یہی داغ تھے : پہلا حصہ
’’شاید گاڑی خراب ہوگئی ہے کسی کی ۔ ‘‘ وہ بریک لگاتا سائیڈ دروازہ کھول رہا تھا۔
’’ لو بتاؤ، بھلا رات کے دوبجے یہ لڑکی سڑک پر کر کیا رہی ہے۔‘‘ اسے پھپھو کی آواز اترتے ہوئے پیچھے سے سنائی دے تھی۔وہ سر جھٹکتا تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
’’ایکسیوزمی مس، مے آئی ہیلپ یو ۔ ‘‘ وہ اس سے مخاطب ہوا تھا جو سفید جینز پر سفید کرتا پہنے پشت پر بالوں کا ڈھیر بکھرائے رات کے اس پہر واقع پیچھے سے کوئی بدروح ہی لگ رہی تھی ۔
جبکہ پچھلے پونے گھنٹے سے اس ویران سڑک پر پریشان حال وہ اس بونٹ پر جھکی ہوئی اس آواز پر تیزی سے مڑی اور سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر ساکت ہو گئی تھی ۔۔۔ جس ڈر سے وہ وہاں سے بھاگی تھی اور رات کے اس پہراس سڑک پر یوں ذلیل ہو رہی تھی وہ اس کے سامنے کھڑا تھا ۔
’’آپ۔۔۔ ‘‘ وہ بھی اس قدر شاکڈ تھا کہ اسکے منہ سے بس آپ ہی نکل سکا تھا ۔ جبکہ ایک ہاتھ سے بالوں کو پیچھے کرتی وہ کنفیوژڈ سی اس کو دیکھ رہی تھی ۔ اسے یہاں کھڑا دیکھ کر وہ کیا سوچ رہا ہوگا، وہ کپڑے تبدیل کر کے ادھر سے نکلی تھی ، اس لیے وہ یہ تو نہیں جان سکتا تھا کہ وہاں شادی میں بھی وہی تھی ۔ لیکن رات کے دوبجے اکیلے سڑک پراس طرح ۔۔۔
تو؟ کیا ہوا، جو سوچنا سوچی جائے، سو کام ہوتے انسان کو، اس نے خود کو مضبوط کیا۔
’’ایکچوئیلی مجھے ایک کام سے اسلام آباد جانا تھا اور جب میں واپس آرہی تھی تو یہ گاڑی کا ایشو ہوگیا۔‘‘ اس نے اب قدرے اعتماد سے کہا تھا اور کچھ مدد طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھا بھی تھا جو بغور اس کو دیکھ رہا تھا گویا جانچ رہا ہو کہ سچ کہا جارہا یا جھوٹ ۔۔۔ ایک لمحے کے لیے لگا کہ وہ اس کے اندر جھانک رہا ہے ۔ اس نے فوراََ نظروں کا زاویہ بدل لیا تھا۔
’’اس ٹائم اس روڈ پر اکیلے ٹریول کرنا سیف نہیں ہوتا۔‘‘ اس کا لہجہ کافی نرم تھا ۔ فاطمہ کو حوصلہ ہوا۔
’’آپ میرے ساتھ ہی چلیں، فیملی ہے میرے ساتھ۔ راستے میں آپ کو ڈراپ کردیں گے۔‘‘ اس کے مضبوط لہجے پر وہ چپ چاپ ہامی بھرتی گاڑی سے ہینڈ بیگ نکالنے کے لیے مڑگئی جب کہ وہ الجھا سا اس کے بالوں میں اٹکے کلپ کو دیکھ رہا تھا ۔ لیکن اس کے ہینڈ بیگ اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھ کر اس کی الجھن دور ہوگئی تھی ۔ اور آنکھوں میں عجیب سے تاثرات ابھر آئے تھے ۔ جبکہ اس کے برعکس وہ کافی اطمینان سے اس کی طرف آرہی تھی۔
بیوقوف لڑکی۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑاتا اسے ہمراہ لیے گاڑی کی طرف بڑھا جہاں امی اور باقی سب ان کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
’’کیا کوئی دن ایسا ہو سکتا ہے جب ہمارے گھر میں آلو شریف کا ناغہ ہوا ہو۔‘‘ میز پر بڑی نفاست سے سجے ڈونگے میں رکھا آلو گوشت اور تیرتا ہوا شوربہ دیکھ کر وہ حسب توقع جھنجھلائی تھی ۔
’’چپ کرکے ادھر بیٹھو اور کھاؤ آرام سے،شکر ادا کیا کرو منہ نہ بنایا کرو۔‘‘ امی نے کھیرے کی پلیٹ ہاٹ پاٹ کے ساتھ رکھتے ہوئے اسے لتاڑا تھا۔
’’آپ شکر ادا کرنے کا موقع بھی تو دیں، اب اگر بھائی آلو کے آڑھتی ہیں تو ہم پر فرض تو نہیں ہے کے سب سے زیادہ ہم نے آلو کھا کھا کے ان کے بزنس کو پرموٹ کرنا ہے۔‘‘ اس کی جھنجھلاہٹ برقرار تھی۔
’’بہت جلد مجھے لگتا میرے اندربھی آلو کی بیل اگ آنی۔‘‘ امی نے گھور کر اسکی طرف دیکھا تھا۔مگر اس پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا تھا ۔
’’تائی امی والوں نے چاول بنائے ہیں۔‘‘ بھابھی نےکچن سے باہر آتے ہوئے اسے خوشخبری سنائی تھی ۔ وہ سنتے ہی اچھلی اور اگلے ہی لمحے قلانچیں بھرتی اوپری منزل کی جانب بڑھی ۔ جبکہ امی اب بھابھی کو گھور رہی تھیں۔
’’ ضرورت ہے اس کو اتنا سر چڑھانے کی،کل کو اگلے گھر جانا اس نے۔ وہ خفا ہو رہی تھیں۔
’’گھر جانے کی یہی شرط ہے میری کہ وہ آلو کے آڑھتی نہ ہوں بلکہ آلو بیچنے، خریدنے، بونے والوں سے انکا دور دور تک بھی کوئی تعلق نہ ہو۔‘‘ اس نے جاتے جاتے سیڑھیوں سے دہائی دی تھی اور پھر امی کا جوتے کی طرف بڑھتا ہاتھ دیکھ کر فورا اوپر والے پورشن میں غائب ہوگئی تھی۔
’’کیوں پریشان ہوتی ہیں، ابھی تو ایف ایس سی کر رہی، ابھی تو بہت پڑھنا اس نے، خود ہی ہوجائے گی سنجیدہ۔‘‘ بھابھی نے امی کو تسلی دی۔
’’حمنہ آجاؤ کھانے کی ٹیبل پر۔‘‘ انہوں نے دونوں بیٹیوں کو آواز دی اور ساتھ میں ساس کو بھی کھانا سرو کرنے لگیں ۔ جبکہ وہ اوپر تائی امی کو دیکھ رہی تھی جواباََ وہ بھی اسے دیکھ رہی تھیں، فرق یہ تھا کہ وہ قدرے حسرت سے دیکھ رہی تھی جبکہ تائی امی کافی کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
’’تھوڑے سے بھی نہیں بچے کیا؟‘‘ اس نے آخری بار پھر سے امید بھرے لہجے میں کہا۔
’’ہمارا تمہا رے بھا ئی کی طرح کوئی بڑا کاروبار نہیں ہے بی بی، مہینے کا لگا بندھا سودا آتا، اب ہر دفعہ آدھا کلو تمہارے لیے ساتھ پکایا کریں تو ہماری تو پڑ گئی پوری۔‘‘ تائی امی پر زرا بھی اثر نہیں ہوا تھا اسکی ایکٹنگ کا جبکہ آدھا کلو پر تو وہ اچھل ہی پڑی تھی۔
’’خدا کا خوف کریں تائی امی، مجھے کیا آپ نے سیاستدان سمجھا ہوا ، اتنا بھی نہیں کھاتی میں، ایک پلیٹ بمشکل کھاتی ہوں، وہ بھی اگر آپ سے مانگنی پڑ جائے تو آدھی ہی ملتی۔‘‘ آخری فقرہ اس نے قدرے آہستہ کہا تھا ۔ لیکن بڑھاپے کی وہ تمام بیماریاں جنکی دہائی تائی امی اٹھتے بیٹھتے دیتی رہتی تھیں، اس سب کے باوجود نہ تو ان کی نظر کمزور ہوئی تھی اور نہ ہی سماعتیں ۔ اب بھی وہ عینک کے پیچھے سے اس گھور رہی تھیں۔
’’لمبی زبان ہے تمہاری۔ ‘‘ انہوں نے دانت پیسے۔
’’ لے لے کچن سے، اٹھ۔‘‘ انہیں پتہ تھا ایسے وہ بھی نہیں جان چھوڑنے والی۔جبکہ وہ اپنی کامیابی پر ’’یاہو‘‘ کا نعرہ لگاتی کچن کی طرف بڑھی۔
’’اور مسکین کے لیے چھوڑ کر باقی لے لینا۔‘‘ انہوں نے تنبیہہ کی جس پر وہ شرافت سے اپنا سر لمبا لمبا ہاں کی صورت میں ہلاتی کچن میں آگئی تھی جہاں ہر طرف چکن پلاؤ کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی اس کی بھوک کو مزید بڑھا رہی تھی۔
٭…٭…٭
باہر کی نسبت گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے گرمائش کا ایک سکون آمیز احساس ہوا تھا۔ وہ کافی ریلیکس سی ہو کے بیٹھ گئی تھی۔عمر نے اس کا تعارف ایک کولیگ کے طور پر کروایا تھا۔
’’اتنی رات کو اکیلے ڈرائیونگ کرنے سے آپ کے ماں باپ منع نہیں کرتے؟‘‘ پھپھو ابھی بھی مشکوک تھیں ۔ جبکہ ان کی بات سن کر جہاں عمر نے ایک طویل سانس لیا تھا وہیں اس نے کچھ کنفیوژ سی ہو کر ان کو دیکھا تھا۔
’’ پیرنٹس تو پنجاب میں ہوتے آنٹی، مجھے جاب کی وجہ سے اپنے کام خود ہی دیکھنے ہوتے ۔‘‘ اس نے کافی نپا تلا سا جواب دیا تھا۔
’’میں بھی ایم بی بی ایس کے بعد ضرور سی ایس ایس کی کوشش کروں گی۔‘‘ یہ فریحہ تھی
’’ضرور کرنا۔‘‘ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بندے کی وجہ سے کنفیوژ ہو رہی تھی ورنہ باتوں میں اس سے شاید ہی کوئی جیت پاتا۔
’’کل تو چھٹی ہے تو آپ ہمارے ساتھ چلو گھر، کل میرے چھوٹے بیٹے کی بارات ہے، تم بھی شامل ہو جانا ، مجھے خوشی ہوگی بہت۔‘‘ امی کے کہنے پر بیک مرر میں عمر نے اس کے ایک ثانیے کے لیے اڑتے رنگوں کو بغور دیکھا تھا۔
’’آنٹی، آپ کو بہت بہت مبارک ہو بیٹے کی شادی کی، لیکن میری طرف سے معذرت ہے ۔ اصل میں کافی کام ہے وہ میں نے اتوار کو ہی کرنے ہوتے۔ ‘‘ اس نے حتیٰ الوسع کوشش کی تھے اپنی گھبراہٹ چھپانے کی لیکن عمر شہزاد جیسے بندے کے سامنے اسے ناممکن لگ رہا تھا، اسے لگ رہا تھا وہ جیسے پیچھے مرر میں اسے ہی دیکھے جارہا تھا۔
’’میرا خیال ہے امی صحیح کہ رہی ہیں، آپ ہماری مہمان ہیں، آپ کو ایسے تو نہیں جانے دے سکتے۔‘‘ اس نے پہلی مرتبہ اس ساری گفتگو میں حصہ لیا تھا ۔ نظریں اب بھی بیک مرر پر تھیں۔
’’نن ۔۔۔ نہیں سر پلیز مجھے، ایم سوری میں نہیں آسکتی مجھے کل ، میرے گیسٹ آنے ۔۔۔اصل میں میری امی نے آنا۔‘‘ اس کے جو منہ میں آیا اس نے بول دیا ۔ اس کے واقعی طوطے اڑ رہے تھے ۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسے آفر کردے گا اور وہ نتاشہ کے اس قدر قریبی رشتے میں ہوگا۔
’’ایز یو وش۔۔۔‘‘ اب کی دفعہ اس نے مزید اصرار نہیں کیا تھا ۔ اس سارے عرصے میں اس نے پہلی مرتبہ سکون کی سانس لی تھی۔
کچھ ہی دیر میں اس کا ہاسٹل آگیا تھا۔ وہ سب کو تھینک یو کہتی گاڑی سے اتر گئی تھی۔
’’ڈرائیور آپ کی گاڑی پہنچا دے گا کل ، آپ فکر مند مت کیجئے گا۔‘‘ وہ شیشہ نیچے کرتے ہوئے اسے کہہ رہا تھا۔ جبکہ وہ اس مہربانی پر کچھ الجھی کچھ حیران ہوتی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’تھینک یو سر۔‘‘ وہ ایک بار پھر تھینک یو کہتی اس کی مشکور ہوئی۔
’’اوکے۔‘‘ اسے لگا کہ وہ ہلکا سا مسکرایا ہے مگر وہ دیکھ نہیں سکی کیونکہ وہ شیشہ اوپر کر چکا تھا۔
ایک طویل سانس لیتی وہ ہاسٹل کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
’’پیاری کولیگ ہے بھائی آپ کی۔‘‘ گاڑی آگے بڑھتے ہی فریحہ نے ایکسائیٹڈ ہو کر کہا ۔ جواباََ اسکی خشمگیں نظروں کو دیکھتے ہوئے وہ شرمندہ ہوگئی۔
’’مطلب، مجھے بہت پیاری لگی۔ اتنی چھوٹی سی لگ ہی نہیں رہا تھا کی اسسٹنٹ کمشنر ہے ۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’پیاری تو بہت ہے۔‘‘ پھپھو نے بھی اعتراف کیا۔
’’اس لیے تو میں حیران تھی کہ اتنی جوان خوبصورت رات کو تن تنہا سڑک پر کھڑی ، کیسے حالات ہیں آجکل کے۔‘‘ ان کی تان وہیں اٹکی تھی اور وہ سب جانتے تھے کہ وہ ادھر ہی اٹکی رہنی ہے اس لیے کسی نے بھی ان کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔گاڑی میں اب مکمل خاموشی تھی۔۔
٭…٭…٭
’’نتاشہ!‘‘ اس کے بلانے پر وہ چونک کر مڑی تھی۔ شادی کے بعد آج تیسرا روز تھا اس کو اس گھر میں آئے ہوئے اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ عمر نے اسکو یوں بلایا تھا۔
وہ حیران تھی۔
’’کچھ بات کرنی ہے اگر آپ فری ہو تو۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ سر ہلاتی صوفے پر ٹک گئی تھی ۔ وہ اور اسد آج لاہور شفٹ ہورہے تھے۔ شاید اسی سلسلے میں کوئی بات ہو ۔ وہ سوچتی ہوئی اپنے اس جیٹھ کو دیکھ رہی تھی جو بلا ضرورت بہت ہی کم کسی سے مخاطب ہوتا تھا۔
’’سم تھنگ پرسنل، ہوپ فلی یو ول ناٹ مائنڈ اٹ۔‘‘ اس کے سنجیدہ لہجے پر وہ بھی سنجیدہ ہوگئی۔
’’شیور۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ بھی اس کے سامنے والے صوفے پر ٹک گیاتھا۔ اس کی آنکھوں میں سوچ کے سائے لہرا رہے تھے۔
’’فاطمہ آفندی کیا لگتی ہیں آپ کی؟‘‘ اس کے انتہائی سنجیدہ لہجے میں پوچھنے پر اور فاطمہ کے نام پر مزید حیران ہوئی۔
’’شی از مائی بیسٹ فرینڈ۔‘‘ اس نے اب قدرے الجھے ہوئے انداز میں جواب دیا۔اس کے کہنے پر مقابل کے منہ سے بے اختیار ہی اوہ نکلا تھا۔
’’آپ کیوں پوچھ رہے؟، آپ کیسے جانتے اسکو؟‘‘ اس نے ذہن میں کلبلاتے سوال کو آواز دی۔
’’وہ میری فیلڈ سے ہیں اس لیے پوچھا، میں نے مہندی میں دیکھا تھا ان کو مگر شادی میں وہ نظر نہیں آئیں۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’ جی، اصل میں اس کی کوئی ایمرجنسی ہوگئی تھی تحصیل میں اس لیے اس کو ارجنٹ جانا پڑا سو وہ چلی گئی۔‘‘ نتاشہ کے کہنے پر اس کی گہری آنکھوں میں قدرے استہزائیہ سی مسکراہٹ ابھری تھی لیکن صرف ایک ثانیے کے لیے اگلے ہی لمحے وہ پھر سے بے تاثر ہوگئی تھیں۔
’’وہ کہاں ہوتی ہیں؟‘‘ اس نے ایک اور پتہ پھینکا تھا۔
’’گلگت میں ہوتی ہے ، فاصلہ کافی اسی لیے تو رات کو جلدی نکلنا پڑا اس کو مہندی چھوڑ کر۔‘‘ نتاشہ نے مزید بتایا ۔ وہ حیران سی اس کی سنہری آنکھوں کی بڑھتی ہوئی چمک دیکھ رہی تھی۔
’’کیسی خاتون ہیں وہ؟‘‘ اپنے سوال پر نتاشہ کے چہرے پر ابھرتی ناگواری کو دیکھ کر وہ سنبھلا تھا۔
’’ میں بائی نیچر…. ایکچوئیلی ہمارے ایک کولیگ ان کی طرف پرپوزل بھیجنا چاہتے ، انہوں نے بھی شادی میں دیکھا تھا ان کو تو مجھے کہا کہ کچھ پتہ چل جائے ان کی فیملی کے بارے میں۔‘‘ اب کے بار اس نے کافی مضبوط کہانی بنائی تھی نتاشہ کو مطمئن کرنے کے لیے اور وہ کامیاب رہا تھا۔
’’ وہ بہت اچھی لڑکی ہے بہت مضبوط، ہر لحاظ سے پرفیکٹ اس کی فیملی بھی بہت اچھی ہے ۔ فادر نہیں ہیں، مدر سے میں کافی بار ملی ہوں، بہت نائس فیملی ہے۔‘‘ وہ اب خوش ہو کر بتا رہی تھی جبکہ وہ مزید الجھ رہا تھا۔
’’کیسی فیملی ہے؟‘‘ اس کے ماتھے پر ابھری رگیں اس کے اندرونی خلفشار کا پتہ دے رہی تھیں۔
’’بس نارمل ہے مگر اب فاطمہ کی بہت اچھی جاب ہے تو فنائنشلی بھی کوئی ایشو نہیں ہے ۔‘‘ نتاشہ کے کہنے پر اس نے آہستہ سے سر ہلا دیا تھا۔
’’آپ کے دوست کا کیا نام ہے ۔‘‘ وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی۔
’’عبدالصمد۔‘‘ اس نے فرضی نام لیا تھا۔
’’اس بارے میں اپنی فرینڈ سے کچھ ڈسکس نہ کیجئے گا ابھی پلیز۔‘‘ وہ شائستگی سے کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا جبکہ وہ بھی سرہلاتی اسکی تائید میں کھڑی ہوگئی تھی۔
’’میں اسے کچھ نہیں بتاؤں گی لیکن اگر آپ کے دوست کا پرپوزل ایکسیپٹ نہ ہوا ادھر تو ہم آپ کا پرپوزل لے جائیں گے مجھے انکار نہیں کرسکتے اس کے گھر والے۔‘‘ وہ یقیناََ مزاق کر رہی تھی ، اپنے اور اس کے بیچ رشتے کے ناطے اسے حق تھا مزاق کرنے کا لیکن وہ ایک لمحے کے لیے اس مذاق پر سن ہو گیا تھا ۔ذہن میں بے اختیار ہی گاڑی میں بیٹھا ایک گھبرایا ہوا چہرہ آیا تھا۔
’’مجھے تو معاف رکھیں، میں ان چکروں میں نہیں پڑتا۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتا اسے مزید کوئی بھی بات کہنے کا موقع دیئے بغیر باہر نکل گیا جبکہ وہ پشت سے اس کے سفید شلوار قمیض میں سے نکلتے دراز قامت وجود کو دیکھ رہی تھی ۔ اگر فا طمہ سچ میں یہاں آجائے تو، وہ اپنے ہی خیال پر ہنس پڑی تھی۔
’’اچھی بنے گی ویسے، وہ بھی ان چکروں میں نہیں پڑتی۔ واہ۔۔۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بیگ پیک کرنے لگی دوبارہ۔
٭…٭…٭
پھر سے وہی کمرہ تھا، وہی خاموشی تھی ان دونوں کے بیچ حائل اور وہی اندر اٹھتے ہوئے ان گنت سوالات تھے۔
’’صرف سچ جاننا چاہتا ہوں فاطمہ، صرف سچ اگر کوئی سچ واقعی ایگزسٹ کرتا ہے تو!‘‘ اس کا لہجہ ،آواز، چہرہ ہر چیز اسے کھوج رہی تھی جو ہونٹ چباتی اسکے سامنے بیٹھی تھی۔
’’آپ کا برا نہیں چاہتا، بلیو می، آپ کا ڈیفنس آپ کو کہیں سے بھی ڈیفنڈ نہیں کر رہا، ہر ایک چیز آپ کے مخالف جارہی ہے ۔ اگر کوئی بات ہے جو آپ چھپا رہی ہیں مجھ سے تو پلیز آپ شیئر کریں۔‘‘ وہ اب سنجیدگی سے اسے معاملے کی سنگینی کا احساس دلا رہا تھا ۔ اس کا جی چاہا ایک لمحے کو کہ اعتبار کرلے ۔