تم عید جیسی ہو ؛ خنساء قمر
تم عید ہو
یا عید کا چاند؟
کوئی رو شنی ہو
یا کوئی نوید ؟
امید ہو
یا میرا خیال؟
خواب ہو
یا سنہری حقیقت؟
تم وعدہ و عید جیسی ہو
ملن کی چاہ ہے مگر
فاصلہ طویل تبھی
عید کے عید ملتی ہو
ز یان نے آ ج کی تار یخ کے نیچے اپنے جذبات کو ان چند مصرعوں میں بند کیا اور خود نرم کرسی سے ٹیک لگا کر آ نکھیں موندلیں ۔ ذہن کے اس پار نمبروں کا ایک حساب کتاب چل نکلا تھا۔
’’ا کیس اپریل…‘‘
دونوں ہاتھو ں کی انگلیوں کو اک دو جے میں پیوست کئے وہ سر کرسی کی پشت سے ٹکا ئے آ نکھیں موندیں زیرلب بڑبڑایا تھا ۔
’’ ہاں آ خری بار وہ ا کیس اپریل کو آئی تھی ۔ ‘‘ہونٹو ں نے بڑی نرمی و سرگوشی میں ایک اور جملہ دہرایا۔
’’اس نے ہلکے سبز ر نگ کا لباس ز یب تن کر رکھ تھا ۔‘‘ اسے ہنوز یاد تھا ۔ چہر ے پہ مد ھم مسکان سجا ئے وہ جیسے اس کی خو شبو محسوس کر ر ہا تھا ۔
’’ اس کے گھنگر یالے بال اف کیا غضب ڈھا ر ہے تھے ۔ ‘‘ یک دم اسے یاد آ یا وہ تو اس کی ز لفو ں کا اسیر ہے ۔
’’اس کا دو دھیار ر نگ ہر ر نگ اپنے اندر یو ں سماں لیتا ہے گو بنا ہی فقط اس کے لئے ہو ۔ ‘‘اس کے ہونٹو ں پر ابھرنے والی مسکان یک دم گہری ہو ئی تھی ۔
چند سکینڈ وہ یو ں ہی اپنے خیالات کی دنیا میں بیٹھا ما ضی سے اس کردار کو کھو جتا ر ہا پھر یک دم اس نے آنکھیں کھو ل کر سامنے میز پہ رکھی ٹیبل کلاک کو دیکھا شا م کے پانچ بج چکے تھے ۔ ٹن…ٹن …دل میں یک دم ا یک گھنٹی سی بجی۔
’’ آ ہ …اس کی دید کو ا یک سال ہونے کو ہے ۔ ‘‘ دل اس کی دید کے لئے بر ی طر ح مچلا تھا۔
’’ ز یا ن بھا ئی ۔‘‘ تبھی گھر کے نچلے حصے سے ایک زور دار آ واز گونجی جو بڑی عجلت میں اسے پکار ر ہی تھی۔
’’ا ف سارا مز ہ کرکر ا کر دیا ۔‘‘ وہ منہ بنا کر چڑا اور بڑبڑاتے ہو ئے اس نے پین ڈائر ی میں ر کھتے اسے یو ں بند کیا جیسے یہ خیالات اس کی کل حیات ہوں ۔ وہ سیڑھیاں اتر تا نیچے آیا تو سیڑھی کے آخری دہانے پر اس کی چھو ٹی بہن فر ح اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔
’’ کتنی بار کہا ہے فر ح مجھے ایسے نیچے سے آ واز مت لگا یا کرو۔‘‘ وہ نیچے اتر کر خفگی سے بو لا ۔
’’تو پھر کیسے آ واز لگا یا کرو ں؟‘‘ وہ اسے چھیڑ تے ہو ئے پوچھنے لگی۔
’’یہ چند قدم کی سیڑھیاں ہیں ز حمت کرکے او پر آ جا یا کرو و ہاں تمہار ا دا خلہ ممنو ع نہیں ہے ۔‘‘ اس نے سیڑھیو ں کی جانب اشارہ کر تے ہو ئے کہا تھا۔
’’ او کے ز یان بھا ئی آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی اب آپ جلدی سے جا کر افطار ی کے لئے سمو سے اور دہی بھلے لے آ ئیں و ر نہ امی آپ کا داخلہ اس گھر میں ممنو ع کر دیں گی ۔ ‘‘فر ح نے ہنوز اسی شر یر انداز میں اپنا مد عا بیان کیا تو ز یان ا ثبات میں سر ہلاتا و ہاں سے باہر نکل گیا ۔
٭…..٭…..٭
وہ گھر و اپس لو ٹا تو وہ سامنے لاؤنج پہ بیٹھی تھی۔وہ آ ئے گی وہ جانتا تھا مگر یو ں عید سے پہلے ہی آ جا ئے گی یہ اس کے و ہم و گمان میں نہیں تھا۔
’’آؤ آؤ ز یان بیٹا باہر کیو ں کھڑے ہو ؟‘‘ جیسے ہی چچی کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ بڑے پیار سے کہنے لگیں۔
فر ح نے آ گے بڑھ کر شا پر اس کے ہا تھ سے لے لیا ۔ وہ سلا م کرتا ان کے سامنے و الے صو فے پر بر ا جمان ہو گیا ۔ روزہ کھلنے میں چند منٹ ہی رہ گئے تھے ۔ امی اور فر ح نے جلدی جلدی افطاری میز پر لگا ئی تھی ۔ سب نے مل کے روزہ ا فطار کیا ۔
رات کو تمام کا م سے فار غ ہوکر زیان باہر لان میں آ گیا ۔ اس کادل تھا کہ وہ جلدی سے سگر یٹ کے دو تین کش لگا لے مگر لا ئٹر جیب سے نکالتے ساتھ ہی اس کی نگاہ لان کی وسط میں بیٹھی عفیفہ پر جا ٹھہر ی۔وہ ٹانگ پہ ٹانگ ر کھے انسٹا ر یلز دیکھ ر ہی تھی ۔ ز یان نے آ گے بڑھتے ہو ئے جھٹ لا ئٹر پینٹ کی جیب میں رکھا اور بال سنو ار تا آ گے بڑھ گیا۔
’’ کیسی ہو عفیفہ ؟‘‘ اس کا دل یہ کہتے ہو ئے کتنی تیز ی سے دھڑکا تھا۔
’’ٹھیک ہو ں تم کیسے ہو ؟‘‘ وہ ہو لے سے مسکرا کر پو چھنے لگی۔
’’ا للہ کا شکر۔‘‘ ز یان بھی جو ا باً مسکراتا اس کے سامنے و الی کرسی پر بر ا جمان ہو گیا۔
’’تم نے مجھے بہت انتظار کرو ا یا ہے عفیفہ۔‘‘ وہ گلہ کرتے ہو ئے کہنے لگا۔
’’اور تم نے مجھے بہت خوار کر و ایا ہے ز یان۔‘‘ اس کا جو اب بھی لبوں پر تیار کھڑا تھا۔
’’تم جا ب ایک سال پہلے کر لیتے تو آ ج ہم یو ں ا جنبیو ں کی طر ح نہ بیٹھے ہو تے ۔ ‘‘ عفیفہ کا گلہ جائز تھا ۔
وہ پانچ سال سے اس سے منسو ب تھی مگر ز یان کے جا ب لیس ہو نے کے با عث اب تک ان کی شادی نہیں ہو پائی تھی۔
’’مگر اب ایک سوفٹ و ئیر ہاؤس میں مجھے اچھی جا ب مل گئی ہے۔‘‘ وہ خو شی سے اسے بتانے لگا۔
’’ اور ابھی میر ے ا یم ایس کو ایک سال باقی ہے۔‘‘
’’مطلب ابھی ہم شادی نہیں کرسکتے؟‘‘ اس کا نا امید انداز۔
’’ نہیں۔‘‘ وہ نفی میں سر ہلاتے ہو ئے بو لی تھی۔
’’دو بارہ کب آؤگی ؟‘‘
’’ اگلی عید پر۔‘‘
تم بالکل عید جیسی ہو ۔‘‘ وہ پھیکا سا مسکر ایا۔
’’بس ایک سال اور انتظار کرلو ‘آ ئی پر امس تمہار ی عید ہو جا ئے گی۔‘‘
اس نے آ گے بڑھ کر مضبو طی سے زیان کا ہاتھ تھام کر اسے گویا صبرو محنت کا حو صلہ دیا تھا اور اس پل ز یان کو لگا کہ آ ج و اقعی اس کی عید ہو گئی ہے۔
ختم شد