ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ
’’موحد تمہیں پوری بات…‘‘ وہ اپنے اُس فعل کی وضاحت کرنا چاہ رہی تھیں لیکن موحد صرف سچ سننا چاہتا تھا ۔ اُسے اس پل یاد آیا کہ حور ماما کی ڈیتھ تو سیڑھیوں سے گِرنے کی وجہ سے سر پر آنے والی چوٹوں کی وجہ سے ہوئی تھی تو کیا…؟
’’بس یہ بتائیں کہ حور ماما کو آپ نے دھکا دیا تھا کیا؟‘‘ وہ اپنی سوچ پر سچ کی مہر لگوانے کی غرض سے فوراً سوال کر گیا۔
’’ہاں۔‘‘ اب کے وہ محض یک لفظی جواب دے کر سر ہلا گئیں۔ سعید صاحب جو پہلے یہاں چلتے معاملے سے انجان تھے اب کہ ہونے والی بات پر وہ بھی دنگ رہ گئے۔
’’ملیحہ۔‘‘ حیرت کی زیادتی سے اُن کے منہ سے اپنی بیوی کا نام نکلا۔
’’ملیحہ… تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟‘‘
وہ دنگ تھے۔ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے وہ اُن کی طرف آئے۔ چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔ اتنا بڑا سچ اُن سے اب تک چھپا ہوا تھا۔ انہیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اُن کی بیوی ایسا بھی کچھ کر سکتی تھی۔
’’ڈیڈ پلیز، مجھے ماما سے بات کر لینے دیں۔‘‘ اس سے پہلے سعید صاحب کوئی مزید ردِ عمل کا اظہار کرتے موحد نے انہیںواپس اپنی جگہ پر بھیج دیا۔
’’ماما، آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟ آپ کسی کی جان کیسے لے سکتی ہیں؟‘‘ وہ اُن کے ہاتھ پکڑتے ہوئے نم آنکھوں سے استفسار کر رہا تھا۔ اُسے اندر کہیں یہ امید تھی کہ کاش یہ سب سچ نہ ہو۔
’’موحد بیٹا ، م… میں نہیں جانتی مجھ سے ایسا کیسے ہو گیا ۔ بس مجھے اُس پر بہت غصہ ہماری ایک بات پر اُس دن بحث ہو گئی اور میں خود پر سے اختیار کھوتے بے دھیانی میں پیچھے کی طرف دھکا دے گئی ۔ جب احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اُس نے میری جگہ لے لی تھی۔ مجھے نجانے کیا ہوگیا تھا اُس دن۔ میں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگی تھیں۔
ہاں وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن غصے نے اُن کے ہوش و حواس سلب کر لیے تھے اور پھر یہ حادثہ ہو گیا تھا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جس نے اُن سب کی زندگیاں بدل ڈالیں۔
’’مگر پھر بھی آپ نے ایسا کیا ۔ آپ کی وجہ سے کسی معصوم کی جان چلی گئی ۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ آپ کے شوہر کی بیوی کے رتبے پر فائز ہوئی تھیں۔‘‘ اب کی بار موحد کی کوئی امید باقی نہ رہی ۔ آنکھیں خالی ہو گئیں ۔ یا سامنے بیٹھے وجود کو پہچاننے سے انکاری ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ ایک طرف ماں تھی اور ایک طرف بھائی۔ اِن دو رشتوں میں انصاف کیسے کیا جاتا ہے؟ اُسے انصاف کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ وہ اپنی ماں پر مزید چلانا نہیں چاہتا تھا۔ گزرے ہوئے وقت کو بھی تو وہ واپس نہیں لا سکتا تھا۔پھر اُسے یاد آیا کہ اُس نے بھی تو ماضی میں غلطیاں کی ہی تھیں لیکن پھر اُس سوچ پر یہ حقیقت غالب آ گئی کہ کسی کی جان لینا ہرگز کوئی غلطی نہیں بلکہ یہ تو گناہ ہے۔ اب کے اُسے اِس کمرے میں گھٹن ہونے لگی۔ وہ خاموشی سے بغیر کچھ کہے اُن پر ایک شکوہ کناں نظر ڈالتا اٹھنے لگا تھا، جب انہوں نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’موحد ایسے مت جاؤ! تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے ۔ بیٹا میں نے یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے ہی تو کیا تھا ۔ میں ہمیشہ سے اسی بات سے ہی تو ڈرتی تھی کہ کہیں میری اولاد کا حق نہ اُن سے چھین لیا جائے۔‘‘ اُن کے آنسو بھل بھل گرنے لگے۔ دل بھاری ہونے لگا۔
’’کیا پیسہ کسی کی جان سے زیادہ اہم ہوتا ہے؟ ماما آپ سے ہم نے کب کہا کہ ہمیں ڈیڈ کی دولت چاہیے؟‘‘ یہ دو سوال ایسے تھے، جن کا جواب وہ نہیں دے پائیں ۔ بے حسی کی دیوار پر یہ آخری وار تھا ۔ اور وہ بھی کلہاڑے کا، بہت زور آور وار تھا تب ہی دیوار گِر گئی تھی۔ اب احساس کی گھڑی تھی۔ ندامت کا وقت تھا۔
’’بے فکر رہیں… میں آپ کو کوئی سزا نہیں سناؤں گا ۔ کسی کی جان لینا یہ آپ کے اپنے اعمال میں ہے۔ میں کوئی نہیں ہوتا، آپ کو اُس کی سزا سنانے والا لیکن…‘‘ وہ انہیں یوں روتے دیکھ کر ٹھہر ٹھہر کر بولنے لگا۔ اور لیکن پر آکر یوں رُک گیا جیسے اگلے الفاظ ایسے ہوں جو زبان ادا کرنے پر ہچکچا رہی ہو۔ انہوں نے پل بھر کے لیے اپنی روتی آنکھوں سے اُس کا چہرہ دیکھا۔
’’لیکن یاد رکھیے گا مسز سعید۔ میں تب تک آپ کو ماں نہیں کہوں گا، جب تک کہ آپ اپنی ایک اور اولاد کو دِل سے قبول نہیں کر لیتیں۔‘‘وہ کہہ کر بغیر رُکے وہاں سے چلا گیا۔ باقی سب تب سے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ اُس کے یوں جانے پر پریشانی سے غنی اُٹھ کر اُس کے پیچھے جانے کے لیے بڑھا۔ وہ ابھی دروازے کی چوکھٹ تک ہی پہنچا تھا جب اُسے موحد کی آواز سنائی دی جس پر وہ وہیں رُکنے پر مجبور ہوگیا۔
’’غنی، خبردار! جو تم میرے پیچھے آئے۔‘‘ وہ اُسے دھمکی آمیز لہجے میں کہہ کر تیز تیز سیڑھیاں پھلانگتا گھر سے ہی باہر نکل گیا۔ غنی اگر جانا چاہتا تو اُس کی دھمکی کے باوجود چلا جاتا لیکن اِس وقت اُس نے موحد کو تنہائی دینا زیادہ بہتر سمجھا۔
اب اُسے اپنا یہاں رُکنا بے معنی سا لگا ۔ وہ واپس آیا ۔ کچھ رسمی کلمات کہہ کر حوریہ کو لیے واپس جانے کے لیے روانہ ہو گیا۔ واپسی پر اُس نے حوریہ کو گھر چھوڑا اور اپنے گھر آ گیا۔ آج کا دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ وہ بستر پر لیٹا تو سوچوں کے جال نے اُسے خود میں قید کر لیا اور اُسی قید میں نجانے وہ کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
٭…٭
’’کیا ہوا کہاں گم ہو؟‘‘ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب اُسے غنی کی آواز سنائی دی۔ وہ لوگ اِس وقت باہر لنچ کرنے آئے ہوئے تھے۔ اُس بات کو اب تقریباً ایک مہینہ ہونے والا تھا۔ اِس ایک مہینے میں اُن کے رشتے میں اتنی تو بے تکلفی آ گئی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو بغیر کسی جھجھک کے پکار لیتے تھے۔
’’کہیں نہیں۔ بس ویسے ہی۔‘‘ حوریہ نے اپنی سوچوں سے باہر آتے ہوئے نارمل لہجے میں جواب دیا ۔ اِس وقت اُس کے دماغ میں سعید صاحب کی باتیں گونج رہی تھیں۔ کچھ دِن پہلے ہی وہ حوریہ سے ملے تھے اور اُس سے یہ کہا تھا کہ وہ غنی کو اپنی ماں سے ملنے کے لیے منائے۔ وہ یہ بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب بات کہاں سے شروع کرے۔
’’پھر بھی…‘‘ وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ حوریہ بول پڑی۔
’’غنی، کیا کسی کو معاف کرنا آسان ہوتا ہے؟‘‘ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
درمیان میں ایک کانچ کی میز تھی ۔ چونکہ دوپہر کا وقت تھا اسی وجہ سے ریستوران میں رش کم ہی تھا۔ اُس نے نظر اٹھا کر سیاہ فارمل پینٹ اور سفید آفس شرٹ میں ملبوس غنی کو دیکھتے ہوئے سوال داغا۔ یقیناً وہ بات کرنے کے لیے تمہید باندھ رہی تھی۔
’’نہیں لیکن معاف کر دینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ اُس کے اچانک ایسی بات کرنے پر تھوڑا حیران ہوا تھا لیکن پھر عام سے انداز میں جواب دے گیا۔
’’تو پھر آپ بھی اپنا بوجھ ہلکا کر لیں۔ آپ موحد سر کی مام کو معاف کر دیں۔‘‘ حوریہ کی بات پر بے اختیار غنی کے چہرے پر ایک مسکان نمودار ہوئی۔
’’کیا ہوا آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟‘‘ اُس کے مسکرانے پر وہ ابرو اچکا کر وجہ پوچھنے لگی۔
’’میں انہیں بہت پہلے ہی معاف کر چکا ہوں حوریہ ۔ اگر معاف نہ کیا ہوتا تو کبھی بھی اُس گھر میں دوبارہ نہ جاتا۔‘ غنی نے سادگی سے جواب دیا۔ حوریہ کو اِس جواب کی توقع نہ تھی۔
’’مگر کیوں؟ آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کے سامنے انہوں نے پھوپھو کو دھکا دیا تھا تو کیا یہ سب بُھلانا آسان ہوتا ہے؟‘‘ وہ یہ بات کہتے ہوئے اپنے کچھ دیر پہلے کیے گئے سوال کو خود ہی بھول چکی تھی۔
’’بھولنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘غنی کے اِس جواب پر حوریہ اُسے دیکھ کر رہ گئی۔ یہ بات تو وہ بھی اچھے سے جانتی تھی کہ بھولنا آسان نہیں ہوتا۔
’’مگر بھولنا ضروری تو نہیں۔ بس انسان کو آگے بڑھ جانا چاہیے۔ جب انسان کی زندگی میں کوئی اسٹاپ موڈ نہیں ہوتا تو پھر ہم کیوں خود کو ماضی میں روک کر رکھتے ہیں؟‘‘ اُس کے یوں ہی خود کو دیکھنے پر اُس نے بات جاری رکھی۔ اُس کی آخری بات پر حوریہ نے کچھ تعجب سے اُسے دیکھا۔ یوں لگا کہ وہ اُس کے جملے اُسے ہی واپس لوٹا رہا ہو لیکن یہ بات تو اُس نے یونی ورسٹی میں کہی تھی۔ یہ جملہ غنی نے بھلا کب سن لیا۔
’’اور تم نے پوچھا تھا ناں کہ کیوں میں نے انہیں معاف کر دیا ۔ کیونکہ میں حور سعید کا بیٹا ہوں۔ معاف کرنا مجھے انہوں نے سکھایا ہے۔ میں اُن کا سکھایا سبق نہیں بھول سکتا۔‘‘ یہ شاید اُس کی اختتامی بات تھی۔ وہ کچھ کہتی، اِس سے پہلے ہی اُن کا کھانا آ گیا۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ اچھے ماحول میں کھانا کھانے کے بعد وہ واپسی کے سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔
’’موحد سر کا رویہ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟‘‘ وہ لوگ گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے جب حوریہ نے اُس سے پوچھا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ کچھ حیرانی سے مستفسر ہوا۔
’’وہ اُس دن جو انہوں نے غصے میں کہا تھا۔‘‘ وہ اُسے کچھ یاد دِلاتے ہوئے بولی۔
’’اچھا، وہ… نہیں، میرے ساتھ تو وہ ٹھیک ہیں لیکن اپنے ساتھ بہت ہی بُرا سلوک کر رہے ہیں آج کل۔‘‘ اُس کے چہرے پر پریشانی کی چھاپ نمایاں تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ الجھ کر پوچھنے لگی۔
’’انہوں نے خود کو مشین بنا لیا ہے۔ سارا وقت کام، کام کرتے رہتے ہیں۔ دیر رات تک آفس میں بیٹھے رہتے ہیں۔ حالاں کہ آفس ٹائم سات بجے ختم ہو جاتا ہے۔ میری تو کوئی سنتے نہیں۔‘‘ وہ لہجے میں فکر سموئے بولا تھا۔
’’تو آپ انہیں سمجھائیں۔‘‘ وہ بھی فکرمند ہوگئی تھی۔
’’میری سنتے ہوتے تو نا۔‘‘ وہ منہ بنا کر دھیمی آواز میں بولا۔ اُس کے منہ بسورنے پر حوریہ مسکرا کر رہ گئی۔ باقی کا راستہ خاموشی میں کٹا۔
’’تو پھر کب دوبارہ کمپنی جوائن کر رہی ہو؟‘‘ اُس کا گھر آ چکا تھا۔ وہ گاڑی سے نکلنے والی تھی جب اُس کی بات پر رُک گئی۔
’’آپ کہتے ہیں تو کل ہی کر لیتی ہوں۔‘‘ وہ شرارت سے بولی تھی۔
’’میں تو کہتا ہوں آج ہی کر لو۔‘‘ غنی نے اُس کی شرارت میں بھرپور ساتھ دیا۔
’’اچھا۔ اب چلتی ہوں کل آفس میں ملیں گے۔ اللہ حافظ۔‘‘ وہ مسکرا کر کہتی باہر نکل گئی۔
’’اللہ حافظ۔‘‘وہ بھی سر دائیں، بائیں ہلا کر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔ اُس کی زندگی میں حوریہ کا اضافہ بہت خوشگوار ثابت ہوا تھا۔ زندگی ایک نئی ڈگر پر چلنے لگی تھی۔
وہ اپنے کمرے میں آئی تو ہینڈ بیگ سے موبائل نکال کر ہینڈ بیگ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے بستر پر جا بیٹھی ۔ اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب اُسے کیا کرنا تھا۔
اُس نے موبائل آن کرکے واٹس ایپ کھولتے مخصوص چیٹ اوپن کی۔
’’میں نے تمہیں معاف کیا سحر۔‘‘ اُس نے میسج ٹائپ کیا اور بغیر ایک پل کی دیری کیے سینڈ کا بٹن دبا دیا ۔ ہاں اُس نے بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ اُس نے بھی سحر کو معاف کر دیا تھا۔ پچھلے دِنوں جب وہ سعید صاحب سے ملنے اُن کے گھر گئی تھی تو وہاں اُسے سحر نے روک لیا تھا ۔ وہ اُس سے معافی مانگ رہی تھی۔ اُس وقت تو حوریہ اُسے کوئی جواب نہیں دے پائی تھی لیکن آج غنی کی باتوں سے اُس نے سحر کو بھی معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب اُسے مزید اپنی ذات کو ماضی میں دھکیل کر تکلیف نہیں دینی تھی۔
٭…٭
شام رات میں ڈھل گئی تو ہر طرف مصنوعی روشنیاں پھیل گئیں۔ وہ تھکا ہارا اپنے کمرے میں آیا تو بغیر چینج کیے بستر پر اوندھے منہ گِر گیا ۔ دوپہر میں حوریہ کو چھوڑنے کے بعد وہ واپس آفس چلا گیا تھا۔ اور اب تھکا ہارا واپس لوٹا تھا۔ وہ کچھ دیر یوں ہی لیٹا رہا۔ لیکن پھر چائے پینے کی طلب ہوئی تو اُسے اٹھنا ہی پڑا۔ وہ کوٹ اتار کر صوفے کی طرف اچھال گیا۔ اپنی شرٹ کی آستینیں فولڈ کرتے اُس کا ارادہ کچن کی طرف جانے کا تھا لیکن موبائل کی بجتی گھنٹی نے اُس کے ارادے پر پانی پھیر دیا۔ وہ موبائل کو فی الحال نظر انداز کرتا کمرے سے باہر نکلنے ہی والا تھا جب دوبارہ فون بجنے لگا۔
’’کیا مسئلہ ہے یار۔‘‘ وہ جھنجھلاہٹ سے بول کر بیڈ پر رکھے اپنے فون کی طرف آیا۔ موبائل اٹھاتے ہی کالر آئی ڈی دیکھ کر اُس کی اکتاہٹ و جھنجھلاہٹ لمحوں میں حیرانی میں بدلی۔
اُس نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے خاموشی حائل رہی۔ اُس نے گفتگو میں پہل کرتے ہوئے سلام کیا لیکن اب بھی خاموشی ہی حائل رہی۔ وہ دوبارہ کچھ کہنے ہی والا تھا جب اُس کے کانوں میں وہ الفاظ پڑے جن کی اُسے کبھی امید نہ تھی۔
’’کیا تم مجھے معاف کر سکتے ہو؟‘‘ یہ وہ الفاظ تھے جن کو سنتے وہ کچھ پل کے لیے بغیر حس و حرکت اپنی جگہ پر کھڑا رہ گیا تھا۔ پھر اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آن بسی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ اتنی دیر کر دی لیکن کہہ نہیں سکا۔
’’کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میں آپ کو بہت پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔‘‘ اُس نے ہمیشہ سے کہا جانے والا اپنا جملہ دہرایا۔
’’مگر کیوں؟ میں نے کتنی مرتبہ تمہیں دھتکارا۔ تم کیوں نہیں مجھے دھتکار دیتے ۔ ‘‘وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی تھیں۔
’’میری ماں نے کہا تھا کہ لوٹ آنے والوں کو دھتکارا نہیں کرتے۔‘‘ فون کے پار سے آنے والی اُس کی آواز نے ملیحہ بیگم کو ساکت کر دیا تھا۔ آج انہیں سمجھ آیا تھا کہ حور سعید، ملیحہ سعید سے لاکھ درجے بہتر عورت تھی۔
’’حور کتنی خوش قسمت عورت تھی کہ اُسے تمہاری ماں ہونے کا شرف حاصل تھا۔‘‘ وہ حسرت سے بولی تھیں۔ وہ اُن کے لہجے میں واضح حسرت محسوس کر چکا تھا۔
’’تو آپ یہ خوش قسمتی کیوں نہیں قبول کر لیتیں؟‘‘ وہ موبائل کان سے لگائے بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔ اُس کی نظریں بے اختیار سائیڈ ٹیبل تک کا سفر طے کر گئیں جہاں ایک فوٹو فریم رکھا ہوا تھا۔ فریم کے اندر رکھی تصویر اُس کی ماں کی تھی۔ تصویر میں وہ مسکرا رہی تھیں۔ اُسے لگا وہ اُس کے اِس عمل پر اُسے مسکرا کر دیکھ رہی ہیں۔ وہ بھی مسکرا دیا۔ وہ منتظر تھا دوسری طرف کے جواب کا لیکن ابھی تک خاموشی ہی حائل تھی۔
’’تو کیا تم میرے بیٹے بننا چاہو گے؟‘‘ اُس کی بات پر وہ کچھ لمحے خاموش رہ گئی تھیں۔ مگر پھر ایک آس سے بولیں۔
’’میں آپ کا بیٹا ہی تو ہوں۔‘‘
وہ ہنس دیں۔ غنی بھی ہنس دیا۔ اور ملیحہ بیگم کے کمرے کے باہر کھڑا موحد بھی ہنس دیا ۔ باتھ روم سے باہر نکلتے سعید صاحب بھی دروازے کی چوکھٹ میں کھڑے مسکرا دیے۔ معاف کر دینے کا احساس اتنا ہی خوب صورت ہوتا ہے۔
٭…٭
’’ کیا تم نے مجھے واقعی معاف کر دیا ہے؟‘‘وہ دونوں اِس وقت اکیلے کمرے میں موجود تھیں۔ حوریہ، غنی کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد سحر اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ اب تک یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ حوریہ نے اُسے معاف کر دیا تھا۔
’’اب اِس بات کا میں کیا ثبوت دوں؟‘‘ حوریہ ابرو اچکاتے پوچھنے لگی۔
’’مگر کیسے؟ میں نے تم پر الزام لگایا تھا حور۔ میں نے تمہیں کتنا بُرا بھلا کہا۔‘‘ وہ نظریں جھکا کر پشیمانی سے بولی۔
’’پُرانی باتوں کو دہرانے کا کیا فائدہ؟‘‘ حوریہ اُس کے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں یاد ہے حور، ہم نے اسکول لائف میں ایک اینی میٹڈ مووی دیکھی تھی۔‘‘ سحر نے نظر اٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تو اچانک ایک بات اُسے یاد آئی، جس کا وہ اظہار کرگئی۔
’’ہاں، یاد ہے۔ مجھے تو اُس کا نام بھی یاد ہے ٹائم مشین۔‘‘ حوریہ یک دم کچھ یاد کرتے مسکرا کر بولی۔
’’یاد ہے ہم نے وہ مووی دیکھ کر کیا کہا تھا۔‘‘ سحر اُسے کچھ یاد دلانے والے انداز میں کہہ رہی تھی۔
’’ہاں کہ کاش ہمارے پاس بھی کوئی ٹائم مشین ہوتی تو ہم وقت میں آگے جا کر یہ دیکھ سکتے کہ ہم ساتھ ہوں گے یا نہیں۔‘‘ وہ بات یاد کرتے اُسے دہرا کر ہنس دی۔
’’کتنی بیوقوفانہ سوچ تھی ناں۔‘‘ پھر وہ خود ہی بولی۔
’’ہاں لیکن آج مجھے ایک بات سمجھ آ گئی ہے۔ اچھا ہے کہ اِس دنیا میں ٹائم مشین جیسی کوئی چیز نہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو اِس دنیا میں کوئی بھی کبھی اپنی غلطیوں پر نادم ہی نہ ہوتا۔ کسی کو کبھی کوئی پچھتاوا ہی نہ ہوتا۔ سب وقت میں واپس جاتے اور سب کچھ ٹھیک کر آتے۔ ایسے تو کوئی اپنی زندگی سے کچھ سیکھ ہی نہ پاتا۔ سب کے لیے زندگی ایک کھیل تماشا بن کر رہ جاتی۔‘‘ وہ حقیقت بیان کرتے ہوئے بولی۔
ہاں یہ سچ تھا۔ ٹائم مشین جیسی چیزیں صرف فینٹسی لینڈ میں ہی جچتی تھیں ۔ حقیقی دنیا میں اِس کی کہیں کوئی ضرورت سِرے سے ہے ہی نہیں کہ وقت کے کھیل تو بس اللہ ہی جانتا ہے۔ وہی جانے تو بہتر ہے۔
’’صحیح کہتے ہیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں کوئی کمی نہیں ۔ اُس کا بنایا نظام مکمل ہے۔‘‘ وہ مزید بولی تو حوریہ سر ہلا گئی۔ لیکن پھر ایک مسکراہٹ اُس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔
’’لیکن سحر ایک ٹائم مشین تو ہم انسانوں کے پاس بھی ہوتی ہے۔‘‘ حوریہ کی بات پر سحر سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی۔
’’ہماری یادیں۔ ہم اپنی یادوں سے ہی تو حال سے ماضی میں سفر طے کرتے رہتے ہیں۔ ہاں کچھ بدل نہیں سکتے لیکن سفر تو طے کر ہی سکتے ہیں۔‘‘ وہ چہک کر بولی تو سحر ماتھے پر ہاتھ مارتی سر نفی میں ہلا کر رہ گئی۔
’’اچھا، یہ تم نے اتنی جلدی ایمن کو کیوں سُلا دیا ہے؟ ابھی تو مجھے اُس کے ساتھ کھیلنا بھی تھا۔‘‘ ہلکی پھلکی باتوں کے بعد حوریہ بیڈ پر سوئی ایمن پر نظر دوڑا کر ناک پھلا کر بولی۔
’’صبح اسکول جاتی ہے تو خود بخود ہی اِس وقت تک اُسے نیند آ جاتی ہے ۔ پھر میں سُلا دیتی ہوں ۔ تم اب بچوں کی ایکٹنگ بند کرو اور باہر چلو۔‘‘ اُس کے اِس انداز پر سحر نفی میں سر ہلاتی بولی۔ پھر وہ بھی باہر سب کے پاس جا بیٹھیں۔ کچھ دیر یوں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ ماحول اتنا خوشگوار تھا کہ یوں لگتا تھا کہ کوئی پریشانی اُس گھر میں کبھی آئی ہی نہ تھی۔
’’تم نے تو مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میری شادی میں بھنگڑے ڈالو گی ۔ میرا تو نکاح بھی ہو گیا لیکن تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘‘ حوریہ‘ سحر کو کہنی مار کر کچھ یاد دِلانے والے انداز میں خفگی سے بولی ۔ وہ لوگ اِس وقت لاؤنج میں سب کے ساتھ موجود تھے۔ وہ دونوں اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہی تھیں، جب حوریہ کو اچانک ہی سحر کا پچھلا کیا وعدہ یاد آیا تھا ۔ وہ آہستہ آواز میں ہی بولی تھی لیکن پھر بھی اُس کی دوسری طرف بیٹھے غنی کو اُس کی بات سُنائی دے گئی تھی ۔ اِس سے پہلے کہ سحر کوئی جواب دیتی غنی بول پڑا۔
’’تو کوئی بات نہیں۔ ابھی صرف نکاح ہی تو ہوا ہے۔ شادی ہم دھوم دھام سے کریں گے۔ سحر بھابھی اپنا وعدہ پورا کر دیں گی ۔ آخر ہر وعدہ توڑنے کے لیے تو نہیں کیا جاتا۔‘‘ غنی ذرا اونچی آواز میں بولا تھا۔
سحر اُس کی بات پر ہنس دی تھی۔ غنی کو اِن دونوں کی دوستی کے بارے میں موحد نے بتایا تھا ۔ اُن کے ساتھ ہی باقی سب بھی مسکرا دیے تھے جبکہ حوریہ غنی کا چہرہ ہی دیکھے جا رہی تھی۔ یہ شخص آخر اُس کے نصیب میں کیسے آ گیا تھا۔ دِل نے یک دم ایک سوال بلند کیا تھا۔
’’کیا ہوا، آج کچھ زیادہ ہی پیارا لگ رہا ہوں کیا؟‘‘ اُس کے یوں ہی یک ٹک اُسے دیکھنے پر غنی سرگوشیانہ لہجے میں شرارات سے پوچھنے لگا۔
وہ مسکرا دی۔ اور مسکراتے ہوئے ہی بولی۔
’’آپ بہت اعلیٰ ظرف ہیں غنی۔‘‘
اُس کی بات پر وہ سر نفی میں ہلا کر رہ گیا۔ ایک مسکان تھی سب کے چہروں پر‘ شاید زندگی اتنی ہی خوشگوار ہو جاتی ہے جب ایک دوسرے کو معاف کر دیا جائے ۔ جب رشتوں کو اپنا لیا جائے۔ جب بے حسی کی دیوار گِرا دی جائے۔
ختم شد