مکمل ناول

اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک

’’آپ کی بات سے مجھے انکار نہیں۔‘‘اس نے دوبارہ ہاتھ جیبوں میں اڑس لیے تھے۔حالانکہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ ’’آج‘‘ بھی انکار نہیں۔مگر یہ وقت کی تبدیلی بہت کچھ بہا لے گئی تھی۔وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ اس میں بھی کتنا بدلاؤ آگیا ہے ۔مگر اسے بھی یہ بے تکلفی کے زمرے میں لگا۔
’’آپ یہاں بیٹھ سکتی ہیں کچھ دیر؟‘‘اس نے اچانک اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا تھا۔ وہ جو جانے کے پر تول رہی تھی گڑبڑا گئی۔ اسے اپنی حالت پر حیرت ہورہی تھی۔وہ خود کو اب بہت مضبوط سمجھتی تھی جس پر لہجے اثر نہیں کرتے۔جو اتنی جلدی کسی بات پر پگھل نہیں سکتی۔مگر اس شخص نے سالوں بعد اس کے اندر شدید ہلچل سی مچادی تھی۔
’’تیمور…‘‘ ایک دم سے اس نے ہمت کی۔بہت وقت بعد اس شخص کا نام لیا۔ صرف تیمور کہہ کر، وہ انداز جسے صرف اپنوں کو حق ہوتا ہے۔ گزرے آٹھ سالوں میں کتنا وہ سوچتی رہی تھی کہ اگر ایک بار وہ اسے ملے تو…اور ابھی اسے لگا اسے کوئی صفائی دے دینی چایئیے۔ کوئی وضاحتی جملہ…جس کی ضرورت نہ ہو تب بھی۔ مگر اس نے دیکھا…تیمور فواد کے بھنچے لب۔ یعنی کڑا ضبط، اور کنپٹیوں کی اُبھرتی رگیں۔ وہ پانی کی سطح پر جھاگ کی مانند بجھ گئی۔
’’آپ بیٹھیئے پلیز! میں نے پریزینٹیشن کو فائنل ٹچ دینا ہے۔آپ کے لیے کچھ بھجواؤں میں؟‘‘اس نے بات نظر انداز کرتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا تھا ۔اس سے پہلے کہ اس کے لب انکار میں کھلتے اندر آتے سر معاذ نے مداخلت کی تھی۔
’’تیمور کی فیورٹ کافی … لنچ سے پہلے ہم تینوں ساتھ بیٹھ کر کافی پیتے ہیں۔مس حوریم نے ایک بار اپنے ہاتھوں سے کافی بناکر پلائی تھی۔ یقین کریں مس حوریم! اب تک بھلائی نہیں گئی۔سالوں پہلے میں نے ا س کی فیورٹ کافی اس کی ’’وائف‘‘کے ہاتھوں پی تھی۔‘‘انہوں نے اس کی سمت دیکھتے ہوئے لمحہ بھر کا توقف لیا۔تیمور فواد کی تیزی سے نگاہیں اٹھیں۔ حوریم کی سمت…چہرے پر اضطراب، ماتھے کی اُبھرتی رگیں…حوریم کے اندر جیسے کچھ ٹوٹا۔کچھ بے معنی سا…یہی تو چاہتی تھی وہ پھر بھی ٹوٹا…
’’مجھے یقین ہے یہ، وہ کافی بھول جائے گا۔اگر آپ اپنے دوست کو پلانا چاہیں تو۔‘‘آخر میں انہوں نے اس پر بات چھوڑ دی تھی۔ تیمور نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کر رکھی تھیں۔چہرے پر عجیب سی ناخوشی۔ حوریم کو وہاں کھڑے رہنا بے معنی لگا۔
’’شیور سر!ایکسکیوزمی۔‘‘ دو لفظ کہہ کر وہ فوراََ باہر نکل آئی تھی۔
ہیل کی ٹک ٹک ایک بار پھر باہر ابھرنے لگی اور اندر تک سنائی دینے لگی۔سر معاذ باتوں میں لگ گئے تھے۔ مگر اس پیدا ہوتے شور میں بھی دو نفوس خاموشی میں بری طرح بندھ گئے
تھے۔ ایک وہ عورت ،جس کی ہیل کی ٹک ٹک سارے میں سنائی دے رہی تھی…
ایک وہ مرد، جو اندر بیٹھا اس ٹک ٹک کو پورے شور سے سنتا تھا…
اس وقت سارے میں صرف ہیل کی ٹک ٹک رہ گئی تھی۔ڈیسک ٹاپ کی روشنیاں،کی بورڈز کی کھٹاکھٹ…پرنٹر سے پھسلتے کاغذ…سب معدوم!!
٭…٭
باسی ہوتی صبح کا پہر …دھوپ میں دھیرے دھیرے بڑھتی تمازت اور انسانی وجود میں بیدار ہوتیں پھرتیاں۔ماحول میں گہماگہمی،کھٹاکھٹ کی بورڈ پر چلتے ہاتھ…پرنٹرز سے نکلتے گرم گرم کاغذات…اور ڈسکشن کی آوازیں۔
دروازہ وا ہونے پر ایک منظر کھلتا چلا گیا۔ کمپیوٹر لیب میں اسٹوڈنٹس کی بہتات اے سی کی ٹھنڈک کے باوجود روم میں گھٹن سی پیدا کررہی تھی۔
آمنے سامنے کی پانچ چھ طویل قطاروں میں رکھے کمپیوٹرز پر ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی ۔سٹوڈنٹس عجلت و تیزی میں کام نمٹاتے جارہے تھے۔کسی کی اسائنمنٹ،کسی کے نوٹس ،اور کسی کا پراجیکٹ … وہ مسلسل تین گھنٹوں سے اپنی سیٹ پر بیٹھی سر کھپارہی تھی۔صرف ایک پروفیسر کی وجہ سے ۔ جنہوں نے اس کے کام پر ناک بھوں چڑھا کر نئے سرے سے کرنے کو کہا تھا ۔ کافی محنت کے بعد اس نے کی بورڈ سے سر اٹھا کر سکون بھری سانس خارج کی تو اس کی فائل مکمل تھی اور پہلے سے بڑھ کر بہترین۔
ایک ہی کام دو بار کرنے کی خواری، ان تھک محنت اور بیزاری کا سارا تاثر زائل ہوتا گیا۔ اسے پوری اُمید تھی کہ اس بار اس میں کہیں سے بھی کوئی نقطہ ہٹانے یا لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اپنی فائل سنبھالتے سنبھالتے اس کی توجہ بٹی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھ بیٹھا لڑکا اس سے بڑھ کر جھنجھلایا ہوا تھا۔
دو بار وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر گیا مگر واپس آنے پر اس کا موڈ شدید خراب لگتا تھا۔انداز میں واضح اکتاہٹ…اور بتدریج بڑھتا غصہ۔حوریم نے دلچسپی سے اس کی حرکات و سکنات نوٹ کیں ،جو کرسی پر بیٹھنے کے بعد اب غصہ نکالنے کے لیے کیز کو باقاعدہ پٹخ رہا تھا۔
’’اف۔‘‘بلآخر تھک کر اس نے آنکھیں موندیں۔ سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر پیچھے ہوکے گر گیا۔ حوریم نے ہلکا سا کھنکھار کر اس کی پریشانی دریافت کی۔
’’میں آپ کی کوئی مدد کرسکتی ہوں؟‘‘نسوانی آواز پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ وہ آنکھیں اور ان کا رنگ(وہی رنگ جو آج بھی گہرا تھا)اتنا گہرا کہ دھیان کھینچ لے۔وہ ہی نین نقش اور شکل، رنگت جو اتنے سالوں میں بھی بھلائے جانے کے قابل نہیں تھی۔ اس نے بمشکل بیزاری چہرے سے جھٹکی۔
’’جی نہیں!‘‘اور انکار میں سر ہلایا۔کوفت جیسے ناک پر بسیرا کرکے بیٹھی تھی۔
’’کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتائیے؟ سسٹم کام نہیں کررہا؟‘‘اس نے دوبارہ نرمی سے استفسار کیا۔اپنی اٹھان اور جسامت سے وہ بچہ نہیں لگ رہا تھا۔ پھر بھی حوریم کو اپنا جونیئر محسوس ہوا۔وہ جانتی تھی کہ بہت سارے فریشرز کو یونیورسٹی کا سسٹم سمجھنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ وہ بھی کبھی نئی تھی، اسے بھی بہت کچھ پہلی مرتبہ سیکھنا پڑا تھا۔
’’ ہاں! وہ…‘‘وہ ہار مانتے ہوئے اس نے ایک نظر حوریم پر ڈالی دوبارہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوا۔ جہاں اس کی کوئی فائل کھلی تھی۔وہ اسے بتانے پر آمادہ تھا۔
’’پرنٹر کام نہیں کررہا۔ مجھے یہ نوٹس ہارڈ فارم میں چاہیئے تھے۔‘‘
مختصر سا کہہ کر اس نے ایک بار پھر پرنٹ کی کمانڈ دی تھی۔ مگر ٹاسک بار پر کوئی نشان نہ اُبھرا۔اس کے چہرے پر چھاتی مایوسی حوریم اکرم کو مسکرانے پر مجبور کرگئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے حوریم کا مسکرانا بھانپ لیا تھا۔آنکھوں میں حیرانی در آئی۔وہ اسے لیے اسے نہیں بتا رہا تھا۔ اور اب وہ خود اس پر مسکرا رہی تھی۔ ہونہہ!
’’ فرسٹ سمسٹر کے ہیں؟‘‘اس کے تاثرات ملاحظہ کرنے کے باوجود حوریم نے اپنی مسکراہٹ پر قابو نہیں پایا۔ بلکہ وہ اور محظوظ ہوئی۔
’’ جی! آپ کو کیسے پتہ؟‘‘ حیرانی دوچند۔حوریم نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔اور اس کے سوال کو نظرانداز کیا۔ مگر سامنے والا اس بات سے بھی غیر آرام دہ ہوا تھا۔
’’کیا آپ بھی فرسٹ سمسٹر…؟‘‘
اس کے معصومانہ سوال پر حوریم کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔اس کو یوں ہنستا دیکھ کر اس کا چہرہ پل بھر میں سرخ پڑ گیا۔گوکہ اس کی ہنسی اور کھلکھلاہٹ سُریلی تھی پھر بھی…جبکہ حوریم اس کے تاثرات دیکھ کر بڑی دقت سے ہنسی ضبط کر پائی۔ وہ کیا اس کو اپنی ہم عمر لگ رہی تھی؟ فرسٹ سمسٹر کی بچی…؟
’’لاسٹ سمسٹر…‘‘حوریم نے اس کی غلط فہمی دور کی ۔اس کے لب’’اوہ‘‘کے انداز میں سکڑے۔
’’اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی؟‘‘ اس سے رہا نہیں گیا۔
’’آپ کا یہ اندازہ۔‘‘ وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ وہ سن کر خوش ہوئی ہے یا محض اس کا مذاق اُڑایا۔
’’خیر!غلطی سسٹم کی نہیں آپ کی ہے۔ہاتھ پیچھے کیجیئے۔‘‘ اس نے ایک نظر میں پہچان لیا تھا۔اس نے تیزی سے کی بورڈ سے ہاتھ ہٹائے تو حوریم نے چند کیز دبائیں۔پھر وہ پیچھے ہوئی تو کچھ فاصلے پر رکھی پرنٹر مشین کے ایکٹیو ہونے کی آواز آنے لگی تھی۔ یعنی پرنٹس آرہے تھے۔
’’جاکر وہاں سے پرنٹس آؤٹ لے لیں۔ آپ نے کمپیوٹر سے پرنٹر اٹیچ ہی نہیں کیا ہوا تھا۔یہ دیکھیں اس طرح کمانڈ دے کر…‘‘حوریم نے غلطی کی نشاندہی کے ساتھ طریقہ بھی کرکے سیکھا دیا تو وہ خجل سا ہوگیا۔بھول اس سے ہورہی تھی اور وہ جھنجھلاہٹ کمپیوٹر پر اتار رہا تھا۔
نوٹس لے کر وہ واپس آیا تو حوریم اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ اس نے بھی بیگ اٹھاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔
’’تھینک یو سو مچ! مجھے دھیان ہی نہیں رہا، اتنا ٹائم ویسٹ ہوگیا…شاید عادت نہیں مجھے ذیادہ استعمال کرنے کی۔‘‘ وہ جانے کیوں جلدی جلدی وضاحت دینے لگا۔ حوریم نے یوں متفق ہوکر سر ہلایا جیسے واقعی سمجھتی ہو۔
’’کوئی بات نہیں۔ ایسا ہوجاتا ہے۔‘‘ تسلی دی۔
’’آپ کا کون سا ڈیپارٹمنٹ ہے؟‘‘ دونوں ایک ساتھ اٹھے تو اس نے بات بڑھانے کو سوال کیا۔کمپیوٹر لیب سے باہر نکلتے ہوئے دونوں ہمقدم تھے۔
’’وہی جو آپ کا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ سی ایس۔‘‘ حوریم نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس کے خوبصورت بال بل کھا کر کندھوں سے نیچے جھول گئے تھے۔
’’اب آپ کو کیسے پتہ میرا ڈیپارٹمنٹ؟‘‘وہ وہیں ٹھہر گیا۔حیرت… نجانے وہ بات بات پر حیران کیوں ہوجاتا تھا۔یا شاید پہلی بار کوئی لڑکی ایسی ملی تھی جو اسے سوچنے نہیں دے رہی تھی اور بار بار حیران کررہی تھی۔حوریم کو ہنسی دبانی پڑی۔اپنی عمر اور قد سے ذیادہ وہ معصوم نظر آتا تھا۔اس نے سوچا کہ یونیورسٹی میں آئے فریشرز اکثر ایسا ہی ردعمل دیتے ہیں۔
’’کیا آپ ہر جواب پر ایسی طرح سوال کرتے ہیں مسٹر…؟‘‘روانی میں بولتی حوریم کی زبان کو بریک لگی تو اس کا اشارہ سمجھ کر وہ ترنت بولا۔
’’تیمور فواد‘‘
’’گڈ نیم! مسٹر تیمور آپ کے نوٹس دیکھ کر کوئی بھی بتاسکتا ہے کہ یہ پروگرامنگ اور کوڈنگ کے ہیں ۔جوکہ ایک سی۔ایس کا سٹوڈنٹ ہی پڑھتا ہوگا۔‘‘حوریم کی مسکراہٹ میں اس کے لیے تمسخر نہیں تھا۔ وہ بہت نرم ہوکر بول رہی تھی۔تیمور کو اس سے بات کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
’’اوہ یس! ایم سوری۔‘‘وہ خودبخود اپنے ہونق پن پر شرمندہ ہوگیا۔ پھر بلاوجہ ہنس دیا۔اتنا نروس ہونے کی ضرورت بھی کیا تھی۔
’’پھر یونیورسٹی کیسی لگی؟‘‘وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ تیمور جانتا تھا کہ وہ باہر کی طرف جارہی ہے۔اور یہ بھی کہ اس کی کلاس ہے اور اسے لینی ہے مگر وہ یہ بھول کر اس کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں اترتا جارہا تھا ۔ یہ بھی کہ ابھی وہ اتنا ٹائم ویسٹ ہونے پر خائف ہورہا تھا۔
’’حیرت انگیز …تمام اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں۔جیسے ابھی ابھی آپ مجھے اپنی ایج فیلو لگیں۔ فرسٹ سمسٹر کی…‘‘
’’ہاہا یہ تو خیر بہت ذیادہ ہوگیا۔‘‘حوریم دوبارہ سے مخظوظ ہوئی تھی۔
’’چار سال بڑی ہوں گی آپ سے۔‘‘
’’اوکے آپ پہلی لڑکی ہیں شاید جو اپنے منہ سے اعتراف کررہی ہیں ایک لڑکے سے بڑی ہونے کا۔‘‘اب کے بار دونوں ایک ساتھ ہنس پڑے تھے۔
’’اس معاملے میں ، میں بہت صاف گو ہوں۔ پتہ نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جنہیں عمر چھپانے کا اشتیاق ہوتا ہے۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے بول رہی تھی۔ اور تیمور فواد کو اس کی صاف گوئی پر یقین آنے لگا۔
’’آپ نے تو بہت وقت گزارہ ہے اس یونیورسٹی میں ، آپ کو کیا پسند ہے اس جگہ میں؟‘‘
’’مجھے اس یونیورسٹی میں کچھ پسند ہے تو وہ ہے یہ۔‘‘دونوں لان میں پہنچ چکے تھے۔جب حوریم کو تیمور نے کہتے سنا۔
’’سنبل کا یہ درخت…جو ان چار سالوں میں میرے گہرے دوست کی طرح ہے۔اور جسے میں سب سے ذیادہ یاد کروں گی۔‘‘تیمور فواد نے اس کی انگلی کے تعاقب میں اس ننگی ٹہنیوں والے پیڑ کو دیکھا تھا جو خاموش کھڑا تھا۔جس کے جسم پر کوئی سبز پتہ نہیں تھا پھر بھی اس کی لڑیاں سرخ پھولوں سے بوجھل تھیں۔ اس وقت حوریم کی بات سن کر سنبل کی عریاں ٹہنیوں کی خاموشی جیسے تیمور فواد کے دل پر یک بیک واد ہوئی۔
’’ایک محبت ہوتی ہے نا ،مجھے اس سے وہ ہے۔میرے بھائی آگئے ہیں لینے ورنہ تمہیں اس کی کہانی بتاتی۔تم اس کو غور سے دیکھنا۔شاید تمہیں بھی اس میں دوست نظر آئے۔‘‘
وہ ہاتھ ہلا کر بائے کہتی قدم قدم دور ہوتی چلی گئی تھی۔مگرتیمور فواد اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹا پایا تھا۔نجانے کوئی سحر سا تھا یا عجیب سی طاقت، وہ اپنا اثر اس پر پہلی ہی ملاقات میں چھوڑ گئی تھی۔اس کی شخصیت شروع سے ہی ایسی تھی…یا پھر تیمور فواد پر شروع سے ہی اسی طرح اثر انداز ہوتی تھی۔
جاتے جاتے اس کے قدموں سے پیدا ہوتی آواز، اور ہوا سے نیچے جھولتا دوپٹہ…وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی مگر ساکت کھڑے تیمور کو لگا اس کی موجودگی اب بھی یہیں کہیں ہے…وہ اپنا جیتا جاگتا احساس اور خوشبو اس بار صرف سنبل کے درخت سے ہی نہیں تیمور فواد سے بھی باندھ گئی ہے۔
٭…٭
کافی اچھی نہیں بن سکی تھی۔تیمور فواد چپکے سے گھونٹ گھونٹ پی گیا۔ اس سے اپنا مگ پیا نہ گیا تھا۔پریزینٹیشن اچھی گئی تھی۔تیمور کو اس کا آئیڈیا پسند آیا تھا ۔وہ اس سے قبل ہی جانتی تھی کہ اسے وہ پسند ہی آئے گا۔ آخری سلائیڈ کھلی تو اختتام پر ایک چھوٹا سا نشان بنا تھا۔غور سے دیکھو تو وہ اک پھول تھا۔
سنبل کا چھوٹا سا پھول ۔ جو وہ ہر دفعہ اختتام پر فل اسٹاپ کی جگہ یہ لگادیتی تھی کہ پریزینٹیشن مکمل ہوئی۔وہ ٹکٹکی باندھے اس ننھے پھول کو دیکھے گیا تھا۔انسان کے اندر کی کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔وقت پر ہر چیز کا اختیار نہیں ہوتا۔ ایک انسان کا اصل کہیں کہیں بے ضرر سی جگہوں پر جھلملاتا رہتا ہے۔
کوئی سوال ذہن میں نہ ہونے کے باوجود وہ کافی دیر میٹنگ روم میں بیٹھے ٹیبل ڈسکشن کرتے رہے۔حوریم کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اٹھ کر کیبن میں آگئی تھی۔کوئی چیز اسے بار بار ڈسٹرب کررہی تھی۔
شاید ان نظروں کا سامنا…شاید وہ ان دیکھا سا سوال کہ کیوں…؟ اس کے سر میں ہلکا ہلکا سر درد ہونا شروع ہوگیا تھا۔اس نے تھک کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی تھی۔
’’مجھے سکون ملا تیمور! کہ تم اپنی زندگی میں سیٹ ہو۔تمہاری ایک فیملی ہے…ایک اچھا لائف پارٹنر ہے اور شاید خوشی بھی…‘‘وہ دل ہی دل میں اپنے مقصد سے مخاطب تھی جو کامیاب ہوگیا تھا۔ اسے خوش ہونا چاہیئے تھا۔
’’مگر دل میں پھیلی یہ بے سکونی کیسی ہے؟‘‘اس کے دل نے سرگوشی کی تھی۔ دماغ تائید کرنے سے باز نہ آیا۔اس نے مضطربانہ انداز میں آنکھیں کھولی تھیں۔شاید اسے چھٹی کرکے گھر چلے جانا چاہیئے تھا۔
آفس بوائے اسے بلانے آیا کہ باس اسے لنچ کے لیے بلارہے ہیں۔وہ یقیناََ تیمور اور حوریم کی پرانی دوستی کے خیال سے یہ کررہے تھے کہ اس پر باس اور ورک پلیس کا رعب نہ رہے اور تیمور کو بھی ایک دوست کی کمپنی ملے۔ مگر اس نے بھوک نہ ہونے کا کہہ کر انکار کردیا تھا۔
تھوڑا سا کام باقی تھا۔تیمور نے فائل کی ایک کاپی اسٹڈی کرنے کے لیے اس سے مانگی تھی۔وہ نکالنے لگی تھی کہ تیمور قدم قدم چلتا اسے اپنی طرف آتا نظر آیا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے