اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک
’’آپ نے ہمارے ساتھ لنچ نہیں کیا تو الگ سے کرلیں۔آپ نے بہت اچھا بزن پلان تیار کیا۔ کام کرنے کے لیے انرجی بہت ضروری ہوتی ہے۔‘‘اس نے مخلصانہ مشورہ دیا جسے سن کر حوریم اکرم نے بڑی فرصت سے جواب دیا۔
’’میں کھانا وقت پر کھانے کی عادی ہوں۔اس وقت بھوک ہوتی تو ضرور کھا لیتی۔آپ بے فکر رہیں۔‘‘
’’سچ کہہ رہی ہیں ؟‘‘
’’سچ کے علاوہ کیوں کچھ بولوں گی۔ مجھے اپنی پروا کرنا اور خیال رکھنا آتا ہے۔آپ کے کنسرن کا شکریہ۔‘‘
’’ہاں! اب آپ نے ٹھیک کہا۔ کچھ لوگوں کو ’’صرف‘‘ اپنا خیال رکھنا اور پروا کرنا آتا ہے۔ دنیا میں وہی لوگ بہت کچھ پیچھے چھوڑ کرباآسانی آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘تیمور فواد نے گمبھیر لہجے میں پہلی بار ایک طویل بات کی تھی جس کی حوریم اکرم کے چہرے کا رنگ کردیا تھا۔ اس کے دل کو لگنے والا یہ دھکا۔
’’آہم ! میری فائل؟‘‘اس نے سر جھٹک کر سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’ہوں!وہی نکال رہی ہوں۔اس میں شاید…‘‘بمشکل منتشر حواس سمیٹ کر وہ سیدھی ہوئی۔ پر دماغ بلینک…صاف سلیٹ ۔وہ بے خیالی میں کیز دباتی جارہی تھی جب تیمور ایک دم نیچے جھکا۔
’’ہاتھ پیچھے کیجئے۔‘‘
’’جی؟‘‘وہ چونکی۔سرعت سے ہاتھ کی بورڈ سے ہٹائے۔تیمور نے جھک کر ماؤس گھمایا۔ چند کیز پریس کیں۔ اور انٹر پر کلک کیا۔ٹھک کی آواز سے پروسس شروع ہوگیا۔
’’پرنٹر اٹیچ نہیں تھا۔‘‘وہ سیدھا ہوا تو حوریم کی آنکھوں میں کوئی کیفیت بدلی۔ اس کے لباس سے اٹھتی خوشبو سانسوں سے الجھ گئی تھی۔دماغ پر بار ثابت ہوئی تھی۔
’’اوہ!‘‘اس نے پیشانی پر ہاتھ مارا۔
’’دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے۔کبھی کبھی تو سمجھ نہیں آتی کہ کیوں؟‘‘وہ ہلکی سی شرمندگی محسوس کرتی مسکرانے کی کوشش کررہی تھی۔تیمور نے اس کا سرخ پڑتا چہرہ بغور دیکھا اور لب کشائی کی۔
’’کبھی کبھی واقعی وجہ سمجھ میں نہیں آتی…کہ ایسا ہمارے ساتھ ہوا کیوں تھا؟وجہ کیا رہی ہوگی؟‘‘وہ اسے ساکت چھوڑ کر شتابی سے مڑگیا تھا۔حوریم ایک جھٹکے سے اٹھنا چاہتی تھی ۔ جاتے جاتے وہ شکوہ نوکِ زباں پر مچلنے سے روک نہیں پایا تھا…وہ اسے روکنا چاہتی تھی۔سمجھانا چاہتی تھی۔ صفائی کا کوئی حرف…وضاحت کی سبیل…مگر وہ بے حس و حرکت سُن سی بیٹھی رہ گئی تھی۔ آنکھوں سے بے قرار آنسو اُبلنے لگے۔
بدقت تمام طبیعت خرابی کا بہانہ کرکے وہ آفس سے نکلی تھی۔سارا راستہ دل پانی پانی رہا۔سر پر کچھ اور بوجھل پن سوار ۔ انسان چاہے خود پر کتنے ہی کڑے خول چڑھا لے مگر لمحوں میں کمزوری ظاہر ہوجاتی ہے۔ لمحوں کی چوری خود ساختہ خول پر بہت بھاری پڑتی ہے۔ دل پر نہایت کاری۔
وہ گھر پہنچی تو ریان ابھی ابھی سکول سے لوٹا تھا۔بھابھی نے اسے کپڑے دے کر شاور لینے بھیجا اور اس کا بیگ سائیڈ پر رکھتے ہوئے پانی کا ٹھنڈی گلاس تھمایا۔
’’ جیتی رہیں یار ۔ کسی شفا کی طرح ہیں آپ۔‘‘ان کا ہاتھ تھام کر اپنی گرم پیشانی پر رکھتے ہوئے وہ مشکور لہجے میں بولی۔تھکن اس کے روم روم میں بھری محسوس ہورہی تھی۔
’’کیا بات ہے حوریم! طبیعت ٹھیک نہیں؟ جلدی آگئیں آفس سے؟‘‘انہیں اس کی سرخ آنکھیں اور بوجھل آواز محسوس ہوگئی تھی۔ان کے دل کو کچھ ہوا۔
’’سب ٹھیک ہے۔تھک گئی تھی کام ختم ہوگیا تو…‘‘
’’سٹریس مت لیا کرو۔ امی نے کہلوا دیا ہے انکار اس رشتے سے …‘‘انہیں لگا وہ آنے والے اس رشتے کو لے کر ڈسٹرب ہے جو اس کے لیے نہایت بے جوڑ تھا۔
’’ چھوڑیں یار! امی کو پتہ نہیں کب سمجھ آئے گی کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔میرا سکون برباد کرنے کے لیے یہی مشغلہ رہ گیا ہے ان کے پاس۔‘‘وہ سخت بگڑ کر بولی تھی بھابھی چپ کی چپ رہ گئی۔وہ بدلحاظ نہیں تھی آج کیا خبر کیا سہہ کر آرہی تھی ۔انہوں نے اسے ٹوکا نہیں ،خود اسے بھی احساس ہوا تو ڈھیلی پڑگئی۔
’’اب بتاؤ ۔کیا ہوا ہے؟‘‘بھابھی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’آفس میں تیمور فواد ملا تھا۔‘‘اس نے نظریں چرا کر فریسٹریشن کی وجہ بتائی۔بھابھی کو اس نام کا بندہ فوری طور پر یاد نہ آیاتھا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’تیمور فواد…‘‘اس نے زور دے کر کہا۔اب کی بار آنکھوں میں، چہرے پر، کچھ اُمڈ آیا۔اور بھابھی کا منہ کھل گیا۔
’’اتنے سالوں بعد؟‘‘لبوں سے سرسراتے ہوئے نکلا۔پل بھر کو دل میں خوش گمانی بھی ابھری۔
’’کیا کہہ رہا تھا وہ؟‘‘ایکدم لہجہ بے تاب ہوا۔
’’شادی شدہ ہے وہ۔‘‘حوریم نے بے دردی سے ان کے گمان اور امید کو چکناچور کردیا تھا۔وہ سمجھ گئی تھی کہ ان کے اندر کیا چل رہا تھا۔بھابھی نے دو پل لیے اندر کے طوفان پر قابو پانے کے لیے …پھرایک سانس فضا کے سپرد کی۔
’’تم نے چاہا تھا نا…پھر اب یہ پچھتاوا کیوں؟‘‘
’’پچھتاوا نہیں ہے۔اسے لگتا ہے میں نے اس کے ساتھ غلط کیا ہے۔اب تک بھول نہیں پایا وہ۔طنز کرکے گیا ہے۔اور…‘‘
’’اور؟‘‘
’’اکثر ملاقات رہے گی اب۔ باس کا دوست ہے، ساتھ مل کر پراجیکٹ کررہے ہیں۔‘‘
’’حوریم۔‘‘انہوں نے اطمینان سے سن کر اس کے ہاتھ تھامے۔وہ جھنجھلا رہی تھی۔ خود پر غصہ نکال رہی تھی۔ جیسے دھواں سا بھرا ہوا تھا اس کے اندر۔
’’تم کچھ ذیادہ سوچ رہی ہو۔بہت وقت بیت گیا ہے اسے بھول جانا چاہیئے تھا۔اگر نہیں بھی بھولا تو تم نے کچھ ایسا نہیں کیا کہ اس کے آگے شرمندہ رہو۔وہ تمہاری زندگی تھی … گوکہ میں اس بارے میں تمہارا ساتھ نہیں دیتی مگر میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم احساسِ جرم میں مبتلا رہو۔‘‘
وہ اس کے ہاتھ سہلا رہی تھیں اور حوریم نم آنکھوں سے سنے گئی۔یہ چھوٹی سی دنیا تھی اس کی، وہ دنیا کہ جس میں ذرا سی بھی تکلیف میں کوئی مبتلا ہوتا تو ہر ایک وجود تڑپ اُٹھتا تھا۔ یہی تڑپ اپنے لیے وہ بھابھی کی آنکھوں میں پیدا ہوتی دیکھ رہی تھی۔
’’وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا ہے۔اچھا ہے تمہاری وجہ سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔اسے حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں نیچا دکھائے یا طعنہ دے کر جائے۔‘‘
’’ نہیں نیچا نہیں دکھایا اس نے۔‘‘حوریم نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے نفی میں سرہلایا۔
’’بس اس کی بات میرے دل پر لگی۔گزرا وقت یاد آگیا تھا۔‘‘
’’اس لیے کہتی ہوں زندگی کا خالی پن دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ورنہ انسان اسی طرح رویوں سے ہرٹ ہوتا رہتا ہے۔‘‘انہوں نے دوبارہ اسے پانی دیا تھا۔ حوریم نے دو تین گھونٹ پانی کے پیے۔وہ کہنا چاہتی تھیں کہ میں نے تمہیں روکا تھا وہ مت کرو جو تم کر گئیں۔ مگر اس وقت جو حوریم کی دلی کیفیت تھی وہ اس پر پچھتاوے کا بوجھ نہیں ڈال سکتی تھیں۔
’’آپ لوگ میری طاقت ہیں نا ۔سنبھل گئی میں،شکریہ لیڈی مجھے سننے کے لیے۔‘‘اس نے مسکرا کر دکھایا۔یہ آنسوؤں سے دھلا چہرہ کتنا شفاف کتنا پیارا تھا۔کوئی اس مقابل کھڑی خاتون سے پوچھتا جو محبت پاش نظروں سے حوریم کو دیکھ رہی تھی۔
’’فریش ہوجاؤ ۔ اور آکر ریان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔اب جھٹک دو سوچوں کو دماغ سے۔‘‘وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئیں ۔ اور کمرے میں ایک گہری دبیز خاموش چھوڑ گئیں۔ اس کی آنکھوں کا کاجل بہہ بہہ کر تاریکی میں اضافہ کررہا تھا۔ دل کی ویرانی جسم سے نکل کر اردگرد کی چیزوں کو دبوچ رہی تھی۔ حوریم نے سر جھٹکا اور خود کو باور کرایا۔
’’میں نے اس کی سوچ کو جھٹک دیا ہے۔‘‘یہ جملہ اس نے خود سے کہا اور دو مرتبہ دہرایا۔
پھر بھی رات بھر وہ اسے جھٹک نہ پائی تھی۔نہ ذہن سے خیال کو…نہ وجود سے احساس کو …نہ آنکھوں سے بے خوابی کو…!
٭…٭
بارش کے شفاف قطرے پھولوں کی پنکھڑیوں سے بہتے ٹپ ٹپ گرے … آسمان نکھرا نکھرا،ہر طرف پانی اور سورج کی تیز چمکیلی کرنوں سے خیرہ کن ہوتا یونیورسٹی کا فرش…اس نے دیکھا کہ ایک سرخ بھیگا پھول ٹوٹ کر اس کے سر پر گرا اور پانی کی دو بوندیں بالوں میں جذب ہوئیں۔اس نے ہاتھ بڑھا کر بالوں سے وہ پھول نکالا اور جھاڑا تو اس میں ابھی بھی پانی کے قطرے تھے۔ تیمور فواد کھل کر مسکرایا تھا۔
’’میں جانتا تھا آپ یہاں ہوں گی۔‘‘اس نے خوشی سے بھرپور آواز میں قریب آکر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ حوریم نے بھی جواباََ دوستانہ مسکراہٹ سے خیر مقدم کیا تھا۔
’’ لگ تو ایسا رہا ہے آپ مجھے پوری یونیورسٹی میں ڈھونڈتے پھررہے ہوں۔‘‘اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ لہجہ بھی شریر تھا۔ مگر تیمور کا دل بری طرح دھڑکا۔ گویا چوری پکڑی گئی۔
’’فورتھ فلور سے آرہا ہوں اور بلڈنگ سی سے۔‘‘اس کی کلاسز تیسری بلڈنگ میں ہوتی تھیں جو بلڈنگ اے سے کچھ دور تھی۔حوریم حیران ہوگئی۔
’’واقعی! لیکن کیوں؟‘‘تیمور کا دل چاہا کہہ دے آپ کے لیے۔مگر اس نے اسی بات کے الفاظ بدل دیے۔
’’آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی کئی دنوں سے…‘‘
’’اور آپ کو کیسے پتہ میں یونیورسٹی آئی ہوں؟‘‘
’’نہیں پتہ! یہ معلوم تھا کہ اگر آپ آئی ہوں گی تو سنبل کے درخت کے نیچے پڑی یہ بینچ خالی نہیں ہوگی۔‘‘وہ بتا نہیں سکا کہ اسے دیکھنے کے لیے وہ ہر روز یہیں سے گزرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ یہ بینچ اسے کبھی خالی نہ ملے۔
’’ذہین آدمی!‘‘حوریم متاثر ہونے والے انداز میں مسکرائی تھی۔
’’میری ڈگری مکمل ہونے والی ہے تھوڑا بہت کام رہتا ہے چند ہفتوں کا اس لیے ہر روز آنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔جب پروفیسرز بلائیں تو آجاتی ہوں۔وہ بھی چند ہفتوں کے بعد ختم۔‘‘
وہ اپنے پراجیکٹ پر کام کررہی تھی۔بولنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ مسلسل چلتے رہتے تھے۔اس کے ”ختم‘‘ کہنے پر تیمور فواد کا دل جیسے قلم کی نوک میں اٹکا۔کچھ دیر اسے سانس چلنے کا احساس نہیں ہوا تھا۔
حوریم کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھی رہی تو وقت تھم تھم کر چلتا تھا۔وہ نظریں نیچی کیے اداس سا نظر آتا۔وہ شاید اس پر غور نہ کرپاتی ہو مگر اس کی نگاہوں کا محور یہی لڑکی بن گئی تھی۔ وہ نظریں جھکا کر بھی رہتا تو اس کی بالوں کی اُڑتی ایک ایک لٹ کی اسے خبر ہوتی۔
’’آپ بتاؤ! کیسا جارہا ہے سمسٹر؟‘‘ حوریم نے سکوت محسوس کیا تو اس نے چپ کو توڑا۔ وہ اتنا خاموش ہوتا تو نہیں تھا۔
’’کہیں جا ہی نہیں جارہا، سب کچھ تھم تھم سا گیا ہے۔ کہیں دل نہیں ٹھہرتا۔‘‘
’’کیا بول رہے ہو؟‘‘ حوریم کے ہاتھوں سے قلم گرتے گرتے بچا۔ وہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہوگئی تھی۔
’’سیریسلی! میں جانتی ہوں تم میرے ہنسنے کا برا مان جاتے ہو، لیکن کہیں دل تو نہیں لگا لیا؟‘‘ اس نے اتنی آسانی سے پوچھ لیا کہ تیمور کے کانوں کی لویں سرخ ہوتی گئیں۔
’’ نن نہیں۔ آپ چلی گئیں تو میرا دل نہیں لگے گا۔‘‘ اداسی سے وہ بات چھپانے پر مجبور ہوگیا تھا۔حوریم نے دھیان سے اس کی بات سنی تو فائل بند کرکے اس کی سمت متوجہ ہوئی۔
’’دیکھیں تیمور! زندگی میں لوگ، دوست اور عارضی سہارے ہر جگہ مل جاتے ہیں۔کسی ایک کے لیے اپنے مقصد کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی میں چاہوں گی کہ آپ اپنا نقصان کریں۔اور ہم تو رہیں گے رابطے میں، ان شاء اللہ آپ کے روشن مستقبل کے لیے میں دعا کرتی رہوں گی ۔‘‘
کچھ دیر اسے سمجھا کر جب اس نے اثبات میں سر ہلادیا اور وہ بھی اٹھ کر چلی گئی گئی تو سنبل کا وہ گیلا پھول جو حوریم نے جھاڑ کر بینچ پر رکھا تھا تیمور نے اٹھا کر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
یہ تھا تیمور فواد کی زندگی کا بھونچال…اسے حوریم اکرم اچانک اچھی لگنے لگی تھی، اب سے یا شاید پہلے دن سے…ممکن تھا کہ یہ احساس اب جاگا ہو۔ ابتدا میں کئی بار آتے جاتے ہیلو ہائے ہوجاتی تو وہ ایک دم باغ باغ ہوتا۔ دل میں سرور سا پیدا ہوتا…وہ اس جادو کو نام نہ دے پاتا جو اس لڑکی کو دیکھ کر اس پر سوار ہوجاتا تھا۔پھر وہ اس کے خیالوں میں آنے لگی ۔ خوابوں میں جھانکنے لگی۔
یہاں تک بھی قابل قبول ہوتا مگر ایک صبح وہ اس کی آنکھوں سے نہ جھانکنے لگتی ۔اس نے پلکیں جھپک جھپک کر دیکھا۔ پانی کے چھینٹے مار مار کر دیکھا۔آنکھیں مسل مسل کر دیکھ لیا ۔ وہ حوریم اکرم تھی ۔بخدا وہ حوریم اکرم ہی تھی۔
وہ رنگوں سے اور زندگی سے بھرپور لڑکی تھی ۔خوش گفتار ، باتوں سے پھولوں سی مہک رکھنے والی، اسے لمحہ بہ لمحہ حیران کرنے والی۔ جو انتہائی ذہین تھی اور اس کا وجود ایک مضبوط اثر رکھتا کہ اس کے جانے کے بعد بھی اس کی موجودگی دیرپا ہوتی۔ تیمور کو آس پاس محسوس ہوتی رہتی۔
تیمور اسے کامن روم میں دیکھتا تو چپکے سے ایک کونے میں جاکر بیٹھ جاتا۔
وہ اسے لائبریری جاتی نظر آتی تو تیمور کو اچانک ہی اخبار پڑھنا یاد آجاتا تھا۔اس نے ان دنوں میں اتنے اخبار چاٹ لیے تھے کہ ایک دن حوریم نے کہا۔
’’آپ کی جتنی دلچسپی ہے حالاتِ حاضرہ پر اور ملکی سیاست میں آپ مستقبل میں سی ایس ایس کیوں نہیں کرتے؟‘‘اس نے حوریم کی بات غور سے سنی تھی۔ پھر وہ ایکدم ہنس پڑا اور ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔
حوریم نے کوئی مذاق نہیں کیا تھا پر وہ اتنا اونچا ہنس رہا تھا کہ سب نے ہی سر موڑ موڑ کر اسے دیکھا ۔ لائبریرین نے بھی موٹے چشمے اتار کر کرسی پیچھے دھکیلی اور لائبریری سے اس کی بے عزتی کرکے نکال دیا گیا۔باہر نکل کر بھی وہ ہنس رہا تھا اور بے عزتی پر خوش تھا۔
’’حالات حاضرہ۔کتنی تیز ہے آپ کی نظر حوریم۔‘‘وہ خیالوں ہی خیالوں میں حوریم سے مخاطب تھا۔اس نے وہ ذومعنی بات اپنے اوپر محسوس کرلی تھی، حوریم کو جس کا دور دور تک شبہ تک نہیں تھا نہ وہ سمجھ سکتی تھی۔
ارے واہ۔۔۔۔ میرا نام تو واقعی ریت پر لکھا ہوا ہے 🤭