اُس نے پھول بھیجے ہیں : منعم ملک
بند کمرے سے ساری روشنیاں بے دخل تھیں۔
ایک ملگجا سا اندھیرا…ایک سلوٹ زدہ خاموشی، اور ذات کے گرد لپٹی دیواروں کی سرگوشیاں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ان دیواروں کے کان ہوں نہ ہوں مگر ان میں پڑے سوراخوں میں ماضی و حال کی ڈھیر ساری باتیں پھنس جاتی ہیں۔جو بعد میں سرگوشی بن کر ہلچل پیدا کرتی رہتی ہیں۔
وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔پہلے پھولوں کی بیقراری سی خوشبو اس کی سانسوں کی سمت لپکی ۔پھر ایک مدھم سی سرگوشیانہ آواز نے اسے چونکایا ۔اس نے کسل مندی سے آنکھیں کھول کر بھابھی کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں کھلتے گلابوں کا ایک پیارا سا بکے تھاجو انہوں نے اس کی جانب بڑھا دیا۔
’’کس نے؟‘‘ ہاتھ بڑھا کر اس نے پھول لیے اور کارڈ پر لکھا اس کا نام دیکھا ۔بھابھی نے خاموشی سے یہ عمل دیکھا تھا۔
’’ تیمور فواد۔‘‘زیر لب دہراتے ہوئے ایک خوبصورت سا سراپا ذہن میں آیا، اور اس کے اندر سناٹے سے اُتر آئے تھے۔سونگھے بغیر بھی وہ سرکش سی خوشبو اسے اپنے اندر اُترتی، کودتی محسوس ہوئی۔تازہ پھول اور ان کی تازگی اب تک برقرار تھی۔
’’تیمور فواد؟‘‘منتظر کھڑی بھابھی نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا تھا ۔ پھر حوریم نے ایک نظر ان پر ڈال کر جس طرح نظریں چرائیں، اور نقاہت بھرے انداز میں پلکیں موندیں … بھابھی کچھ سمجھ کر ہکا بکا رہ گئی تھیں۔
’’ تمہارا مطلب ہے حوریم…؟‘‘بے یقینی سے ان کے لب کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے اس کے قریب بستر پر بیٹھی تھیں۔حوریم کو ان کی اس بیقراری نے تکلیف دی۔
’’آپ ہمیشہ یہ نام بھول جاتی ہیں۔‘‘
’’پر تم نے تو کہا تھا کہ…‘‘
’’مجھے نہیں پتہ بھابھی…اور ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’تم کیوں اتنے یقین سے کہہ رہی ہو؟‘‘ وہ پل بھر میں خفا ہوئیں۔ پھر ایک نظر اس مہکتے ہوئے بکے پر ڈالی۔ حوریم کی نمی نمی سی مسکراہٹ میں وہ چیز شامل ہوئی جو اس وقت بھابھی کے چہرے پر اُمڈ رہی تھی۔ بے طرح معصومیت…اور خوش گمانی کی لہریں۔
’’آپ کو کیا لگتا ہے ابھی بھی کسی گمان کی گنجائش ہے میری زندگی میں؟‘‘اس کا لہجہ معمولی سا تھا۔ کسی قسم کے شکوے یا بے چینی سے مبرا۔ اس نے اپنی زندگی فقط ایک نقطے کے گرد روک لی تھی، اور اسے اسی کے گرد گھومتے رہنا تھا۔ وہ کسی خیال تک کو اس دائرے میں جگہ نہیں دینا چاہتی تھی۔
’’کیوں ایسا کیا ہوگیا ہے، وہ تمہاری اپنی چوائس تھی …ابھی تمہاری پوری زندگی پڑی ہے حوریم۔‘‘
’’ہوسکتا ہے اب میں کسی کی چوائس نہ ہوں؟ تب میں اور اب میں بڑا فرق آگیا ہے بھابھی۔‘‘اس نے پھولوں کا بکے نامحسوس انداز میں سہلایا۔ تازہ پھولوں کی مخملی پتیاں کومل جذبوں میں ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ مگر وہ حوریم تھی، اسے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔
’’تم ابھی بھی وہی حوریم ہو۔ وقت کچھ نہیں بگاڑ سکتا میری جان، تم چاہو تو اب بھی سب کچھ تمہاری خواہش کے مطابق ہوسکتا ہے۔ جو قربانی تم نے ہمارے لیے دی وہ…‘‘
’’بھابھی پلیز!‘‘ اس نے ایکدم سنجیدگی سے ٹوک دیا تھا۔ وہ خاموش ہوکر اسے دیکھنے لگیں۔
’’مجھے آپ کی محبت پر کوئی شک نہیں ہے پر آپ بھی میرے خلوص پر شک مت کریں۔میں بچی نہیں ہوں، بتیس سال کی ہوچکی ہوں خوابوں میں نہیں رہنا چاہتی۔ میرا وہ وقت گزر گیا ہے، اور میں نے کوئی قربانی نہیں دی ۔میں بہت خوش ہوں آپ یقین کریں۔‘‘
’’لیکن وہ تیمور فواد…‘‘ بے ساختہ کچھ بولتے بولتے وہ چپ ہوگئیں تو حوریم کو ہنسی آگئی تھی۔ اس نے منہ جھکا لیا کہ ظاہر نہ ہونے دے۔
’’میری ہی غلطی ہے، بھابھیوں کو اتنا بھی سر پر نہیں چڑھانا چاہیئے کہ نند ساری عمر گھر بیٹھی رہ جائے۔تمہیں تو مجھے سب سے پہلے رخصت کرنا چاہیئے تھا۔‘‘ ان کا انداز ایسا تھا گویا ’’ٹھکانے‘‘ لگانا چاہیئے تھا۔ حوریم نے اب مزید ابلتی ہنسی پر قابو پانے کے لیے پھولوں کا بکے پورا کا پورا منہ کے آگے کرلیا تھا۔
’’تم جو بھی سمجھو، پر اب میں تمہیں اپنے گھر کا کروا کے رہوں گی۔‘‘ انہوں نے حتمی فیصلہ کیا پھر حوریم کو دیکھا۔
’’ کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
اس نے پھول بھیجے ہیں
پھر میری عیادت کو
خوشبو سونگھتے ہوئے اسے پروین شاکر کی نظم یاد آئی تو وہ ہلکا سا مسکرا دی تھی۔ بھابھی نے یہ سارا عمل کھڑے کھڑے دیکھا اور تیکھے چتونوں سے گویا ہوئی۔
’’وہ خود بھی تو آسکتا تھا؟‘‘
’’ اُس سب کے بعد بھی … ؟ ‘‘ناچاہتے ہوئے بھی بالکل غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے پھسل گیا۔اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر لاجواب سی ہوکر رہ گئی تھیں۔حوریم کے دل و ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی تھی، پھر نجانے اچانک زبان نے کیسے خودبخود تراش دی۔
’’اُس سب کے بعد بھی، یہ بھی تو بھیجا ہے۔‘‘ بھابھی نے مدھم آواز میں اس کی توجہ دلائی اور بغیر کچھ کہے کھٹ کھٹ کی آواز پیدا کرتیں کمرے سے باہر چلی گئیں۔ ان کی معنی خیز سی بات اس کے ذہن میں کئی سوچوں کو جگہ دیتی چلی گئیں تھیں…ذہن کے خانوں سے، وقت کا کیمرہ، کھٹاکھٹ ماضی کی تمام تصویریں ایک یک کرکے کھولتا گیا تھا…!!
٭…٭
آفس کے ٹاپ فلور پہ جگمگاتی روشنیاں ،کھلے ڈیسک ٹاپ، اور کھٹاکھٹ کی بورڈ پر چلتی انگلیوں کی آواز … اس آواز میںاس کی ہیل کی ٹک ٹک ماحول پر اپنا اثر چھوڑتی گزرتے لمحے کے ساتھ مدھم ہوتی جاتی تھی۔وہ کہ جس کی ایک ایک چیز ماحول پر اثر انداز ہوتی تھی اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھی ۔ پھر چاہے ہیل کی ٹک ٹک، نفاست سے باندھے بال، ترتیب سے سیٹ کیا دوپٹہ، اور کان کے قریب بالوں میں اڑسی کچی پنسل…جسے وہ اپنی عادت کے مطابق وقعتاََ فوقعتاََ نکال کر اے فور سائز پیپر پہ لکیریں کھینچتے کھینچتے اپنی بات سمجھاتی رہتی ۔ اور بعد میں وہ لائنز ایسے ریز ہوجاتیں جیسے کبھی سفید پیپر پر پڑی ہی نہیں۔
اس کی شخصیت کا گریس،بول چال کا طریقہ، پلانز کی ایگزیکیوشن،اور اپنی فیلڈ کا ایکسپیرینس، ایک ایک چیز remarkable تھی۔ سادہ لفظوں میں اپنی جگہ پر فٹ…
اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں آج کی پریزینٹیشن کے پرنٹس آؤٹ تھے ۔جو وہ فائنل کرنے سے پہلے ایک بار باس کو ریویو کرانے آئی تھی۔پرنٹ آؤٹ اس وقت بلیک اینڈ وائٹ تھے مگر پوچھے بغیر بھی اس کے باس کو معلوم تھا کہ وہ ملٹی میڈیا پر کس طرح نظر آنے والے ہیں۔
’’پرفیکٹ! آپ جانتی ہیں مجھے آپ کے کام پر کبھی ڈاؤٹ نہیں رہا آپ پھر بھی غیر مطمئن رہتی ہیں۔‘‘باس کے لبوں پر ٹھہری اطمینان بھری مسکراہٹ دیکھ کر اس کے چہرے پہ سکون نظر آیاتھا۔
’’آئی نو سر! پھر بھی جب دو دماغ ایک چیز پر نظر ثانی کرتے ہیں تو کوئی کمی یا غلطی رہ گئی ہو تو دور کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔آفٹر آل ہر انسان کے دیکھنے کا زاویہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔‘‘
’’آپ کی اپنے کام کے ساتھ ایمانداری مجھے پسند ہے۔‘‘۔انہوں نے تعریفی کلمات کہے۔
’’تھینک یو !سر ایک نظر اس ہسٹوگرام پر ڈالیے گا۔‘‘اس نے سنجیدگی سے سر ہلا کر تعریف قبول کرتے ہوئے ایک کاغذ پلٹ کر گراف کے مڈ پوائنٹ پہ پنسل سے لکیر کھینچی ۔ اور انہیں دھیرے دھیرے کچھ سمجھانے لگی ۔اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اسے اپنے عقب سے قدموں کی چاپ اُبھرتی سنائی دی۔
وقت نہیں رکا تھا۔ اس کے ہاتھ نہیں تھمے تھے۔زبان رواں رہی…ورکرز آفس میں آتے جاتے رہتے تھے۔ دوسیکنڈ میں دو چلتے قدم اسے بہت پاس رکتے محسوس ہوئے۔روم میں موجود ہونے کا احساس اور پھر اس نے اپنی پشت پر آواز سنی۔آواز غیر مانوس تھی،مگر آنے والی شخصیت یقیناََ اہم تھی کہ باس اپنی جگہ سے استقبال کیلیے فوراََ کھڑے ہوگئے تھے۔
’’آئیے آئیے جناب آپ کا ہی انتظار کررہے تھے۔اپنی اہمیت خوب کیش کرانا جانتے ہیں۔‘‘ان کا لہجہ بیک وقت خوشگوار اور شرارتی ہوگیا تھا۔ اس نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
’’نہیں معاذ صاحب! ہم تو ٹھہرے فارغ آدمی آپ مصروف انسان ہوتے ہیں۔آپ کا ٹائم کھانے سے ڈر لگتا ہے۔‘‘آنے والے نے بھی بھرپور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا تھا۔اب کہ آواز اسے تھوڑی کم غیر مانوس لگی۔ دونوں گرم جوشی سے بغل گیرہوئے تو اس نے فی الحال وہاں سے اٹھ جانا مناسب سمجھا۔
’’اوکے سر میں چلتی ہوں۔ تھوڑا سا کام ادھورا…‘‘
کرسی پیچھے کرتے ہوئے وہ مڑی اور…الفاظ منہ میں رہ گئے۔ قدم اسی مقام پر ،جہاں اس نے رکھے تھے کہ نہ وہ ہل سکے نہ انچ بھر سرکے۔نہ یہ آواز غیر مانوس تھی…نہ یہ چہرہ اجنبی۔ مگر ماضی کا وقت اور حال کی جگہ…سامنے موجود ایک حوالہ…اسے لگا یہ اس انسان کی شکل کا کوئی ہیولا ہے جو سامنے حقیقت بن کر کھڑا ہے۔
’’حوریم آپ…؟‘‘سامنے کھڑے شخص کی بھی اٹھتی سرسری نگاہیں اس پر جم کر رہ گئی تھیں۔الفاظ میں حیرت، بے یقینی اور شاک جیسی کیفیات یکجا ہوئیں۔
اور حوریم…ہیل کی ٹک ٹک،کی بورڈز کی کھٹ کھٹ ،ہاتھوں میں پکڑی فائل ،سب کچھ فراموش ہوتا گیا۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔ یاد نہ رہا کہ وہ کس جگہ کھڑی ہے۔ بھول گئی کہ وہ کس طرح کھڑی ہے؟
’’تم جانتے ہو مس حوریم کو؟‘‘معاذ صاحب نے خوشگوار حیرت سے دریافت کیا تھا۔ حوریم کا سکتہ سا ٹوٹا،پلکیں جھپکیں،گہری سانس کھینچ کر خود کو ماحول کا حصہ بنایا۔
’’ہاں! اتفاق سے …دوست ہوا کرتے تھے۔‘‘اس شخص کے الفاظ منہ ہی منہ میں ادا ہوئے تھے۔ وہ الفاظ جو اجنبی سے تھے۔وہ اسے دیکھ کر مسکرایا تک نہیں تھا۔پھر بھی اپنا ارتکاز اس پر سے ہٹایا تک نہیں تھا۔
’’السلام علیکم تیمور !‘‘حوریم نے سنبھل کر سلام کیا۔فائل پر گرفت مضبوط ہوگئی۔ چہرے پر رسمی سی شناسائی بلآخر نمودار ہوئی۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ پھر تو میٹنگ خوب رہے گی۔مس حوریم آج آپ کی پریزینٹیشن یہ سنیں گے۔بہت عرصے سے ہم بزنس ٹرمز ڈیویلپ کرنے کا سوچ رہے تھے ۔اب بادل نخواستہ موصوف مانے ہیں۔تیمور! آرام سے بیٹھو میں ایک منٹ میں آیا۔‘‘
وہ مسکرا کر حوریم کو آگاہ کرتے اس کا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد فضا میں معنی خیز سا سکوت چھاگیا تھا۔چند لمحے یونہی بیتنے دیے گئے۔ پھر تیمور فواد نے جیب سے ہاتھ نکال کر کرسی گھمائی۔
’’لانگ ٹائم مس حوریم۔‘‘اس نے پہلی بات کی تھی۔ حوریم نے لب کاٹے۔کمپوزڈ ہوکر سر ہلایا۔اسے زندگی میں کبھی اتنے مشکل وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ خود کو مضبوط تصور کرتی تھی۔اسے لوگوں کا سامنا کرنا آتا تھا۔ حالات کا مقابلہ کرنا آتا تھا۔ پر اس وقت وہ وقت کی اس نا انصافی کو شدت سے محسوس کررہی تھی کہ جسے نہ وہ چلتی گھڑیوں کو روک سکتی تھی۔ نہ پلک جھپکتے وقت میں سفر کرسکتی تھی۔ اس شخص کے سامنے سے وہ غائب نہیں ہوسکتی تھی۔
جس کے چہرے پر اگر مسکراہٹ آتی تو وہ مروتاََ نہیں، جبراََ آتی۔جو رخ پھیر لیتا تو بے رخی سے نہیں اذیتاََ۔
’’تقریباََ آٹھ سال۔‘‘اس نے نارمل ہوکر مسکرانے کی کوشش کی۔ کوشش کامیاب تھی یا نہیں مگر اس کا اعتماد ذرا سا بحال ہوا۔گلا خشک اپنی آواز سے بھید دے رہا تھا۔
’’یاد رہا آپ کو؟‘‘وہ بے ساختہ کہہ گیا۔ حوریم نے فوراََ اسے دیکھا۔اس نے نظر بچا لی۔ کچھ کہنے سے پہلے اس نے فی الفور بات بدلی تھی۔
’’حیران ہیں دیکھ کر؟‘‘
’’حیران؟‘‘ اسے خود اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچانک اسے اپنے سامنے پاکر وہ کیسا محسوس کررہی تھی۔اسے تو کوئی ردعمل دینا نہیں سوجھ رہا تھا۔نارمل نظر آنے کی کوشش میں اور کنفیوزڈ ہورہی تھی۔
’’ہاں! کہ دنیا کتنی چھوٹی ہے، سالوں بعد سہی گھما پھرا کر واپس سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔‘‘
’’چاہے آپ اس کی طلب رکھتے ہوں یا نہیں۔حیران ہوجائیں یا پریشان۔‘‘ وہ کبھی اتنی سنجیدہ باتیں نہیں کرتا تھا۔ حوریم نے اس کی بات کے ساتھ کچھ اور بھی نگلا۔
’’نہیں ایکچوئلی! ہاں شاید خوشگوار حیرت ہورہی ہے۔سوچا نہیں تھا کہ اتنے سالوں بعد دوبارہ کہیں ملاقات ہوجائے گی۔‘‘پہلی بار اس نے کھل کر جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیوں ہچکچارہی تھی؟ اس نے ایسا بھی کچھ نہیں کیا تھا کہ وہ اس کے سامنے چور بن جائے۔اور آٹھ سال بیت گئے۔ اسے تو جانے یاد بھی ہوگا کہ …
اس سے آگے دل نے اسے ’’نہیں‘‘ کہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔یہ ادھوری سی رہ جانے والی بات مکمل سا اشارہ دے رہی تھی کہ اس کی یہ تسلی کار آمد نہیں ہے۔
’’اچھا لگا آپ سے مل کر۔‘‘ ایک اور رسمی بات۔
’’مجھے بہت اچھا لگا آپ کو یہاں دیکھ کر۔ ایک اچھی اور کامیاب پوزیشن پر ہیں۔کچھ تبدیلیاں بھی نوٹ کررہا ہوں مگر تبدیلی ہمیشہ اچھے کے لیے ہی ہوتی ہے نا؟‘‘
اس کا لہجہ پہلے کی طرح نرم تھا۔وہ ہمیشہ سے خوبصورت بولتا تھا۔وہ اس کی شخصیت کی بات کررہا تھا۔ حالانکہ تبدیلی تو اس میں بھی واضح نظر آرہی تھی۔پہلے جیسی بے فکری اور شوخی آنکھوں سے غائب تھی۔
چہرے پر بلا کی سنجیدگی اور نپے تلے تاثرات…
بالوں کا رنگ اور سٹائل تبدیل ہوکر اب ایسی لُک میں ڈھل گیا تھا …
جو اسے رعب دار اور پروفیشنل دکھاتا۔آواز میں بھاری پن سا آگیا تھا۔یوں گویا لفظ بنا بنا کر بولتا ہو۔
ہاں شاید نہیں بدلی تھیں تو اس کی آنکھیں…
آج بھی آٹھ سال پہلے والے تیمور فواد جیسی…
جب وہ محض اکیس سال کا ہوا کرتا تھا۔تب بھی اپنی عمر سے کچھ بڑا ہی دکھتا تھا۔اور اب بھی اس سے بڑا ہی لگ رہا تھا۔ حوریم نے سر جھٹکا اور اسی اطمینان سے جواب دیا۔
’’تبدیلی کا اچھا یا برا ہونا معنی نہیں رکھتا۔ہاں یہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔چاہتے نا چاہتے اس سے ہم قدم ہونا پڑتا ہے۔‘‘
ارے واہ۔۔۔۔ میرا نام تو واقعی ریت پر لکھا ہوا ہے 🤭