افسانے

تو ان دنوں ملا ہے مجھے: کرن راجپوت

راجہ جیولرز موتی بازار
راولپنڈی
وہ طیب کے بیٹے کے لیے گرم کپڑے لینے آیا تھا ۔ بے بی گارمنٹس کے ساتھ ملحقہ دکان پر وہ جانے کیوں آ رکا ‘جب کہ کچھ لینا بھی نہیں تھا تو پھر؟ دکان کے باہر چوڑیوں کا سٹال لگا تھا ۔ دنیا بھر کی ورائٹی تھی گویا ‘ اس کی نظروں کے سامنے کوئی سفید اور گلابی سی کلائی آئی ۔ اس نرم کلائی کی چھوون ایسی تھی جیسے گلاب کی پتی کو نرم انگلیوں سے چھو لیا جائے ۔ اس نے اپنا دائیں ہاتھ اپنے تیز تیز دھڑکتے دل پر رکھا ۔ دھڑکنوں میں نام گونجتا سنائی دینے لگا ۔ سینے پہ دھرے اسی ہاتھ نے وہ سفید اور گلابی کلائی تھامی تھی ۔ وہ نرمی ‘ وہ نزاکت اس کے ہاتھ میں گھل کر ہی رہ گئی ۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگی دکان دار کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ پھیلی دیکھی۔
’’سر پیک کر دوں؟ ‘‘ اس نے نمیر کے ہاتھوں میں کانچ کی سفید اور گلابی چوڑیاں دیکھ کر کہا ۔
’’ہاں کر دو۔‘‘ نمیر انکار کرنا چاہتا تھا مگر کر نہ سکا۔
٭…٭
’’بے فکر رہیں ‘ وقت پر ہی پہنچ جائے گی ۔ ‘‘
نمیر بے جی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں ۔ اس کو دیکھا تو بیڈ پر اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ پچھلے کچھ دن سے ماں بیٹے کے رشتے میں وہ تناؤ والی کیفیت خود بخود ناپید ہوتی جا رہی تھی۔
’’نمیر صفورا کو جانتے ہو نا؟ وہی میری دوست؟ اس کی بہو کی برسی ہے آج قرآن خوانی رکھی ہے۔‘‘بے جی نے اسے ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا ‘ جانے وہ کیسا ردعمل دے۔
’’جی! اسکول میں ساتھ پڑھا ہے آپ نے ۔‘‘ نمیر نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھایا ۔ دوسرے ہاتھ میں پانی سے بھرا جگ تھا بے جی کی نظریں جگ سے گرتی پانی کی ہموار دھار کو دیکھنے لگیں۔
’’ایمل کو چھوڑ آؤ گے وہاں؟ ‘‘ بے جی کی نگاہ اب پانی کے گلاس پر تھی ۔ پانی کے گلاس سے نمیر ظفر کے لبوں تک کا فاصلہ گھٹ رہا تھا ۔ نمیر نے گلاس ہٹا کر اچنبھے سے بے جی کو دیکھا اور پھر بے جی کی نگاہ کا تعاقب کیا دونوں کے ذہن میں کوئی واقع تازہ ہوا ۔
’’لے جاؤں گا۔‘‘ نارمل سے لہجے میں جواب ملا۔
بے جی کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی ۔ انہوں نے مسکرا کر نمیر کو دیکھا ۔ اس کی سلامتی اور خوشحال زندگی کی ڈھیروں دعائیں مانگ لی ۔ ان کا دل پرامید ہو چلا تھا ۔ وہ ایمل کو مطلع کرنے چل دیں ۔ ایملاپنے کمرے میں بیٹھی امید و بیم کی کیفیت میں تھی۔
’’ایسے جاؤ گی تم؟ ‘‘ نمیر کا وہی کوڑے برساتا لہجہ اپنے سر پر سکارف درست کرتی ایمل کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا۔
’’کھڑوس۔‘‘ایمل کے دل نے جھٹ سے خطاب دیا ۔
نمیر کے طنز کو کسی تشریح کی ضرورت نہیں تھی ۔ ایمل نے الماری میں ٹنگا اپنا استری شدہ حجاب نکالا ۔ نمیر جو اس کو نظروں میں تول رہا تھا اس کے چہرے کے بگڑے زاویے درست ہوئے ۔
’’میں آپ کی عزت ہوں ۔ چاہے اچھی دِکھتی ہوں چاہے بری مگر نمیر کسی بھی دوسرے انسان کو مجھے دیکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ‘‘نمیر کے پیچھے بائیک پر بیٹھتے ہوئے ایمل نے بہت ہی دھیمے لہجے میں کہا ۔ نمیر کو اس کی آواز بمشکل سنائی دی تھی اس کے چہرے کے بگڑے زاویے مزید درست ہونے لگے۔
٭…٭
میری الفت مدینے سے یونہی نہیں
میرا جینا اور مرنا مدینے میں ہے
قرآن خوانی کے بعد نعت خوانی کا اہتمام تھا ۔ صفورا خالہ نے مرد و خواتین کے لیے دو الگ الگ جگہوں پر بیک وقت قرآن خوانی رکھی تھی ۔ وہ زنانے میں بیٹھی تھی ۔ کوئی بچی نعت رسول ﷺ سنا رہی تھی ۔ خواتین مائیک کے گرد دائرہ بنائے بیٹھی تھیں ۔ ایمل آخری قطاروں میں سے ایک میں تھی ۔ وہ نعت خواں بچی کو دیکھ تو نہیں پائی ‘ مگر اس کی آواز سے اس کی عمر کا اندازہ دس برس کے قریب لگایا ۔
’’اے ربِ کائنات ! اے میرے تمام جہانوں کے خزانوں کے مالک! تیری بندی تیرے خزانوں میں سے ایک موتی مانگتی ہے ۔ فقط ایک موتی یا رب ۔ فقط نمیر ظفر دے دیں اللہ! ‘‘ اس کا دل بھر آیا ۔ اس نے اپنا سر اپنی گود میں گرا لیا ‘ مبادا کوئی اسے روتا نہ دیکھ لے ۔ بند آنکھوں پر نمیر ظفر کی چھ ماہ کی رفاقت کی فلم سی چلنے لگی ۔ اس کا تلخ کڑا لہجہ ، اس کے روح کو تار تار کرتے کاٹ دار جملے اور سب سے بڑھ کر اس کا گریز … وہ اس سے یوں گریزاں رہتا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔
’’ کاش اللہ نے مجھے عام سی شکل و صورت کی لڑکی بنایا ہوتا پھر تو نمیر میری طرف دیکھتے نا؟ ‘‘ ٹوٹے دل میں مایوس کن سوچیں سر اٹھانے لگیں ۔
وہ ہیزل گرین آنکھوں والی ‘گلابوں کے لمس جیسی نرم و ملائم وجود کی مالک لڑکی جو ہنستی تو بائیں گال میں پڑتا بھنور ۔ کوئی مقناطیس بن کر مخالف دل کو اپنی جانب کھینچنے لگتا ۔ وہ ریاست حسن کی اکلوتی شہزادی اپنے حسن کی دولت سے نالاں تھی ۔لوگ اپنی کم صورتی پر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں مگر نمیر کی بے رخی نے اس کو یوں توڑا تھا کہ وہ اپنے حسن و جمال کے باعث ہی احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ ہر روز فجر کے بعد گہری نیند سوئے اپنے سر کے تاج سے باتیں کرتے کرتے کب اس کو محبت ہو گئی تھی ۔ شاید یہی وہ خالقِ کائنات کا وعدہ تھا کہ وہ میاں بیوی کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت ڈال دیتا ہے۔
’’ اللہ کریم! ان کے دل میں بھی میری محبت ڈال دیں نا! ‘‘ دل ٹوٹ چکا تھا ۔ ٹوٹ کر بھی تڑپ رہا تھا وہ اس کے آگے ہاتھ پھیلا رہی تھی جو ٹوٹے دلوں کے قریب ہوتا ہے۔؎
منجدھار میں ہوں
بگڑی ہے ہوا
موری نیا پار لگا جانا
وہ ساتھ ساتھ نعت رسول ﷺ کے بول دہرانے لگی آنکھیں مسلسل ساون بھادوں برسا رہی تھیں۔
٭…٭
بائیک کے ساتھ لٹکا وہ چھوٹا سا شاپنگ بیگ کئی دن سے اس کا منہ چڑا رہا تھا ۔ اب وہی شاپنگ بیگ اس کے ہاتھ میں تھا ۔ اندر سے سفید اور گلابی کانچ کی چوڑیاں جھانک رہی تھیں ۔ وہ صفورا خالہ کے دروازے پر کھڑا ایمل کا منتظر تھا ۔ وہ اس کو ڈراپ کر کے فیکٹری چلا گیا تھا اور اب پک کرنے واپس آیا تھا ۔ چوڑیوں کو تکتی نگاہوں میں کوئی انوکھا سا تاثر تھا ۔ جیسے صدیوں پرانے کسی زخم پر مرہم کا پہلا لیپ ہوا ہو۔
’’اس کی گردن کو دیکھا؟ ‘‘ نرم پڑتی نگاہوں کے سامنے شادی ہال کا کوئی منظر روشن ہوا ۔
’’گردن نہیں ماتھے پہ ہے ۔ دائیں طرف اب دیکھنا۔‘‘ کوئی دھول اڑاتی ہوا چلنے لگیں۔
’’ارے ہاں ماتھے پر بھی ہے مگر یہ ہے کیا؟ توبہ کتنا خوفناک ہے نا؟‘‘ ہوا میں دھول کی مقدار بڑھنے لگی اب وہ آندھی کی شکل بدلنے لگی تھی۔
’’گردن پہ کیا ہے؟ ہائے میرا تو دل خراب ہو رہا ہے دیکھ دیکھ کر،‘‘ زنانہ آوازیں اس کے بے حد پاس گونج رہی تھیں ۔ چوڑیوں پر اس کی گرفت سخت ہوئی۔
’’ایمل کو دیکھ یار ! کیا نصیب ہے ! ویسے مجھے ابراہیم انکل سے اس زیادتی کی امید نہیں تھی ۔ ‘‘ آندھی نے سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
’’نمیر یہ کیسے ہوا؟ ‘‘ ایمل کی متفکر سی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی وہ اس کے پاس کھڑی پریشان لہجے میں کچھ پوچھ رہی تھی۔
’’نمیر آپ کا ہاتھ کیسے زخمی ہوا؟ ‘‘ اس کی نگاہ کہیں بہت دور سے واپس لوٹی تھی ۔
اس نے اپنے ہاتھ کو ایمل کے ہاتھوں میں دیکھا ہاتھ لہو لہان تھا ٹوٹی چوڑیاں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔
’’کچھ نہیں،بیٹھو۔‘‘ بہت بے رحمی سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بائیک سٹارٹ کرنے لگا ۔ ایمل سڑک پر بکھری چوڑیوں کو دیکھتی ہوئی اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ نمیر ظفر کے تاثرات پتھریلے تھے
٭…٭
’’میں مایوس نہیں ہوں آپ سے نمیر بس ڈر ہے کہ کہیں تھک نہ جاؤں۔‘‘ ایمل کا نرم ہاتھ نمیر کے پٹی میں جکڑے سانولے ہاتھ پر نرمی سے دھرا تھا ۔ وہ جیسے ماں کا لمس ہوتا ہے نا محبت بھرا آرام دیتا لمس؟ بالکل ویسا ہی لمس…
آج بھی فجر کی اذان دے کر نماز ادا کرنے کے بعد وہ اپنے بستر پر دراز گہری نیند میں تھا اور ایمل اپنی مناجات سے فارغ ہو کر ہمیشہ کی طرح اپنے اپنے سوئے ہوئے جیون ساتھی سے اپنے دل کی باتیں کر رہی تھی کہ جاگتی حالت میں نمیر کا سامنا کرنا بھی دشوار تھا ۔ ایمل نے جھک کر اس کی کشادہ پیشانی پر اپنے نرم ہونٹ اتنے پیار سے رکھے کہ چھونے کا احساس تک نہ ہو ۔ اسی پل نمیر نے آنکھیں کھول دیں ۔ ایمل کے سر پہ سات آسمان گرے ‘ دونوں ایک دوسرے کو برابر دیکھتے رہے ۔ بس سانس کی آمد و رفت زندگی کا پتہ دیتی تھیں۔
’’ابھی وہ کوڑے برسائے گا‘‘ ایمل کے دل میں کسی منفی قوت نے سرگوشی کی نمیر چپ تھا اس کی خاموش نگاہوں میں کوئی تاثر نہیں تھا۔
’’کوئی طنز کوئی دل دکھاتی بات۔‘‘ اندر مسلسل کوئی الارم بجنے لگا تھا ۔ ایمل کی آنکھیں بھیگنے کو ہی تھیں کہ نمیر ظفر کی آنکھوں میں کوئی نرم سا تاثر ابھرا ۔ ایمل نے رخ پھیر لیا مگر نمیر نے رخ نہیں پھیرا ۔ وہ اس کے پاس سے ہٹی اور بس اسی پل نمیر نے اس کی طرف پیش قدمی کی ۔ اس کے مجازی خدا نے ، اس کے حلال اور طیب رزق نے اس کی زندگی میں آنے والے سب سے پہلے مرد نے ۔ دیر لگی تھی مگر اندھیر نہیں ہوا تھا ۔ اس بار نمیر کی گرفت میں وہ وحشت عنقا تھی وہ کسمسائی مگر نمیر کی نرم گرفت برقرار رہی ۔ ایمل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا محبت کروٹیں لیتی دکھائی دی ۔
’’تو یہ ضرورت نہیں ہے ۔‘‘دل نے چپکے سے سرگوشی کی۔
’’بڑی جلدی خیال آ گیا۔‘‘ زبان پھسلی نمیر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’چھوڑیں مجھے۔‘‘ وہ احتجاج کرتی خود کو اس مہربان گرفت سے چھڑانے لگی مگر توانا بازؤوں کا نرم حصار نہ ٹوٹا۔
’’چھوڑیں مجھے میں نفرت کرتی ہوں آپ سے ۔‘‘وہ نمیر ظفر کے کندھوں اور بازوؤں پر مکے برسانے لگی ۔ وہ رو بھی رہی تھی ‘ احتجاج بھی کر رہی تھی ۔ نمیر بہت نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا ۔ شانت کرنے کی اپنی سی کوشش… نرم حصار اب بھی نہیں ٹوٹا تھا۔
’’آپ جیسا سنگدل انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔‘‘ شکایتی نظروں سے گھورتی وہ کہہ رہی تھی۔
’’اور؟‘‘ دھیما مسکراتا لہجہ اس نے ایمل کے ریشم بالوں کی خوشبو اپنی سانسوں میں اتاری۔
’’ہر چیز کو شک کی موٹی عینک لگا کے دیکھتے ہیں۔‘‘ گلابی پڑی چھوٹی سی ناک کو دیکھ کر وہ دھیمے سے ہنسا۔
’’ہاہاہا! کہتی تو ٹھیک ہو،اچھا اور؟‘‘ وہ بہت دلچسپی سے سن رہا تھا یہ رشتہ صحیح معنوں میں آج شروع ہوا تھا۔
’’لفظ محبت تو جیسے چھو کے بھی نہیں گزرا آپ کو ۔‘‘ منہ پھلا کر کہا گیا ۔
نمیر کا جان دار قہقہہ کمرے میں گونجا تھا ۔ یہ درو دیوار اس کھنکتی ہوئی ہنسی سے نا واقف تھے ۔ نمیر نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کی ۔
’’یہاں آپ غلطی پر ہیں مسزنمیر ۔‘‘ نمیر نے ایمل کے ہاتھ کو اپنے گال سے مس کرتے ہوئے کہا ۔ اس اپنائیت بھرے لہجے کے لیے اس نے رب کے حضور کتنی دعائیں مانگی تھیں اس کے دل پر لگے زخموں کو آرام مل رہا تھا۔
’’ہم نے محبت کا پتہ پا لیا ہے ۔‘‘ایمل کے دل کو دھکا سا لگا ۔
’’کون ہے وہ؟‘‘ وہ جو ناؤ پار لگنے ہی والی تھی ایک بار پھر ڈولنے لگی۔
’’آؤ دکھاؤں۔‘‘ اس نے زبردستی ایمل کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ سے اٹھایا اور اسے ساتھ لیتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک آیا۔
’’دیکھو! کیا دکھائی دیتا ہے؟ ‘‘نمیر نے اس کی طرف رخ موڑتے ہوئے پوچھا ۔
آئینے نے اپنے مقابل کھڑے دو اشخاص کو دیکھا جو دو ہاتھ کے ہی فاصلے پر تھے مگر سچ پوچھا جائے تو آج سارے فاصلے بے معنی ہو چکے تھے ۔ اس آئینے نے ایک بار پہلے بھی ان دو اشخاص کو ایک ساتھ دیکھا تھا ۔ فاصلہ تب بھی دو ہاتھ کے برابر ہی تھا یا یوں کہیں کہ زمین و آسمان کے برابر؟
کمرے میں میٹھی میٹھی مدھم سرگوشیاں گونجنے لگیں۔
وہ بے چین دلوں کو سکون دیتی رات تھی۔
وہ روح کو شانت کرتی رات تھی۔
وہ رات ایمل ابراہیم اور نمیر ظفر کے پیار کی پہلی رات تھی۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page