اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک
’’میں نے تیمور فواد کا آپ کو بتایا تھا۔ اس نے مجھے پرپوز کیا ہے۔‘‘ اس نے بھابھی کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ شفا بھابھی حیرت زدہ رہ گئی تھیں۔
’’واقعی! اتنی ہمت آگئی اس میں کہ تمہیں پرپوز ہی کردیا؟‘‘ وہ اس کی دوستی کی کہانی سنتی رہی تھیں۔ ایک دم سے محبت انہیں حیران کر گئی تھی۔
’’جی وہ اپنی مما کو ہمارے گھر بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘
’’بڑی پھرتیاں ہیں بھئی۔‘‘انہوں نے اس ادا سے کہا تھا کہ حوریم بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ پھر وہ کچھ تجسس سے بولیں۔
’’تمہیں کیسا لگتا ہے وہ لڑکا؟‘‘
’’تصویر دکھائی تو تھی آپ کو۔‘‘ وہ سوال گول کر گئی۔
’’اوہو رشتہ تمہارے لیے آیا ہے میرا؟ تمہارے دل میں کیا ہے؟‘‘ ان کے سر پیٹنے پر حوریم پھر ہنسی تھی۔ اس کی ہنسی ہی سب کچھ کہہ رہی تھی۔
’’پتہ نہیں! میں سوچا نہیں اس بارے میں۔‘‘
’’چھپا کیوں رہی ہو۔ مجھے تو بتا ہی سکتی ہو کم از کم۔‘‘ انہوں نے گھور کر دیکھا تو حوریم سٹپٹا گئی۔
’’وہ اچھا ہے…مطلب اس میں کچھ برا لگنے والا ہے نہیں تو اچھا ہی ہوگا نا؟‘‘ وہ کچھ شرما رہی تھی۔ پوری بات کہنے سے ہچکچا رہی تھی۔ شفا بھابھی مسکرائیں۔
’’تمہارے بھائی سے بات کرتی ہوں۔‘‘ انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا تھا۔ دونوں میں شروع سے ہی نند بھابھی کا کم اور محبت و سہیلیوں کا رشتہ ذیادہ رہا تھا۔
وہ بھابھی سے بات کرکے مطمئن تھی۔ مگر ان کی زندگی میں ایک طوفان ان کا منتظر تھا۔ بھیا تک بات ابھی پہنچ بھی نہ پائی تھی کہ وہ ان کی پہنچ سے دور چلے گئے۔
چھ سال ہوئے تھے ان کی شادی کو۔ ابھی تو لگتا تھا کہ بَری بھی میلی نہیں ہوئی ۔ شادی کی ایک ایک رسم ذہن میں تازہ تھی ۔ بھائی چلے گئے ۔ وہ اس چھوٹے سے خاندان کا واحد چراغ تھے۔ ایک بوڑھی ماں …جوان بہن…بیوی اور پانچ سال کا بیٹا…
ایک گہری شام آفس سے واپس پر وہ ڈاکوؤں سے مقابلے میں مارے گئے۔ ان پر قیامت سے بھی کوئی اور چیز تھی جو ٹوٹ گئی تھی۔ سب کی زندگیوں میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔
انہوں نے اپنا والد بچپن میں ہی کھو دیا تھا۔ حوریم صرف بھائی کو اپنی زندگی میں سب کچھ دیکھتی آئی تھی۔ اس کا اپنا غم، اماں کی آہیں، بھابھی کی سسکیاں، اور ریان کی چیخنے چلانے کی آوازیں…بھابھی کو بیٹے کا ہوش نہیں رہتا تھا۔
’’میں نے کتنی مشکلوں سے اسے پال کر جوان کیا تھا۔ میری عمر بھر پونجی…‘‘ اماں کی بات حوریم کا دل چیر دیتی تھی۔ بھابھی اور ریان کو روتا دیکھتی تو اس کا دل پھٹتا۔
سوگ والے گھر سے ایک ایک کرکے سب لوگ رخصت ہوگئے تو شفا کے بھائیوں نے اماں سے اپنی بہن کو ساتھ لے جانے کی اجازت لی تھی۔
’’شفا کی حالت بہت خراب ہے اس گھر کی ویرانی تو سنبھل نہیں پائے گی ۔ ہم اسے ساتھ لے جارہے ہیں عدت وہیں گزارے گی۔شاید ذیادہ لوگوں میں ذرا بہل جائے۔‘‘
اماں اور حوریم میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ کہہ پاتیں ۔ وہ اسے کسی حق سے روک بھی نہیں سکتی تھیں۔ جاتے جاتے شفا بھابھی نے اسے گلے لگایا تو حوریم کو اپنے کندھے پر کئی آنسوؤں کا بوجھ محسوس ہوا۔
’’جانے والے کے ساتھ ہمارا رشتہ نہیں مرا حوریم! مجھ سے ملنے آجایا کرو جب تک میری عدت پوری نہیں ہوتی۔‘‘
اور اس نے بمشکل آنسو روکتے ہوئے سر ہلا ہلا کر جواب دیا تھا۔ ریان اور بھابھی چلے گئے تو گھر کی خاموشی آسیب بن گئی تھی۔ کہیں چین نہیں لینے دیتی تھی۔ زندگی بے مقصد نظر آتی تھی۔کبھی تو نظر بھی نہیں آتی تھی۔
ہفتے بعد حوریم ان سے ملنے گئی تو شفا بھابھی کی چپ اسے اور خاموش کرگئی تھی۔ اس گھر میں وہ بچپن سے لڑکپن گزار کر گئی تھیں۔ پھر بھی یوں لگتا تھا وہ کسی پرائے گھر بڑی مشکل سے ایک کونے میں رہ رہی ہیں۔
حوریم کچن سے پانی لینے جارہی تھی جب اس نے ریان کو روتے سنا اور اس کی ممانی کو اسے سختی سے ڈانٹتے…
’’ایک بار منع کیا ہے تمیز نام کی کوئی چیز نہیں ہے تم میں۔ خبردار دوبارہ اس کو ہاتھ لگایا تو۔ پتہ نہیں اپنے گھر میں کیسے رہتے تھے۔‘‘
وہ اتنی آگ بگولہ ہورہی تھی کہ حوریم کے دل پر برچھی پھر گئی۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اندر آئی تھی۔
’’خدا کا خوف کریں کس قدر بچے پر چلا رہی ہیں آپ ۔ ریان تو ہرگز بدتمیزی نہیں کرتا۔ آپ بھی بچے کی ماں ہیں بچوں سے ڈیل کرنا نہیں سیکھایا گیا آپ کو؟‘‘ روتے ریان کو بانہوں نے بھرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں شرارے لپک رہے تھے۔ ان میں مزید آگ بھڑک گئی۔
’’اپنے گھر میں ہر بچہ سب کو تمیز دار ہی نظر آتا ہے۔ کل کو یہی عادتیں رہیں اس کی تو سب نے طعنے مارنے ہیں کہ ہم نے ہی تربیت نہیں کی۔‘‘
’’اتنی ہی آگ لگ رہی ہے تو رکھتیں اپنے گھر میں۔‘‘
’’بس خاموش!‘‘ اس نے انگلی اٹھا کر سختی سے کہا اور اس کو لیتی ہوئی بھابھی کے کمرے میں بڑھی۔ وہ خود کبھی بدتمیزی نہیں کرتی تھی مگر یہ بھی ایک دکھ کس قسم تھی جس میں اس نے اپنے بھتیجے کو لاوارث دیکھ لیا تھا۔
’’کیا ہوا حوریم؟‘‘ شفا فکرمندی سے اس کی سامنے آئی تھی۔ حوریم نے ریان کو بیٹھا کر الماری کھولی اور وہی بیگ نکال کر زمین پر پٹخا جو شفا اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔ اب وہ ریان کے کپڑے بیگ میں ڈال رہی تھی۔
’’حوریم یہ کیا کررہی ہو؟‘‘ وہ اب مزید پریشان ہوگئی تھیں۔ حوریم کو سمجھ آگیا تھا کہ ان کی خاموشی اور پھیکا پن ان رویوں کی وجہ سے تھا۔
’’ہم لوگ واپس اپنے گھر جارہے ہیں۔ میں یہاں آپ لوگوں کو نہیں رہنے دوں گی جہاں چار دنوں میں سب کو یہ دو وجود کھٹکنے لگے ہیں۔‘‘
’’ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے حوریم۔‘‘ان کا گلا رندھ گیا۔
’’شفا! بھائی چلے گئے ہیں۔میں ابھی زندہ ہوں۔میں تم لوگوں کو ٹھوکروں پر نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘
وہ بے دردی سے کپڑے بیگ میں ٹھونستی جارہی تھی۔ شفا دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کے رو دیں۔
’’حوریم! تم ان کی جگہ نہیں لے سکتیں۔‘‘ ان کی بات پر حوریم کی آنکھوں میں اور چہرے پر تکلیف کے شدید آثار نظر آئے۔ گردن کی رگیں واضح ہوئیں۔
’’میں جاب کرلوں گی بھابھی! بہت محنت کروں گی۔ ہم سب ٹوٹ گئے ہیں مگر میں بکھرنے نہیں دوں گی۔ میں ریان کو ایک اچھی زندگی دوں گی۔ آپ لوگوں کو دوسرے کے رحم و کرم پر…‘‘
’’کب تک حوریم! تم نے بھی ایک دن دوسرے گھر چلے جانا ہے۔ خود پر بوجھ مت ڈالو ہم تمہاری ذمہ داری نہیں ہیں۔‘‘
’’بھائی کے جانے کے بعد آپ کو لگتا ہے میرے لیے زندگی اور خوشی کا کوئی معنی رہ گیا ہے؟ مجھے کہیں شادی نہیں کرنی۔میری زندگی کا مرکز اب صرف یہی رہ گیا ہے۔‘‘
ان کے سمجھانے کے باوجود وہ نہیں مانی تھی اور جب وہ ریان اور شفا کو لے کر آرہی تھی شفا کے بھائی نے بہت ناگواری سے اسے مخاطب کیا تھا۔
’’میں دیکھتا ہوں کتنے دن یہ لوگ تمہیں رکھتے ہیں۔ جارہی ہو تو یاد رکھنا ہم بار بار تمہیں لینے نہیں آئیں گے۔‘‘ شفا بھابھی کچھ بولی نہیں اور حوریم چپ رہ نہ سکی۔
’’ ہم نے انہیں آپ کی خوشی کے لیے بھیجا تھا۔آپ بے فکر رہیں دوبارہ یہ نوبت نہیں آئے گی۔‘‘
حوریم اپنا غم بھلا کر ان سب کی دل جوئی میں لگ گئی تھی۔ ریان کو جیسے ان پلکوں پر بٹھا لیا تھا۔ وہ رات کو اس کے ساتھ سونے لگا۔ اس نے ساتھ ساتھ جاب کے لیے ایپلیکیشن بھیجنی شروع کردی تھیں۔
جس روز تیمور فواد اپنی والدہ کو لے کر ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور بھابھی نے آکر اس کو اطلاع دی تھی۔تب اسے یاد آیا تھا کہ کوئی تیمور فواد تھا۔
جو اس سے محبت کرتا تھا۔ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اور اس کا دل بھی اس انسان کے لیے دھڑکنے لگا تھا۔
مگر فیصلہ وہ کرچکی تھی۔ کمزور پڑ جاتی تو اس کا ہر وعدہ دھرا کا دھرا رہ جانا تھا۔ وہ ان جیتے جاگتے انسانوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتی تھی اس لیے محبت کا گھونٹ دیا۔
’’تیمور کو میں خود منع کروں گی۔‘‘ اس نے اٹل لہجے میں کہا تھا۔ شفا اور امی کو اس پر اعتراض ہوا۔
’’ہم ان سے وقت مانگ سکتے ہیں تم بھی اس کو پسند کرتی ہو حوریم۔ اتنی بڑی قربانی مت دو پلیز۔‘‘ بھابھی کو اپنا آپ مجرم لگ رہا تھا۔ لیکن حوریم کا اپنا طریقہ کار تھا۔ اس نے بھائی کی موت کا بتانا بھی گوارہ نہیں تھا۔
’’میرا سفر بہت طویل ہے اور منزل دور…میں نہیں چاہتی کہ وہ میرے لیے انتظار کی سولی پر چڑھا رہے۔‘‘
اس کا سختی سے دل توڑنے کے بعد جب وہ کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی اور بار بار اپنی آنکھیں خشک کرکے خود کو بہادر ثابت کرنے تُلی تھی تب بھابھی نے افسوس بھرے لہجے میں اس سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
’’تم نے اچھا نہیں کیا اس کے ساتھ…آنکھ میں آنسو تھے اس کے۔بات کرنے کے اور بھی طریقے تھے۔‘‘
’’یہی طریقہ تھا۔ وہ اتنا اچھا ہے کہ ہر طرح سے ہمارا ساتھ نبھانے کی بات کرتا مگر یہ ہمارا مسئلہ ہے ۔ کچھ وقت میں وہ بھول کر اپنی زندگی شروع کرلے گا۔ میں اسے کوئی جھوٹی امید نہیں دینا چاہتی۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے وہ اتنی آسانی سے بھول جائے گا؟‘‘ ان کے سوال پر وہ نظریں چرا گئی تھی۔
’’کبھی تو بھول جائے گا ۔میں نے جب کسی کا ساتھ قبول ہی نہیں کرنا تو اسے انتظار کروا کے کس بات کی سزا دوں؟‘‘
اور گزرتے وقت کے ساتھ اس کے عزائم مضبوط ہوتے گئے۔ راستے بنتے گئے ، کامیابی ملتی گئی۔ وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی۔ قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ شفا کا بس چلتا تو اس کے پیر اپنے ہاتھوں سے دھوتی۔ وہ ہر طرح سے اسے آرام پہنچانے کی کوشش کرتیں۔
ریان بہت اچھے اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس کے مستقبل کے لیے وہ بہت محنت کررہی تھی۔ بہت کچھ سینچ کر رکھ رہی تھی۔ ریان کے لیے وہ اس کی دوسری ماں تھی۔
مگر ریان کی ماں کو اب اس کی فکر تھی۔ ریان تیرہ سال کا ہورہا تھا ۔ اور وہ مسلسل آٹھ سالوں سے بنا تھکے ایک ہی راستے پر چلی جارہی تھی۔
شفا نے بہت بار کوشش کی کہ وہ اب اپنا بسا لے۔ حوریم راضی نہیں ہوتی تھی۔ زور زبردستی کوئی رشتہ بلوایا بھی لیا جاتا تو لڑکی کی عمر پر اعتراض…
شفا بھابھی کی اکثر راتوں کی نیند اُڑ جاتی تھی یہ سوچ کر کہ ان کے جینے کی وجہ تو ریان ہے۔ حوریم اپنی زندگی کیسے گزارے گی…؟
کیا ہمیشہ اسی طرح بے آب و رنگ…خالی ہاتھ خالی دامن…!
٭…٭
سمندر کا سارا شور تھم گیا تھا۔ لہروں کی سکت معدوم ہوئی…وہ دبے پاؤں سرکتی آتیں تو پیروں کو بھگو کر واپس پانیوں میں جا ملتی تھیں۔
حوریم اکرم کی سسکیاں ساحل کنارے بکھر رہی تھی۔ ڈوبتی شام میں اس کے اشکوں کے ستارے ٹمٹمارہے تھے۔تیمور نے غصے اور طیش میں ایک زور دار ٹھوکر گیلی ریت پر ماری تھی۔ پانی اس کی پینٹ کو بھگو گیا۔
’’بھابھی نے میرے بھائی اور اپنے بیٹے کے لیے ساری زندگی قربان کردی۔ میں ان لوگوں پر اپنی محبت کو کیسے فوقیت دے سکتی تھی؟‘‘ اس کا چہرہ سرخ پڑرہا تھا۔ زخم پھر سے ہرا ہوگیا تھا۔
تیمور گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھا۔ حوریم سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جس کے چہرے پر اس کی بیوقوفی کو لے کر بہت بے چارگی نمودار ہورہی تھی۔
’’آپ یہ سب مجھے بتا کر تو دیکھتیں حوریم! آپ نے کتنا غیر سمجھ لیا تھا مجھے۔ میں اس حد تک محبت کرتا تھا آپ سے کہ میں آپ کے گھر آپ کے لیے بات کرنا آیا۔ اور آپ مجھ سے ایک بات نہ کہہ سکیں؟‘‘
اس کا لہجہ چیخ چیخ کر شکوہ کررہا تھا۔ آنکھوں کی پتلیاں گلابی پڑرہی تھیں۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ اسے کسی کی پروا نہیں تھی کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ یا کیا سوچ رہا ہے۔
’’مجھے آپ کے خلوص پر شک نہیں تھا۔لیکن میں نے جو فیصلہ کرلیا تھا اس کے اثرات میں آپ تک نہیں آنے دینا چاہتی تھی۔‘‘
’’کیسے اثرات؟‘‘
’’آپ اپنی زندگی کے قیمتی سال میری ہاں کا انتظار کرتے گزار دیتے۔ میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ میں چاہتی تھی آپ اپنی دنیا بسائیں۔‘‘
’’اور بس گئی میری دنیا؟‘‘ اس کے سوال پر وہ دور جاتی لہروں کو دیکھتی رہی۔ اس کے پاس جواب دینے کو کچھ نہیں تھا۔
’’مجھے معاف کردیں۔ ان تین ماہ میں میں ایک بار نہیں چین لے پائی۔ مجھے لگا شاید میری وجہ سے آپ اپنے نئے تعلق نہیں بناسکے۔ اپنا رشتہ نہیں نبھا سکے۔‘‘
’’مجھے سمجھ نہیں آرہا میں آپ سے کیا کہوں۔آپ نے کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔” وہ ناراضگی سے رخ موڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ حوریم نے اس نظر اس پر ڈالی۔ وہ اتنا حق نہیں رکھتی تھی کہ کندھا چھو کر اس کا رخ سامنے کرتی۔
’’میں آپ سے آخری بار ملنا چاہتی تھی تاکہ ہم دونوں کے دل میں عمر بھر یہ پھانس نہ رہے۔ اور مجھے یقین تھا آپ آئیں گے۔‘‘
’’مجھے ایسا کوئی یقین نہیں تھا۔‘‘ اس نے پھولے منہ کے ساتھ جواب دیا تھا۔ حوریم روتے روتے ہنس دی۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر اپنا چہرہ صاف کیا۔
کئی پل خاموشی کے ساتھ سرک گئے تھے۔ وہ انگلی گیلی ریت پر پھیرنے لگی تھی جب تیمور فواد نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے روک دیا تھا۔
’’اپنا نام ریت پر مت لکھیں حوریم! پچھلے آٹھ سالوں میں جب یہ نام میں اپنے دل سے نہیں مٹا سکا تو ان لہروں کو بھی حق نہیں کہ یہ اسے مٹا دیں۔‘‘
کتنے خوبصورت لفظوں میں اس نے اپنا اظہار اور برسوں کا انتظار سمو دیا تھا۔ حوریم اپنا ہاتھ تھامے اس شخص کو دیکھتی رہ گئی تھی۔
’’میں نے اپنے نام کے ساتھ کسی کا نام نہیں لگایا تھا تیمور! محبت صرف آپ نے نہیں کی تھی۔‘‘ حوریم نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے جتایا تو وہ نما نما سا ہنس دیا تھا۔
’’میں آپ کو کچھ دینا چاہتی ہوں۔‘‘ حوریم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے اپنے پرس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ اندر ہاتھ ڈال کر اس نے کچھ نکالا اور تیمور کے آگے کردیا۔
’’سنبل کا پھول…‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’میں چاہتی ہوں آپ پر میرا ادھار رہے۔ خواہ پھولوں کا سہی…آپ اپنا حساب بے باق نہیں کرسکتے۔‘‘ اس کے چہرے پر اتنے رنگ آرہے تھے کہ تیمور نے وہ پھول بے ساختہ تھام لیا تھا۔
’’آپ جانتی ہیں نا ایک سرخ پھول کس موقع پر دیا جاتا ہے؟‘‘ وہ نچلا لب دبا کر شرارت سے پوچھ رہا تھا۔ حوریم نے مصنوعی معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
’’آپ کا چانس تو ضائع ہوگیا تھا۔ اس مرتبہ میں آپ کو پرپوز کرنا چاہتی ہوں۔ آپ انکار کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو سراسر دھمکی دے رہی ہیں۔‘‘ تیمور کے کہنے پر دونوں قہقہہ لگا کر ہنستے چلے گئے تھے۔ سمندر کی لہروں کا شور بلند ہورہا تھا۔ ساری اداسیاں پانی میں ڈوب رہی تھیں۔ ایک راحت بخش تعلق استوار ہورہا تھا۔
’’تھینک یو حوریم! میری ادھوری محبت مکمل کرنے کے لیے…مجھے مکمل کرنے کے لیے۔‘‘
وہ دونوں ننگے پاؤں گیلی ریت پر چل رہے تھے۔ اور محبت ان پیروں کی تلیوں کو سہلاتی گدگداتی نرم و ٹھنڈی ریت سے کہیں ذیادہ راحت آمیز تھی۔
وہ دونوں دنیا کی فکروں سے بے نیاز یوں مچلتے پانیوں سے کھیل رہے تھے گویا بیچ کا وقت کبھی آیا نہ ہو۔
نیلگوں پانی مائل بہ شرارت تھا…بار بار ٹکرا رہا تھا۔
ہواؤں کو ساحلی گیت ازبر تھے۔
جن کا ملنا قسمت میں ٹھہرایا جا چکا ہو، وہاں وقت،دوری اور مجبوری اس لیکھ پر ذیادہ دیر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔
٭٭
ارے واہ۔۔۔۔ میرا نام تو واقعی ریت پر لکھا ہوا ہے 🤭