یہی داغ تھے: چوتھا اور آخری حصہ
’’جی نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا ۔‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
سیکرٹری صاحب نے اب عمر کی طرف دیکھا ۔ وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا ہوا۔
’’میں معظم صاحب کی بات سے ایگری کرتا ہوں ۔ رولز اینڈ ریکگولیشنز مسٹ بی آ پرائرٹی ۔‘‘ بڑے دھیمے مسکراتے ہوئے لہجے میں کہ کر وہ بیٹھ گیا۔
اس کے بیٹھتے ہی ہال میں ایک معنی خیز سی خاموشی چھا گئی تھی۔پھر سیکرٹری صاحب نے آپریٹر کو پروجیکٹر آن کرنے کا کہا۔ پروجیکٹر آن ہوتے ہی اس پر چلنے والی ویڈیو نے سب کو ایک لمحے کے لیے ساکن کردیا۔
یہ کسی دفتر کا منظر تھا ۔ جہاں معظم شاہ فاطمہ سے بات چیت کر رہا تھا ۔ آپریٹر نے آواز بڑھا دی تھی۔
ہال میں گونجتی آواز پر معظم کا رنگ فق اور نظریں غیر یقینی طور پر پھیل گئی تھیں ۔ وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر ہی کوئی نہ کوئی تاثر تھا ایک سوائے عمر کے جو بڑے سکون سے مسکرا رہا تھا ۔ مسکرانا اسکی عادت تھی، وہ ہر طرح کے حالات میں بھی مسکرانا نہیں بھولتا تھا مگر اس پر سجتی بھی بہت تھی یہ مسکراہٹ ۔۔۔ اس کی مخصوص مسکراہٹ۔
پروجیکٹر پر اب مختلف سکرین شاٹس چل رہے تھے جہاں فاطمہ کو واضح طور پر دھمکایا گیا تھا ۔ ڈیمانڈز پوری نہ کرنے کے نتیجے میں سنگین متائج کی دھمکیاں دی گئیں تھیں پھر مختلف لوگوں سے اسکی چیٹس تھیں جس میں مختلف دستاویزات پر فاطمہ کے سائن کروانے کے بارے میں بات چیت تھی۔
’’یہ۔۔۔ یہ سب جھوٹ ہے ۔ فراڈ ہے ۔ فیبریکیٹڈ ہے سب ، سازش ہے میرے خلاف۔‘‘ وہ اٹھ کر چیخا تھا ۔
’’بی ہیو یور سیلف۔۔ ۔ دس از ناٹ یور ہوم ۔‘‘ سیکرٹری صاحب کی سخت آواز پر وہ قدرے ہوش میں آیا ور پھر لال پیلا ہوتا عمر کو دیکھنے لگا۔
’’رولز اینڈ ریکگولیشنز کے تحت آپ اپنا سسپینشن لیٹر آفس سے ریسیو کر کےجائیے گا مسٹر معظم ۔ کمشنر ملتان کےپاس آپکی انکوائری تمام تر ضابطوں کے ساتھ مکمل ہوگی۔‘‘ پینل کے فیصلے پر وہ بے یقین آگ بگولا ہوتا اس غیر متوقع صورتحال کو دیکھ رہا تھا۔
’’مس فاطمہ کو تمام تر الزامات سے بری کر کے اپنی پوزیشن پر مکمل آنر کے ساتھ بحال کیا جاتا ہے ۔ مسٹر عمر شہزاد اپنا ریلیشن دوران انکوائری چھپانے کے لیےفائن جمع کرانے کے پابند ہیں ۔ وہ ڈی سی ایبٹ آباد کے طور پر اپنی خدمات مکمل اختیارات کے ساتھ جاری رکھیں گے۔‘‘ فیصلہ سنا دیا گیا تھا ۔ پینل اٹھ کے جا چکا تھا ۔ ہال میں اب وہی تھے۔
’’میں چاہتا تو تمہارا یہ سارا چٹھا کٹھا میڈیا میں دے سکتا تھا معظم جیسے تم نے میرا دیا تھا مگر میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، مجھے کسی کی عزت اچھالنا اچھا نہیں لگتا ۔ امید ہے تم اس کو پازیٹیولی لے کر آگے خود کو بہتر بناؤ گے ۔گڈ لک ! ‘‘ اس نے خلوص سے مسکراتے ہوئے معظم سے کہا جو اسوقت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی مثال بنا کھڑا تھا۔
’’شٹ اپ ۔‘‘ وہ چیخا ۔عمر نے بے اختیار کان پر ہاتھ رکھے۔
’’میری بیوی کو شور سے بہت چڑ ہے ۔‘‘ اس نے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو بھرائی آنکھوں سے یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی ۔ معظم قہر بھری نظروں سے انہیں دیکھتا باہر چلا گیا۔ اسکے باہر جاتے ہو وہ اسکے پاس آئی تھی اور پھر بنا کچھ کہے اسکے گلے لگ گئی تھی ۔ آنسو ایک بار پھر اسکی شرٹ کو بھگو رہے تھے ۔ اب کہ بے یقین ہونے کی باری اسکی تھی ۔ بہت آہستہ سے اس نے اپنے بازو اسکے گرد لپیٹے۔
’’بی ہیو یور سیلف ۔ دس از ناٹ یور ہوم۔‘‘ اسنے بے بسی سے بڑے آہستگی سے سیکرٹری صاحب کے فقرے دہرائے۔
’’مجھ غریب کے دل سے کھیل رہی ہیں ۔‘‘ اسکے کہنے پر وہ آہستہ سے پیچھے ہوئی ۔آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔
’’ان آنسوؤں کو روکنے کے لیے میں یہ سب کیا ، آپ پھر بھی روئے جارہی ہیں یار ۔‘‘ اسنے افسوس کیا ۔ وہ مسکرائی بھیگے چہرے کے ساتھ تو وہ مبہوت ہوگیا تھا۔
’’اب نہیں روؤں گی۔‘‘ اسکا لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
’’اب تو میرے رونے کے دن شروع ہوگئے ۔بیٹھے بٹھائے اتنا فائن بھی ہوگیا ۔ شادی کرا کے واقعی انسان کنگال ہوجاتا ہے ۔‘‘ معصومیت سے کہتا وہ اسے ساتھ لگائے باہر نکل گیا تھا جبکہ وہ سکون سے چل رہی تھی اسکے ساتھ۔
٭…٭…٭
’’مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے بہت۔‘‘ اسکے دسویں دفعہ دہرائے جانے والے جملے پر عمر نے خشگمیں نظروں سے اسکی طرف دیکھا تھا بغور۔
’’خواتین کا وطیرہ ہے کہ شوہر کو کسی نہ کسی طرح اپنی طرف متوجہ رکھنا ہے یا صرف بالخصوص آپ ایسا کر رہی ہیں؟‘‘ اسنے بے حد سنجیدگی سے سوال کیا کیونکہ اسکا بار بار دھیان ڈرائیونگ سے ہٹ رہا تھا ۔ پچھلے دو دن وہ فاطمہ کی ساہیوال میں بطور ای سی ری جوائننگ میں مصروف رہا تھا اور آج وہ اسے پہلی مرتبہ اپنے گاؤں لے کر جا رہا تھا جس پر فاطمہ نے گھبراہٹ ہو رہی ہے کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔
’’مجھے واقعی ہورہی ہے گھبراہٹ ۔‘‘ اسے غصہ آیا ۔
’’یار میری فیملی کوئی خدانخواستہ ایسی بھی خونخوار نہیں ۔ہاں اگر آپ کی امی سے ملنے جانا ہوتا تو میرا یہ کہنا بنتا تھا کہ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔‘‘ وہ انکے جلالی روپ کو یاد کرتے ہوئے بولا مگر پھر فاطمہ کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ مڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور ہوا اور اسکا سرخ چہرہ اور آنسو پینے کی ناکام کوشش کرتی آنکھیں دیکھ دیکھ کر وہ بے اختیار شرمندہ ہوا۔
’’ایم رئیلی سوری ۔ میں صرف مزاق میں آنٹی کے بارے میں ایسی بات کی ۔ آئی نو ان حالات میں جب وہ آپ سے ناراض ہیں تو آپکو بہت فیل ہوئی ہوگی یہ بات۔ ایم رئیلی سوری۔‘‘ وہ واقعی شرمندہ تھا ۔ کسی کو بھی ہرٹ کرنا اسکے لیے بہت مشکل تھا یہ تو پھر اسکی بیوی تھی۔
’’اٹس اوکے ۔‘‘ اسنے آہستگی سے کہا ۔ وہ اسکی کنڈیشن سمجھ رہا تھا۔میکے کی کوئی بھی سپورٹ کے بغیر اس طرح سسرال جانا یقینا اسکو پریشان کر رہا تھا ۔ اس لیے وہ مذاق سے اسکا موڈ ٹھیک کر نا چاہ رہا تھا۔
’’میری فیملی پہلے آپ سے مل چکی ہوئی ہے ۔ آپ بھی مل چکی ہیں ان سے پھر کیوں پریشان ہو رہی ہیں ۔‘‘ عمر نے ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔
’’دس منٹ کی بیچ سڑک پر ملاقات اور بہو بن کے جانے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ انہوں نے بھی تو کوئی خاکہ اپنے ذہن میں بنایاہوگا ایک بہت اچھی بہو کا پتہ نہیں میں ویسی لگوں گی ان کو یا نہیں۔‘‘ اسکی فکرمندی پر وہ مسکرایا۔
’’جو بھی خاکہ ان کے ذہن میں ہوگا وہ آپ سے اچھا نہیں ہوسکتا فاطمہ ، بلیو می۔‘‘ اسکے پر یقین لہجے پر اسکو کچھ حوصلہ ہوا۔
’’سب لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں ہمارا ۔ پریشان مت ہوں اور سمائل کریں، آپ کوئی عام لڑکی نہیں ہیں ۔پڑھی لکھی ،ذہین ، سلجھی ہوئی ایک ذمہ دار آفیسر ہیں ۔ ایسی بہو تو چراغ لے کر بھی ڈھونڈھیں تو نہیں ملتی ۔‘‘ وہ اپنے مخصوص نرم سٹائل سے اسے اسکی ذات کا یقین واپس دلا رہا تھااور وہ واقعی کافی ریلیکس ہوگئی تھی۔
’’اب اگر اجازت ہو تو میں گاڑی دھیان سے چلا لوں ۔‘‘ اسنے شرارت سے پوچھا۔
’’جی چلا لیں ۔‘‘ بے نیازی سے کہتے ہوئے وہ رخ موڑ کر شیشے سے باہر دیکھنے لگ گئی ۔عمر نے حیرت سے اسکے اس سٹائل کو دیکھا ۔کبھی کبھی تو وہ اسے حیران کر دیتی تھی پھر مسکراتے ہوئے اسنے گاڑی کا رخ گاؤں والی سڑک کی طرف موڑ دیا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ گاؤں کے اندر داخل ہوگئے تھے جہاں کچے پکے مکان بڑی ترتیب سے بنے ہوئے تھے ۔کسی بھی گھر کا تھڑا آگے کو نہ تھا ۔ یہ سمٹری دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی اور اسکا اظہار بھی اسنے کیا۔
’’یہاں امیر غریب متوسط طبقہ سب رہتے مگر سب کے سب باشعور لوگ ہیں ۔ گھر آگے کو بڑھا کر راستہ تنگ کردینا یہاں بے غیرتی سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘ عمر کے لہجے میں فخر تھا ۔ وہی فخر جو ہر انسان کو اپنی آبائی جگہ کے بارے میں کچھ اچھا سن کر ہوتا ہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس ےنے سرخ اینٹوں سے بنے بوگن ویلیا کی بیلوں سے ڈھکے دیواروں والے بڑے سے گھر کے سامنے گاڑی روکی تھی ۔فاطمہ کی دل کی دھڑکن دوبارہ تیز ہوگئی تھی ۔ اسے ساتھ لیتا وہ اندر کی طرف بڑھا ۔ سفید پتھر لگے پورچ میں تقریبا دس سے بارہ لوگ ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے ۔ اس میں سے وہ صرف عمر کی امی ، پھپھو اور فریحہ کو جانتی تھی ۔ نتاشہ یقینا ابھی نہیں پہنچی تھی ۔ بھرپور استقبال کے بعد اسکا سب سے تعارف کروایا گیا تھا ۔ ہر کوئی اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا مگر اس حیرت میں خوشی بھی تھی ۔وہ کافی ریلیکس ہوگئی تھی سب سے مل کر، کسی بھی قسم کا سوال اس سے نہیں کیا گیا تھا۔
فریحہ اسے لے کر کمرے میں چلی گئی تھی جہاں بیڈ پر سرخ پشمینہ کڑھائی والا پٹھانی سوٹ پڑا تھا۔
’’بھابھی آپ یہ ڈریس پہن لیں پھر سب نے منہ دکھائی کی رسم کرنی ہے ۔‘‘ اسنے سوٹ کی طرف اشارہ کیا اور باہر چلی گئی ۔ وہ الجھی سی اس سوٹ کو دیکھنے لگ گئی ۔ اسنے کبھی بھی ایسے کپڑے نہیں پہنے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ چینج کر کے جب خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی تو خوش ہو رہی تھی ۔ پٹھانی فراک کی طرز پر بنا ہوا سوٹ اسکے نازک وجود پر بہت سج رہا تھا۔ اس نے با ل کنگھی کرنے کے لیے کھولے جب قدموں کی پیچھے سے ہوتی آہٹ پر وہ مڑ کے دیکھنے ہر مجبور ہوئی ۔ سامنے وہ کھڑا تھا دنگ سا، حیران سرخ پشمینہ فراک میں اسکی چمکتی آنکھیں اور چہرہ مستزاد اسپر کھلے سنہری بال ۔اس کے اس طرح یک ٹک دیکھنے پر وہ کنفیوژ ہو کر دوبارہ رخ موڑ گئی۔
’’کیا اچھا نہیں لگ رہاڈریس؟‘‘ رخ موڑے اسنے پوچھا۔
’’باہر سب ویٹ کر رہے ہیں ورنہ میں بہت اچھے سے اسکا جواب دیتا ۔‘‘ اسکے آنچ دیتے بوجھل لہجے پر وہ بے اختیار اپنے ٹھنڈے ہوتے ہاتھ مسلنے لگی تھی۔
بال باندھ کر آجائیں ، میں باہر کھڑا ہوں دروازے پر۔‘‘ وہ کہہ کر رکا نہیں تھا ۔ اسنے بال تیزی سے باندھ کر شال پہنی اور باہر نکل آئی جہاں وہ کھڑا اسے دیکھنے سے بھی گریز کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
بڑا سا روشنیوں ،پھولوں اور رنگوں سے سجا ہال اور دھیمی سروں میں بجتا علاقائی میوزک ۔ وائٹ ٹو پیس پہنے دلہا اور وائٹ میکسی پہنے دلہن دونوں کے اندر داخل ہوتے ہی ہال میں پھولوں کی بارش شروع ہوگئی تھی ۔ اگر وہ آج کے دن کا سکندر تھا تو اسکی ملکہ اسکے ساتھ تھی ۔ وہ حیران سی نتاشہ کو دیکھ رہی تھی جو باقی سب کے ساتھ بڑے ایکسپرٹ انداز میں پہاڑی ڈانس کا سٹیپ کر کے ان کو ویلکم کر رہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ، نتاشہ کے عقب سے نمودار ہونے والا چہرہ دیکھ کر وہ بے یقین اور ساکت ہوئی تھی لیکن اس کے ساتھ کھڑا عمر بھرپور طریقے سے مسکرایا تھا ۔ شہزادی کے جسم سے آخری سوئی نکلنے کا وقت آگیا تھا
وہ شاکڈ ان کو دیکھ رہی تھی جو بھرائی آنکھوں کے ساتھ اسے دلہن بنے دیکھ رہی تھیں۔
’’امی۔۔۔‘‘ اسکے ہونٹوں نے بے آواز جنبش کی ۔ وہ آگے بڑھی تھیں اور پھر اسے ساتھ لگایا تھا ۔ اسے نہیں پتہ کب اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنا شروع ہوا ۔یہ احساس، یہ بے یقینی، ان کی ممتا کا لمس ۔ وہ زارو قطار رو رہی تھی ۔ وہ کمی جو تب سے محسوس ہو رہی تھی ۔ جو اسے پوری طرح خوش نہیں ہونے دے رہی تھی وہ خودبخود پوری ہوگئی تھی ۔ وہ بھی رو رہی تھیں اور ان کو دیکھ کر اور بھی بہت آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔ انہوں نے آنسو چاف کر کے اس کا ماتھا چوما بالکل ایسے جیسے وہ بچپن میں چومتی تھیں پھر اسکے آنسو صاف کیے مگر پھر بھی وہ مسلسل بہہ رہے تھے ۔ بھابھی نے آگے ہو کر ان کو الگ کیا اور خود فاطمہ سے ملیں ۔ اسے لگا آصف بھائی سے مل رہی ہے وہ، ان کی یاد آتے ہی اسکی ہچکی بندھ گئی تھی ۔ وہ اسکا ایسا خسارہ تھا جو تاعمر پورا ہونے والا نہیں تھا۔
’’سحرش نے سب بتا دیا فاطمہ ۔‘‘ بھابھی نے اسے ساتھ لگائے روتے ہوئے کہا۔
’’وہ لڑکا جو تم لوگوں کے پیچھے آتا تھا ، سحرش اسکے ساتھ تم بن کے بات کرتی رہی ۔ وہ آئی تھی گھر، اس کی طلاق ہوگئی ہے ۔ وہ بہت رو رہی تھی ، معافی مانگ رہی تھی ۔ ہم تمہیں غلط سمجھے۔ آصف کا اعتبار بالکل ٹھیک تھا تم پر ۔‘‘ بھابھی کے انکشاف پر وہ فق سی انہیں دیکھتی رہ گئی ۔شاید یہ آخری چیز تھی جو وہ سحرش سے ایکسپیکٹ کبھی کر رہی تھی ۔
معظم شاہ کا اس کے اور سحرش کے پیچھے آنا، روز روز تنگ کرنا ، گھر میں تحائف بھیجنا۔
’’آپ لوگ یقین کریں میں اس کو نہیں جانتی۔‘‘ اس کا رو روکر سب کویقین دلانا لیکن اسکا یقین کسی نے نہیں کیا تھاسوائے آصف بھائی کے۔ اور پھر صرف اس کی وجہ سے آصف بھائی کے ہاتھوں سےمعظم شاہ کا ایک بندہ قتل ہوگیا تھا۔ ان کے بعد اس نے مقابلے کا سخت امتحان دیا اور وقت اس کو پھر سے معظم شاہ کے پاس لے گیا تھا۔ وہی سب کچھ دوبارہ سے شروع ہوا معظم ایک غلیظ انسان تھا۔
ماضی سے نکل کر اسنے ڈبڈبائی آنکھوں سے امی کو دیکھا جو عمر کو پیار دے رہی تھیں ۔ اسکے سارے رشتے اسکے پاس واپس آگئے تھے ۔ وہ چکر جس میں اسکی زندگی گھوم رہی تھی یکدم ہی کسی پرسکون گھوشے میں آگیا تھا ۔ ایک وقت تھا جب اسے لگتا تھا کہ یہ برا وقت اسکے ساتھ تا حیات رہے گا مگر ایک ہم سوچتے ہیں اور ایک اللہ سوچتا ہے اور جو وہ اپنےبندے کے لیے سوچتا ہے وہ سب سے بہترین ہوتا ہے ۔ وقتی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ ہم ہار گئے، سب غلط ہوگیا مگر پھر چیزیں ایک نہ ایک دن ٹھیک ہو جاتی ہیں۔
’’کیا میرا انتخاب ٹھیک ثابت نہیں ہوا تمہارے لیے؟ ‘‘ مسکین بھائی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔ انکے کہنے پر اسنے سب سے مسکرا مسکرا کر ملتے عمر کی طرف دیکھا ۔ وہ اسکے لیے اللہ کا انتخاب تھا ، اللہ نے اسے اسکے لیے چنا تھا ۔مسکین بھائی تو وسیلہ بنے تھے اور اس شخص کے آسرے وہ آج ان تمام خوشیوں کے ساتھ تھی جن کو وہ ترس گئی تھی۔
’’آپ نے کہا تھا کہ یہ آپ کا فیصلہ ہے اور آصف سمجھ کر میں آپکا فیصلہ مان لوں ۔ ‘‘ انکے کہنے پر اس نے سر اٹھا کر دھیمے سی انکی بات دہرائی ۔ وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
’’آصف بھائی کا کوئی بھی فیصلہ میرے حق میں برا ہو ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس کی آواز بھرائی تھی ، مسکین بھائی نے اسے ساتھ لگایا۔
’’خوش رہو ہمیشہ ۔‘‘ انہوں نے صدق دلی سے دعا دی اور اپنی طرف آتے عمر کو دیکھ کر اس سے ملنے لگے ۔ ان سے مل کر وہ سیدھا اسکے پاس آیا تھا جو یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ ایسے تو اسے وہ دیکھتا ہوتا تھا ۔
’’آپ روئی ہیں پھر سے۔‘‘ اسکے لہجے میں تشویش تھی۔
’’ہر بار میں کہتا ہوں کہ بس اب آپ نہیں روئیں گی، اب سب ٹھیک ہوگیا ہے مگر آپ پھر بھی کوئی بہانہ ڈھونڈھ لیتی ہیں۔‘‘ وہ خفا سا ٹیبل سے ٹشو اٹھا کر اسکے رخسار سے ٹپکتا پانی کا قطرہ روکنے لگا۔
’’آئی۔۔ ایم ۔۔ ان ۔۔ لو۔‘‘ وہ رک رک کرکہہ رہی تھی نظریں اب بھی اسپر جمی تھیں ۔ عمر ساکت ہوا تھا۔
’’کیا۔ ۔۔ کیا کہا؟‘‘ وہ بے یقینی سے پوچھ رہا تھا ۔ اسنے جواب دینے کی بجائے دونوں ہاتھ اسکے بازوؤں پر رکھے اور سر اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔
’’پہلی بار سننے کی عادت ڈالیں، میں اپنی بات دہرانے کی عادی نہیں ۔‘‘ اسنے آنکھیں موندھتے ہوئے بے نیازی سے کہا ۔ جبکہ وہ دل کی بے تحاشہ تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ اسکے چہرے پر پھیلا سکون ، لہجے میں موجود مان اور یہ خود سپردگی دیکھ رہا تھا ۔ بے پایاں خوشی تھی، بے انتہا مسرت کہ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیسے بیان کرے۔ اس نے آہستگی سے اپنا حصار اس کے گرد مضبوط کیا۔
’’تھینک یو فار دس آنر۔‘‘ وہ مشکور سا جھک کر اسکے کان میں بولا جو سر اٹھائے فخر سے اسکو دیکھ رہی تھی۔
وہ ایک اچھا آدمی، اچھا شوہراور بہت اچھا بیٹا تھا۔ اس نے آصف بھائی کے بعد وہ دوسرا بندہ دیکھا تھا جو اسکے لیے بہت حساس تھا ۔ انتہا کا نرم دل اور عورت کو اصل ملکہ سمجھنے والا شخص۔ نان ججمینٹل ، ہمیشہ مسکراتا ہوا۔ زندگی میں آگے کیا ہونا تھا کیا نہیں وہ نہیں جانتی تھی ۔ اتنا جانتی تھی کہ ہمیشہ خوشیاں ہی نہیں رہیں گی ۔ برا وقت بھی آئے گا اور اچھا بھی مگر ایک عہد اسنے خود کے ساتھ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ اس شخص کی وفادار رہے گی جو نہ صرف اسکا محسن اور شوہر تھا بلکہ اسکی پہلی اور آخری محبت بھی۔
اسکے ساتھ سٹیج کی طرف بڑھتے ہوئے اسکے ساتھ قدم ملا کر چلنا اسے کتنا اچھا لگ رہا تھا شاید وہ اسے کبھی بتا پائے ، وہ اسے مکمل کر چکا تھا اور اسے یقین تھا کہ اسکے بغیر وہ ادھوری تھی۔
سٹیج پر اسے بٹھاتے ہوئے وہ اس کے ساتھ بعد میں بیٹھا تھا۔
ہر ایک عمل سے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا وہ اسے سپیشل فیل کرواتا تھا ۔ مسکراتے ہوئے دونوں نے تصویر بناتی نتاشہ کو پوز دیا تھا اور ان سب خوشیوں کے لیے خدا کا شکر ادا کیا۔
ختم شد
بہترین کہانی اور انداز بیان بھی خوب ہے . میں خود بھی فاطمہ کے ساتھ ساتھ روئی ہوں . واقعی مشکل حالات سے گزری فاطمہ۔ اچھی شکل نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ تبھی اللّه کا حکم ہے عورت کو کہ اسے چھپایا جائے .
The author deserved an applaud. Though there were some cliche things but it was good story and good effort. Thanks for writing this.