ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ
دوسری طرف موجود حوریہ کا حال بھی اُس سے کچھ مختلف نہ تھا ۔ وہ متحیر سی وہیں اپنی جگہ پر بیٹھی رہی تھی ۔ سحر کو لے کر موحد صوفے پر آ بیٹھا ۔ اُسے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ ملازمین وہ جگہ صاف کرنے لگے تھے ۔ اُس سے کوئی بات کر رہا تھا لیکن اُسے سنائی نہیں دے رہا تھا ۔ موحد نے اُس کا کندھا ہلایا تو وہ ایک دم جیسے ہوش میں آئی ۔ ماضی سے حال کا سفر طے کرنے میں ایک پل لگا۔ نظریں اُس شناسا چہرے سے پھیرنے میں ایک لمحے سے بھی کم وقت لگا۔ اور آنکھوں میں جمع ہوتی نمی اندر دھکیلنے میں پلک جھپکنے کی دیر لگی۔
’’ہوں، میں ٹھیک ہوں۔‘‘ موحد کے اُسے پکارنے اور حال پوچھنے پر وہ دھیمی آواز میں جواب دے حوریہ اپنی جگہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی ۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نہیں آ پا رہے تھے کیونکہ وہ ضبط کرنے میں ماہر تھی۔ اتنے سالوں سے تاثرات چھپانے کا ہنر ہی تو سیکھتی رہی تھی۔
’’اچانک سے کہاں کھو گئی تھی بیٹا؟ اگر بے دھیانی میں کہیں کانچ لگ جاتا تو؟‘‘ ملیحہ بیگم فکرمندی سے اُسے مخاطب کرتے ہوئے بولیں۔ سحر نے ایکدم نظریں اُن کی طرف اٹھائی تھیں ۔ اُن کی کل سمجھائی گئی باتیں ساری اچانک سے اُس کے ذہن میں گردش کرنے لگی تھیں۔
(اُس سے دوستانہ رویہ مت اپنانا ورنہ وہ تمہارے حق پر ڈاکا ڈالنے میں دیر نہیں کرے گی) اُن کی بات ذہن میں آئی تو اُس کا دِل تلخی سے بھر گیا ۔ دوستانہ رویہ، بھلا وہ کیا حق چھینے گی، جسے پہلے ہی دوستی میں مات مل چکی ہو ۔ ملیحہ بیگم کی آواز پر کوئی اور بھی تھا جس نے اُن کی طرف دیکھا تھا ۔ اور وہ تھا غنی سعید، اُن کا بیٹا کہنا اُس کے اندر اتنی ہلچل کیوں مچاتا تھا۔ شاید اس لیے کیونکہ وہ بچپن سے اِس ایک کوشش میں ہی لگا ہوا تھا ۔ لڑکپن میں انہیںوہ تکلیف دہ، اذیت ناک حادثے کا ذمہ دار جان کر بھی وہ اُن سے کبھی نفرت نہیں کر سکا ۔ کیونکہ اُس نے نفرت کرنا کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔ اِس وقت حالاں کہ انہوں نے اُسے مخاطب تو نہیں کیا تھا۔ شاید ہر محبت کو ترسنے والے کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
’’اچھا چھوڑو! اللہ کا شکر کوئی نقصان نہیں ہوا بچی کا۔‘‘ یہ آواز سعید صاحب کی تھی۔ اُن کی بات پر سب نے سر ہلا یا۔
’’سحر! بیٹا، یہ حوریہ ہے۔ غنی کی وائف۔‘‘ سعید صاحب نے ہی حوریہ کا تعارف سحر سے کروایا۔
’’حوریہ، بیٹا یہ تمہارے موحد سر کی وائف ہیں ۔ میری بڑی بہو۔‘‘
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایک کی آنکھوں میں شکایتیں تھیں، تو ایک کی آنکھوں میں پشیمانی۔ پھر وہ دونوں ہی نظریں چرا لی۔
’’آپ سے مل کر اچھا لگا۔‘‘ حوریہ نے نرمی سے کہا۔ وہ بھی جواباً سر ہلا کر رہ گئی۔
’’چلو بھئی! کھانا لگ گیا ہے۔ ڈائننگ روم میں چلتے ہیں۔‘‘
کچھ دیر بعد سعید صاحب نے کہا تو سب اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر کھانے کے لیے ڈاننگ ایریا کی طرف بڑھ گئے۔ کھانا ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران کھایا گیا ۔ اُنہی باتوں میں سحر کو یہ معلوم ہوا کہ حوریہ موحد کی کمپنی میں کام کرتی تھی ۔ باتوں باتوں میں ہی سعید صاحب نے یہ مشورہ دیا تھا کہ حوریہ کو کام نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اِس بات پر حوریہ نے حیرانی سے سر اٹھا کر اُن کی طرف دیکھا تھا ۔ پھر اُس کی نظریں اپنے ساتھ بیٹھے وجود تک پہنچیں جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ غنی کے تاثرات سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے باپ نے بیٹے کے دل کی بات کہہ دی ہو ۔ حوریہ جواباً کچھ نہ بولی بس سر ہلا دیا ۔ لیکن وہ ہی جانتی تھی کہ وہ اِس وقت کتنی خوش تھی ۔ اُس نے روشن آنکھوں سے غنی سعید کی طرف دیکھا تھا ۔ وہ اُسے کام کرنے سے نہیں روک رہا تھا ۔ اِس بات نے دِل میں اُس کے لیے ڈھیر ساری عزت بڑھا دی تھی ۔ یہ شخص جب سے اُس کی زندگی میں شامل ہوا تھا حوریہ ‘ حوریہ نہ رہی تھی ۔ کیونکہ اتنی خوشیاں ایک ساتھ حوریہ کمال کو کہاں ملتی تھیں ۔ اگر مل بھی جائیں تو بیچ میں اتنی رکاوٹیں اُس کے حصے میں کیوں آتی تھیں ۔ لیکن جب سے وہ آیا تھا خوشیاں اپنے ساتھ باندھ لایا تھا ۔ اُس نے اپنی کلائی پر بندھے خوبصورت بریسلیٹ کی طرف دیکھا ۔ یہ بریسلیٹ اُسے محبت کی ڈور لگتی تھی ۔
کھانا کھانے کے بعد وہ واپس لاؤنج والے حصے میں آ بیٹھے تھے ۔ اب صوفوں کے وسط میں ہی کانچ کی ٹیبل پر چائے کی پیالیوں والی ٹرے رکھی تھی ۔ یقیناً ملازمین ابھی ابھی رکھ کے گئے تھے ۔ پھر چائے کا دور چلا ۔ انہیں باتیں کرتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی، جب ملیحہ بیگم نے غنی کو مخاطب کیا تھا ۔ وہ اُسے اپنے ساتھ روم میں آنے کا کہہ رہی تھیں ۔ غنی کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ وہ متحیر سا موحد کی طرف دیکھنے لگا ۔ موحد نے ایک بھرپور مسکراہٹ اُس کی طرف اچھالی اور سر ہلا گیا ۔ موحد آنکھوں ہی آنکھوں سے اُسے جتا رہا تھا کہ دیکھا تمہارا اندازہ میری ماں کے بارے میں غلط تھا۔
’’مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم میری بات پر عمل ضرور کرو گے۔‘‘ ملیحہ بیگم ایک عزم سے بولی تھیں۔
چہرے پر سخت تاثرات تھے۔ یہ پہلی بات تھی جو انہوں نے کمرے میں آنے کے بعد اُس سے کہی تھی ۔ غنی اُن کی بات پر بھنویں اکٹھی کیے انہیں حیرت سے تکتا رہا۔
’’تم سُن رہے ہو کہ نہیں؟‘‘ انہوں نے اُس کے خاموش رہنے پر پھر اپنی بات دہرائی اور اِن لفظوں کا اضافہ کیا۔
’’جی۔‘‘ وہ یک لفظی جواب دے کر سر ہلا گیا۔
وہ اِس وقت کمرے میں موجود بیڈ کے سامنے والی دیوار کے ساتھ ٹیک رکھے ڈبل صوفے پر بیٹھے تھے ۔ صوفے کے سامنے ایک چھوٹی سی چکور کانچ کی میز پڑی تھی جس پر ایک چھوٹا سا مصنوعی پھولوں والا گلدان رکھا تھا۔
’’تم جانتے ہو ناں کہ یہ کمپنی کے زیادہ تر شیئرز میں نے اپنے نام کروا لیے تھے، جب تمہاری ماں زندہ تھی؟‘‘ اُن کی اگلی بات پر اُس کی حیرت دُگنی ہو گئی ۔ آخر وہ اُس سے کہنا کیا چاہ رہی تھیں۔ حالاں کہ وہ سچ سے واقف تھا مگر خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
’’جی، جانتا ہوں۔‘‘ وہ جواباً آہستگی سے ہی اُن کی تائید کرتے ہوئے بولا۔
’’تو پھر یہ بھی جانتے ہوگے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا؟‘‘ وہ درشتی سے بولیں۔ اُن کا انداز بدل گیا تھا۔
’’آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟‘‘ وہ نا سمجھی سے استفسار کرنے لگا۔ اُن کی یہ بات اُسے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ آخر وہ کس موضوع پر بحث کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھیں۔
’’اتنے بھولے مت بنو ۔ میں تمہیں جانتی ہوں۔ تمہاری ماں کو بھی جان گئی تھی اسی وجہ سے ہی تو یہ گھر اور کمپنی اپنے نام کروا لی تھی تاکہ تم اور تمہاری ماں، میری اولاد کے حق پر ڈاکا نہ ڈال سکو لیکن…‘‘ انہوں نے بات کے دوران نظر اٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تو ایک دم خاموش ہو گئیں ۔ اُس کی آنکھوں میں کچھ تھا۔ شاید درد، شاید تکلیف یا شاید کچھ اور۔
’’لیکن؟‘‘ اُس نے جیسے انہیں بات مکمل کرنے پر اکسایا۔
’’ل…لیکن اِس سب کے باوجود بھی تم باز نہ آئے اور اپنے بھائی کو بیوقوف بنا کر واپس کمپنی میں بسیرا کر لیا۔‘‘ وہ ایک پل کو لڑکھڑائی تھیں لیکن دِل پر چڑھے بے حسی کے خول نے اُس کی پُردرد آنکھوں کو نظر انداز کر دیا ۔
دروازے کے باہر کھڑے موحد کو لگا جیسے اُس کے دل پر کسی نے بڑی بے دردی سے پیر رکھ دیا ہو اور نہ صرف پیر رکھا ہو بلکہ کوئی اُسے کچل بھی رہا ہو ۔ اُس کی ماں نے اِس وجہ سے غنی کو گھر بُلایا تھا ۔ اور وہ… وہ کیا سمجھا تھا؟ آج پھر اُس نے اپنے بھائی کو تکلیف پہنچا دی تھی ۔ وہ تو غنی کو فون دینے آیا تھا کیونکہ باہر کانچ کی میز پر رکھا اُس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔ اُسے لگا شاید ضروری ہو اسی وجہ سے آ گیا لیکن یہاں پہنچ کر جو کچھ اُس نے سنا تھا، اُس کے پیروں تلے زمین سِرک گئی تھی ۔ وہ برداشت کی انتہا پر پہنچتا اندر بڑھنے ہی والا تھا، جب غنی کی بات پر وہیں رُکنے پر مجبور ہو گیا۔
’’آپ آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہیں ۔ میں بھی کتنا بیوقوف تھا جو یہ سمجھ بیٹھا کہ شاید آپ کے دِل میں میری محبت جاگ اٹھی ہے لیکن نہیں ۔ آپ اب بھی اتنی ہی بے حس ہیں جتنی پہلے تھیں۔‘‘ اُس کے لہجے میں بہت افسوس تھا، بہت رنج تھا۔
’’محبت… ؟کونسی محبت کی بات کر رہے ہو تم ؟ اور مجھے بے حس کہہ رہے ہو کون ساتمہارے دِل میں میرے لیے محبت ہے؟‘‘ وہ تیز لہجے میں بولیں تو غنی نفی میں سر ہلانے لگا ۔
موحد کو ہنسنے کی آواز سنائی دی۔ شاید غنی ہنس رہا تھا لیکن اتنی تلخ ہنسی۔ اور یہ بات ہنسنے والی تو نہ تھی۔
’’میں آپ سے محبت نہیں کرتا۔ صحیح کہا آپ نے بڑی ماما۔‘‘ وہ ہنسی روک کر بولا تھا۔ لیکن پھر قہقہہ لگا اٹھا۔ موحد کو گمان گزرا کہیں غنی کو کچھ ہو تو نہیں گیا۔
’’میں آپ سے محبت نہ کرتا ہوتا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ نے میری مما کو مارا تھا آج یہاں نہ کھڑا ہوتا ۔ اگر میں آپ سے محبت نہ کرتا ہوتا، تو واپس اِس گھر میں کبھی نہ آتا، جہاں مجھے وحشت ہوتی ہے ۔ جہاں مجھے میری ماں کی وہ دردناک چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔ جہاں میرے کانوں میں ہر وقت آپ کے زہریلے آواز گونجتے رہتے ہیں۔‘‘ موحد نے دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا ہی تھا، جب اگلے ہی پل غنی چلّاتے ہوئے بولا تھا ۔ موحد اپنی جگہ پر ساکت ہوگیا ۔ بالکل ساکت و جامد۔ کمرے کی چھت اُس کے اوپر آن گری تھی۔ اِس زندگی نے مزید اُسے کتنے جھٹکے دینے تھے۔
’’آپ نے میری شخصیت کو تباہ کر دیا بڑی ماما ۔ غنی سعید سے اُس کی ماں چھین لی لیکن پھر بھی میں نے وہ سب بُھلا دیا اور واپس آپ کی محبت میں یہاں آتا رہا لیکن آپ نے ہر بار مجھے ٹھکرایا، ہر بار…‘‘ وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پایا، جب کمرے میں کسی اور کی تیز آواز گونجی۔
’’بس…‘‘
یہ موحد تھا۔ وہ بہت زور سے چلایا تھا ۔ یہ کیسا انکشاف تھا ۔ یہ کیسا راز تھا ۔ غنی کا موبائل اس کے ہاتھ سے کب کا چھوٹ چکا تھا ۔ کمرے میں موجود سابقہ افراد نے ایک دم اُس کی طرف دیکھا ۔ غنی کو تو فوراً چپی لگ گئی لیکن ملیحہ بیگم کا دل دہل گیا ۔
’’کیا موحد نے سب سُن لیا ؟ نہیں… نہیں… ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔‘‘ باہر لاؤنج میں بیٹھے وہ تینوں موحد کے چلّانے پر حیران و پریشان ہو کر اُس کے پیچھے آئے۔
’’موحد…بیٹا، میری بات سُنو!‘‘ ملیحہ بیگم پریشانی سے اُس کی طرف بڑھیں۔
اُس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں وہیں روک دیا۔ سعید صاحب حوریہ اور سحر بھی وہاں آ پہنچے تھے۔ ملازمین بھی لاؤنج میں اکٹھے ہوگئے تھے۔ اور کمرے سے آتی آوازوں پر حیرانی سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے ۔ ایمن کو سحر، بانو کی نگرانی میں چھوڑ گئی تھی جو ہر چیز سے انجان اپنے آپ میں مگن تھی۔
’’اب کہنے سننے کو اور کیا باقی ہے ماما۔‘‘ وہ بے یقین نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا۔
اُس کے ذہن میں کبھی بھی یہ سوچ نہیں آئی تھی کہ اُس کی ماں بھی کسی کی قاتل ہو سکتی ہیں۔
’’نہیں موحد ۔ تمہیں پوری بات نہیں پتا۔‘‘موحد نے انہیں بات پوری کرنے کا موقع ہی نہیں دیا اور تیز آواز میں بولا۔
پیچھے کھڑے وہ تینوں نفوس حیرانی سے معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’بس بھی کریں آپ، چپ کیوں نہیں ہو رہیں۔‘‘ وہ اپنی بات سے انہیں چپ کرا گیا ۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی ۔ ابھی کچھ لمحے پہلے سنی بات، اُس کے دل و دماغ میں جذب ہی نہیں ہو پا رہی تھی یا شاید وہ جذب کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔
’’موحد کیا ہوا ہے بیٹا؟‘‘ سعید صاحب معاملے سے انجان، پریشانی سے پوچھنے لگے۔ چونکہ وہ معاملے سے بے خبر تھے، اسی لیے موحد کو یوں بے یقینی کی کیفیت میں خاموش کھڑے دیکھ کر وہ پریشان ہوگئے تھے۔
’’کچھ نہیں ڈیڈ، بس حقیقت سامنے آ گئی ہے۔‘‘ وہ اُن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
پھر نظریں پھیر کر اپنی ماں پر ٹکا لیں ۔ اُسے وہ وقت یاد آیا جب وہ بڑے فخر سے اپنی حور ماما کی قبر سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا کہ وہ غنی کو ہر خوشی دینے کی پوری کوشش کرے گا ۔ اُس کے ساتھ کچھ بُرا نہیں ہونے دے گا ۔ وہ اُسے مزید محرومیوں میں جینے نہیں دے گا۔ اور وہ کوشش کر رہا تھا، اُس نے غنی کے لیے اب تک بہت کوشش کی تھی اور حوریہ کی یہاں موجودگی اُس کی کوششوں کی گواہی تھی۔ لیکن اب اُسے لگ رہا تھا کہ وہ وعدہ کھوکھلا تھا ۔ اُس نے آج پھر غنی کو تکلیف پہنچا دی تھی۔ نجانے غنی کو پہنچنے والی ہر تکلیف کا ذمہ دار وہ خود کو کیوں ٹھہرانے لگتا تھا۔
’’موحد، پلیز بیٹا۔‘‘ اُسے یوں اجنبی بے یقین نگاہوں سے خود کو دیکھتا پا کر ملیحہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ وہ خاموش کیوں تھا؟ انہیں خوف آ رہا تھا۔ وہ پریشانی سے وضاحت کرنے کی کوشش کرنے لگیں لیکن موحد انہیں اب بھی ٹوک گیا۔
’’کیوں کیا آپ نے ایسا ؟‘‘وہ دھاڑنے والے انداز میں بولا ۔
ملیحہ بیگم لرز کر رہ گئی تھیں ۔ دِل میں اچانک ایک خوف جاگا تھا اور دماغ میں خیال، تو کیا انہیں اپنی صفائی دینے کا موقع ملے گا یا… اِس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہ رہی تھیں۔
کمرے میں موجود باقی افراد اُس کی دھاڑ پر اپنی جگہ دہل گئے تھے ۔ جبکہ سعید صاحب کے ماتھے پر بَل نمودار ہوئے تھے۔ انہیں موحد کا اپنی ماں سے اِس لہجے میں بات کرنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ اِس سے پہلے بات آگے بڑھتی غنی فوراً اپنی جگہ سے آگے آیا۔ سعید صاحب موحد کے اتنے اونچے لہجے پر اُسے کچھ کہنے ہی والے تھے جب غنی گویا ہوا۔
’’کچھ نہیں کیا انہوں نے بھائی ۔ کھانا ہم نے کھا لیا ہے، تو میرا خیال ہے کہ اب ہمیں چلنا چاہیے۔ اللہ حافظ۔‘‘
وہ نظریں چراتے تیزی سے کہہ کر بھاگنے والے انداز میں حوریہ تک پہنچا اور اُسے بغیر کچھ سوچنے، سمجھنے کا موقع دیے، اُس کی کلائی تھام کر کمرے سے باہر نکلنے لگا ۔ اِس سے پہلے وہ قدم دروزے سے باہر نکالتا ایک زوردار آواز نے اُس کے قدم جکڑ لیے ۔ وہ ایک پل کی دیری کیے بغیر حیرت سے مُڑا ۔ اُسے لگا شاید موحد نے غصے میں کہیں خود کو تو نقصان نہیں پہنچا لیا لیکن سامنے زمین پر گِرے اُس کرچی کرچی ہوئے گلدان کو دیکھ کر اُس کی جان میں جان آئی ۔ جہاں سعید صاحب موحد تک پہنچے تھے، وہیں دوسری طرف سحر اپنے دل پر ہاتھ رکھے آنکھوں میں نمی لیے موحد کو دیکھ رہی تھی۔ دِل انجانے خوف سے مسلسل دھک دھک کر رہا تھا۔
’’موحد، یہ کیا حرکت ہے بیٹا؟‘‘ وہ پریشانی سے استفسار کرنے لگے تھے۔ اُس نے آنکھیں اٹھا کر اُن کی طرف دیکھا اور پھر غنی کی طرف۔
’’اگر آج تم یہاں سے باہر نکلے، تو سمجھنا میں تمہارے لیے مر گیا۔‘‘ بات ایسی تھی کہ اُسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ غنی کی آنکھیں ناممکن حد تک پھیل گئیں۔
’’بھائی، یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ وہ حوریہ کو وہیں چھوڑے واپس جانے کا ارادہ ترک کرتے کمرے کے عین وسط میں کھڑے موحد کے پاس آیا۔
موحد کے ماتھے کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔ جو اِس وقت غصے کی زیادتی سے پھٹنے کے قریب تھیں ۔ سعید صاحب ایک طرف خاموش کھڑے تھے۔ انہوں نے اب کی بار کچھ بولنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’تو بتاؤ پھر مجھے کہ ابھی جو تم نے کہا تھا۔ کیا وہ سب سچ تھا؟‘‘ موحد اُس کی آنکھوں میں دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔
غنی فوراً نظریں چرا گیا۔ اسی دِن سے تو وہ ڈرتا تھا ۔ ایک اسی سچ کو تو وہ چھپانا چاہتا تھا لیکن آخر سچ کب تک چھپتا ہے۔ وہ بس ماں بیٹے میں پھوٹ نہیں ڈالنا چاہتا تھا لیکن لگتا تھا آج سچ بتائے بغیر موحد اُسے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دے گا۔
’’اب خاموش کیوں ہو، جواب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘ اُس کی مسلسل خاموشی پر ایک بار پھر موحد نے اُسے بولنے کے لیے کریدا۔
’’جی سچ تھا۔‘‘
ایک سرد سانس ہوا میں خارج کرتے ہوئے غنی نے ملیحہ بیگم کی طرف دیکھا اور انہیں سر جھکائے کھڑا دیکھ کر ایک سانس میں اُس کی تائید کر گیا۔ موحد اپنی جگہ کھڑا بس اُسے دیکھتا رہا۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ بس مسلسل اُس کے چہرے پر نظریں ٹکائے وہیں کھڑا رہا۔ غنی جو کسی زبردست ردِ عمل کا منتظر تھا، حیرانی سے سر اٹھا کر اُسے یوں خاموش کھڑا دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کو تَک رہے تھے ۔ موحد کو یقین نہ آیا کہ اِس سب کے باوجود بھی غنی کو اُس کی ماں سے محبت تھی ۔ وہ اُس کے صبر پر حیران تھا یا اُس کی برداشت پر دنگ تھا ۔ چند پل خاموشی سے یوں ہی سِرکے تو وہ خاموشی سے صوفے پر جا بیٹھا ۔ اپنی ماں کی طرف نظر اٹھائی تو وہ اب بھی وہیں کھڑی تھیں۔
’’میں سچ آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔‘‘ اُس نے یوں ہی انہیں دیکھتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔
وہ بس سر ہلا گئیں۔ وہ صوفے پر بیٹھا تو ملیحہ بیگم بھی اس کے ساتھ ہی آ بیٹھیں ۔ اُن کے دِل و دماغ میں ایک عجیب جنگ چل رہی تھی ۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ یہ سب انہوں نے اپنی اولاد کے لیے ہی تو کیا تھا اور آج اُن کی اپنی اولاد ہی انہیں کٹہرے میں کھڑا کیے، اُن کے گناہ سننا چاہ رہی تھی ۔ لیکن وہ بھول رہی تھیں کہ کسی کا حق چھیننا چاہے وہ پھر اپنی اولاد کے لیے ہی کیوں نہ ہو جائز نہیں۔ کسی کی جان لینا تو پھر بہت بعد کی بات ہے۔ باقی سب سامنے بستر پر بیٹھ گئے تھے۔