یہی داغ تھے : پہلا حصہ

پورا دن پاگلوں کی طرح اس ایک کرسی پر بیٹھ کر ہر آنے جانے والے کا منہ دیکھتے اسے سچ میں ایسا لگ ریا تھا کہ وہ نفسیاتی مریض بنتی جارہی ہے ۔ اس دن کے بعد اسے دوبارہ وہ دہلیز پار کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی ۔ اور قریب ایک ہفتہ ہونے کوتھا وہ صبح نو بجے آتی، حاضری لگاتی اور پورا دن ادھر بیٹھتی پھر شام ہوتے ہی پانچ بجے ہوسٹل آجاتی ۔ اس لیول کے مینٹل ٹارچر سے کبھی اس کی بس ہو جاتی لیکن بہرحال اتنی آسانی سے وہ کبھی بھی ہارنے والی نہیں تھی ۔
’’ تم نہ آئی فاطمہ تو سمجھو میری تمہاری دوستی ختم۔‘‘ اسے صبح فون پر دی گئی نتاشہ کی دھمکی یاد آئی تھی جو پچھلے دس دن سے اسے ہر روز اپنی شادی میں آنے کے پرزور اثرار کے بعد پھر اسی طرح کی دھمکیوں سے فون بند کردیتی تھی ۔ اور وہ ہر روز اسے میٹنگز، آفس مصروفیات کے جھوٹے بہانے بنا کر اپنا بھرم رکھتی اور پھر کبھی کبھار پھوٹ پھوٹ کے رو بھی پڑتی ۔ گوکہ ایبٹ آباد سے اسلام آباد جانا آسان تھا، مگر نتاشہ کی نظر میں تو وہ گلگت میں آن ڈیوٹی تھی ۔ آسان تھا بھی تو اس کے لیے اسے اس بندے کی منت کر کے چھٹی لینا پڑتی اور یہ تو اس کے مزاج کے خلاف تھا ۔ کل اتوار تھا، اس کا ارادہ تھا کی کل اتوار کو وہ اس کی بارات میں ضرور جائے گی مگر آج مہندی پر جانے کا تو کوئی سوال نہیں تھا ۔ رات تک تو وہ بمشکل ادھر سے فری ہوتی تھی ۔
’’ بیٹا، آج صاب چھٹی پر ہے، آپ بھی ایسا کرو گھر چلی جاؤ۔‘‘ وہ بے یقینی اور قدرے خوشی سے اس بوڑھے گارڈ کو دیکھ رہی تھی جو کافی ہمدردی سے اسے یہ خوشخبری سنا رہا تھا ۔ بڑے عرصے بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔ اس وقت وہ واقعی ایک چھوٹی سی خوشی کی لیے بھی ترس رہی تھی جو آج رفیق بابا نے اسے دی تھی ۔ وہ پورے دل سے ان کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے نکلی تھی ۔ ابھی دس بجے تھے ، وہ آرام سے بارہ بجے تک اسلام آباد پہنچ سکتی تھی اور یہ دو دن نہ صرف نتاشہ کے فنکشن سکون سے اٹینڈ کرسکتی تھی بلکہ اس مینٹل سٹریس سے بھی کچھ وقت کے لیے باہر آسکتی تھی ۔ بڑے دنوں بعد وہ ایکسائیٹڈ ہوئی تھی ۔ ہوسٹل سے سامان اٹھا کر وارڈن کو انفارم کرتی وہ بڑی جلدی میں نکلی تھی ۔ اسلام آباد کی طرف ڈرائیو کرتے ہوئے وہ سارے پل یاد کر رہی تھی جو اس نے اور نتاشہ نے قائد اعظم یونیورسٹی میں گزارے تھے ۔ وہیں وہ پہلی مرتبہ ملی تھیں اور وہیں ان کی دوستی ہوئی تھی۔ اس کے برعکس نتاشہ ایک بہت امیر کبیر فیملی سے تعلق رکھتی تھی ۔ لیکن یہ طبقاتی فرق کبھی بھی ان کی دوستی میں دیوار نہیں بن سکا تھا ۔ گو کہ یونیورسٹی کے بعد ملنا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا مگر یونیورسٹی سے فری ہونے کے چار سال بعد بھی وہ اسی طرح رابطے میں تھیں۔ ان کو جب بھی ایک دوسرے کی ضرورت پڑی تھی ، وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے کھڑی رہی تھیں ۔ لیکن اب اس کی شادی کے باعث وہ اپنی زندگی میں آئے ان طوفانوں کے بارے میں اس کوکچھ بھی نہ بتا سکی تھی ۔ کچھ ویسے بھی وہ نتاشہ کے مقابلے میں بہت کم شیئرنگ تھی ۔ اسے اپنے مسئلے خود ہی حل کرنےآتے تھے اور اسکی یہی حد سے زیادہ خودداری اور انا نے واقعی اس کی زندگی میں بڑے مسائل کھڑے کردیئے تھے لیکن وہ پھر بھی اپنی جگہ قائم تھی سر اٹھائے، اپنے ضمیر کے آگے فتح یاب ۔۔۔
اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوتے ہی اس نے پہلے گاڑی کا رخ برانڈز مارکیٹ کی طرف کیا تھا ۔ ہر چیز ایک طرف لیکن اپنی فیشن سینس پر اس نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا تھا ۔ ابو اور پھر ان کی وفات کے بعد بھائی نے اپنے محدود لیکن اچھے وسائل میں اس کی ہر خواہش کا مکمل احترام کیا تھا اور اب جاب میں آنے کے بعد تو وہ ویسے ہی بڑی خود مختار ہوگئی تھی ۔ اپنے لیے ڈریس خرید کر اور نتاشہ کے لیے پیک کروا کر وہ مسرور سی اس کے گھر کی طرف جاتی اس سرپرائز پر اس کے تاثرات کا سوچ سوچ کے خوش ہو رہی تھی ۔ اس بات سے بالکل بے خبر کہ وہاں ایک طوفان اس کا منتظر تھا جو ہمیشہ کی طرح اس کی خو شیوں کے وقت کو بہت کم کرنے والا تھا۔
٭…٭…٭
گھر کے لان سے پھاٹک تک جاتی طویل راہداری تھی جو مکمل طور پر کسی دلہن کی طرح سجائی گئی تھی ۔ عقب سے پہاڑوں کا نظارہ اس منظر کو گویا چار چاند لگا رہا تھا ۔ اسلام آباد میں رات کا یہ پہر اسے بالکل کسی خواب کی مانند لگ رہا تھا ۔ ہنستے مسکراتے بے فکر چہرے، غموں سے بالکل دور دنیا، اپنی مستی میں گم ۔۔۔ وہ بار بار آنکھوں میں آتی نمی پیچھے دھکیلتی ان سب کو دیکھ رہی تھی ۔ اسے جو خوش فہمی تھی کہ ادھر آکر کچھ دیر کے لیے وہ بہل جائے گی تو وہ اب نہیں رہی تھی ، جب تک وہ نتاشہ کے ساتھ پارلر میں تھی اس کی باتوں سے وہ واقعی بہل گئی تھی مگر فنکشن میں آتے ہی اسے پھر سے قنوطیت کا دورہ پڑنے لگا تھا۔
’’ فاطمہ بیٹا، نتاشہ کب سے بلا رہی آپ کو۔ ‘‘ نتاشہ کی امی کی آواز پر وہ مڑی ۔
رسم ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، مہمان تقریبا سب آچکے تھے لیکن نتاشہ اپنا فوٹو شوٹ کروا رہی تھی ۔ اسی لیے وہ یہاں قدرے ویران کونے میں آکر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’ میں بس ایک کال سننے آگئی تھی ۔‘‘ اس نے معذرت کی اور اپنی ساڑھی کا پلو سنبھالتی ان کے پیچھے چل پڑی۔
’’ کہاں تھیں تم؟میرے ساتھ پکچر تو بنوا لو۔‘‘ نتاشہ نے اسے دیکھتے ہی کہا تو وہ فوٹو لائٹ میں اس کے چمکتے چہرے کو دیکھ کے دل ہی دل میں اس کی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا کرتی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔ فوٹو گرافر اسے اب اکیلے پوز بنانے کا کہ رہا تھا ۔ وہ قدرے جھنجھلائی لیکن پھر نتاشہ کی گھوریاں دیکھتے ہوئے چپ چاپ بنانے لگی۔
’’ سینس میں فاطمہ کو کوئی بیٹ نہیں کرسکتا۔‘‘ اس نے عقب سے آتی آواز سنی تھی جو نتاشہ کی بھابھی کی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کوئی تعریف نہیں تھی، حقیقت تھی۔ اسے نمایاں ہونے کے لیے کبھی کوئی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی ۔ وہ قدرتاََ اس دنیا کے بنائے گئے خوبصورتی کے تمام معیار پر پورا اترتی تھی ۔ اس پر پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ اس میں مزید چار چاند لگا دیتا تھا ۔ اس وقت بھی یلو مسٹرڈ ساڑھی میں ملبوس وہ اس شام کا سب سے روشن ستارہ لگ رہی تھی ۔ کسی زمانے میں بڑا فخر تھا اسے اس سب پر مگر دھیرے دھیرے وقت کے دیئے گئے سبق اور اس رنگ روپ کے باعث ہونے والے نقصان نے اسے ہر قسم کی خوش فہمی سے نکال دیا تھا اور بہت اچھی طرح سمجھا دیا تھا کی خوبصورت ہونا کبھی اہم نہیں ہونا چاہیئے ۔
فوٹو سیشن سے فری ہو کر وہ نتاشہ کو لے کر سٹیج پر آگئی تھی ۔ اس کے سسرال والے مہندی لے کر آگئے تھے ۔ پورے ہال میں میوزک اور روشنیوں کا اپنا ہی ایک ہجوم تھا ۔ وہ پھر سے واپس اس جگہ آکھڑی ہوئی جہاں سے وہ سب کو دیکھ سکتی تھی۔
’’آپ کو یہ سب میل کردوں گا۔کائنڈلی آپ چیک کر لیجئے گا۔‘‘ عقبی سمت سے اس طرف آتے قدموں کے ساتھ آتی آواز پر وہ قدرے چونک کر مڑی تھی اور اپنے بدترین خدشات کو سامنے حقیقت دھارے دیکھ کر اس کا دل محاورتاََ نہیں حقیقتاََ حلق میں آگیا تھا ۔ وہ سر جھکائے فون سنتا ادھر ہی آرہا تھا۔
’’آج صاحب چھٹی پر ہیں۔‘‘ اسے صبح والی گارڈ کی بات یاد آئی تھی ۔ وہ بے بس سی رخ موڑ کے کھڑی ہوگئی ۔ اس طرف سے جاتی تو یقیناََ وہ دیکھ لیتا ۔ گو کہ اس وقت وہ اس کے انڈر نہیں تھی لیکن اس کا جو ایک بھرم تھا افسری کا وہ یقیناََ کھل جاتا سب کے سامنے کہ وہ اصل میں اس کے پاس انکوائری کے چکر بھگتا رہی ہے۔
ہونٹ بے دردی سے کچلتی وہ اس منحوس اتفاق کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ وہ یقینا نتاشہ کے سسرال میں سے تھا کوئی کیونکہ وہ نتاشہ کی فیملی کو تو بہت اچھے سے جانتی تھی ۔ اسے اب ہر صورت یہاں سے نکلنا تھا کتنی خوش آئی تھی وہ ادھر اور کتنی محدود خوشی تھی۔
’’ایکسیوزمی ۔‘‘ اس کے بالکل پیچھے سے آواز آئی تھی ۔ وہ بے اختیار اچھل پڑی ۔ وہ اس سےہی مخاطب تھا ۔
’’کک ۔کیا پہچان لیا اس نے۔‘‘ وہ گویا بت بن گئی تھی ۔ نہ مڑ کے دیکھنے کی ہمت تھی نہ سکت۔
’’یہ غالبا آپ کا فون ہے ، ابھی میں نہ دیکھتا تو میرے پاؤں کے نیچے آکر ٹوٹ جاتا۔‘‘ وہی سنجیدہ سی بے نیازی کا تاثر لیے آواز ۔ فاطمہ کی نظر اپنے سرد پڑھتے خالی ہاتھوں پر گئی تھی ۔ وہ جب تیزی سے مڑی تھی تب ہی اس کا فون کہیں گرا تھا۔
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ۔ اسے بے اختیار ہی وہ محاورہ یاد آیا تھا۔
اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ پیچھے کردیا گویا کہہ رہی ہو موبائل اس پر رکھ دیں۔جبکہ پیچھے کھڑے عمر شہزاد نے قدرے حیرت سے اس پیچھے آئے ہاتھ کو دیکھا ، پھر وہ حیرت ناگواری میں تبدیل ہوئی تھی ۔ اسے اس صنف کے ایسے اٹینشن سیکر ڈراموں سے ہمیشہ ہی چڑ ہوتی تھی ۔ ایک تو لاپرواہی اپنی اوپر سے ایٹی ٹیوڈ فالتو کا ۔
وہ جھٹکے سے موبائل اس کی ہتھیلی پر رکھتا تیزی سے آگے بڑھ گیا تھا جبکہ اس نے کب کی دبی ہوئی سانس آہستہ سے آزاد کی تھی۔
اس کے بعد وہ وہاں رکی نہیں تھی ۔ اس وقت اس کے ذہن میں نہ تو نتاشہ کی ناراضگی تھی اور نہ ہی یہ کہ اتنی رات کو وہ کیسے اتنی لمبی ڈرائیو کرے گی۔ یاد تھا تو صرف یہ کہ اسی یہاں سے نکلنا تھا بس، ہر صورت، ہر قیمت پر۔
٭…٭…٭
’’اللہ کا شکر ہے سب خیر خیریت سے ہوگیا۔‘‘ امی نے گاڑی چلتے ہی شکر ادا کیا تھا۔
’’برا مانو یا اچھا مگر وہ لڑکی کے کپڑے مجھے پسند نہیں آئے، چلو ویسے جیسے مرضی پہنے لیکن دلہن ہونے کے ناطے تو کم از کم اسکو تھوڑے ڈھنگ کے پہننے چاہیے تھے۔‘‘ یہ پھپھو تھیں جو نتاشہ کے سلیولیس ہاف بلاؤز والے لہنگے کا زکر کر رہی تھیں۔
’’وہ اسلام آباد میں رہتی ہے پھپھو، بعد میں بھی اسد بھائی اسے اپنے ساتھ لاہور میں ہی رکھیں گے ، کون سا گاؤں میں رہنا ہے ان کو ہمارے ساتھ ۔ اس لیے انجوائے کریں اور ان کو بھی کرنے دیں۔‘‘ یہ فریحہ تھی جسے پھپھو کی تنقید کچھ خاص پسند نہیں آئی تھی۔
’’اسلام آباد میں رہتی ہے تو کیا اسلام آباد والوں کو کوئی خاص استثنا حاصل ہے ؟ یا انہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘ پھپھو کو یقینا کافی بری لگی تھی فریحہ کی بات تبھی وہ بڑھکی تھیں ۔ جبکہ یہ سب سنتے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عمر شہزاد نے بے اختیار ہی ایک لمبی سانس بھری تھی ۔ وہ جانتا تھا یہ تبصرے گھر پہنچنے تک ایسے ہی جاری ساری رہیں گے ۔ اسد کی یہ پسند کی شادی تھی، اور بھائی ہونے کے ناطے وہ اس کی خوشی میں خوش تھا ۔ نتاشہ ایک اچھی لڑکی تھی بس تھوڑی زیادہ ماڈرن تھی جو ان سب کے لیے کوئی اتنی قابل اعتراض بات نہیں تھی مگر باقی رشتہ داروں کے لیے تھی ۔
وہ اسلام آباد سے سو کلو میٹر فاصلے پر واقع ایک جدید قصبہ نماں گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور ہر طرح کی ترقی کےبعد بھی بڑی مضبوطی سے اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے تھے ۔ اس سب کا کریڈٹ وہ امی کو دیتا تھا جنہوں نے ہمیشہ مثبت رہتے ہوئے ان تینوں بہن بھائیوں کی تربیت کی تھی، ہر جگہ سسرال کو آگے رکھا، اور بچوں کو بھی ہمیشہ صلہ رحمی ، کسی کو جج نہ کرنا اور کسی کو گناہ ثواب کے پلڑے میں رکھ کے تولنے سے ہمیشہ منع کیا ، ان کو ہمیشہ فوکسڈ رکھا ۔ یہی وجہ تھی کہ آج پورے خاندان میں وہ سب سے زیادہ کامیاب اولاد ان کی تھی۔ سب سے بڑا وہ تھا جو بتیس سال کی عمر میں ڈی سی جیسی اہم پوسٹ پر تھا۔ اس سے دو سالہ چھوٹا اسد تھا جو اٹامک انرجی میں جونیئر سائنٹسٹ کے طور پر اپنی خدمات ادا کر رہا تھا۔پھر فریحہ تھی جو میڈیکل کے آخری سال میں تھی۔وہ سب اپنے ماں باپ کی طرح تھے۔ سمپل، کھرے،نرم دل، ہمدرد اور نان ججمینٹل۔۔۔
’’ ارے یہ کون ہے۔‘‘ فریحہ نے سامنے سڑک کے عین بیچوں بیچ کھڑی گاڑی کو دیکھا تھا جس کا بونٹ کھولے کوئی لڑکی اس پر جھکی ہوئی تھی ۔ عمر نے بھی بے اختیار بریک پر پاؤں رکھا تھا۔