یہی داغ تھے: چوتھا اور آخری حصہ
اگلی صبح وہ دونوں اسلام آباد کے لیے نکل پڑے تھے۔ سارا راستہ اسکا دل تیز دھڑکتا رہا۔
’’آپ کوئی بھی بیان نہیں دیں گی، کوئی بھی نہ اعترافی ، نہ انکاری۔ صرف یہ کہیں گی کہ آپ کو دو دن دیئے جائیں جواب جمع کروانے کے لیے۔ یہ وقت مانگنا آپکا حق ہے اور بنا پریشر لیے آپنے مانگنا ہے۔‘‘ اسے ڈی سی اسلام آباد کے آفس کے سامنے ڈراپ کرتے کوئے وہ نصیحت کر رہا تھا ۔ جبکہ وہ آنسو پینے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
’’مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے اندر کے خوف کو ظاہر کیا۔
’’ڈرنا نہیں ہے ۔بہت سٹرانگ ہیں آپ یہ یاد رکھیں کہ سب سے طاقتور اللہ ہے اور کوئی نہیں۔‘‘ اسنے اسے ساتھ لگا کر کندھا تھپکا۔
’’جائیں شاباش، ایم آلویز پراؤڈ آف یو۔‘‘ مسکراتے ہوئے اسنے اسے مزید ہمت دی ۔ وہ بمشکل خود پر قابو پاتی اتری اور اندر کی جانب بڑھ گئی جبکہ اسکا رخ اب سیکرٹریٹ کی طرف تھا۔
وہاں پہنچ کر وہ سیدھا سیکرٹری صاب کے پاس گیا تھا۔
’’آئو عمر! تمہارا ہی انتظار کررہا تھا میں، کیا ہے یہ سب ۔کل سے پوری بیورو کریسی ہل کہ رہ گئی ہے اگر تم جیسا بندہ یہ سب کرسکتا ہے تو ۔۔۔‘‘ وہ سخت ناراض تھے اور حیران بھی ۔ وہ انکی ناراضگی کو جائز سمجھ رہا تھا کیونکہ وہ ہر بات سے سےانجان تھے۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر کچھ کہنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ یہ سب آپ دکھ لیں ۔‘‘ اسنے ہاتھ میں پکڑی فائلز اور یو ایس بھی ان کی طرف بڑھائی ۔ وہ کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگے۔
’’یہ سب کیا ہے۔‘‘ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ریکارڈ تھاما۔
’’آپ دیکھیں گے تو سب سمجھ جائیں گے۔‘‘ اسکے مضبوط لہجے میں کہنے پر وہ سر ہلا کہ فائلز کھولنے لگے جبکہ وہ چپ بیٹھا انکے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھتارہا۔
٭…٭…٭
ادھر وہ ٹھنڈے ہوتے ہاتھ پیروں کے سا تھ پورا دن وہاں کرسی پر بیٹھی رہی تھی مگر اس سے کوئی بھی بیان لینا ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ اسے آج کے دن ذلیل کرنا زیادہ ضروری سمجھا گیا ۔ شام کو وہ اسے لینے آیا تھا اور یہ جان کر کہ اسے پورا دن باہر بیٹھنا پڑا وہ خاصا ناراض ہوا تھا۔
’’آپ نے بھی یہی کیا تھا میرے ساتھ اس لیے اب غصہ نہ کریں ۔‘‘ آرام سے کہتی وہ اسے سنا گئی تھی۔ اب وہ آگیا تھاتوساتھ ہی ساری ٹینشن دور ہوگئی تھی۔
’’میں کیسے بھول جاتاہوں کہ آپ کچھ نہیں بھولتیں۔‘‘ وہ تاسف سے بولا۔
’’جہاں ایسے جواب دینے چاہیے وہاں آپکا بلڈ پریشر لو ہونے لگ جاتا ہے ۔ادھر آتے ہی ایسے تاک تاک کے حملے کرتی ہیں مجھ معصوم پر۔‘‘ وہ مظلومیت سے کہتا اسکی بے نیازی دیکھ رہا تھاجو لفظ معصوم پر پوری طرح مڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور ہوئی تھی۔
’’اصلی معصوم نے سن لیا تو جان سے بھی جاسکتا ہے مارے غم کے۔‘‘ وہ بغور اس کو دیکھتے ہوئے وارن کر رہی تھی جبکہ اسکے "اصلی معصوم‘‘ کہنے پر وہ زور سے ہنسا۔
’’یہ اصلی معصوم کونسی کیٹگری ہوتی ہے ہیں؟‘‘ وہ ابھی بھی ہنس رہا تھا ۔
’’اسکے بارے میں صرف اصلی معصوم ہی جانتے ۔ آپ جیسے۔۔۔‘‘ اسنے ایک بار پھر فقرہ ادھورا چھوڑا۔ گاڑی میں اسکا قہقہہ پھر سے گونجا۔
’’کیس سے ذرا فارغ ہولیں پھر بتاتا ہوں آپکو میں کہ نقلی معصوم کتنے خطرناک ہوتے۔‘‘ حسب عادت وہ پٹری سے اترااور وہ ساتھ ہی رخ موڑ کے بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
واپس ایبٹ آباد جانے کی بجائے وہ اسے مری لے آیا تھا۔
’’بہت ہی اچھےحالات چل رہے ہمارے ۔یہی تو بیسٹ ٹائم تھا مری آنے کا۔‘‘ وہ تپی تھی جب گاڑی پی سی میں داخل ہوئی تھی۔
’’مری آنے کا کوئی مخصوص ٹائم نہیں ہوتا ۔ یہاں تو انسان کبھی بھی آسکتا۔ ہوسکتا کل ہماری جاب ختم ہوجائے پھر ہم ویسے ہی نہ آسکیں۔‘‘ اسکے ڈرانے پر اسنے بے اختیار ’’اللہ نہ کرے‘‘ کہا۔
’’پی سی بھوربن کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی خوبصورتی سامنے تھی ۔ وہ مبہوت سی دیکھے گئی ۔ پہاڑوں کے درمیان میں بنا یہ وسیع و عریض ہوٹل ہر ایک جدید سہولت سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی خوبصورتی سے بھی ہر سیاح کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔
چیکنگ کے بعد وہ کمرہ بک کروا کے اسے ہوٹل کے اوپری حصے میں لے آیا تھا جہاں بہت سے لوگ بیٹھے موسم انجوائےکر رہے تھے اور ساتھ میں کھانے پینے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ یہاں سے دور نظر آتے سبزے میں ڈھکے پہاڑوں کا سلسلہ بہت دور تک پھیلا نظر آرہا تھا ۔ وہ بھی قدرے کونے میں لگے میز پر جا کے بیٹھ گئے۔
’’کیسا لگ رہا ہے ۔‘‘ اسے مبہوت دیکھ کر اسنے پوچھا۔
’’بہت خوبصورت ۔‘‘ آرکسٹرا پر کوئی بہت ہی خوبصورت دھن بج رہی تھی ۔ڈھلتی شام اور اس میں اس قدر دلکش ماحول نے اسکے اندر نئی روح پھونک دی تھی۔
’’میں پہلے بھی آچکی ہوں یہاں نتاشہ کے ساتھ ۔ جب ہم یونیورسٹی میں تھے مگر ہر بار نیا ہی لگتا ہے ۔مری میں کوئی خاص بات ہے جو شاید کسی اور جگہ میں نہیں ۔‘‘ دھیمے لہجے میں وہ کھوئی کھوئی اسے بتا رہی تھی اور وہ یک ٹک گرین دوپٹے کے ہالے میں اس کے صاف شفاف چمکتے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کو پتہ ہےمجھے چیئر لفٹ سے اتنا ڈر لگتا تھا کہ بس ۔ مجھے لگتا تھا وہ راستے میں ہی مجھے گراآئے گی دور کہیں ۔‘‘ وہ کہہ کر خود ہی ہنسی۔عمر نے مسکراتے ہوئے چائے اسکے سامنے رکھی۔
’’آپ کو سب سے اچھی جگہ کونسی لگتی مری میں ۔‘‘ وہ اب ایکسائیٹڈ سی اس سے پوچھ رہی تھی۔
’’ساری ہی ٹھیک ہیں ۔ مجھے سب سے زیادہ ہنزہ پسند ہے ۔ لے کے جاؤں گا آپکو ادھر۔ مری وغیرہ سب بھول جائیں گی آپ۔‘‘ اس نے اپنی چائے میں چینی مکس کرتے ہوئے بتایا۔
’’نہیں مری کی اپنی ایک بات ہے ۔‘‘ وہ اپنی پسند پر قائم تھی۔
’’آپ بہت ضدی ہیں ویسے۔‘‘ عمر نے مسکراہٹ دبائے کہا ۔وہ واقعی ایک ہی بات پر اڑ جاتی تھی۔
’’مجھے آپکی طرح میٹھے بن کے کام نہیں نکلوانے آتے ، میں بیوقوف ہوں بہت ۔‘‘ اس نے گویا اعلان کیا ۔اسکے برملا اعتراف پر وہ ہنسا۔
’’میں نے کس سے میٹھے بن کر کام نکلوائے ہیں ۔‘‘ اس نے دلچسپ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’میرے مسکین بھائی سے۔‘‘ بڑے سکون سے اس نے کہا۔ اسکی بات پر وہ اتنی زور سے ہنسا کہ ارد گرد کے لوگ اسے دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔
’’بہت تیز ہیں آپ ۔ سارا پتہ آپ کو ۔‘‘ وہ ابھی بھی ہنس رہا تھا۔
’’بیویوں کو سب پتہ چل جاتا ۔‘‘ بڑی سنجیدگی سے اسنے کہا۔
’’جی بالکل بس شوہر کے دل کے حال کے علاوہ سب پتہ ہوتا ان کو ۔‘‘ اسنے چائے کی پیالی منہ کو لگائی مگر نظریں اسی پر تھیں جو نظر ملاتی ہی نہیں تھی اس سے۔
’’دلوں کے حال تو بس اللہ ہی جانتے ہیں سب کے ۔‘‘ اسنے بڑی صفائی سے دامن بچایا۔
’’ویسے کیا فائدہ ہوا ٹریننگ میں اتنا محتاط رہنے کا ۔ اس کو تو پھر بھی پتہ چل گیا سب ۔‘‘ اسنے ایک بار پھر اسکی احتیاط کو نشانہ بنایا۔
’’صحیح کہہ رہی ہیں آپ ۔ مجھے چاہیے تھا ہر وقت آپکے ساتھ رہتا ۔ ایویں دن ضائع کیے ۔ خوب انجوائے کرتا ۔‘‘ اس نے بھی جوابا بڑے ہی افسوس کا مظاہرہ کیا۔
’’میرا وہ مطلب نہیں۔‘‘ فاطمہ نے فورا کہا مگر اسکی گہری مسکراہٹ دیکھ کر وہ خائف سی ہوگئی۔
’’پتہ نہیں کل کیا بنے گا۔‘‘ اب اسے کل کی فکر ستا رہی تھی ۔ عمر نے بے اختیار ہی گہری سانس لی ۔ وہ اس لڑکی کا کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔ ایک سامنے بیٹھے بندے کے علاوہ اسکی سوئی کہیں نہ کہیں اٹکی رہنی تھی۔
’’آپ کے پاس وہ مسٹرڈ ساڑھی ہے جو آپ نے نتاشہ کہ مہندی پر پہنی تھی؟‘‘ اسکے بالکل غیر متوقع سوال پر وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔
’’آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کو نتاشہ نے بتایا کہ میں اسکی دوست ہوں اور مہندی میں نہیں دیکھا آپ نے۔‘‘ اس نے جواب دینے کی بجائے سوال کیا ۔
’’میں نے واقعی نہیں دیکھا تھامگر سڑک کے بیچوں بیچ جب کوئی وہی کلپ لگائے کھڑا ہو بالوں میں تو سب پتہ چل جاتا ۔ ہر کوئی آپکی طرح معصوم تھوڑی ہوتا۔‘‘ عمر نے بمشکل خود کو بیوقوف کہنے سے روکا مگر وہ پھر بھی سمجھ گئی تھی اسکا مطلب ۔ اسکے خفا چہرے کو دیکھ کر وہ پھر سے ہنس پڑا۔
’’آپ نے خود یہ الفاظ کہے تھے اپنے بارے میں ۔‘‘ اسنے یاد دلایا۔
’’میں تو کہہ سکتی ہوں ۔ آپ کو مجھے نہیں کہنا چاہئے۔ آپ کو میری تعریف کرنی چاہیے ۔ آپ میری تعریف نہیں کرتے بالکل بھی۔‘‘ اسکے اعتراضات پر وہ مسکراتا رہا۔ یہی وہ چاہتا تھا ۔ وہ دھیرے دھیرے کھل رہی تھی اسکے ساتھ اور یہ کھلنا بہت دلفریب تھا ۔اس لڑکی کی شخصیت کا یہ سادہ پہلو اسے مزید اٹریکٹ کر رہا تھا ۔ یہ اسکا اصل تھا جو وقت اور حالات کی گردش میں کہیں چھپ گیا تھا مگر اب باہرآرہا تھا ۔ وہ بہت سادہ ، سٹریٹ فاروڈ، قدرے ضدی مگر معصوم تھی ۔ بہت ساری چیزوں میں اسکی ذہانت کی بڑی واضح جھلک اسے نظر آتی اور بہت میں ایک معصوم لڑکی کی جو اس دنیا میں کہیں کھو گئی تھی ۔
’’آپ میری طرف دیکھتی نہیں ہیں ۔ میری آنکھیں ہر وقت آپ کو کھوجتی ہیں جب آپ میرے ارد گرد نہیں ہوتی اور جب ہوتی ہیں میں کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتا تو تعریف کیا خاک کروں گا میں۔‘‘ وہ بڑی بے بسی سے کہہ رہا تھا مگر اسکے چہرے پر کھلتی رنگوں کی دھنک نے اسکے اندر اٹھتے جزبات کو شدید کردیا تھا ۔ وہ کوئی جادوگر تھی جو انجانے میں ہی منتر پھونک جاتی تھی ۔ اسے اعتراف ہوا کہ وہ کبھی بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکا تھا نہ تب جب وہ پہلی بار اسکے دفتر میں آئی تھی نہ اب جب وہ اسکا سب کچھ تھی۔
’’اس سب سے فری ہو کر ہم ایک گرینڈ ریسیپشن کریں گے اس میں آپ ساڑھی پہننا۔‘‘ اسنے پہلی بار کوئی فرمائش کی۔
’’اگر فری ہوگئے تو۔‘‘ اسےکوئی خاص امید نہ تھی ۔عمر نے اس ناامیدی پر ذرا گھور کر اسے دیکھا پھر "آپکا کچھ نہیں ہوسکتا‘‘ کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آئیں مال روڈ پر چلتے ہیں۔‘‘ اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ مال روڈ پر تھے۔ واک کرتے ہوئے، شاپنگ کرتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے سے چھپائے دل ہی دل میں اس ساتھ کی ہمیشگی کی دعا کی تھی ۔ہلکی ہلکی برفباری شروع ہوتے ہی وہ ادھر سے ہوٹل واپسی کے لیے نکل آئے تھے۔
٭…٭…٭
اگلے دن وہ دونوں مقررہ وقت پر اکٹھے سیکرٹریٹ پہنچے تھے ۔ وہاں معظم کی گاڑی پہلے سے کھڑی تھی یقینا اس کو بھی بلایا گیا تھا ۔
اندر داخل ہونے سے پہلے عمر نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا ۔ وہ ٹھنڈی پڑتی اسکے ساتھ داخل ہوئی تھی ۔ انکے اندر داخل ہوتے ہی کئی نظریں انکی طرف اٹھیں تھیں۔ وائٹ کاٹن کے شلوار قمیض میں اپنے کندھے تک آتی سیاہ عبایہ میں ملبوس فاطمہ کا ہاتھ تھامے وہ کسی بادشاہ کی طرح اندر آیا تھا ۔ معظم کی آنکھوں اور چہرے پر اترتی جلن اور بے یقینی نے اسے ایک انوکھا سا مزہ دیا تھا ۔یقینا وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ گھبرائے ہوئے ہونگے،اپنے رشتے کے عیاں ہونے پر میڈیا پر آنے پر شرمندہ ہونگے مگر تو وہ بڑی شان سے اندر داخل ہوا تھا۔کسی قسم کی کوئی شرمندگی اسے ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملی تھی۔
’’ابھی جب قانون کے مطابق فیصلہ سننے کو ملے گا تو پھر مزہ آئے گا ۔‘‘ معظم نے خود کو تسلی دی مگر جلن کسی طور کم نہیں ہورہی تھی۔ بار بار نظرانکی طرف اٹھ رہی تھی۔
عمر نے کرسی کھینچ کے پہلے اسے بٹھایا تھا پھر اسکے ساتھ والی چیئر پر خود بیٹھ گیا تھا ۔ وہاں پورا ایک انکوائری پینل کا سیٹ اپ بنا ہوا تھا جہاں دو تین لوگ بیٹھے تھے ۔ باقی کرسیاں خالی تھی ابھی ۔ تھوڑی دیر بعد ہی سیکرٹری صاحب چند اور آفیسرز کے ساتھ اندر داخل ہوئے ۔ ان کے آتے ہی ہال میں ایک مؤدبانہ سی خاموشی چھا گئی تھی ، البتہ معظم کے چہرے پر ایک کمینی سی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔
ضروری ضابطوں کے بعد سیکرٹری صاحب نے معظم سے کہا کہ فیصلہ سننے سے پہلے اگر وہ کچھ کہنا چاہتا ہے تو ضرور کہیں۔ وہ سر ہلاتا کھڑا ہوگیا۔
’’میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اور کسی بھی قسم کی کوئی نرمی نہ برتی جائے تاکہ آئندہ آنے والے آفیسرز ایساکرنے کا کبھی سوچ بھی نہ سکیں۔‘‘اس نے بڑے سنجیدہ لہجے میں آنکھوں میں ایک کمینی سی مسکراہٹ لیے عمر کی طرف دیکھ کر کہا جوابا وہ بڑی خوشدلی سے مسکرایا ۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر معظم کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی ۔ وہ اسکے اطمینان پر حیران تھا۔
سیکرٹری صاحب نے اب فاطمہ سے کہا تھا کہ وہ کچھ اپنی صفائی میں کہنا چاہتی ہے یا نہیں ۔عمر نے ہاتھ کا دباؤ بڑھا دیا تھا ، وہ سمجھ گئی تھی اس دباؤ کا مطلب۔
بہترین کہانی اور انداز بیان بھی خوب ہے . میں خود بھی فاطمہ کے ساتھ ساتھ روئی ہوں . واقعی مشکل حالات سے گزری فاطمہ۔ اچھی شکل نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ تبھی اللّه کا حکم ہے عورت کو کہ اسے چھپایا جائے .
The author deserved an applaud. Though there were some cliche things but it was good story and good effort. Thanks for writing this.