وہ بیچارے : نظیر فاطمہ
International Men’s Day Special
نورِ سحر گاڑی سے اُتر کر اخبار کے دفتر میں داخل ہوئی۔ اُس نے ایک کندھے پر اپنا بیگ اور دوسرے کندھے پر لیپ ٹاپ بیگ لٹکا رکھا تھا اور ہاتھ میں فائل پکڑ رکھی تھی ۔اُس نے جینز پر گھٹنوں تک آتا ڈھیلا ڈھالا کرتاپہنا ہوا تھا، گلے میں اسکارف جس کے دونوں پلو آگے کر کے ان میں گرہ لگائی گئی تھی۔ کندھوں تک کٹے بال اُونچی پونی ٹیل کی صورت میں بندھے ہوئے تھے ۔ پائوں میں اسٹریپ والی چپل تھی۔وہ تیزی سے چلتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ چپڑاسی خیر دین نے اسے ہمدانی صاحب جو کہ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ، کا پیغام دیا کہ وہ فوراً ان کے کمرے میں پہنچیں۔وہ پہلے اپنے کمرے میں گئی ۔اپنا ہینڈ بیگ، لیپ ٹاپ اور فائل اپنی میز پر رکھی اور پلٹ کر باہر نکل گئی ۔ اس کا رُخ ہمدانی صاحب کے کمرے کی طرف تھا ۔اس نے دروازہ ناک کیا اور اندر سے ’’یس ‘‘ کی آواز سن کر کمرے میں داخل ہو گئی۔
’’ ویل ڈَن مس نورِ سحر! آپ نے ۸ مارچ کے حوالے سے جو آرٹیکل لکھا تھا، اُسے بہت پسند کیا گیا ہے۔اب تک ہمیں سینکڑوں ای۔میلز موصول ہو چکی ہیں۔ درجنوں فون کالز آچکی ہیں۔ ہر طرف دھوم مچی ہوئی کہ ہمارے اخبار نے خواتین پر مردوں کے مظالم کو بڑے موثر انداز میں حقائق کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘ہمدانی صاحب نے اس کو دیکھتے ہی اس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے تھے۔
نورِ سحر کو اس اخبار میں کام کرتے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا مگر اس کے کالمز اور تحقیقی مضامین کو ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا تھا ۔ اس کے زیادہ تر کالمز خواتین کے حوالے سے ہوتے تھے۔ اس لیے اس کے فینز میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔
’’ تھینک یو سر اینڈ آئم شیور کے یہ فون کالز اور ای میلز خواتین کی طرف سے ہی آئی ہوں گی۔‘‘ نورِ سحر نے ہمدانی صاحب کے اشارے پر کرسی سنبھالی۔
’’ ہممم… یہ تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ اب آپ مردوں کو ظالم روپ میں دکھاتی ہیں تو وہ آپ کو پسند تو نہیں کریں گے ناں۔‘‘ اُنھوں نے ہنسی لبوں میںدبا کر کہا۔
’’ مگر سر ! آپ بھی تو مرد ہیں ۔ آپ تو میری بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔‘‘ نورِ سحر نے ہمدانی صاحب کو دیکھا۔
ہمدانی صاحب واقعی بہت اچھے انسان تھے۔ وہ اس اخبار کو بہت محنت اور ایمانداری سے لے کر چل رہے تھے۔ نئے آنے والوں کو بہت توجہ ، محبت اور عزت سے سکھاتے تھے، ان کی رہنمائی کرتے تھے، ان کے لیے چھپر چھائوں بن جاتے تھے۔ ہمدانی صاحب کے اندر سینئیر ہونے کا کوئی غرور تکبر نہیں تھا بلکہ وہ تو یہ کہتے تھے کہ کسی کو سکھانا اور علم بانٹنا بھی صدقہ جاریہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنا تجربہ بڑی خوشی خوشی دوسروں میں بانٹتے تھے۔ یہ نہ تو نئے آنے والوں کا مالی استحصال کرتے تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ کام کے حوالے سے کوئی زیادتی ہونے دیتے تھے۔بہت سے لوگ ان سے سیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے تھے ۔ کچھ اعلیٰ ظرف تھے جو ابھی تک علی الاعلان ہمدانی صاحب کو اپنا اُستاد کہتے تھے اور کچھ ایسے کم ظرف بھی تھے جو کبھی پلٹ کر سلام تک کرنے نہیں آئے تھے۔ اس کے باوجود ہمدانی صاحب کے طرزِ عمل میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ وہ آج بھی اس سیڑھی کی مانند کھڑے تھے جو دوسروں کو بلندیوں تک پہنچاتی ہے مگر خود وہیں کھڑی رہتی ہے۔
’’اب کیا کروں ، میری تو مجبوری ہے ۔ مجھے اپنا اخبار چلانا ہے ورنہ یقین کرو آپ کا کوئی کوئی کالم یا مضمون ایسا ہوتا ہے جسے پڑھ کر میرا دل آپ سے لڑائی کرنے کو چاہتا ہے اور یہ بھی کہ میں آپ کا یہ کالم نہ چھپنے دوں کیونکہ اس میں سراسرا میری بے عزتی ہوتی ہے۔‘‘ ہمدانی صاحب سنجیدہ سے لہجے میں کہہ رہے تھے۔ نورِ سحر نے چونک انھیں دیکھا ۔
’’ آخر میں بھی تو ایک مرو ہوں ۔ مجھ سے اپنی اتنی بھیانک تصویر دیکھی نہیں جاتی …ہاہاہاہا۔‘ ‘ ہمدانی صاحب نے ایک لمحہ رُک کر بات مکمل کی اور قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ نورِ سحر ان کی شرارت پر سر ہلا ان کی ہنسی میں شریک ہو گئی۔
٭…٭
نورِ سحر میز پر اپنے سامنے کچھ کاغذ بکھرائے ، لیپ ٹاپ پر مصروف تھی۔پیپر ویٹ کے نیچے دبے کاغذ پنکھے کی ہوا سے ہلکے ہلکے پھڑ پھڑا رہے تھے ۔ گاہے بگاہے وہ لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر کاغذات میں سے کسی ایک کاغذ نظر ڈالتی، اُسے اُٹھا کر اپنے سامنے رکھتی اورپھر اس کودیکھ دیکھ کر لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرنے لگتی۔وہ سنڈے میگزین کے لیے نوکری پیشہ خواتین کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں اپناآرٹیکل فائنل کرنے کے آخری مراحل میں تھی۔وہ پوری توجہ سے کام کر رہی تھی۔ جب خیر دین آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
’’ میڈم صاحبہ! ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ خیر دین نے اسے اطلاع دی۔
’’ کون ہے؟‘‘ اس نے مصروف سے انداز میں پوچھا۔
’’ کوئی منصور صاحب ہیں ۔ پچھلے ہفتے بھی آئے تھے مگر آپ کسی سلسلے میں باہر گئی ہوئی تھیں ۔‘‘خیر دین نے تفصیل بتائی۔
’’ کس سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ کہہ رہے تھے کسی ضروری کام کے سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ اُنھیں ویٹنگ روم میں بٹھائیے ۔ میں انھیں تھوڑی دیر میں بلاتی ہوں۔‘‘
’’ جی میڈم صاحبہ!‘‘ خیر دین پلٹ گیا۔
اگلے پندرہ بیس منٹ مزید اس آرٹیکل کی نوک پلک سنوار کر نورِ سحر نے اسے فائنل کر کے سیو کیا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنی ٹانگوں اور بازوئوں کو بھیلا کر خود کو ریلیکس کیا۔پھر اُٹھ کر الیکڑک کولر سے پانی کا گلاس بھرا اور واپس کرسی پر بیٹھ کر پانی پینے لگی۔ پانی پی کر اس نے ریسپشن پر فون کر کے منصور کو اندر بھیجنے کو کہا۔
چند منٹ بعد خیر دین منصور کو اس کی ٹیبل تک چھوڑ گیا۔
’’ السلام علیکم ، مس نورِ سحر!‘‘ منصور نے بہت ادب سے سلام کیا۔
’’ وعلیکم السلام! پلیز تشریف رکھیے۔‘‘ نورِ سحر نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ساتھ ہی ساتھ اس کا جائزہ لینے لگی۔ منصور درمیانی عمر کا دراز قد آدمی تھا۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ، بال اُلٹی مانگ نکال کر بنائے گئے تھے۔ ہلکے نیلے رنگ کی کافی دفعہ کی استعمال شدہ شرٹ اور سیاہ رنگ کی پینٹ میں ملبوس قدرے معقول آدمی دکھ رہا تھا۔
’’ شکریہ۔‘‘ منصور بیٹھ گیا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ وہ فائل اُس نے نورِ سحر کی میز پر رکھ دی۔
’’ جی فرمائیے۔‘‘ نورِ سحر اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوئی۔
’’ مجھے آپ کا تھوڑا سا وقت چاہیے۔اگر اس وقت آپ مصروف ہیں تو میں دوبارہ حاضر ہو جائوں گا۔‘‘ منصور نے شائستگی سے کہا۔
’’ نہیں ، آپ ابھی بتائیے۔‘‘ نورِ سحر اپنا کام مکمل کر چکی تھی سو ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔
’’ میں آپ کے پاس ایک سوال لے کر آیا ہوں۔‘‘منصور نے میز پر رکھی فائل اُٹھا کر اپنے سامنے کی اور اسے کھولنے لگا۔
’’ آپ خواتین کے بارے میں زیادہ لکھتی ہیں۔ ان کے مسائل، ان پر ہونے والے مظالم پر ریسرچ کر کے دلیل کے ساتھ معلومات معاشرے تک پہنچاتی ہیں۔کیا کبھی آپ کو مردوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں لکھنے کا خیال نہیں آیا؟‘‘ منصور نے اپنے کندھے کرسی کی پشت سے ٹکائے۔
’’ مردوں پر کون سے ظلم ہوتے ہیں اور کس کی جرات ہے جو آپ مردوں پر ظلم کرے۔‘‘ نورِ سحر منصور کے سوال پر جز بز ہوئی تھی۔
’’ آپ ذرا غور سے دیکھیں تو سہی ہمارے اس معاشرے میں عورتوں کے ہاتھوں مردوں کی بھی بڑی درگت بنتی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ عورت پر ہونے والے مظالم پر لوگوں کا دل دُکھ جاتا ہے اور مردوں پر ہونے والے مظالم کسی کو دِکھتے بھی نہیں۔‘‘ منصور نے لمبی سانس کھنچی۔
’’ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ نور ِ سحر کو اس کی لایعنی گفتگو سے تھوڑی بے چینی ہوئی تو اس نے دوٹوک انداز میں پوچھا۔
’’ جس طرح سارے مرد ظالم نہیں ہوتے ، اُسی طرح ساری عورتیں بھی مظلوم نہیں ہوتیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ ہم بے چارے مردوں پر ہونے والی ناانصافیوں پر بھی کالم لکھیں۔‘‘
’’ بے چارے مردوں پر ہونے والی نا انصافیاں۔‘‘ نورِ سحر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’ اچھا مجھے یہ تو بتائیے آپ مرد کن مسائل یا مظالم کا شکار ہیں۔‘‘ نورِ سحر کو اب اس گفتگو میں مزا آنے لگا تھا۔
’’ مرد اور مظلوم، ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نور ِ سحر نے دل ہی دل میں کہا۔ بظاہر وہ پوری طرح منصور کی طرف متوجہ تھی۔
’’ اُف کچھ نہ پوچھیں ۔ سب سے پہلی ناانصافی ہم مردوں کے ساتھ یہ ہے کہ ہر سال ۸ مارچ کو انٹرنیشنل ویمن ڈے منایا جاتا ہے۔مجھے بتائیے کیا سال کا کوئی دن انٹرنیشنل مین ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے…نہیں ناں ، کیا قصور ہے ہم مردوں کا کہ سال کا ایک دن بھی ان کے نام پر نہیں منایا جاتا۔‘‘ منصور تو جذباتی ہی ہو گیا۔
’’ نہیں… نومبر کی کسی تاریخ کو مردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔‘‘ تاریخ نورِ سحر کو بھی یاد نہ آئی۔
’’اچھا مگر میرے علم میں یہ بات بالکل بھی نہیں تھی۔ویسے سچ بتائیے گا آپ نے نومبر میں کبھی مردوں کے عالمی دن کے بارے میں کچھ لکھا؟‘‘
’’ نہیں۔‘‘ نورِ سحر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ کبھی ٹی وی میں کسی خبر میں یا کسی ٹاک شو میں اس کا ذکر ہوا ہے ؟ نہیں… کیوں ؟ خواتین کے عالمی دن پر تو شور مچ جاتا ہے اور مردوں کے عالمی دن پر خاموشی کیوں طاری ہو جاتی ہے ۔ اتنا کھلا تضاد کیوں؟‘‘ نورِ سحر اب اس کی باتیں دلچسپی سے سن رہی تھی۔بظاہر سیدھا سادھا سا نظر آنے والا منصور جیسے شکوئوں سے بھرا ہوا تھا۔
’’ یہ اس سال جنوری سے اکتوبر تک آپ کے وہ مضامین اور کالمز ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے خواتین کے ساتھ ہے ۔ دس مہینوں میں آپ کو ایک بار بھی ہم بے چارے مردوں کے بارے میں لکھنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟‘‘منصور نے کچھ کالمز اور مضامین کی کٹنگز نکال کو سامنے رکھیں۔ نورِ سحر نے اس کے پر شکوہ انداز پرآنے والے بے ساختہ قہقہے کا گلا بمشکل گھونٹا۔
’’مرد کو بیٹے کی حیثیت سے دیکھ لیں ۔ مائیں اپنے بیٹوں کو لعل کہتی ہیں مگر شادی کے بعد اس لعل کی وہ مٹی پلید کرتی ہیں کہ وہ ’’لعل‘‘ سے ’’ لال‘‘ ہو جاتا ہے۔ بیٹا جوان ہوتا ہے تو ماں کان سے پکڑ کر اپنی کسی بھانجی بھتیجی سے شادی کروا دیتی ہے اور پھر بھگتنے کے لیے اسے اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔بیوی کا خیال رکھو تو طعنے مار مار کر لہولہان کر دیتی ہے کہ زن مرید بن گیا ہے ۔ لاپرواہی کرو تو طعنے کہ بچّی کو رول کر رکھ دیا ہے۔ بتائیے ہم کہاں جائیں ۔ ہمارا تو کوئی پرسانِ حال نہیں ہے
ساس بہو کی لڑائی میں کون پستا ہے؟ مظلوم مرد… دونوں ہاتھوں سے بجنے والی اس تالی کے درمیان مظلوم مرد کا چہرہ آجاتا ہے ۔ ماں اور بیوی کے درمیان بیلنس رکھنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے کوئی ہم مردوں سے پوچھے۔‘‘ منصور رونے کے قریب ہو گیا شاید بے چارا براہ راست متاثرین میں سے تھا۔
’’ اب بھائی کی حیثیت سے سن لیجیے ۔ بھائی بے چارا رات کو دو بجے سویا ہو مگر بہن کو صبح آٹھ بجے سکول کالج پہنچنا ہو تا ہے تو بھائی کو لازماً اُٹھ کر سوئی جاگی کیفیت میں اسے چھوڑ کر آنا ہوتا ہے ۔ اپنی نیند قربان کرنا کوئی چھوٹی قربانی ہے مگر جب کبھی بھی بات ہو گی بہنوں پر بھائیوں کے مظالم پر ہی ہو گی ۔ کبھی بہنوں کے لیے بھائیوں کی قربانیوں کا ذکر نہیں ہو گا ۔ جن کے پاس بائیک ہوتی ہے ۔ اکثر وہ اپنے گھر کی دو دو خواتین کو بیک وقت پیچھے بٹھا کر خود بائیک کی ٹنکی پر بیٹھ کر بائیک چلاتے ہیں اور اس چیز کی ان کو اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ بائیک پر اکیلے بھی بیٹھے ہوں تو بھی ٹنکی پر چڑھ کر بیٹھے ہوں گے۔‘‘ منصور کے اتنے درست تجزیے پر نورِ سحر کا قہقہہ بے ساختہ بلند ہوا ۔
’’ ہاں ، ہنس لیں ۔ یہ کوئی مسائل تھوڑی ہیں کیونکہ ان کا سامنا صرف مردوں کو ہوتا ہے۔ مسٗلہ تو صرف وہی ہوتا ہے جس کا سامنا کسی عورت کو ہو۔‘‘ منصور نورِ سحر کے ہنسنے پر قدرے بُرا مان گیا تھا۔
’’ آئم سوری…پلیز آپ بات جاری رکھیں۔ میں سن رہی ہوں۔‘‘
’’ آپ نے لکھا ہے کہ عورتوں کو آرام کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔ دن میں کام اور رات کو اُٹھ اُٹھ کر بچے سنبھالتی ہیں پھر بھی شوہروں کی باتیں سنتی ہیں۔‘‘ منصور نے نورِ سحر کے ایک پرانے مضمون سے کچھ لائنیں پڑھ کر سنائیں۔
’’ آپ بتائیں ، میاں بیوی ایک ہی کمرے میں ہوتے ہیں ۔ عام گھروں میں کمروں کا سائز بھی آپ کو معلوم ہی ہے۔ اب اگر کمرے میں بچّہ روئے گا تو کوئی کیا سو پائے گا ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بچّہ روئے ،ماں جاگ جائے مگر باپ سوتا رہے ۔ وہ بے چارا بھی جاگ جاتا ہے ۔ بھلے ڈھیٹ بن کر آنکھیں موندھے لیٹا رہے ۔ جو عورتیں نوکری نہیں کرتیں وہ اگر رات کو بچّے کے ساتھ جاگتی ہیں تو انھیں دن میں کسی وقت کمر سیدھی کرنے کا موقع مل ہی جاتا ہے مگر ہم مردوں کا کیا جو رات بھر بچّے کے رونے کی وجہ سے جاگتے رہتے ہیں اور پھر سارا دن کام میں سر کھپائی بھی کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود سب کو صرف عورت کا جاگنا اور مظلوم ہونا ہی نظر آتا ہے اور مرد ظالم کہ اس نے اُٹھ کر روتے ہوئے بچّے کو بہلایا نہیں۔‘‘
منصور سانس لینے رُکا تو نور ِ سحر نے قلم اُٹھا کر اپنی ڈائری سامنے رکھ لی۔
’’ چلیں آپ ہماری اِن قربانیوں کے بارے میں ہی لکھ دیں جو ہم اپنے خاندانوں کے لیے دیتے ہیں ۔ ہم مرد خود چار جوڑے کپڑوں اور دو جوڑے جوتوں میں خوشی خوشی سارا سال گزار دیتے ہیں مگر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بیوی بچّے اچھے سے اچھا پہنیں ۔ اگر کبھی ایک دفعہ کوئی کمی بیشی ہو جائے تو زیادہ تر بیویاں واویلے شروع کر دیتی ہیں کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو رہیں ۔ بڑا ظالم انسان ہے دو جوڑے کپڑوں کے لے کر نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔ بیویاں جو شوہروں کو اپنے سر کا تاج کہتی ہیں وہ اپنے اس تاج کو اکثر اپنے پیروں تلے روندے رکھتی ہیں۔‘‘ منصور کا لہجہ بہت ہی جلا ہوا تھا۔
’’ آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘ نورِ سحر نے سوال کیا۔
’’ جی۔ یہ سب باتیں میں اپنے تجربے کی بناء پر ہی کر رہا ہوں۔یقیناً دوسرے مردوں کو بھی ان کا مسائل کا سامنا ہو گا۔اس لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ پلیز ایک بار تو ہمارے بارے میں بھی لکھیے۔‘‘ نورِ سحر اس کی گفتگو کے اہم نکات اپنی ڈائری پر نوٹ کر رہی تھی۔
’’ مرد سارا دن اتنے پریشر میں کام کرتے ہیں سو طرح کے مسائل ہوتے ہیں ، نوکریوں کے، کاروباروں کے مگر تھک ہار کر شوہر گھر واپس آئے تو بیوی کے اپنے ہی دکھڑے اور چخ چخ شروع ہو جاتی ہے ۔ ذرا جو ان کی تھکن کا احساس ہو ۔ سارا دن تھک ہا ر کر گھر آئوتو گندے سندے حلیے والی بیوی کو دیکھ کر وہ تھکن سوا سیر ہو جاتی ہے ۔ یہ کیا کم ظلم ہے۔‘‘ نورِ سحر کو اس کی اس بات سے سو فی صد اتفاق تھا سو سر ہلا کر اس کی بات کی تائید کی۔
’’ اور پھر اُن مردوں سے زیادہ مظلوم کون ہو گا جو گھر آکر اپنی بیویوںکے ہاتھ کا بد مزا کھانا بھی من و سلویٰ سمجھ کر نگل لیتے ہیں۔اب ہر عورت کے ہاتھ میں ذائقہ تھوڑی ہوتا ہے۔میری بیوی نے ایک دن آلو کے پراٹھے بنائے ۔میں نے کہا اس میں آلو تو نظر ہی نہیں آرہے ۔ مجھے ڈانٹ کر بولی۔ چپ کر کے کھائولاہوری چنوں میں لاہور نظر آتا ہے۔‘‘نور ِ سحر اس کی باتوں کو دل ہی دل میں سراہتے ہوئے اپنی ہنسی روکنے کے جتن کر رہی تھی۔اس کی بہت سی باتیں سچ ہی تھیںجن سے انکار بہر حال ممکن نہیں تھا۔
’’ بچّوں کے سامنے باپ کو ہوّا بنا کر پیش کرتی ہیں ۔ بچّے کو ڈراتی ہیں کہ باپ سے پٹوائیں گی اور خود باپ سے زیادہ بچّوں کی دھنائی کرتی ہیں۔ مگر بدنام صرف باپ ہی ہوتے ہیں۔ مرد جو ہوئے۔ہم بیوی بچوں کے لیے کماتے ہیں، ان کے لاڈ اُٹھاتے ہیں ، ان پر خرچ کرتے ہیں۔ مشکل وقت میں ان کی ڈھال بن جاتے ہیں پھر بھی بدنام ہیں ۔ یہ تو زیادتی ہوئی نا۔‘‘منصور سانس لینے بمشکل رکا۔
’’ شوہروں پر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں پر شک کرتے ہیں اور بیوی جو اپنے شوہر پر شک کر کر کے اُسے خود کشی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔‘‘
نورِ سحر تصویر کا وہ رُخ دیکھ رہی تھی جو نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
‘‘ میرا مقصد عورتوں کی برائیاں کرنا نہیں ہے ۔ میں صرف مردوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے آپ کے پاس آیا ہوں۔اُمید ہے آپ میری بات سمجھ گئی ہوں گی۔‘‘
’’ بالکل، میں سمجھ گئی ہوں۔ آپ بے فکر رہیے نومبر میں مردوں کے عالمی دن کے موقع پر میں آپ مردوں کے لیے کالم ضرور لکھوں گی۔‘‘نورِ سحر نے منصور کو یقین دہانی کروائی تو وہ جیسے کھل اُٹھا۔
’’ سچ کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’ جی، آپ بے فکر ہو کر جائیے۔‘‘نورِ سحر نے ڈائری اور قلم سائیڈ پر رکھے تو منصور اپنی فائل سمیٹ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’ بہت بہت شکریہ ، مس نور ِ سحر،میں آپ کے کالم کا انتظار کروں گا۔‘‘منصور کمرے سے باہر نکل گیا۔
نورِ سحر نے مسکرا کر اپنے جبڑوں کو پھیلایا اور ہاتھ سے ان کو سہلایاجو ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں درد کرنے لگے تھے۔ پھر اس نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے گھوم کر لیپ ٹاپ اُٹھایا اور اسے اپنے سامنے رکھ لیا۔اس نے انٹر نیٹ سے مردوں کے عالمی دن کی تاریخ ۱۹ نومبر اپنی اُس ڈائری پر نوٹ کی جس پر اس نے منصور کی گفتگو کے اہم نکات نوٹ کیے تھے۔ پھر اس نے ڈائری سنبھال کر اپنی میز کی دراز میں رکھ دی۔
’’ ۱۹ نومبر کو میں خواتین کے لیے ہی ایک کالم لکھوں گی مگر اس کا عنوان ہو گا ’’وہ بے چارے‘‘اس میں میں خواتین کو تصویر کا یہ رُخ دکھائوں گی اوران کو تجاویز دوں گی کہ وہ اپنے گھر کے مردوں کا باپ، بھائی ،بیٹے اور شوہر کی حیثیت سے کس طرح خیال رکھ سکتی ہیں۔‘‘نورِ سحر نے دل میں پکا ارادہ کر لیا ۔
اب اسے انتظار تھا ۱۹ نومبر کا ، جس دن اُسے کچھ چھپی ہوئی حقیقتیں سامنے لانی تھیں۔
ختم شد