مکمل ناول

اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک

’’یونو خسارہ صرف میرا ہے۔ نجانے محبت سب کو اسی طرح سزا دیتی ہے یا یہ خاص مہربانی اس نے مجھ پر کی۔‘‘
ایک مجروح نظر اس پر ڈال کر وہ اندر گیا اور اپنا کوٹ اٹھا کر کندھے پر ڈالے تیز تیز قدموں سے آفس سے باہر نکلنے لگا۔ لنچ آور میں آفس خالی خالی سا تھا۔ اور اس خالی فضا میں
ابھرتی اس کے قدموں کی دھمک حوریم کے دل پر پڑ رہی تھی۔ وہ جیسے فرش پر نہیں جارہا تھا۔ اس کے دل پر قدم رکھتا جارہا تھا۔
ایک نظر پیچھے ڈالے بغیر…کہ حوریم پر کیا قیامت گزر رہی تھی۔جس بھرم کے ساتھ وہ جی رہی تھی۔ وہ بھرم چکنا چور ہوگیا تھا۔
حوریم اکرم کے جسم سے جان نکل گئی تھی۔اس پر ایک گہرا سکتہ طاری تھا۔ وہ برف کا مجسمہ تھی۔
اس دن کے بعد وہ اسے دوبارہ آفس میں نہیں دیکھ پائی تھی۔یہ آخری بار تھا جو آگاہی کا عذاب اس نے حوریم پر انڈیلا۔
اس دن کے بعد وہ ایک بار پھر اس کی زندگی سے کہیں کھو گیا تھا۔
٭…٭
حوریم اکرم کو گولڈ میڈل پہنایا جارہا تھا اور اس کے لیے سب سے اونچی تالی بجانے والے تیمور فواد کے ہاتھ تھے۔ یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈگری دی جارہی تھی۔ حوریم کے تمام فیلوز اکٹھے تھے۔ وہ ہمیشہ سے بڑھ کر حسین نظر آرہی تھیں۔ اس کا چہرہ کامیابی سے سرشار جگمگا رہا تھا۔تیمور فواد کی محبت سے آنکھیں۔
وہ سب سے مل کر فارغ ہوئی اور سنبل کے درخت تلے بینچ پر آبیٹھی۔ اس بینچ کے اردگر بے تحاشا پھول بکھرے تھے۔ بینچ پر پڑے پھولوں پر وہ نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگی۔
’’حوریم۔‘‘اس کے عقب سے آکر تیمور نے موبائل اس کے آگے رکھ دیا تھا۔ سکرین روشن تھی۔ اور اسکرین پر اس کی ایک تصویر جگمگا رہی تھی۔ یہ تصویر اس نے نہیں کھنچوائی تھی بے خبر ہونے کے باوجود وہ ایسے اینگل سے لی گئی تھی کہ تصویر میں کئی رنگ نکھر رہے تھے۔
’’میں معاف چاہتا ہوں آپ سے مگر مجھے بغیر اجازت یہ لینی پڑی تھی کیونکہ…‘‘
’’تیمور…‘‘ حوریم کی آنکھوں میں شدید ناپسندیدگی جھلکنے لگی۔وہ ناراض نظر آتی تھی۔
’’آپ اسے خود ڈیلیٹ کردیں۔ لیکن میں آپ سے مانگتا تو آپ شاید نہ دیتیں۔ مجھے یہ مما کو دکھانی تھی اور…‘‘
اس نے لب دبا کر ایک شرارتی نظر حوریم پر ڈالی۔ حوریم اس کا جواب سننے کے لیے رک گئی تھی۔ کچھ نہیں بولی۔
’’ وہ مان گئی ہیں۔ انہیں آپ پسند آگئی ہیں ہم کب آسکتے ہیں آپ کے گھر؟ یہ انہوں نے پوچھا ہے۔‘‘ دنیا جہاں کے کوچوں سے تمام جگنو قافلوں کی صورت اس کی پتلیوں پر ڈیرہ جمانے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں اتنی روشن ہوگئیں کہ وہ روشنی حوریم کی آنکھوں کے راستے دل میں گھسنے لگی۔ وہ لاجواب ہوکر رہ گئی تھی۔
’’مجھے لگا تھا وہ آپ کو سمجھائیں گی۔آپ تو واقعی میں بہت سیریس ہیں۔‘‘پہلی بار اس کے لبوں پر دوستانہ مسکراہٹ آئی تھی۔ اس نے اپنے حوالے سے تیمور کو چھیڑا تھا۔
’’لیکن اب آپ اپنی بات سے مکر نہیں سکتیں حوریم! میں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور یقین کریں حوریم میں آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا۔ زندگی کے ہر معاملے میں آپ کو آگے رکھوں گا۔ مجھے بس اپنی زندگی آپ کے ساتھ گزارنی ہے۔‘‘
وہ خوبصورت تاثرات کے ساتھ والہانہ نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔ پھر بندر کی طرف جمپ لگا کے وہ بینچ کی دوسری طرف کودا اور سنبل کا ایک ٹہنی پر لگا تازہ پھول توڑ کر اس کی طرف آیا۔ وہ پھول اس نے حوریم کی دو انگلیوں کے بیچ اٹکا دیا تھا ۔ ایسے جیسے انگوٹھی ۔حوریم مسکراہٹ روکتی اس کی خوشی کا لیول دیکھ رہی تھی۔
’’میں سوچوں گی۔ میرے پاس ایسا کوئی جواز نہیں کہ میں آپ جیسے انسان کے لیے انکار کردوں۔ پھر بھی جواب کا حق صرف میرے گھر والوں کے پاس محفوظ ہے۔‘‘
پھول کو گھماتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں امڈتے رنگوں کو گنتی کہہ رہی تھی۔ تیمور فواد کا چہرہ اس کی بات بہار کر گئی تھی۔
’’آپ فکر مت کریں۔ مثبت جواب لینا مما کو آتا ہے ۔ ‘‘اس نے کچھ اس اعتماد سے کہا کہ دونوں ایک ساتھ کھلکھلا کر ہنسے تھے۔
سنبل کے پھولوں پر بیٹھے دو مکمل انسان ۔نیچے جھکتا سورج اور یہ بجھی دھوپ کا سرخ آتشی سا منظر…یہ ایک مصور کا سب سے پسندیدہ منظر بن گیا تھا۔
حوریم نے اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچا تھا۔ مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ دونوں ایک ساتھ بہت حسین لگتے ہیں۔ تیمور کی باتیں،تیمور کی عادتیں، تیمور کا خالص پن اور اس کی محبت، اس کی پرسنلٹی کچھ بھی نظر انداز کرنے جیسا نہیں تھا۔ اس نے اپنے دل میں اس شخص کو خوش آمدید کہہ دیا تھا۔
اس شام تیمور فواد کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کا یادگار ڈنر کیا تھا۔ وہ کوئی بات کہتا تھا۔معلوم نہیں پہلے کس کے لبوں پر ہنسی چٹکتی تھی مگر ہنسنے وہ ایک ساتھ لگے تھے۔ اس کی حامی نے تیمور کی شخصیت کو جو اعتماد دیا تھا وہ بالکل ایک الگ شخصیت کے طور پر اس کے سامنے آیا تھا۔
رعب جماتا ہوا،حق جتاتا ہوا ۔اس کو تنگ کرتا۔ پھر فوراََ مناتا۔ اس کی قسمت کا ستارہ جتنی دیر بھی روشن رہتا مگر یہ وہ دن تھا جسے حوریم اپنی زندگی سے کبھی مٹانا نہیں چاہتی تھی۔ چاہے جانے کے احساس نے اسے گویا مسحور کردیا تھا۔
دو خوش باش لوگوں کی فضا میں قہقہے بکھیرتی باتیں اور زمین پر چلتے قدموں کے نیچے، ایک دوسرے کی سمت آتے روشن راستوں کی ساری موم بتیاں ایک ایک کرکے بجھتی چلی جارہی
تھی۔
٭…٭
دنیا یک دم خالی خالی سی ہوگئی۔ دل کی بے کلی… فضا کی سوگواریت میں گھل مل جاتی۔ بے چینی اتنی کہ بیٹھے بیٹھے وہ ہاتھوں کو کھجائے جاتی تھی۔
وہ حوریم اکرم…جو زندگی کی شاہراہ پر آٹھ سالوں سے سیدھی سپاٹ چلی جارہی تھی۔ اس کی رفتار پر ایک شخص نے آکر فل اسٹاپ لگا دیا تھا۔ راہ پر کوئی بلاک رکھ دیا تھا۔
حوریم کی آنکھیں فواد تیمور سی ہوگئی تھیں۔ جیسے وہ اسے یونیورسٹی میں لوگوں کی بھیڑ میں, ایک ایک چہرے میں دیوانہ وار تلاشتا تھا۔ وہ اب اسے ہر آہٹ پر تلاش کررہی تھی۔ اس کے نظر آنے کی دعا کررہی تھی۔
مگر وہ کھو گیا تھا ۔ کتنے دن بیت گئے تھے وہ آفس نہیں آیا تھا۔
وہ اس کی زندگی سے چلا گیا تھا۔کبھی وہ چاہتی تھی وہ اسے بار بار اپنے سامنے نہ دیکھے۔وہ نہیں جانتی تھی ایک دن وہ اسے دیکھنے کیلیے تڑپ تڑپ کر دعا کررہی ہوگی۔
تیمور کی دکھی چہرہ خفگی سے بھری آنکھیں اور زخمی لہجہ…اس کی تکلیف اسے سونے نہیں دے رہی تھی۔آنکھیں بنجر ہوگئی تھیں۔ دل صحرا…
دو ہفتے بیت چلے تھے۔ سر بھی خاموش تھے۔ پراجیکٹ وہ اکیلے ہی دیکھ رہے تھے۔ حوریم سے برداشت نہیں ہوسکا تھا۔ وہ اپنے اندر کی کیفیت چھپاتی ان سے دریافت کرنے چلی گئی تھی۔
’’سر! تیمور صاحب نہیں آرہے۔ سب خیریت ہے؟‘‘اس نے کوشش کی تھی کہ اس کے لہجے میں کوئی غیر معمولی پن نہ جھلکے۔ پھر بھی معاذ صاحب یہ سن کر چونک گئے تھے۔
’’آپ کی اس سے بات نہیں ہوئی؟‘‘
’’نن نہیں سر! کیا ہوا؟‘‘ دو لفظ بولتے ہوئے وہ بری طرح کپکپا گئی تھی۔ دل کوئی انہونی سننے کو تیار نہیں تھا۔
’’وہ بہت بیمار رہا ہے۔آپ کال کرکے ان سے خیریت معلوم کرلیں اسے اچھا لگے گا۔‘‘معاذ صاحب نے مشورہ دیتے ہوئے تیمور فواد کا کارڈ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں اتنی سکت نہیں تھی وہ اسے تھام سکتی۔
’’سر انہیں ہوا کیا؟‘‘ اس کی آواز نکلی تو گلا رندھ گیا تھا۔ شاید پلکوں کے نیچے ڈھیر سارا پانی جمع ہورہا تھا۔
’’کورونا وائرس پازیٹیو ہے۔ ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ان کی بات سن کر وہ بوجھل دل کے ساتھ واپس آئی تھی۔ دل کے بہت اصرار کے باوجود وہ اسے کال کرنے کی ہمت خود میں نہ پاتی تھی۔
گھر واپس جاتے ہوئے راستے میں اسے پھولوں کی شاپ نظر آئی تو اس نے بے اختیار گاڑی رکوا کر قدم شاپ کے اندر بڑھا دیے تھے۔ پھولوں کی شاپ میں موجود اس نے رنگارنگ پھولوں کا اس نے ایک خوشنما سا بکے تیار کروایا اور تیمور فواد کے آٹھ سال پرانے ایڈریس پر بھجوایا تھا۔
پھولوں کے بکے میں اس نے چھوٹی سی چٹ اٹکا دی تھی۔
’’اس امید کے ساتھ
کہ یہ پھول آپ تک اس ایڈریس پر ضرور پہنچ جائیں گے۔
Get well soon
٭…٭
اُس نے پھول بھیجے ہیں
پھر میری عیادت کو
ٹھنڈے اور نیم تاریک کمرے میں لیٹے تیمور فواد نے بکے میں سے ایک کلی نکال لی تھی اور تازہ پھول کی خوشبو کو ناک کے قریب لے جاکر اپنے اندر اُتاری۔
ایک ایک پتی میں
اُن لبوں کی نرمی ہے
اُن جمیل ہاتھوں کی
خوشگوار حدت ہے
اُن لطیف سانسوں کی
دلنواز خوشبو ہے
ذہن میں چھن سے حوریم اکرم کا سراپا در آیا تھا۔ تکلیف اور بے بسی کی شدت نے اسے مزید نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔جتنے دن اس کے بیماری میں گزرے تھے اور وہ نقاہت زدہ رہا تھا اتنی ہی وہ اسے یاد آتی رہی تھی۔
یوں لگتا ہے زندگی ختم ہورہی ہے لمحہ بہ لمحہ دور جارہی ہے اور حوریم کی آواز۔ اور ہنسی کھلکھلاہٹ جھرنوں سے گرتے پانیوں کے شور کی طرح اس پر گراں گزر رہی ہے۔
’’بار بار کیوں آرہی ہیں میری زندگی میں آپ …اب جبکہ اس سب کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
اس نے اس چٹ پر لکھی تحریر کو پڑھتے ہوئے اذیت سے اسے مخاطب کیا تھا۔اس نے کہیں بھی اپنا نہیں لکھا تھا کیونکہ اسے یقین ہوگا کہ یہ ہینڈ رائٹنگ اسے بھولی نہیں ہوگی۔
’’جن لوگوں سے محبت اور محبوب کھو جاتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے پرانے رابطے نمبر اور آشیانے نہیں بدلتے۔تاکہ کھویا ہوا انسان واپس آنا چاہے تو اسے تلاش کرنے میں ذیادہ دیر نہ لگے۔ لیکن آپ حوریم…ملیں بھی تو اس صورت میں کہ کوئی گمان بھی باقی نہیں رہا…آپ کے راستے اب مجھ تک نہیں آتے۔‘‘
تیمور فواد نے خود کلامی کرتے ہوئے تھکن سے آنکھیں موند لی تھیں۔ پلکوں کے اس پار یادوں کا پرندہ بہت تیزی سے پیچھے…بہت پیچھے گہری تاریک غار میں سفر کرتا جارہا تھا۔
٭…٭
حوریم کے ڈرائنگ روم کا منظر… اور منظر میں نظر آتے تیمور فواد، ان کی والدہ اور حوریم کی امی۔ ڈرائنگ روم صاف ستھرا لگ رہا تھا لیکن فضا میں عجیب سی خاموشی اور خالی پن چھایا ہوا تھا۔ تیمور اتنا پرجوش لگ رہا تھا کہ خوشی چھپائے نہ جارہی تھی۔ اس کی مما بھی ان لوگوں کی سادگی اور نفاست و وضع داری سے متاثر لگ رہی تھی۔
بھابھی نے ان کے سامنے کھانے پینے کی کچھ چیزیں لا کر رکھی تھیں۔ ان کی آنکھیں سوجی سوجی لگ رہی تھیں۔ اور چہرہ سپاٹ…تیمور ان دونوں خواتین کے تاثرات اور چپ سے کچھ اخذ نہیں کررہا تھا۔
’’ آپ شفا بھابھی ہیں؟‘‘ خاموشی توڑنے کو تیمور نے مسکرا کر استفسار کیا تھا۔ وہ پہلے اپنے خیال سے چونکیں۔ پھر کھنکھار کر اثبات میں سر ہلایا۔
’’جی! آپ کچھ لیجئے پلیز…‘‘
’’حوریم نے آپ کے بارے میں بہت کچھ بتارکھا ہے۔ ایکچوئلی حوریم سے میری بات نہیں ہوپارہی تھی کئی دنوں سے…اس کا نمبر بھی آف تھا۔ اس لیے ہمیں یوں انفارم کیے بغیر آنا پڑا۔‘‘اس کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ شفا بھابھی نے نفی میں سرہلایا۔
’’اوہ نہیں! آپ تکلف میں نہ پڑیں ہمیں اچھا لگا ہے آنٹی اور آپ سے مل کر…حوریم گھر پر ہی ہے آجاتی ہے ابھی۔‘‘
’’بیٹا! تیمور میرا اکلوتا بیٹا ہے اور مجھے اس کی خوشی عزیز ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں مجبوری میں آئی ہوں۔ حوریم بہت پیاری بچی ہے اور آپ لوگ بھی بہت سلجھے ہوئے لگے ہیں۔ ہمارا سب کچھ اسی کا ہے۔‘‘
انہوں نے محبت پاش نظروں سے تیمور کو دیکھا تھا۔ان کی باتوں کا مفہوم جان کر بھابھی اور حوریم کی امی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئی تھیں۔
’’اور جب دونوں بچے ایک دوسرے کو…‘‘
’’السلام علیکم۔‘‘ ایک دم سارے میں سکوت سا چھا گیا تھا۔ نجانے حوریم کا لہجہ کچھ ایسا تھا یا کوئی اور قوت…تیمور اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔
’’حوریم! مما…‘‘ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ذو معنی سے اشارے کیے۔ چہرے پر شرارت تھی۔
’’تمہارا نمبر ہی آف تھا اس لیے میں انہیں ساتھ لے آیا اور تمہاری خیریت کا بھی معلوم کرنا تھا۔‘‘
’’اچھا ہوتا اگر آپ پہلے ہی پوچھ لیتے۔‘‘ اس میں کوئی گرم جوشی نہیں بیدار ہوئی۔ کوئی خیر مقدم مسکراہٹ نہیں۔ کوئی خوشی نہیں…
’’کوئی بات نہیں بیٹا! ماشاء اللہ تیمور نے جتنا تمہارے بارے میں بتا رکھا ہے تم اس سے کہیں ذیادہ…‘‘
’’مجھے نہیں معلوم تیمور نے آپ کو کیا بتارکھا ہے۔لیکن آپ لوگوں کا قیمتی وقت برباد کرنے سے پہلے میں بتا دینا چاہتی ہوں کہ جس مقصد کے لیے آپ آئے ہیں مجھے وہ منظور نہیں ہے۔‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے