یہی داغ تھے : دوسرا حصہ
نتاشہ سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ اس کی بیسٹ فرینڈ تھی مگر اس کی خودداری بار بار آڑے آرہی تھی ۔
رقم بھی تو کوئی چھوٹی نہیں تھی۔ فی الوقت اسے ہر صورت اپنی سیلف ریسپیکٹ کو سائیڈ پر کرنا ہی تھا ۔ بالآخر اس نے کال پر بات کرنے کی بجائے میسج کیا تھا ۔
’’رات کے اس پہر کیا میسج کرنا ٹھیک رہے گا۔‘‘ اس نے وقت دیکھا تھا ابھی دس بجے تھے، صبح تھا بھی اتوار تو اتنا بھی کوئی ٹائم نہیں ہوا تھا ۔ اس نے ہمت کرکے میسج ٹائپ کیا تھا۔
’’کیسی ہو؟ فری ہو کیا؟ مجھے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے پلیز!‘‘ اس نے ٹائپ کرکے کافی دیر اس میسج کو دیکھا تھا پھرہونٹ چباتے ہوئے سینڈ کردیا تھا ، میسج ڈلیور ہوگیا تھا اور فورا ہی بلیو ٹکس آگئے تھے میسج سین بھی ہو گیا تھا ، ایک لمحے کے لیے اس نے گھبرا کر فون سائیڈ پر رکھ دیا تھا۔میسج ٹون پر اس نے فون دوبارہ اٹھایا تھا۔
’’کیا ہوا فاطمہ؟از ایوری تھنگ اوکے؟‘‘ اس کا متفکر رپلائی آیا تھا ۔ اس کا جی چاہا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور اسے کہے کہ نتھنگ از اوکے۔
’’ایک ہیلپ کرسکتی ہو میری؟‘‘ اسکے گال پھر سے بھیگ رہے تھے ۔ ہاتھ پھیلانا آسان نہیں ہوتا اسے پتہ تھی یہ بات مگر اتنا مشکل ہوتا ہے یہ ابھی پتہ چلا تھا۔
’’کیا ہوا ہے، بتاؤمجھے۔‘‘ نتاشہ کا رپلائی آیا تھا، ساتھ پریشان سی ایموجی تھی۔
’’تم۔۔۔تم مجھے کچھ ٹائم کے لیے لون دے سکتی ہو، بنا کچھ بھی پوچھے پلیز!‘‘ اسے لگا تھا اس کی انگلیاں کانپ رہی ہیں ۔ اس نے دس دفعہ اس میسج کو پڑھا تھا پھر سینڈ کردیا تھا ۔ کمرے کی تاریکی یکدم ہی بڑھ گئی تھی گویا ۔ اس کا دم گھٹنے لگا تھا کمرے میں۔
میسج سین ہو چکا تھا۔ ایک لمحے کے لیے کوئی ٹا ئیپنگ کا لفظ سکرین پر نہیں آیا۔ دوسرے ہی لمحے نتاشہ کا میسج آگیا تھا۔
’’کتنے ؟‘‘ اس کے میسج پر ایک بار پھر اس کا دل بیٹھا تھا۔
’’دس لاکھ۔۔۔‘‘ تاریکی اور بڑھ گئی تھی۔ میسج سینڈ ہونے کے بعد تقریبا دو منٹ تک کوئی میسج نہیں آیا تھا ۔ اسے لگا اس کا دل پاتال میں گر رہا ہے، کیا سوچ رہی ہوگی وہ میرے بارے میں ، کیا کہے گی ۔ میں کچھ اور کرلیتی ہوں، کچھ بھی کر کے مینج کر لیتی ہوں، اس نے میسج ڈلیٹ کرنے کے لیے سکرین آن کی لیکن ساتھ ہی سکرین پرایک انجان نمبر سے آتی کال کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکی تھی ۔ البتہ انجان نمبر دیکھ کر اسکا پارہ یکدم ہائی ہوا تھا ۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کتنے نمبر بلاک کر چکی تھی مگر وہ شخص اپنی کمینگی سے باز نہیں آتا تھا ۔ اس نے ایک جھٹکے سے فون یس کر کے کان کو لگایا تھا۔
’’اللہ کرکے تم مر جاؤ معظم شاہ، میری دعا ہے یہ اور بہت جلد قبول ہوگی انشاءاللہ۔۔۔‘‘ آج اس نے فون اٹھا لیا تھا اور اپنے اندر کی ساری بے بسی فرسٹریشن کے صورت میں نکالی تھی جبکہ اسکا ہارا ہوا بے بس لہجہ سن کر دوسری طرف ایک لمحے کے لیے خاموشی چھائی تھی۔
’’عمر شہزاد ہیئر۔۔‘‘ دوسری طرف سے آتی آواز پر وہ بے اختیار کھڑی ہوگئی تھی۔
’’آپ ۔۔۔‘‘ حیرت کی زیادتی سے بس وہ اتنا ہی بول سکی تھی۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کی وہ اس وقت اسے کال کرے گا۔
’’آر یو اوکے؟ ‘‘ وہ غالباََ اسکے فون اٹھاتے ہی بھڑکنے پر کہہ رہا تھا ۔ وہ بے اختیار شرمندہ ہوئی تھی۔
’’یس، آئی ایم فائن۔‘‘ اس نے خود پر کنٹرول کیاتھا ۔ مگر یہ کنٹرول وقتی تھا اس کی اگلی بات نے ہوش اڑا دیئے تھے۔
’’پیسے کب چاہیے آپکو؟‘‘ اس کالہجہ بالکل نارمل تھا، بالکل سنجیدہ ۔ اس میں کوئی تاثر نہیں تھامگر اسے لگا تھا وہ ہل نہیں سکے گی۔
’’کون سے پیسے مجھے تو کوئی پیسے نہیں چاہیے۔‘‘ اس اپنی ہی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ، بالکل اجنبی سی۔
’’وہ پیسے جن کا آپ نے ابھی نتاشہ سے کہا ہے۔‘‘ اسکے وجود سے جان نکل گئی تھی ۔ خوش فہمیوں کی ایک دنیا میں رہ رہی تھی ۔ جہاں وہ یہ سمجھتی تھی کہ اسے کیا پتہ نتاشہ اسکی دوست ہے، یا نتاشہ کو کیا پتہ کہ اسکا جیٹھ اس کا باس ہے ۔ سارے بھرم دھڑ دھڑ ٹوٹے تھے ۔ اسے کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی، بے اختیار ہی اس نے سہارے کی لیے بیڈ کی سائیڈ پکڑی تھی ۔
’’نتاشہ کچھ نہیں جانتی اس بارے میں۔‘‘ وہ گویا سمجھ رہا تھا اسے حرف بحرف۔
’’اس کا سیل میرے پاس ہے، وہ آج سب میرے پاس آئے تھے ۔ سب گھومنے گئے ہوئےہیں اور موبائل ادھر ہی بھول گئی نتاشہ ، موبائل کی بیل پر میں دیکھا تو آپ کا میسج دیکھ کر میں روک نہیں سکا خود کو مگر آپ پریشان مت ہوں اس بارے میں پلیز، نتاشہ کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔‘‘ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں اسے تسلی دےرہا ہے، کیوں اس کے لیے فکرمند ہورہا ہے وہ جانتا تھا تو صرف یہ کہ وہ اس وقت بے بس ہے، کیوں ہے کس وجہ سے ہے وہ نہیں جانتا تھا ۔ آج صبح اس کی قسمت کا فیصلہ وہ لکھ چکا تھا مگر ایک میسج پر ہی وہ اپنے اندر اٹھتے اس درد کو سمجھ نہیں پارہا تھا جو وہ اس کے لیے محسوس کر رہا تھا ۔ اس کے لیے وہ ایک مسٹری بن چکی تھی اور وہ بہت آہستہ سے اس پزل گیم کا حصہ بنتا جارہا تھا
جبکہ وہ بے یقینی سے اسکے نرم لہجے کو سن رہی تھی ۔
’’آپ جانتے ہیں نتاشہ میری فرینڈ ہے؟‘‘ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
’’وہ نتاشہ نےبتایا تھا آج ہی باتوں باتوں میں کہ اسکی فرینڈ بھی سول سروسز میں ہے۔‘‘ اس نے دانستہ مہندی والی ساری بات چھپا لی تھی۔
’’م۔۔۔میں، میں پیسے نہیں لیتی کسی سے بھی ، میں نے کوئی کرپشن نہیں کی ، میرا یقین کریں ، مجھے پیسے بہت مجبوری میں چاہیے تھے اس لیے میں نتاشہ کو میسج کیا لیکن۔۔۔‘‘ وہ رو رہی تھی ۔ سارا سیلف کنٹرول ختم ہوگیا تھا ۔ اسی بندے کے آگے ہی اس کے سارے پول کھلتے تھے۔
’’نو، پلیز روئیں مت۔‘‘ وہ ریکویسٹ کر رہا تھا بہت آرام سے، بہت پیار سے ، گویا بہلا رہا ہو اسے اور وہ واقعی بہل گئی تھی۔
’’نتاشہ کو کچھ بھی نہیں بتاؤں گا اس بارے میں، میں آپ کے میسجز بھی ڈیلیٹ کر چکا ہوں اسکے سیل سے ، آپ کو جتنی اماؤنٹ چاہیے آپ صبح مجھ سے چیک لے لیجیے گا۔‘‘ وہ امید دے رہا تھا مگر کیوں؟ کیا وہ بھی معظم کی طرح اس سے کچھ اور چاہ رہا تھا ۔ یہ سوچ آتے ہی وہ کانپی تھی، ایک مصیبت سے ابھی نکلی نہیں تھی اور دوسری میں پھنس رہی تھی ۔ بدکرداری کے جس سرٹیفیکیٹ سے وہ بچنا چاہ رہی تھی وہی اسکی طرف بھاگ بھاگ کر آرہا تھا ۔ کوئی بھی دو ہفتوں سے ایک لڑکی کو جانتا ہو اور اس قدر مہربان ہوجائے۔
’’فاطمہ۔۔‘‘ اس کے بلانے پر وہ چونکی۔
’’سوری مجھے کوئی پیسے نہیں چاہیے۔تھینک یو فار ہیلپ۔۔۔‘‘ اسکا وہی بے نیاز لہجہ لوٹ آیا تھا۔ اپنے کردار کے لیے تو وہ مر بھی سکتی تھی۔
’’بدلے میں کسی بھی قسم کی فیور آپ سے ایکسپیکٹ نہیں کروں گا۔ یہ ایک ادھار ہوگا، آپ کے پاس جب ہوں آپ دے دیجئے گا۔‘‘ وہ گویا ہر ایک خدشے کو پڑھ رہا تھا ۔ اسے یکدم ہی اس بندے سے خوف آیا تھا، کیا تھا وہ، کیا ٹیلی پیتھی آتی تھی اس کو۔۔۔۔۔
’’آپ واقعی کوئی فیور نہیں لیں گے؟‘‘ اسے وہ چھوٹی سی بچی لگی تھی جو ساری دنیا سے خوفزدہ تھی، ڈری ہوئی ۔ عمر شہزاد جیسا مضبوط بندہ بھی ایک لمحے کے لیے ہل گیا تھا۔
’’میں کوئی بھی فیور نہیں لوں گا۔‘‘ اس نے بے بس سا ہو کر کہا تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسے اس لیول پر انوالو ہو گیا ہے۔
’’تھینک یو۔‘‘ کچھ دیر بعد اس کی بھرائی ہوئی آواز اسکے کانوں میں آئی تھی۔
’’ریلیکس اینڈ کول ڈاؤن۔‘‘ وہ ہر صورت اسے اس خوف اور ٹینشن سے نکالنا چاہتا تھا۔
’’آپ کو لازمی واپس کردوں گی۔‘‘ وہ یقینا رو رہی تھی۔
عمر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
’’پلیز روئیں مت۔ ‘‘ اس نے دوبارہ کہا تھا۔ آگے سے خاموشی چھا گئی تھی۔
’’آپ ریسٹ کریں۔‘‘ وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔ اس نے دوبارہ تھینکس کہا تھا اور فون بند کردیا تھا ۔ فی الحال اسے کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا ،صرف ٹینشن تھی جو اب نہیں رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ہی وہ گہری نیند سورہی تھی جبکہ اسے پتہ تھا وہ آج سو نہیں سکے گا۔
٭…٭…٭
اسکے ہاتھ سے چیک پکڑتے ہوئے اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کی جھکی آنکھیں اور چہرے پر ثبت ندامت کے تاثرات اسے کیوں اچھے نہیں لگ رہے تھے ۔ یکدم ہی اسے احساس ہوا تھا کہ وہ اسکا سر ہمیشہ اٹھا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ۔ بنا دیکھے بھی وہ جانتا تھا ان کانچ سی آنکھوں میں اس وقت کس انتہا کی اذیت ہوگی، وہ ضبط کی انتہا پر تھی اور وہ کسی فیلنگ کی ابتدا پر تھا ۔ کوئی احساس تھا جو اسے اندر باہر سے بے چین کر رہا تھا۔
تکلیف تھی تو کس بات کی؟ شاید ہمدردی تھی، شاید انسانیت کے ناطے ۔۔۔
وہ مختلف حیلے بہانوں سے خود کو بہلا رہا تھا مگر اس وقت اسے یہ سب سے مشکل اور انوکھا کام لگا تھا ۔
’’بات صرف اور صرف میرے اور آپ کے درمیان رہے گی۔‘‘ اس نے گویا اس کی شرمندگی کم کرنا چاہی ۔ سیاہ سکارف میں اس کا چہرہ بنا کسی آرائش کے بھی چمک رہا تھا مگر پلکوں پر اٹکا پانی سامنے بیٹھے بندے کو اچھا خاصا ڈسٹرب کر رہا تھا۔
’’آئی ڈونٹ نو واٹ ٹو سے ۔‘‘ وہ بھیگی آنکھوں سے ہلکا سا مسکرائی تھی ۔ ایک لمحے کو چاند بدلیوں سے باہرآیا تھا ۔
’’ڈونٹ نیڈ ٹو سے اینی تھنگ۔‘‘ وہ نظریں نہیں ہٹا رہا تھا۔
’’پر کبھی کسی نے اس لیول کا ٹرسٹ نہیں کیا ۔‘‘ اس کی آواز پھر سے بھرا گئی تھی ۔ وہ اب بھی اسے نہیں دیکھ رہی تھی اور وہ چاہتا بھی یہی تھا ، وہ کم ازکم اسکی آنکھوں میں تشکر نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
’’میں دو دن آف کرسکتی ہوں، مجھے پنجاب جانا ہے۔‘‘ اسنے پوچھا تھا۔
’’شیور۔‘‘ یک لفظی جواب آیا تھا۔
’’تھینکس اگین فار دس ان کنڈیشنل ٹرسٹ۔‘‘ اس کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔
’’ہوپ کہ بہت جلد میں بھی آپ سے یہ فقرہ کہوں۔‘‘ اس نے لطیف سے لہجے میں اس پر چوٹ کی تھی، وہ خائف سی ہوتی کھڑی ہوگئی۔
’’ان شاءاللہ۔۔۔‘‘ اس نے گویا امید دلائی تھی ۔ پھر اسے خدا حافظ کہتی باہر چلی گئی تھی جبکہ وہ ادھر ہی بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔ جو بھی تھا مگر اسے پہلی مرتبہ صنف نازک میں کسی کی طرف اس قدر اسٹرانگ قسم کی اٹیچمنٹ محسوس ہوئی تھی ورنہ یونیورسٹی سے لے کر پروفیشنل لائف تک بہت سوں نے کئی باراس کی شاندار شخصیت کو اپروچ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے کبھی خود تک کسی کو رسائی نہیں دی تھی لیکن اس بار تو معاملہ ہی الٹ ہوگیا تھا لیکن اپنی اس ہار پر وہ خوش تھا ۔
وہ کیسی تھی، کیسی نہیں، اسکے بارے میں کیا مشہور تھا، کیا نہیں ۔اسے کسی بھی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
٭…٭…٭
’’بھائی ابھی تو آپ آئے ہیں اور ابھی جا بھی رہے ہیں، میں تو آج سپیشل آپ کے لیے چھٹی کی ہے یار ۔‘‘ اسد کے کہنے پر وہ مسکراتا ہوا نتاشہ کو دیکھنے لگا۔
’’کورٹ میں ان ٹائم پہنچنا ہے اسد ، میری حاضری آج لازمی ہے اس کے بعد مجھے ایبٹ آباد واپس پہنچنا ہے ۔ سیکرٹری کا وزٹ متوقع ہے، تم نتاشہ کے ساتھ وقت گزارو۔‘‘ اس کا کندھا تھپکتے ہوئے وہ وضاحت کر رہا تھا ۔ اسے آج لاہور ہائیکورٹ میں آنا تھا ، سرکاری زمین پر ناجائز قبضے کے کیس میں ، کیس فائنل مراحل میں تھا اس لیے اسے لازمی طور پر آج حاضری دینی تھی کیونکہ جب سے کیس چل رہا تھا ، وکیل ہی ڈیل کر رہا تھا ۔ صبح کی فلائٹ سے وہ ادھر پہنچا تھا اور اب اسد اور نتاشہ سے مل کر وہ کورٹ کی طرف روانہ ہوگیا تھا ۔ ایک بجے کی اس کی واپسی کی فلائٹ تھی ، کورٹ پہنچ کر تمام فارمیلٹیز سے فری ہو کر وہ اسد کے ڈرائیور سے ایئر پورٹ چھوڑنے کا کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گیا تھا مگر عدالت کے احاطے میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ڈرائیور کو گاڑی روکنا پڑی تھی۔
’’کیا ہوا ہے۔‘‘ وہ اس ہجوم اور پولیس کی گاڑیوں کو دیکھ کر حیران ہوا تھا جنہوں نے تقریبا ایک طرح سے سارا راستہ بلاک کر رکھا تھا۔
’’پتہ نہیں صاب، آپ کہیں تو پتہ کروں میں۔‘‘ ڈرائیور اس سے پوچھ رہا تھا۔
’’ یار ، جلدی پتہ کرو اور کوئی متبادل راستہ ڈھونڈھو ،پہلے ہی دیر ہورہی ہے۔‘‘ اس نے بیزار سے لہجے میں کہا ۔ اسکی بات سن کر ڈرائیور نیچے اتر گیا تھا ۔ پندرہ منٹ بعد وہ واپس آیا تھا۔
’’کہاں رہ گئے تھے تم ۔‘‘ وہ گھڑی دیکھتے ہوئے مزید جھنجھلا یا تھا ۔ دیر پر دیر ہورہی تھی، ادھر سیکرٹری صاب پہنچنے والے تھے۔
’’ بس بات ہی ایسی ہوئی دیکھ کر میرا تو دل دہل گیا۔‘‘ ڈرائیور گاڑی بیک کر رہا تھا دوسرے راستے سے جانے کے لیے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے حیرت سے استفسار کیا۔
’’ایک بندے کی سزائے موت معاف ہونی تھی صاب ، اس کے گھر والوں نے دیت بھی دے دی اور جب آج عدالت میں لے کر آئے مجرم کو، اس کی کمرہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی ہارٹ اٹیک ہوگیا اور فوت ہوگیا۔‘‘ ڈرائیور کے بتانے پر اس نے بے اختیار مڑ کر اس ہجوم کو دیکھا تھا۔
’’رئیلی ویری سیڈ۔‘‘ اسے واقعی بہت افسوس ہوا تھا۔
’’ایک بہن ہی آئی ہوئی تھی بھائی کے لیے ، اس کی تو حالت نہیں دیکھی جارہی صاب۔‘‘ ڈرائیور نے نقشہ ایسا کھینچا تھا کہ اسکی نظریں مسلسل بیک مرر پر لگی ہوئی تھیں ، جہاں اب کسی وجود کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالنے والے تھے ، اس نے افسوس سے سر جھٹکا تھا اور سیدھا ہونا چاہا تھا مگرایک لمحے کے لیے وقت گویا تھم گیا تھا ، سیاہ عبایہ میں ملبوس وجود جو اتنے مردوں کے ہجوم میں اس میت کے ساتھ کھڑاتھا ، ایمبولینس کے آنے پر ہجوم کچھ چھٹا تھا تو نظر آیا تھا۔
’’روکو۔۔‘‘ وہ بے اختیار چلایا تھا ۔ ڈرائیور نے فورا گھبرا کر گاڑی روکی تھی۔
’’کیا ہواا صاب؟‘‘ وہ بوکھلا کر پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا مگر وہ سنی ان سنی کرتا تیزی سے گاڑی سے اتر کر اس طرف بھاگا تھا ۔ ڈرائیور حیرت سے اسے اس ہجوم کی طرف جاتا دیکھ رہا تھا جہاں سے دومنٹ پہلے وہ اسے جلدی نکلنے کے لیے کہ رہا تھا۔
اردگرد کے لوگ بھی اس شاندار سے شخص کو یوں بھاگتا دیکھ رہے تھے۔
ہجوم کو تیزی سے پیچھے ہٹاتا وہ آگے ہوا تھا۔
میت کے پاس وہ کوئی اور نہیں وہی تھی ۔۔۔ ساکت، بے یقین، اس کا سیاہ سکارف اسکے سر سے سرک کر گردن پر آیا ہوا تھا اور گندم کے خوشوں جیسے سنہرے بالوں سے بھرا ہوا سر یکدم ہی بہت نمایاں ہوگیا تھا ، کچھ بال اسکی گالوں پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ چپک رہے تھے ۔ اس کے چہرے پر اس وقت اتنا درد تھا ، بے یقینی تھی کہ وہ بے اختیار اس کے پاس آکر ایک ٹانگ موڑ کربیٹھ گیا تھا۔
فاطمہ۔‘‘ بہت آہستہ سے اس نے ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا ۔ فاطمہ کے وجود میں ذرا سی ہلچل ہوئی تھی ۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا ۔ اسے دیکھ کر وہ بالکل بھی حیران نہیں تھی بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے جارہی تھی۔
’’بی میت کو لے کے جانے دیں، انکا پوسٹ مارٹم عدالتی حکومت کے مطابق لازمی ہے۔‘‘ پولیس والے کی آواز پر وہ چونکا تھا۔
’’جی آپ پلیز اٹھائیے۔‘‘ اس نے فاطمہ کو بازو سے پکڑ کر سائیڈ پر کیا تھا۔
اس کے کہتے ہی وہ جھکے تھے اور میت کو اسٹریچر پر ڈالنے لگے تھے۔
’’نہ۔۔ نہ۔۔نہیں۔۔۔پلیز۔۔ نہیں !‘‘ وہ روتے ہوئے لپکی تھی ۔ مگر عمر نے اس کو اتنی مضبوطی سے پکڑا تھا کہ وہ ہل نہیں سکی تھی۔
’’ میرے بھائی کو ۔۔میری امی انتظار کر رہی ہیں ۔۔ میرا بھائی۔۔۔‘‘ اس کے لفظ سسکیوں میں ٹوٹ رہے تھے ۔ عمر نے بے اختیار ہی اس کو اپنے ساتھ لگایا تھا بالکل کسی چھوٹے بچے کی طرح۔۔۔ اس وقت وہ کس قدر اکیلی تھی اسے بتانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ صرف اس کے پاس رہنا چاہتا تھا اس کے ساتھ، بالکل کسی سائے کی طرح ۔۔۔ فلائٹ، سیکرٹری سب اسے بھول گیا تھا۔
’’ہم ادھر ہی جارہے ہیں ۔ ‘‘ اسے ساتھ لگائے وہ لوگوں اور میڈیا کو پیچھے ہٹاتا تیزی سے نکلا تھا ۔ کیا رشتہ تھا اس کا اس لڑکی سے، وہ نہیں جانتا تھا لیکن اس وقت اسے سوائے اس کے اور کچھ یاد نہیں تھا ،کچھ بھی نہیں۔ ڈرائیور اسے حیرت سے اس لڑکی کے ساتھ آتا دیکھ رہا تھا جس کے بارے میں کچھ ٹائم پہلے وہ کہ رہا تھا کہ پتہ کرو کیا ہوا ہے۔
٭…٭…٭
ہسپتال میں تمام فارمیلٹیز وہ ایسے پوری کر رہا تھا جیسے اس کا بھائی مرا ہو جبکہ وہ بینچ پر بیٹھی تھی بے حس وحرکت ۔۔۔ جس خواب کے پیچھے وہ بھاگ رہی تھی، اس کا سارا وجود چھلنی ہوا تھا، اسکے پاؤں جل گئے تھے، ہر ایک الزام اس نے جس انسان کی زندگی کے واسطے سہا تھا وہ تو بیچ راستے میں اسے چھوڑ گیا تھا ۔۔۔ اس کی آنکھیں گویا پتھر کی ہورہی تھیں، کانچ کے نگینوں میں اس وقت خون اترا ہوا تھا ۔ آنسوؤں کی لڑی بے آواز اس کے گالوں پر بہہ رہی تھی ۔۔۔ کوئی اس سے پوچھتا اس کا کتنا نقصان ہوگیا تھا، اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا تھا، کچھ بھی نہیں۔۔۔
اس نے تو قسم کھائی تھی کہ وہ باقی کی زندگی جیے گی صرف اپنے بھائی کے لیے ۔۔۔ بے اختیار ہی اس کا جی چاہا وہ بھی مر جائے، ادھر ہی مرجائے ۔۔۔کس منہ سے وہ جائے گی امی کے پاس کیا کہے گی ۔۔ کیا جواب دے گی بھابھی کو ۔۔۔ وہ کبھی نہ ہارنے والی، کبھی نہ ٹوٹنے والی، زندگی نے اسے بڑی دفعہ گرایا تھا ان چھبیس سالوں میں، ہر بار وہ مزید مضبوط ہوکر ابھری تھی، مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ کبھی کھڑی نہیں ہوسکے گی ۔ اس کا جی چاہا تھا وہ چیخ چیخ کر روئے، ساری دنیا ویسے ہی چل پھر رہی تھی ، اس کی تو قیامت آج ہی ہوگئی تھی۔
’’فاطمہ۔‘‘ اس کے پیلے پڑتا رنگ دیکھ کر وہ اس کے پاس آیا تھا۔
’’ایک کام کرسکتے آپ؟‘‘ اس کا لہجہ بالکل ویران تھا۔
’’شیور۔‘‘ وہ اس کا ساتھ بیٹھ گیا تھا ۔
’’مجھے مار دیں پلیز!‘‘ اس نے اس قدر لجاحت سے کہا کہ وہ بس دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔ پھر بہت آہستہ سے اس نے دوبارہ ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔