یہی داغ تھے: چوتھا اور آخری حصہ
’’واقع بہت خوبصورت جگہ ہے ۔گلگت بھی بہت خوبصورت ہے آپ کبھی وہاں بھی آئیے گا ۔ میں ڈیڑھ سالہ سروس میں بھی مکمل طور پر اسکی خوبصورتی نہیں انجوائے کرسکی۔‘‘ وہ مسکراتی ہوئی اسے بتا رہی تھی ۔ میرون سادہ سے ڈریس میں اسکی کھلتی رنگت بار بار عمر کا دھیان بھٹکا رہی تھی۔ اردگرد کی خوبصورتی تو گویا بے معنی ہوجاتی تھی اسکے سامنے۔
’’نہیں پل پر میں نہیں جاؤں گی۔‘‘ اسے اس طرف بڑھتا دیکھ کر وہ فورا پیچھے ہوئی ۔ ہاتھ سے بنا بانس کے تختوں کا پل رسیوں کے سہارے گویا ایک طرح سے لٹک رہا تھا ۔ دیکھنے میں بہت خوبصورت تھا مگر اب اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان اس پر چڑھ بھی جائے ۔ کینہ توز نظروں سے پل کی جانب دیکھتے ہوئے اسنے سوچا۔
’’کچھ نہیں ہوگا۔ آجائیں، لوگ اس پل کو دیکھنے فارن سے آتے ہیں ۔بہت جلد اسکو دنیا کے عجائب میں شامل کر لیا جائے گا۔‘‘ وہ اسے چھیڑتے ہوئے ساتھ کھینچ رہا تھا۔
’’نہہ۔۔۔نہیں۔۔ ۔میں نے نہیں آنا۔‘‘ اسنے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلیں مگروہ کھینچ چکا تھا ۔ پل بڑے زور سے چرچرایا ۔ اسکےحلق سے بے اختیار چیخ نکلی ۔ عمر نے اسے ساتھ لگا لیا تھا ۔پرفیوم کی بہت ہلکی سی خوشگوار سی سمیل پر اسنے سر اٹھایا ، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسنے گھبرا کر نظریں چرائی۔ ایک تو پل کا خوف اوپر سے اسکی گہری نظریں اسے پزل کر رہی تھیں ۔ اسنے ہوا سے اڑکے اسکے چہرے پر آئے بال بڑی نرمی سے کانوں کے پیچھے اڑسے اور ساتھ لگائے آگے بڑھا ۔پل سے آتی آوازوں پر وہ ڈرتی ہوئی اسکے مزید قریب ہوجاتی ۔ دل اتنی تیز دھڑک رہا تھا گویا باہر آجائے گا۔
’’مجھے تیراکی بھی آتی ہے، ڈونٹ وری ۔ ‘‘ کان میں ہوئی سرگوشی پر ے واقعی ریلیکس فیل ہوا تھا۔
’’کیا واقعی؟‘‘ اسکے پوچھنے ہر وہ اپنا قہقہہ روک نہیں سکا تھا۔
’’اتنی ڈرپوک آپ لگتی تو نہیں ہیں۔‘‘ اس نےہنستے ہوئے اسکے چہرے کو دیکھ کر کہا جو تیراکی کا سن کر کچھ پرسکون لگ رہا تھا ۔ لیکن اسکے ہنسنے پر قدرے خفا بھی لگ رہی تھی ۔
’’لگنے کا کیا ہے، لگتے تو آپ بھی نہیں اتنے ۔‘‘ اسنے فقرہ مکمل نہیں کیا مگر وہ کھل کے ہنسا۔
’’چھچھورے۔‘‘اسنے خود ہی ہنستے ہوئے فقرہ مکمل کیا ۔ جوابا وہ بھی ہنس پڑ ی تھی۔
’’ہنستی رہا کریں یار۔ اتنی اچھی لگتی ہیں۔‘‘ اس نے بہت عام سے لہجے میں کہا تھا مگر پھر بھی اسے اپنے رخسار دہکتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ وہ غیر محسوس انداز میں رخ موڑ گئی تھی۔
’’اور یہ جو آپ جواب دیتی ہیں نا مجھے۔‘‘وہ ابھی تک انجوائے کر رہا تھا۔
’’پوری بیوی لگتی ہیں ۔‘‘ اسکے کہنے پر وہ دوبارہ اسکی طرف مڑی۔
’’پوری نہیں ہوں کیا؟‘‘ وہ سوال کر رہی تھی۔ لہجے میں مان تھا، الگ سا غروروہ ہتھیار ڈالتا جھکا۔
’’پوری سے بھی زیادہ۔‘‘ اسکی اٹھی ہوئی ٹھوڑی پر وہ مہر ثبت کرتا اسکو گنگ کر گیا تھا ۔ سرخ پڑتے ہوئے اسنےاحتجاجا مکمل رخ موڑلیا۔
’’سوری مگر اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری تھا ۔‘‘ وہ بالکل بھی شرمندہ نہیں تھا۔
’’لیں پل ختم بھی ہونے والا ہے ۔پتہ بھی نہیں چلا ، ایویں ڈر رہی تھیں آپ۔‘‘ وہ بڑی کامیابی سے اب اسکا دھیان بٹا چکا تھا۔
’’واقعی یہ پل تو ختم بھی ہوگیا۔‘‘ اسکی حیرت آمیز خوشی پر اب وہ خود نظروں کا زاویہ بدلنے پر مجبور ہوا ۔ جبکہ اسکی دلی جزبات سے بے خبر وہ بڑے سکون سے اب آخری حصے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
پل سے اترنے کے بعد وہ سائیڈ پر بنے ایک چھوٹے مگر خوبصورت سے ریسٹورنٹ میں آگئے تھے۔
’’ادھر کا کھاناآپ کھائیں گی تو کبھی بھی بھول نہیں سکیں گی۔‘‘ آرڈر کرتے ہوئے اسنے اسے بتایا ۔
فون کی بجتی بیل پر وہ اسے باقی کا آرڈر کمپلیٹ کرنے کا کہتا ہوا اٹھ کر سائیڈ پر چلا گیا تھااور فون پر جو اطلاع اسے ملی تھی اسکے بعد وہ کتنی دیر تک ساکت وہاں کھڑا رہا تھا ۔ فون سیکرٹریٹ سے تھا ۔ جہاں اسے کل شوکاز کے سلسلے میں اسلام آباد میں طلب کیا گیا تھا کہ فاطمہ کو اپنی بیوی ہونے کے ناطے اسنے سیکرٹریٹ میں کیوں ڈکلیئر نہیں کیا کیونکہ قانون کے مطابق وہ اسکی انکوائری کرنے کا مجاز نہیں تھا اس صورت میں۔ اسکا مطلب تھا کہ وہ خود اس کرپشن میں شامل تھا اور اسنے جان بوجھ کر ایسا کیا تاکہ اپنی مرضی کا رزلٹ لکھ کر دونوں کو بچا سکے ۔ اس بدعنوانی اور مس کنڈکٹ پر اسے فوری طلب کیا گیا تھا کہ وہ اپنی پوزیشن کلیئر کرے اور فاطمہ کو فوری طور پر ڈی سی آفس اسلام آباد رپورٹ کرنے کو کہے ۔ باقی کی انکوائری وہاں مکمل ہوگی۔ وہ جانتا تھا یہ حرکت کس کی ہے ۔ یقینا معظم کو اسکے نکاح کا پتہ چل گیا تھا ۔ اب یہ اسکے مضبوط اعصاب کا امتحان تھا ۔ اسنے خود کو ریلیکس کیا اور مسکراہٹ سجاتا دوبارہ اسکے پاس آگیا ۔ وہ آج کی اسکی شام خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔جو ہوگا وہ گھر جا کر بتائے گا ۔ یہی طے کیے وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گیا لیکن دل و دماغ میں اب وہ بات گھوم رہی تھی۔
’’تمہاری موت تمہیں میرے منہ لگنے پر مجبور کر رہی ہے معظم شاہ۔‘‘ اسکی آنکھوں میں گہری سوچ کی پرچھائیاں تھیں۔
٭…٭…٭
گھر آتے ہوئے اسے پی اے کی کال آئی تھی کہ ڈی سی ہاؤس کے باہر کافی میڈیا آیا ہوا ہے ۔ اسنے اس قدر سختی سے اپنے ہونٹ بھینچے تھے کہ وہاں سے خون رسنے لگا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈی ایس پی کی کال آگئی تھی ۔ پھر مختلف لوگوں کی کالز کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ہر کوئی معاملے کی حقیقت جاننا چاہ رہا تھا ۔ کچھ افسوس کر رہے تھے کچھ تحقیق اور کچھ مزے لے رہے تھے۔ اسکے آٹھ سالہ صاف ستھرے کیریئر کی واٹ لگ گئی تھی اور ساتھ ساتھ اسکے کیریکٹر کی بھی اسکے باوجود اسکے چہرے پر ایک شکن بھی نہ تھی ۔وہ واقعی بے حد ٹھنڈے مزاج کا اور بہت مضبوط اعصاب کا بندہ تھا۔ معظم نے خبر میڈیا میں لیک کر کے گویا اسے ہر کسی کے سامنے جوابدہ کر دیا تھا۔
’’کیا بات ہے۔ اتنی کالز کیوں آرہی ہیں۔‘‘ اسنے کوئی دسویں بار اس سے پوچھا تھا ۔ اب کی بار وہ مزید اسے ٹال نہیں سکا اور مناسب لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے اسے ساری بات بتائی جو وہ فق ہوتے چہرے کے ساتھ سن رہی تھی۔
’’یہ ، یہ سب۔۔یہ کیسے ہوگیا۔ وہ بہت برا آدمی ہے ۔میری وجہ سے آپکو بھی بہت بدنامی دیکھنی پڑ رہی۔‘‘ خوف سے اسکی آواز ٹوٹ پھوٹ رہی تھی۔ اسکا زرد پڑتا رنگ دیکھ کر وہ ہر بات بھول گیا تھا۔
’’کچھ نہیں ہوگا ۔کچھ بھی۔۔۔‘‘ اسے ساتھ لگائے عمر نے مضبوطی سے کہا۔
’’اور عزت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے فاطمہ اور کسی کے ہاتھ میں نہیں ۔اس پر یقین رکھیں۔‘‘ وہ آنسو پیتی اسکا سکون دیکھ رہی تھی ۔ یا تو وہ واقعی بہت مضبوط تھا یا اسکو پریشان نہ کرنے کے لیے اتنا شو کر رہا تھا۔
’’معظم کی موت آئی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ اسکے لہجے میں چھپی سفاکیت پر وہ کانپی تھی۔
’’آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے جو بعد میں آپکو نقصان دے پلیز۔ میری جاب مجھے نہیں چاہیے۔ میں ہر چیز کا اعتراف کرلوں گی کہ میں نے کیا ہے سب اور اسمیں آپ انوالو نہیں تھے۔ بس آپ اس سب سے لاتعلقی کا اظہار کردیں۔‘‘ وہ پشیمان تھی ۔ اسکی وجہ سے وہ سب فیس کر رہا تھا ۔ اسکی عزت، کردار ہر چیز داؤ پر لگ گئی تھی اسکی وجہ سے۔
’’آپ ایسانہ کچھ کریں گی نہ ہی سوچیں گی۔‘‘ اسنے قطعیت سے انکار کیا۔
جیسا میں کہوں گا ویسے ہی کرنا ہے ۔ انڈرسٹوڈ؟کوئی ایک بھی اعترافی سٹیٹمنٹ اگر جزبات میں آکر آپ نے دی تومیں سمجھ لوں گا کہ میں آپکی زندگی میں ایک اجنبی کے سوا کچھ نہیں ۔ ‘‘ اسے فلیٹ پر ڈراپ کرتے ہوئے اس نے سرد اور سخت لہجے میں کہا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا جبکہ وہ ادھر ہی ساکن کھڑی تھی ۔ آگے کھائی تھی تو پیچھے کنواں ، دو دن بھی خوش نہیں رہ پائی تھی اور وہ شخص ۔۔۔کسی صورت بھی وہ اسے اس گڑھے میں نہیں گرنے دے گی جو اسکے لیے کھودا گیا تھا ۔
’’اجنبی تو شاید وہ ہوجائے۔ اسے تکلیف ہوئی سوچ کر اتنی تکلیف کہ وہ سیڑھیوں پر بیٹھتی چلی گئی ۔ بڑی شدت سے انکشاف ہوا تھا کہ وہ اب اسکے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ آنسو بند توڑ کر باہر آئے تھے۔بدکرداری کے بڑے بڑے داغ ماتھے پر سجائے آج اسے بھی محبت ہوگئی تھی۔ اس سب میں اسکا قصور نہیں تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ شخص کسی کو بھی خود سے محبت کرنے پر مجبور کرسکتا تھا۔ اسنے ہمیشہ اپنے رشتوں کے لیے خود کی ذات اور کردار کو داؤ پر لگایا تھا ۔ ایک بار پھر وہ یہ جوا کھیلنے جارہی تھی ۔ بدلے میں وہ جانتی تھی کہ اسکے ہاتھ ہمیشہ کی طرح خالی رہ جائیں گے لیکن سینے کی ایک سائیڈ پر ہوتے درد کو دباتی وہ تیار تھی ۔ اب تو معاملہ محبت کا تھا اور اس آدمی کو وہ کبھی ہارنے نہیں دے گی ۔ بازوؤں میں سر دیئے وہ آخری بار آج رو رہی تھی ان خوشیوں کے لیے جو اسکے حصے میں چند دن آئی تھیں۔
٭…٭…٭
زندگی ہمیں بعض اوقات اس مقام پر لے آتی ہے کہ ہم کسی بھی سمت کا تعین نہیں کرپاتے ، صحیح، غلط کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ ہر طرف ایک اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا جس میں امید کی کرنیں پوری طرح چھپ جاتی ہیں ۔ صاحب بصیرت تو دیکھ لیتے ہیں انکو اور ڈھونڈھ نکالتے ہیں مگر وہ ناکام تھی۔
’’لوگوں کو تو زرا کوئی روگ لگ جائے تو انہیں کچھ ہوجاتا ہے ۔مجھے تو وہ بھی نہیں ہوتا ۔ اپنی عزت، کردار کی دھجیاں اڑتے دیکھ لیں، بھائی کی لاش اپنے ہاتھوں سے اٹھالی مگر پھر بھی دل جوں کا توں تھا ۔جی بھی رہی تھی وہ، سانس بھی چل رہی تھی۔‘‘ سوچوں اور خیالات کے ریلے میں اسکی ذہنی رو بہکی ہوئی تھی۔دروازے پر ہونے والی دستک پر اسنے کان لپیٹ لیے ۔ وہ جانتی تھی وہی ہوگا۔ ایک وہی تھا جو اسکے پیچھے آتا تھا ہمیشہ ۔ دستک نہیں رک رہی تھی ۔ مجبورا اسے اٹھنا پڑا ۔ باہر وہی تھا ۔ رات کے دو بجے بھی ہشاش بشاش، مسکراتا ہوا۔
’’جتنا انتظار میں آپکو کروایا ہے آفس میں بٹھا بٹھا کر ۔ سارے بدلے پورے کررہی ہیں آپ خیر سے۔‘‘ اسکے لہجے کی شگفتگی پر وہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ واقعی اتنا پرسکون تھا یا بس پوز کر رہا تھا۔
’’مجھے پتہ ہے آپ بہت پریشان ہیں، صرف میرے سامنے ایسے شو کر رہے ہیں ۔‘‘ وہ از حد سنجیدہ تھی۔
’’واہ کیا بات ہے آپکی۔ سب پتہ چلنے لگ گیا ہے آپکو تو ۔جاب کا تو پتہ نہیں بچتی کہ نہیںکیا خیال ہے آستانہ نہ کھول دوں آپکو، زرا خلق خدا کا بھی بھلا ہو جائے گا اور ہمارا بھی کام دھندا چل جائے گا۔‘‘ اسکےشرارتی لہجے میں کہنے پر وہ چڑی۔
’’یہ کوئی مزاق کا وقت ہے؟‘‘ اسنے غصے سے اسکی بے سروپا باتوں پر کہا۔
’’واقع وقت تو مزاق کا نہیں ہے۔‘‘ اسکے گہرے لہجے میں دیئے جانے والے جواب پر وہ گھور کر رہ گئی۔
’’میں نے سوچ لیا ہے بس ، صبح جاتے ہی ہر بات کا اعتراف کرلینا ہے ۔ روز روز کی اس خواری سے بہتر ہے ایک ہی دفعہ کام ختم ہو۔‘‘ اسکے سنجیدگی سے کہنے پر اب وہ اسے گھور رہا تھا۔
’’میں نے بھی آپ سے کہا ہے کہ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گی۔ آئی سمجھ ۔‘‘ اب وہ بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔
’’آپ کی جاب، آپکی ریپوٹیشن سب کچھ میری وجہ سے خراب ہوگیا ہے ۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ۔‘‘ وہ معاملے کی سنگینی کا احساس دلا رہی تھی ۔
’’میں سب سمجھ رہا ہوں مگر آپ نہیں سمجھ رہی یار ۔ آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کرسکتیں؟‘‘ اب کہ وہ کچھ خفا سا ہو کر بولا۔
’’کرتی تو ہوں بھروسہ مگر آپ۔۔۔‘‘ اسکے کہنے پر عمر نے سرپکڑا۔ وہ خاموش ہوگئی۔
’’اگر بھروسہ کرتی ہیں تو سوال نہ کریں۔نہ ہی کچھ سوچیں۔ بھروسے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے اگر میں سب بتادوں آپکو پھر تو آپ یقینا بھروسہ کرلیں گی ۔بلکہ کوئی بھی کرلے گا۔ مگراصل یقین تو وہ ہے جو آنکھ بند کر کے کیا جائے ۔‘‘ اسکے سنجیدگی مگر نرمی سے کہنے پر وہ سر ہلا گئی۔
’’جائیں سو جائیں آپ جا کر شاباش۔ بالکل ریلیکس ہو کر۔‘‘ اسکا سر تھپتھپا کر اسنے کہا۔
’’آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘ اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔ سادہ بے ریا لہجہ۔ عمر کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
’’جائیں یار ورنہ ہوسکتا آپکی رائے خاکسار کے بارے میں تبدیل ہوجائے۔‘‘ معنی خیزی سے وہ کہتا اسے فورا اٹھنے پر مجبور کرگیا ۔ وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ وہ گہری سانس بھرتا دوبارہ لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔
٭…٭…٭
بہترین کہانی اور انداز بیان بھی خوب ہے . میں خود بھی فاطمہ کے ساتھ ساتھ روئی ہوں . واقعی مشکل حالات سے گزری فاطمہ۔ اچھی شکل نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ تبھی اللّه کا حکم ہے عورت کو کہ اسے چھپایا جائے .
The author deserved an applaud. Though there were some cliche things but it was good story and good effort. Thanks for writing this.