مکمل ناول

اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک

’’آپ تو پاگل بھی ہیں تیمور!‘‘گھنٹے بعد وہ لائبریری سے نکلی تو وہ باہر ٹہلتا اس کا انتظار کررہا تھا۔حوریم ہمیشہ اسے بہت عزت دیتی تھی۔اس کی یہ عزت تیمور فواد کے دل میں محبت بن
کر گھل مل جاتی تھی۔
اور دیکھتے دیکھتے نجانے کب رائی جیسی پسندیدگی ،محبت کا پہاڑ بن گئی۔ ٹھوس…منجمد …اور ثابت قدم۔
وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔اسے معلوم تھا کہ اس کی کوئی خواہش، کوئی فرمائش حرفِ آخر ہوتی ہے اور محبت تو اہمیت ہی الگ رکھتی تھی ۔اسے صرف حوریم تک اپنے جذبات پہنچانے تھے۔جو اس کی آنکھوں سے عیاں رہتے۔ پھر بھی حوریم ان کی آنچ سے بچ جاتی تھی۔ اس تک وہ حرارت پہنچتی ہی نہیں تھی۔
کئی دن اسی کشمکش میں گزر گئے۔سمسٹر بیت گیا۔ چھٹیاں گزارنی ازحد کٹھن ہوگئی تھیں۔وہ حوریم کے سامنے اظہار کرنے سے ڈرتا نہیں تھا،اسے صرف یہ خدشہ تھا کہ حوریم اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے گی؟ نجانے اس کے ذہن میں تیمور فواد کہیں آتا بھی تھا کہ نہیں ۔کہیں وہ اپنے لائف پارٹنر کے حوالے سے کچھ اور خواب رکھتی ہو تو؟ اس اہم انسان کے لیے تو ہر انسان کے پیمائش کا سکیل بہت مختلف اور کینوس بہت وسیع رہتا ہے۔
جس روز اس کا برتھ ڈے تھا اس سے ایک رات پہلے اس نے حوریم کو واٹس ایپ کرکے بتایا تھا کہ اگلی صبح اس کی سالگرہ ہے ۔ حوریم نے اسے رات بارہ بجے ہی سالگرہ کی مبارک باد دے دی تھی۔ لیکن اگلی صبح بھی وہ یونیورسٹی آئی اور تیمور کو کیفے سے براؤنیز خرید کر دیں۔
’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں حوریم۔‘‘براؤنیز پر چمچ رکھتے تیمور نے سنجیدگی اور گمبھیر لہجے میں اسے مخاطب کیا تو حوریم کو پہلی بار اس کا انداز بدلا ہوا محسوس ہوا۔
’’سب خیریت ہے تیمور؟‘‘
’’یہاں نہیں میرے ساتھ آئیں پلیز۔‘‘وہ کرسی دھکیلتا ہوا اٹھا تھا اور اس سے دو قدم آگے چلتا ہوا اس جگہ کی طرف بڑھنے لگا جو حوریم نے پہلی بار اسے دکھائی تھی۔ حوریم نے خاموشی سے اس کی تقلید کی۔
’’مجھے پریشانی ہورہی ہے تیمور۔‘‘اس نے احساس دلایا۔
’’بلیومی حوریم! یہ سب سے مضبوط اور سب سے خوبصورت احساس ہے ۔ آپ سکون سے سنیں گی تو سب آسانی سے سمجھ آجائے گا ۔‘‘وہ سرخ پھولوں سے لدے سنبل کے نیچے آکھڑا ہوا تھا ۔ چہرے پر جوش،ہلکی سرخی،کچھ گھبراہٹ کچھ مسرت … حوریم اس چہرے پر آئے رنگوں کو ہی شمار کرتی رہ گئی۔
’’مجھے نہیں پتہ یہ تعلق کس طرح بن جاتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ دلوں میں یہ گنجائش اللہ تعالی ہی پیدا کرتا ہے اور اتنی ذیادہ لگاوٹ تو قسمت سے ہی کسی انسان سے ہوتی ہے حوریم۔‘‘
’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔فلاسفی کی کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں؟‘‘حوریم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔تیمور فواد بھی مسکرایا۔
’’میں کہنا چاہتا ہوں کہ حوریم اکرم! جو محبت آپ کو سنبل کے پھولوں سے ہے وہی محبت مجھے آپ سے ہوگئی ہے۔‘‘اس نے ہاتھ بڑھا کر پھول توڑا۔
’’آپ نے مجھے کہا تھا میں آپ کی ان پھولوں سے محبت پر غور کروں۔اور اس عمل نے مجھے آپ سے محبت میں مبتلا کردیا۔ان پھولوں سے آپ کی وہ محبت میرے دل میں منتقل ہوگئی۔میں آپ کو ٹوٹ کر چاہنے لگا ہوں۔‘‘
اس کے چہرے پر حسین ترین تاثرات تھے۔ لبوں پر اظہار۔ہاتھ میں پھول ۔ حوریم اکرم فریز ہوگئی تھی۔بالکل ساکت … اور ششدر!
’’تیمور آپ…‘‘
’’پلیز بولیں ۔ ‘‘وہ اس کے چپ ہونے پر بے تاب ہوا تھا۔ حوریم پُرسوچ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔ پھر سر جھٹک کر ہنس پڑی۔
’’آپ پر بھی رنگ چڑھ گیا ہے نا اردگرد کا ۔ آپ جانتے ہیں میں بڑی ہوں آپ سے۔ اور میں جانتی ہوں کہ کچھ وقت کی کش…‘‘
’’میں ٹین ایجر نہیں ہوں۔‘‘وہ سخت برا مان کر بولا تھا۔اسے حوریم سے یہ توقع نہیں تھی۔وہ اس کی اتنی بڑی بات پر محض ہنس دی تھی ۔فقط ایک ہنسی!!
’’آپ بہت میچیور بھی نہیں ہیں۔‘‘
’’میں بس اتنا جانتا ہوں کہ یہ وقتی جذبہ نہیں ہے۔ میں نے بہت وقت لیا ہے بہت سوچا ہے اس کے بعد آپ سے اظہار کیا ہے حوریم۔ اور آپ کوئی اتنی بڑی نہیں ہیں مجھ سے قد میں آپ سے بڑا لگتا ہوں میں۔ یہ مائنر سا ڈیفرینس (معمولی فرق) کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘
’’ اور یہ بہت وقت کب لیا آپ نے سوچنے کا؟‘‘
’’پورا سمسٹر گزر گیا حوریم یہ سوچتے ہوئے، اور اس گزرے وقت میں آپ پہلے سے بڑھ کر مجھے اچھی لگی ہیں۔‘‘
’’ ایک سمسٹر…بس ایک سمسٹر کافی ہوتا ہے؟‘‘ وہ ہنسنا چاہتی تھی مگر اس کے ہرٹ ہونے کے خیال سے بس مسکرا دی۔ وہ ایک سمسٹر کی بات کررہا تھا جبکہ بات تھی پوری زندگی کی۔
’’دیکھیں تیمور! مجھے یہ پسند نہیں کہ وقت سے پہلے آپ یوں…‘‘
’’میں رشتہ بھجوانا چاہتا ہوں آپ کے گھر…پلیز منع مت کیجئے ۔‘‘اس نے اس کی بات مکمل کرنے سے پہلے رد کردی تھی۔ حوریم لمحہ بھر کو چپ ہوئی۔ تیمور جیسے اس کے ہر اعتراض کا جواب پہلے سے لے کر آیا ہوا تھا۔
’’آپ نے گھر بات کی؟‘‘
’’میں پہلے آپ سے کرنا چاہتا تھا۔میری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا حوریم!‘‘
’’گھر بات کرکے دیکھیئے گا۔‘‘وہ سکون سے گویا ہوئی۔
’’پھر اُن کا مشورہ مان لیجیئے گا کہ یہ وقت آپ کا صرف کیریئر پر فوکس کرنے کا ہے۔ہم اچھے دوست پھر بھی ہیں تیمور فواد!‘‘
اسے لگا جو بات وہ پُرسکون رہ کر ختم کرسکتی ہے۔شدید ردِعمل اس بات کو بگاڑ سکتا ہے۔ اس لیے اپنے تئیں اس نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا تھا۔یہ شخص بہت مثبت تھا۔اسے ایک دوست کی حیثیت سے پسند بھی تھا۔ وہ جانتی تھی اسے اس کے گھر والے ہی سمجھا دیں گے۔مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے مقابل تیمور فواد تھا۔
وہ اسے حیران کرتی آئی تھی مگر اس نے تو حوریم کو ششدر کردیا تھا ۔ اس کی پرسنلٹی نظرانداز کرنے والی نہیں تھی۔ حوریم کی طرف دوستی کے بہت سارے ہاتھ بڑھتے رہے تھے۔ اور وہ جانتی تھی کہ یہ سب اس ماحول کا حصہ ہے اس لیے اس نے کبھی اس چیز کو ذہن پر سوار نہیں کیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ جس شخص کے ساتھ وہ گھلی ملی تھی وہ اس سے صرف محبت کا اظہار نہیں کررہا تھا بلکہ وہ اس کے کچھ کہنے سے پہلے سب کچھ سوچ کر آیا تھا۔ وہ اسے اپنی عزت بنانے کی بات کررہا تھا۔
اس نے صرف محبت کا اعتراف کرکے محبت تک محدود رہنے کی بات نہیں کی تھی۔ وہ بات ختم کر کے آگے بڑھ جانا چاہتی تھی۔ مگر کچھ تھا اس کی بات میں کہ اس نے سوچنے پر ضرور مجبور کیا۔حالانکہ وہ جانتی تھی کہ ضروری نہیں یہی کچھ سچ ثابت ہوجائے مگر…تیمور فواد!
جو اس نے کہا تھا وہ اسے سچ ثابت کردے گا۔حوریم نے بات بھلا دی۔لیکن تیمور فواد نے یہ بات ختم نہیں ہونے دی تھی۔یہ بات اس کی طرف سے ختم ہو بھی نہیں سکتی تھی ۔کیونکہ یہ بات حوریم اکرم کے ہاتھوں جو ختم ہونا لکھی تھی۔۔۔
وہ بھی اس قدر بری طرح کہ آٹھ سال بعد بھی دونوں کو وہ بدصورتی اپنی شدت سمیت یاد تھی۔ !
٭…٭
اسے آفس میں آتے کئی دن ہوگئے تھے ۔ اور کئی دن لگ گئے تھے اسے سمجھنے میں کہ وہ چاہے جتنے بھی لاتعلق بن جائیں مگر ماضی سے جڑا تعلق انہیں نارمل نہیں رہنے دے سکتا تھا۔
تیمور فواد لنچ معاذ صاحب کے ساتھ کرنے لگے تھے ۔ حوریم اور تیمور کی نظریں بہت کم ملتی تھیں۔مل جاتیں تو اضطراب شعلہ بن کر لپکتا۔ اس دن تیمور فواد آرام کرسی پر بیٹھا کوئی انگلش کتاب پڑھ رہا تھا جب حوریم ناک کرکے اندر داخل ہوئی۔
’’باس نے لنچ باہر کرنے کا کہا ہے۔ آپ کے لیے کچھ بھجواؤں چائے کافی؟‘‘
’’ نہیں! آپ چل رہی ہیں؟‘‘تیمور نے کتاب سے نظر ہٹا کر یونہی اس سے دریافت کرلیا تھا۔ حالانکہ اس کا جواب وہ جانتا تھا۔
’’ نہیں! میرا لنچ گھر سے آتا ہے سو ضائع ہوجائے گا۔‘‘اس نے سہولت سے انکار کردیا اور پھر کتاب کے کور پر ایک نظر ڈالی۔
’’آپ کب سے انگلش لٹریچر پڑھنے لگے ہیں۔‘‘اسے اچھا لگا تھا۔ تیمور ہمیشہ اسے پڑھتا دیکھ کر جھرجھری لیتا تھا کہ کورس کے علاوہ بھی کس کو شوق ہوتا ہوگا فکشن پڑھنے کا؟
’’ کتابیں اچھی ساتھی ہوتی ہیں۔آپ نے پڑھی ہے یہ کتاب؟‘‘وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ یہ دونوں میں برف پگھلنے کی شروعات نہیں لگتی تھی۔ وہ سپاٹ لہجہ اختیار کیے ہوا تھا۔جیسے آفس کے کسی بھی ورکر کے ساتھ…کسی بھی دوسرے انسان کے ساتھ رسمی سی گفتگو۔
’’میں نے اس پر بنی ویب سیریز دیکھ رکھی ہے۔‘‘اس نے لب کشائی کی اور جانے کے لیے مڑی۔
’’واٹ؟‘‘پہلی بار تیمور کی بے یقین سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ فوراََ اپنے قدموں پر مڑی۔یہ آواز یہ انداز…
’’ آپ نے واقعی اس پر بنی سیریز دیکھی ہے؟‘‘اس کی آنکھوں میں شاک تھا۔ناقابلِ یقین کیفیت ۔ حوریم کے لبوں سے ہنسی چٹکی…وہ کھلکھلائی۔ اور پھر ہنستی چلی گئی۔
برسوں بعد آج پہلی بار اسے تیمور فواد کے اندر سے وہ’’تیمور‘‘باہر نکلا نظر آرہا تھا جسے وہ یونیورسٹی کے دنوں میں جانا کرتی تھی ۔ وہی بے یقینی…وہی حیرت…ویسی ہی عجلت اور آواز میں اتار چڑھاؤ۔اس نے بمشکل ہنسی روک کر جواب دیا تھا۔
’’ اس میں کیا بڑی بات ہے؟‘‘ اس نے منہ پر ہاتھ رکھا کہ وہ دوبارہ نہ ہنسے۔ جبکہ تیمور اسی حالت میں کھڑا اسے ہنستا تکے جارہا تھا۔
’’یہ آپ کہہ رہی ہیں اس میں کیا بڑی بات ہے۔ آئی کانٹ بلیو۔‘‘اس کا منہ پھول گیا۔ ناک بھوں چڑھ گئی۔ وہ جیسے شدید خفا ہوگیا…کتاب پڑھتے ہوئے اسے اکثر سینز چھوڑنے پڑ جاتے تھے اور وہ انہیں سکرین پر دیکھنے کی بات کررہی تھی۔ حوریم کا دل کیا وہ اسی طرح رہے۔اس سے لڑتا ہوا، خفا ہوتا، تیز لہجے میں بولتا۔مگر پچھلی ساری باتیں بھول جائے۔ایک زمانے میں یہ شخص اسے کتنا عزیز تھا۔نہیں! اب بھی یہ اسے اتنا ہی عزیز تھا۔
’’مسٹر تیمور! میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں۔ایک بتیس سال کی میچیور خاتون ہوں۔یہ بات آپ ذہن میں رکھیں۔‘‘ہنسی کو لبوں کے کونے میں دباتی ہوئی وہ باہر نکل گئی۔
وہ باہر نکل گئی تو تیمور دھپ سے کرسی پر گرا۔ کتاب ایک طرف ڈالی اور منہ بگاڑ کر بولا۔
’’بتیس سال کی ہیں تو کیا ہوا۔ خاتون تو ہیں نا۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘اس نے دونوں ہاتھ ہوا میں لہرائے۔
پھر وہ گول گول چکر کاٹتے ہوئے اس کی بات کو ہضم کرنے لگا ۔ اس وقت جیسے اسے بھول گیا تھا کہ حوریم نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ حوریم کی ہنسی اسے ہمیشہ سب کچھ بھلا دیتی تھی۔
وہ خوشگوار موڈ کے ساتھ اسے تنگ کرنے کی غرض سے روم سے باہر نکلا۔ پھر ایک دم آگے بڑھتے بڑھتے اس کے قدم زنجیر ہوئے۔
سامنے حوریم کے کیبن میں دو بچے سکول یونیفارم میں اس کے پاس کھڑے لاڈ سے کچھ بول رہے تھے ۔حوریم کی ساری توجہ انہی کی طرف تھی اور وہ ان دونوں کے ساتھ خوشی سے باتیں کرتی تیسری بچی لگ رہی تھی ۔وہ ان کی باتیں نہیں سن پارہا تھا پھر بھی یک ٹک اس منظر میں دیکھے گیا۔ چار سالہ بچی نے آگے بڑھ کر حوریم کا گال چوم لیا تھا۔
تیمور فواد سے بے خبر حوریم نے ریان کے ہاتھ چومتے ہوئے اسے گلے لگایا تھا۔
’’ پھپھو کا پیارا بیٹا! آپ کو کیا ضرورت تھی اتنی گرمی میں مجھے لنچ دینے آنے کی۔ اسکول سے اتنے تھکے آتے ہوئے ہیں آپ دونوں…‘‘
’’مما نے آپ کی فیورٹ ڈش بنائی تھی پھپھو جانی! آپ کے آنے تک وہ باسی ہوجاتی۔ مما نے پلوشہ کے پاپا کو کہا تو وہ ہمیں لے آئے ۔ ‘‘تیرہ سالہ ریان نے مسکرا کر بتایا تو حوریم کے دل کا ایک زخم تازہ ہوگیا تھا۔وہ زخمی سا مسکرا دی۔
’’ آپ کی مما کی میں آکر خبر لیتی ہوں ۔ چلو جاؤ اب خیال سے پلوشہ کے پاپا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘اس نے پلوشہ کو پیار کیا تو اچانک اس کی نظر یہ نظارہ دیکھتے تیمور پر پڑی تھی۔ ریان اور پلوشہ آگے پیچھے باہر نکل گئے تو وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر تیمور کی طرف چلی آئی۔
’’خیریت آپ اس طرح کیوں کھڑے ہیں؟‘‘تیمور کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا۔کچھ دیر پہلے والے تیمور کا شائبہ تک نہیں تھا۔
’’یہ ریان تھا میرا بھتیجا اور پلوشہ…‘‘
’’آپ کی بیٹی!‘‘اس کی بات مکمل ہونے سے قبل تیمور نے بکھرتے لہجے میں بات پوری کردی تھی۔ اس کی آواز زخم زخم ہورہی تھی۔
’’آپ کو ایک خود مختیار عورت بننے کا شوق تھا۔اور آپ کو اپنے سامنے میں آپ کے معیار کا نہیں لگا تھا…شادی آپ کی پلان اور چوائس میں نہیں تھی۔‘‘
’’تیمور…!‘‘حوریم کچھ بول نہیں سکی تھی۔یہ آفس تھا اور ایکدم اس کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ تیمور چیخ پڑے گا اور وہ سب کی نگاہوں میں تماشا بن جائے گی۔
’’آپ انڈیپینڈنٹ وومن بھی ہیں اور آپ نے شادی بھی کی ۔اوکے یہ سب آپ کی مرضی تھی حوریم پھر آپ نے کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟‘‘
اتنے دنوں کا چہرے پر طاری بیگانگی کا پردہ اُتر گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پھیلتی سرخی شدید جلن کا تاثر دے رہی تھی۔ اس کی آواز مدھم تھے مگر الفاظ بے تحاشا نوکیلے۔
’’تیمور!‘‘حوریم کی آنکھیں بھرنے لگیں۔
’’آپ…آپ پرانی باتیں بھول نہیں سکتے؟‘‘
’’نہیں کیونکہ میرے لیے کچھ پرانا نہیں ہے۔میں وہیں کہیں پرانے وقت میں کھو گیا ہوں۔میرا وہ وقت جو آپ نے سالوں بعد واپس آکر مجھے یاد دلا دیا کہ میں کتنا خوش رہا کرتا تھا۔‘‘
حوریم کی نم ہوتیں آنکھوں سے اس کی آواز میں سختی ختم ہوتی گئی تھی۔ وہ اب بے بسی سے بول رہا تھا مگر اس کے شکوے ختم نہ ہوتے تھے۔
’’آپ اب بھی خوش رہ سکتے ہیں۔ کچھ نہیں بدلا،آپ کی بیوی ہے بچے بھی ہوں گے۔وہی آپ کی دنیا ہے باقی سب بے معنی۔‘‘
’’آپ کی یہ خوش فہمیاں بھی میرے لیے بے معنی ہیں۔میرے کوئی بچے نہیں ہیں۔اور بیوی … ہونہہ! ایک کاغذ پر رضا مندی سے ہمارا نکاح ہوا تھا ۔ دو برس پہلے ایک کاغذ پر رضا مندی سے ہم دونوں نے طلاق پے سائن کردیے ۔‘‘وہ ہنسا۔ بے رحمی سے ہنسا۔ شاید طنزیہ ہنسا …حوریم کو زور دار چکر آیا تھا۔اس نے بے اختیار لڑکھڑا کر کسی چیز کا سہارا لیا۔ کس چیز کا ۔ اس سے دیکھا نہ گیا۔ آنکھوں میں اندھیرا چھارہا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے