اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک
اس کا انداز دو ٹوک تھا۔ لہجہ سپاٹ…تیمور کے چہرے کا رنگ پل بھر میں متغیر ہوا۔ اس نے اپنی ماں کے چہرے کی پھیکی پڑتی رنگت دیکھ لی تھی۔
’’حوریم کیا بول رہی ہیں آپ؟ یہ…کوئی مذاق کا وقت نہیں ہے۔‘‘ اس کے دل کو دھچکا لگا تھا۔ اگر ابھی وہ ہنس بھی پڑتی تو اسے لگنے والا صدمہ جانے میں وقت لیتا۔
’’مذاق آپ نے سمجھ لیا ہے تیمور! ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے آپ کا مستقبل کیا ہے۔ اتنی جلدی ایسے فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔اور کم از کم میں تو بالکل نہیں کرسکتی۔‘‘
وہ سفاکی سے بول رہی تھی۔ اور تیمور فواد کے اندر زور دار آواز سے کوئی چیز گری تھی۔ جیسے اس کے جسم کا کوئی مضبوط ستون گر گیا ہو۔ اور اس کا شور اتنا ذیادہ تھا کہ حوریم کی پوری بات اس سے سنی تک نہ گئی۔ وہ کرچیوں بھری آنکھوں کے ساتھ بے یقینی سے اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔
’’حوریم ہم بات کرلیتے ہیں تم اندر جاؤ۔‘‘ امی نے اسے تھوڑا جھڑک کر کہا تھا اور بھابھی فوراََ کھڑی ہوئیں۔ مگر حوریم نے اس قصے کو ختم کرنا تھا۔ سو، تن کر کھڑی رہی۔
’’ایم سوری آنٹی! میں آپ سے بدتمیزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی مگر مجھے امید تھی کہ آپ انہیں سمجھائیں گی۔ لیکن آپ بھی ان کی ہم خیال ہوگئیں۔ یہ مجھے پسند کرتے ہیں میں ایسے کوئی جذبات نہیں رکھتی۔‘‘
’’حوریم…‘‘ تیمور فواد کے سارے الفاظ، سارے جذبات اپنی موت آپ مر گئے تھے۔ اتنی ناپسندیدگی، اتنی بے عزتی اور ایسی ٹھوکر…حوریم نے اس کے سینے میں زہر میں لپٹا خنجر اُتار دیا تھا۔
’’ہمیں شادی کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ جیسا آپ لوگ چاہیں گے۔‘‘ وہ شرمندہ شرمندہ سا بول رہی تھیں۔ بھابھی اور امی جیسے ان سے نظریں ملانے کے قابل نہیں تھیں۔
’’ان کو بہت اچھی لڑکیاں مل جائیں گی آنٹی! یہ بہت اچھے انسان ہیں۔ مگر شادی میری لسٹ میں کہیں نہیں ہے۔ میں نے ابھی بہت کام کرنا ہے خود کو مضبوط بنانا ہے اور شادی دور دور تک میرے پلانز میں نہیں آتی۔ ایم سوری تیمور۔‘‘
اس کے چہرے پر اب بے چارگی کے تاثرات آگئے تھے۔ تیمور کا دل کیا اس کو جھنجھوڑ کر پوچھے کہ اس کو ہوا کیا ہے؟ دو ہفتوں کی دوری میں وہ کیسی پتھر ہوگئی ہے؟ سنبل کے پھولوں کی دیوانی ایسی سفاک تو نہیں ہوسکتی…مگر وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ محبت میں ملا گھاؤ …ناسور کی طرح ہوتا ہے ۔ جان لے جاتا ہے۔
’’آپ میری کسی بات سے ناراض ہیں حوریم؟ میرے ساتھ ایسا مت کریں پلیز۔ آپ کیوں کررہی ہیں یہ سب؟‘‘
اس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپک آیا تھا۔ اس کی جیسی حالت ہورہی تھی بھابھی نے قابو ہوکر کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ حوریم نے ان کی بازو تھام کر زبان اور قدم دونوں کو بڑھنے سے روک لیا تھا۔
’’مجھے شادی ہی نہیں کرنی تیمور! میں نہیں چاہتی میرے لیے آپ اپنا وقت برباد کریں۔ اور ہاں…اب میرا نمبر آپ کو بند ہی ملے گا۔ چائے پی کر جائیے گا۔‘‘
کتنی آسانی سے اس نے قطع تعلق کرلیا تھا۔سارے ناتے توڑ لیے تھے۔ دل توڑ دیے تھے۔ اس دن تیمور فواد اس کے سامنے پہلی اور آخری بار رویا تھا۔
پھر اس کے انکار نے زندگی بھر کے لیے اس کو سفاک کردیا تھا۔اس کے سارے آنسو کہیں اندر برف ہوگئے تھے۔
اسے ان آنسوؤں سے نفرت ہوگئی تھی جو اس لڑکی کے سامنے ٹپکے تھے جس نے نجانے کس چیز کا اس سے بدلہ تھا۔ اس کی ساری خوش اخلاقی ساری خوش کن یادیں چھین لی تھیں۔
کیا وہ کھلونا تھا کوئی جس کے ساتھ کھیل کر اسے توڑ دیا جاتا…؟
محبت کوئی کھیل تھی جس کو چند لمحے کھیل کر چھوڑ دیا جاتا…؟
٭…٭
دل میں پھول کِھلتے ہیں
رُوح میں چراغاں ہے
زندگی معطر ہے
وہ پھولوں کی کلیاں نکال کر اپنی بیڈ ٹیبل پر سجارہی تھی ۔ تین ماہ قبل اس نے ایک بکے اس شخص کو بھیجا تھا۔ اور تین ماہ بعد اس شخص نے وہ بکے اسے واپس لوٹا دیا تھا۔کسی قرض کی طرح…جسے ادا کرنا لازم تھا۔
وہ شاید اس کے پھولوں کا مقروض نہیں رہنا چاہتا تھا۔
’’اسے کیسے معلوم ہوا ہوگا کہ اب تم بیمار ہو؟‘‘بھابھی نے خاموشی سے اسے پھول سیٹ کرتے دیکھا تو سوال کیا۔ حوریم نے اسی مصروفیت کے دوران جواب دیا تھا۔
’’شاید باس سے معلوم کیا ہوگا۔‘‘
’’وہ چاہتا تو خود بھی آسکتا تھا۔‘‘بھابھی کو تھوڑی مایوسی سی ہوئی تھی۔ حوریم کے ہاتھ پل بھر کو سست ہوئے تھے۔
’’مصروف ہوں گے بھابھی!‘‘ اس نے ٹالنے کو کہہ دیا لیکن…
پھر بھی دل یہ کہتا ہے
بات کچھ بنا لیتا
وقت کے خزانے سے
ایک پَل چُرا لیتا
کاش وہ خود آ جاتا
اتنے دنوں میں دونوں کا سامنا نہیں ہوا تھا ۔ اس نے آفس آنا بند کردیا تھا۔ معاذ صاحب اس کی طرف چلے جایا کرتے تھے۔اس نے ایک بار فون کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ حوریم فون کرنے کی ہمت نہ کرسکی تھی۔
’’مصروف ہوگا یا پھر اس نے بدلہ چکایا ہے؟‘‘بھابھی اصل بات جانتی تھیں۔بغور اس کی سمت دیکھتے ہوئے کہہ گئیں۔ حوریم کے دل میں کانٹا سا چبھا تھا۔ وہ آہستگی سے مڑی۔
’’آپ کیوں بھول جاتی ہیں کہ میں نے جو کچھ اس کے ساتھ وہ کم نہیں تھا۔ اب تک بھلا نہیں پائے وہ اسے۔‘‘
’’تم اپنی غلطی اب سدھار بھی تو سکتی ہو حوریم۔‘‘وہ دھیرے سے اٹھ کر اس کے پاس چلی آئی تھیں۔
’’اس سے مل لو۔ جو بھی دل میں بات ہیں ایک بار اس سے کرلو ایک بار اس کی سن لو۔ نجانے کیوں میرا دل کہتا ہے کہ…‘‘
’’یہ خود غرضی ہوگی بھابھی!‘‘ اس نے آنکھیں میچ لی تھیں۔ انہوں نے نرمی سے اس کو کندھے سے تھام کر سیدھا کیا۔
’’حقیقت کا سامنا کھلی آنکھوں سے کرنا چاہیئے۔ میرے کہنے پے اس سے مل لو۔ تنہا زندگی گزارنا بہت مشکل ہے حوریم اور زندگی دوسرا موقع تو دے سکتی ہے مگر بار بار نہیں۔‘‘
وہ اسے بار بار سچائی کی طرف دھکیلتی تھیں پتہ نہیں حوریم کی دفعہ کیوں وہ ہر خوش فہمی پال لیتی تھیں جو پوری ہونا ممکن نہ لگتی۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جو وہ چاہ رہی ہیں اب ممکن نہیں ہے۔
اس نے دراز میں پڑا وہ جھوٹا سا نوٹ نکال کر پڑھا جو تیمور نے اس بکے کے ساتھ تھا۔
’’میں اپنے اور آپ کے درمیان تحفے لینے اور دینے جیسا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔خواہ وہ پھول ہی کیوں نہ ہوں…یہ مجھ پر ادھار تھا سو لوٹا رہا ہوں۔ ‘‘
وہ کئی بار پڑھنے کی بعد بھی ایک بار پھر افسردگی سے مسکرا دی تھی۔اس کے لفظ لفظ میں خفگی بول رہی تھی۔ حوریم کو اس لمحے شفا بھابھی کی باتیں صحیح لگیں۔
’’کچھ باتیں صاف نہ ہوں تو عمر بھر دل میں کسک جگاتی رہتی ہیں۔‘‘ اس نے کچھ سوچ کر فون نکالا اور اپنے بیگ سے تیمور کا کارڈ نکال کر اس کا نمبر موبائل میں ڈائل کیا۔
وہ سوچتی رہی کہ وہ اس سے ملنے کی درخواست کرے۔ ایک آخری بار ملنے کیلیے بلائے یا پھر کوئی لمبا چوڑا میسیج لکھ کر بھیجے…کوئی ایسی بات کہ جسے وہ انکار نہ کرسکے۔
اس نے دو تین بار میسیج لکھے۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے سر جھٹکا اور انباکس سے سب کچھ مٹا کر تین لفظ لکھے اور تیمور فواد کے نمبر پر سینڈ کردیے۔
وہ تین لفظ…تین فقرے…
لوکیشن ، ڈیٹ، وقت اور بس!!
٭…٭
دور سمندر کی نیلے پانیوں پر سورج بوسہ دے رہا تھا۔دن بھر کی دھوپ اس سمے آتشی دھول بن کر سمندر کی لہروں پر تتلیوں کی مانند لپک رہی تھی اور اپنے پنکھ پھیلائے تھرک رہی تھی۔ سورج غروب ہونے کا یہ منظر اتنا خاموش اور اتنا سکون بھرا تھا گویا سورج کا ٹھکانہ سمندر کی یہ گہرائی ہے۔ جس کے دوسرے کنارے پر شاہ خاور رات بھر بسیرا کرتا ہے اور خود کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
اس کا دوپٹہ ہوا کہ دوش پر ایسی طرح پیچھے کی طرف لپک رہا تھا۔وہ پانی کی لہروں سے دور ہوکر بیٹھی تھی پھر بھی کوئی سرکش لہر پیروں کی انگلیوں کو چھونے چلی آتی تھی۔
’’میں نے آپ سے ملنے کا وعدہ نہیں کیا تھا ۔ میں نہ آتا آپ تب بھی انتظار کرتی رہتیں؟‘‘
آواز اور سوال پر سمندر کنارے بیٹھی جل پری نے اپنی بڑی بڑی اداس آنکھیں اٹھا کر اس آدمی کو دیکھا تھا جو بلا کا سنجیدہ تھا اور بغیر وعدے کے اس کو ملنے چلا آیا تھا۔
’’ آپ نہ آتے میں اور انتظار کرلیتی۔ اس انتظار کی اذیت اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو آپ نے سہی۔‘‘
اس جل پری کی آنکھوں سے ٹپکے آنسوؤں اگر موتی بنتے تو اس وقت وہ موتیوں کے ڈھیر پر بیٹھی ہوتی۔ اس کی آنکھوں گہری اداسیوں اور رتجگوں کی ساری داستانیں سنارہی تھیں۔
’’اس حساب کو رہنے دیجئے۔‘‘
’’حساب میں تب کرتی جب مداوا ممکن ہوتا ۔ میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے تیمور کہ اتنے سال جس خوش گمانی میں میں نے گزار دیے کہ ایک خوش باش زندگی آپ جی رہے ہوں گے وہ…‘‘
’’یعنی اُس دن کی باتوں سے آپ کو احساسِ جرم ستارہا ہے؟‘‘ وہ ہلکا سا طنزیہ ہنسا۔ اس کے دل میں ہلکا سا جو خیال تھا کہ وہ شاید اپنے کیے پر پچھتا رہی ہو۔ شاید وہ کہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔ وہ اب بھی اس سے محبت کرتی ہے…سارے خیالات ملیامیٹ ہوگئے۔ وہ آہستگی سے اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ اور دور جاتی شوریدہ سر لہروں کو تکنے لگا۔
’’اس کے لیے میں آپ کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتا۔ آپ بھی دل میں ملال مت رکھیئے۔ میری شادی اس لیے نہیں چل سکی کہ وہ میرے نصیب میں کامیاب ہونا نہیں لکھی تھی۔‘‘
کھوئے لہجے میں کہتے کہتے بے خیالی میں اس نے جیب سے سگریٹ نکال لی تھی۔ پھر دوسرے ہاتھ سے لیٹر۔ حوریم کے سینے میں درد کی ایک لہر اٹھی تھی۔
’’آپ سموکنگ کرنے لگے ہیں تیمور فواد؟‘‘ اس کے اندر گھٹن سے در آئی تھی۔
’’کبھی کبھی وقت کٹتا نہیں تو محض کھیل سمجھ کر…‘‘ وہ لیٹر کو جلا اور بجھا رہا تھا۔
’’لیکن آپ کے سامنے تو نہیں پیوں گا۔آج بھی نہیں پی سکتا۔‘‘ سگریٹ کی ڈبی سے ایک ایک سگریٹ نکال کر اس نے وہ تمام سمندر کی لہروں کے حوالے کردی تھیں۔
حوریم اس شخص کا اندازِ محبت دیکھتی ہی رہ گئی جو اس کے احترام میں ایک سگریٹ نہیں سلگا رہا تھا۔ اب جبکہ کوئی تعلق بھی نہیں بچا تھا ان کے درمیان۔
’’مما نے میری ڈگری مکمل ہونے پر میری شادی کرنے میں دیر نہیں کی تھی ۔ وہ تو پہلے کرنا چاہتی تھیں۔ انہیں ڈر تھا میری محبت کا یہ سوگ روگ میں نہ بدل جائے۔ میری معصوم ماں ! ‘‘ وہ دھیرے سے مسکرا دیا تھا۔ لیٹر اب وہ گیلی ریت پر مارتا اسے کرید رہا تھا۔
’’میں نے وہ نبھانے کی بہت کوشش کی۔میں اس بندھن کے ٹوٹنے کا ذمہ دار اپنی محبت کو نہیں ٹھہراتا کیوں کہ میں نے اس کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی تھی ۔ میں نے پیچھے دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔لیکن شاید جلد بازی میں ماں…میری ہم مزاج لڑکی ڈھونڈھنا بھول گئی تھیں۔ دو سال قبل ہماری علیحدگی ہوئی۔‘‘
’’تیمور…‘‘ حوریم کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹے تھے۔ وہ سپاٹ لہجے میں بول رہا تھا۔ مگر حوریم کو ساری تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
’’سو آپ کسی احساسِ جرم میں مبتلا نہ رہیں۔مجھے صرف افسوس تھا تو اس بات کا کہ…ساری زندگی مجھے پتہ نہیں چل سکے گا حوریم اکرم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’مجھے بیوقوف کیوں بنایا جب کہ محبت اس کی آنکھوں میں صاف صاف نظر آتی تھی ۔ لیکن یہ جواب بھی میں اب نہیں لوں گا۔یقیناََ میرے اندر ہی کمی رہی ہوگی جو…‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور پاؤں جھاڑ کر جانے لگا۔ وہ جارہا تھا ہمیشہ کے لیے …یہ آخری ملاقات بھی ادھوری رہ جانی تھی۔
بلا مقصد اور بنا دلوں پر پڑی گرد صاف کیے…
’’ جس دن آپ رشتہ لے کر آئے تھے اس دن میرے اکلوتے بھائی کو مرے محض پندرہ دن ہوئے تھے تیمور!‘‘
تیمور نے کچھ انہونی سی سنی اور جاتے جاتے وہ ایک جھٹکے سے مڑا۔ حوریم اکرم گھٹنوں میں سر دیے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ تیمور فواد کی اس ایک فقرے نے روح کھینچ لی تھی… فنا کردی تھی۔
٭…٭
ارے واہ۔۔۔۔ میرا نام تو واقعی ریت پر لکھا ہوا ہے 🤭