفرت تھی۔
’’بہت ہی ڈھیٹ لڑکی ہے، پہلے عشق معاشقہ کیا ، جب بھائی نے مار دیا عاشق کو تو خود معصوم بن گئی ، وہ بیچارہ جیل چلا گیا اب مر کے ہی باہر آیا ، زندگی تو ان کی خراب ہوگئی خود تو آفیسر لگی ہوئی ۔ ‘‘ وہ اس رش میں اینڈ پر کھڑا تھا، اسےکچھ کلیئر نظر نہیں آرہا تھا مگر اس عورت کی بات پر اس نے بے اختیار لب بھینچے تھے ۔ وہ آگے جانا چاہتا تھا گوکہ اس کا کوئی حق نہیں تھا ان کے معاملات میں گھسنے کا مگر پھر بھی وہ اس کی امی سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ فاطمہ کو غلط سمجھ رہی ہیں ۔
’’یہ ناگئی تو میری بھی آج لاش اٹھے گی اس گھر سے، میں اسے دیکھوں گی اپنے سامنے تو میرا بیٹے کا خون نظر آئے گا مجھے۔‘‘ انہوں نے آخری وارننگ دی تھی ۔ وہ پانچ سال جس میں وہ ان کو یقین دلاتی رہی تھی کہ وہ انکو چھڑوالے گی وہ سب ختم ہو چکا تھا۔ اندھیرا تھا اور کچھ نہیں۔
ایک آخری نظر اس نے سفید کفن میں لپٹے اس وجود پر ڈالی تھی ۔ پھر بنا کچھ کہے رش میں سے نکل گئی تھی ۔ زندگی ہمیشہ اسے اکیلا چھوڑ دیتی تھی، تنہا۔۔۔
اس کے قدم من من کے ہو رہے تھے ۔ دروازے پر وہ کھڑا تھا ، آج کل یہ شخص اس کے ہر راستے میں آنے لگا تھا ۔ اس نے ایک خاموش نظر ڈالی تھی اس پر جبکہ وہ اس نظر پر ایک بار تو ہل گیا تھا ۔ کیا کچھ نہیں تھا اس نظر میں کرب، بے یقینی، دکھ ۔۔۔ کوئی ہارا ہوا انسان تھا جو اس کو دیکھ رہا تھا۔
’’فاطمہ۔‘‘ اس نے بلانا چاہا تھا مگر وہ سنی ان سنی کرتی باہر نکل گئی تھی ۔ وہ تیزی سے پیچھے آیا تھا۔
’’میرے پیچھے مت آنا۔‘‘ اس نے مڑے بغیر کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ اسے پیچھے جانا ہی تھا یہ تو طے تھا ۔
عمر نے فون آن کیا تھا اور آفس کے نمبرز سے آئی کالز اگنور کرتا نتاشہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
٭…٭…٭
کوئی سوئی تھی یا کوئی نوکیلی چیز،اسے بازو میں ہوتی تکلیف کے احساس سے آنکھ کھلی تھی مگر اس نے فورا ہی بند کرلی تھی ۔ کمرے میں پھیلی تیز روشنی اسکی آنکھوں میں بہت بری طرح سے چبھی تھی۔
’’مارننگ مائی گرل۔ یہ آواز نتاشہ کی تھی۔ اس نے اب کچھ حیران ہوکر آنکھیں کھولی تھیں ۔ اور پھر ارد گرد کمرے کو دیکھنے کے بعد نتاشہ کو دیکھا تھا ۔ یہ کسی ہاسپٹل کا کمرہ تھا یقینا ۔ جہاں تک اسے یاد تھا وہ آخری بار چلتے چلتے روڈ پر گری تھی۔
’’حیران ہو گئی نا کہ میں کیسے آگئی ملتان۔‘‘ وہ مسکراتی ہوئی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔
’’جیسے ہی مجھے پتہ چلا کہ تمہاری طبیعت خراب ہے، پہلی فلائٹ پکڑی اور میں ادھر ۔۔۔ تم تو اب کچھ بتاتی نہیں،ادھر ادھر سے پتہ چلتا ہے سب۔‘‘ وہ بول رہی تھی مگر اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا تھا ۔ وہ ویسے ہی لیٹی ہوئی تھی بے جان سی۔
’’بہت بہادر ہو فاطمہ۔‘‘ اس نے آہستہ سے اسکے بال پیچھے کیے تھے۔
’’بہت بری لڑکی ہوں جو ہمیشہ تم سے جھوٹ بولتی رہی اس لیے مجھے ایسا کوئی میڈل مت دو۔‘‘ وہ سفاکیت کی حد تک صاف گو ہو رہی تھی۔
’’کرموں کا پھل ہے ،مجھے کسی کی ہمدردی نہیں چاہیے۔‘‘ اس کا ہاتھ سائیڈ پر کرتی وہ ڈرپ کی سوئی ایک جھٹکے سے کھینچ کر اٹھنے ہی لگی تھی کہ دو آہنی ہاتھوں کی گرفت اس کے بازؤں پر یکدم بہت مضبوط ہوئی تھی ۔ اتنی مضبوط کہ باوجود سارا زور لگانے کے وہ مزید ہل نہیں سکی تھی۔
’’آرام سے لیٹی رہو۔‘‘ وہ تقریبا غرایا تھا ۔ اس کی آواز میں کچھ تھا کہ وہ مزید نہیں ہلی تھی۔
’’حقیقت تو کھل گئی ہے آپ کی ، مگر ہم تو انسانیت کے ناطے آپ کو ادھر لے کر آئے ہیں ، ورنہ ہمیں کوئی مصیبت نہیں آئی تھی ایسی۔‘‘ وہ سخت برہم تھا ۔اس نے پہلی بار اس شخص کو غصے میں دیکھا تھا۔
’’جہاں سے اٹھا کر لائے تھے وہیں چھوڑ آئیں مجھے ۔‘‘ اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ہم تو چھوڑ آئیں گے مگر ہاسپٹل والوں نے نہیں چھوڑنا ، کیونکہ آپکا دماغی توازن ٹھیک نہیں اس لیےآپکو ادھر ہی رکھیں گے۔‘‘ نتاشہ کے ہاتھ سے پانی کی بوتل پکڑتا وہ اس کے سرہانے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’شٹ اپ۔۔۔‘‘ بوتل سائیڈ پر کرتی وہ کھڑی ہوگئی تھی مگر سر میں اٹھنے والی ٹیسوں کے باعث پھر گر گئی تھی۔
’’بہت ضدی خاتون ہیں آپ۔‘‘ کندھوں سے پکڑ کر وہ اسے دوبارہ لٹا رہا تھا ۔ وہ بے بس سی ہوکر لیٹ گئی تھی ۔
کچھ دیر وہ ایسے ہی بے حس و حرکت لیٹی رہی تھی پھر ایک جھڑی تھی آنسوؤں کی جو آنکھوں سے لگی تھی ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی، نتاشہ بھی اسے ساتھ لگائے رو رہی تھی جبکہ وہ گہری سانس بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔ اسے اس کے حواسوں میں لانے کے لیے اس قسم کا برتاؤ ضروری تھا ورنہ وہ کبھی نہ بولتی اور کبھی نہ روتی ۔ باقی اس کو روتے دیکھنا اسے تکلیف دیتا تھا اس لیے وہ چپ چاپ باہر آگیا تھا ۔ بینچ پر بیٹھتے ہی اسے موبائل پر نوٹیفیکیشن موصول ہوا تھا اس نے کھول کر دیکھا تھا جہاں سیکرٹری صاب کی طرف سے شوکاز کا نوٹس اسے بزریعہ ای میل موصول ہوا تھا ۔ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار ایک مسکراہٹ دوڈ گئی تھی۔
’’عشق نے نکما کردیا غالب۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑاتا آفس کال ملا رہا تھا۔