ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ
پرندوں کی چہچہاہٹ اِس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ صبح صادق کا وقت آن پہنچا ہے ۔ وہ اِس وقت اپنے بستر پر بیٹھیں گود میں قرآن رکھے ہوئے تھیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے فجر کی نماز ادا کی تھی ۔ تھوڑا سا ہی قرآن پڑھا تھا کہ پھر سے دِماغ میں وہی کل والی باتیں گونجنے لگی تھیں۔ انہوں نے اٹھ کر قرآن مقررہ جگہ پر رکھا ۔ بیڈ پر نظر پڑی تو سعید صاحب کو اپنی جگہ پر ہی دوسری طرف کروٹ لیے ہوئے سوتے پایا۔ نجانے رات کو وہ کس وقت لوٹے تھے ۔ ایک بار پھر کانوں میں وہی بات گونجی ۔ کل دوپہر اُن کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔ موحد کو مسلسل فون کرنے پر بھی کوئی جواب نہ پاکر انہوں نے سعید صاحب کو فون کیا لیکن وہ بھی فون نہیں اٹھا رہے تھے ۔ آخر انہوں نے آفس میں فون کیا تو معلوم ہوا کہ آفس آج بند ہے ۔ ورکرز کو آف ہے کیونکہ غنی سر کا آج نکاح ہے ۔ ریسپشنسٹ کی بات پر اُن کا دِل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا ۔ دوا تو وہ کل ہی سحر کے ساتھ جا کر لے آئی تھیں لیکن جس بات نے اُن کا دِل مزید بدگمان کیا تھا وہ یہ تھی کہ سحر بھی یہ بات جانتی تھی کہ آج غنی کا نکاح ہے ۔ کیا وہ اتنی بے اعتبار تھیں کہ انہیں اِس بات سے بے خبر رکھا جاتا۔ شاید تھیں ہی تب ہی تو کسی نے انہیں بتانے کی زحمت ہی نہ کی تھی ۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ وہ اِس بات سے ہی انجان تھیں کہ غنی اُن کے بیٹے کے ساتھ کمپنی جانے لگا تھا ۔ اور اب دونوں بھائی مل کر کام کرتے تھے ۔ دِل میں اکٹھی ہوئی بدگمانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا ۔ اب انہوں نے ایک نئی ترکیب سوچی تھی ۔
وہ یہ نہیں ہونے دے سکتی تھیں؟ آخر کیسے وہ دیکھتی رہتیں کہ اُن کی اولاد کا حق کوئی دوسرا کھا لے ۔ اور جسے وہ دوسرا گردان رہی تھیں وہ بھی تو کسی کی اولاد ہی تھی۔ باپ تو ایک ہی تھا۔ انہوں نے نہیں جنا تھا، تو کیا اُس کی کوئی ماں ہی نہیں تھی۔ اگر اُس کی ماں دنیا میں نہیں رہی تھی تو اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اُسے ہر حق سے محروم کر دیا جائے۔ وہ واپس بستر پر لیٹ کر آنکھیں موند گئی تھیں۔
٭…٭
’’ڈیڈ ! میں غنی کو ڈنر پر آنے کے لیے کیسے مناؤں گا ؟ پچھلی مرتبہ بھی میں اُسے بڑی مشکل سے منا کر لایا تھا لیکن ماما کی باتوں سے وہ ہرٹ ہو کر واپس لوٹ گیا۔‘‘
موحد اپنے آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا، جب کمرے کی خاموش فضا میں موبائل بجنے کی آواز گونجی ۔ اپنے باپ کا فون دیکھ کر وہ فوراً کام چھوڑتا موبائل کان سے لگا یا۔ انہوں نے جو خبر اُسے دی تھی اُس پر یقین کرنا موحد کے لیے بے حد مشکل تھا ۔ وہ اسی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھا، جب غنی کا خیال اُس کے ذہن میں آیا ۔ اب اُسے حقیقی پریشانی لاحق ہوئی تھی کہ وہ غنی کو کیسے منائے گا۔ اُس کی ماں نے غنی اور اُس کی بیوی کو ڈنر پر انوائٹ کیا تھا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اب پُرانی باتوں کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہتیں ۔ سعید صاحب یہ سب سُن کر بیک وقت حیران اور خوش تھے ۔ انہوں نے اسی خبر کی اطلاع دینے کے لیے موحد کو کال کی تھی۔ اور غنی کو منانے کی ذمہ داری بھی اُس کے سر ہی ڈال دی تھی، جس پر اب وہ مسلسل احتجاج کر رہا تھا۔
’’اِس بات کو تقریباً دو، اڑھائی سال ہو چکے ہیں ۔ وہ اب تک بھول گیا ہوگا۔‘‘ فون کی دوسری طرف سے اُن کا جواب آیا جس پر موحد سرد سانس کھینچ کر رہ گیا۔
’’ڈیڈ، وہ بھولتا کچھ نہیں ہے بس معاف کر دیتا ہے۔ ایسے میں، میں اُسے مناؤں گا کیسے؟‘‘
’’کیا مطلب کیسے مناؤ گے؟ وہ تمہارا بھائی ہے ۔ وہ گھر اُس کا بھی ہے ۔ اگر پیار سے آنے کے لیے نہ مانے تو رعب سے کہنا اور تب بھی نہ سنے تو مجھے فون کر دینا۔‘‘
انہوں نے تیزی سے جواب دے کر کھٹاک سے بغیر اُس کی سنے فون بند کر دیا ۔ پیچھے وہ پریشانی سے ہاتھ مسل کر رہ گیا ۔ یہ تو سچ تھا کہ اگر وہ اُسے رعب سے کہے گا، تو وہ کبھی نہیں ٹالے گا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ موحد سعید کو اب اُس پر رعب جھاڑنا پسند نہیں تھا ۔ وہ کچھ سوچ کر سامنے میز پر کُھلی فائلز کو سمیٹنے لگا۔ انٹر کام سے اپنے پی ۔اے کو بُلا کر فائلز اُس کے حوالے کیں، اُسے پروف ریڈنگ کا حکم صادر کرتا وہ غنی کے آفس کی طرف بڑھا۔
’’لیکن بھائی میں نہیں آنا چاہتا۔‘‘ اِس وقت وہ غنی کے آفس میں بیٹھا تھا ۔ گھر ڈنر پر آنے کے بارے میں وہ اُسے بتا چکا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ خصوصی دعوت اُس کی بڑی ماما کی طرف سے تھی۔ یہ سنتے ہی غنی نے صاف انکار کر دیا۔
’’مگر کیوں؟ اب تو ماما بھی مان گئی ہیں۔ میں تو خود حیران ہوں لیکن جو بھی ہو دیر آئے درست آئے۔‘‘ وہ کرسی کی پشت چھوڑ کر سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔
’’آپ جانتے تو ہیں کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتیں ۔ انہیں میرا وہاں آنا اچھا نہیں لگتا ۔ تو میں کیوں ایسی جگہ پر جاؤں؟ ویسے بھی میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ انہوں نے دِل سے مجھے بُلایا ہے۔ ضرور کوئی اور وجہ ہوگی۔‘‘ وہ سینٹر آفس ٹیبل پر بکھری فائلز کے ایک طرف پڑے پیپر ویٹ کو مسلسل ٹیبل پر گھما رہا تھا ۔ نظریں موحد کی طرف اٹھانے کی زحمت ہی نہ کی تھی۔ جیسے جانتا ہو کہ اُس کی اِس بات سے موحد کو تکلیف ہوگی۔
’’تمہیں کیسے پتا کہ ماما نے تمہیں دِل سے نہیں بُلایا ہوگا؟‘‘ وہ ابرو اچکا کر چیلنج کرنے والے انداز میں بولا تھا۔ لیکن موحد اِس بار بھی غلط تھا۔ غنی سعید کا اندازہ اُن کے بارے میں آج بھی درست تھا۔
’’کیونکہ میں انہیں جانتا ہوں۔ اُن کے دل میں میرے لیے نفرت کی ایک پکی دیوار کھڑی ہے ۔ میں نے اُس دیوار میں بچپن سے لے کر اب تک، اپنی محبت کے بہت سے کیل ٹھونکنے کی کوششیں کی ہیں لیکن میں اب تک ناکام رہا۔ اب میں کیسے مان لوں کہ جب میں نے محبت پانے کی کوشش چھوڑ دی، تو اُن کے دِل میں اچانک سے غنی سعید کے لیے محبت جاگ اٹھی۔ ایسا حقیقت میں نہیں ہوا کرتا بھائی۔ ‘‘ وہ آسودگی سے مسکرا کر کہتا چہرہ پھیر گیا۔
’’تم بھول رہے ہو کہ حوریہ کمال کی محبت بھی تمہیں اچانک سے بغیر جدوجہد کے حاصل ہوگئی ہے۔‘‘وہ کچھ یاد دِلانے والے انداز میں بولا۔
’’محبت نہیں بلکہ حصول کیونکہ محبت صرف میری طرف سے ہے۔ لیکن یہاں بڑی ماما کی طرف سے محبت کی بات ہو رہی ہے۔‘‘ وہ سر نفی میں ہلا کر تصحیح کرتے ہوئے بولا۔
’’تو تم نہیں آؤ گے؟‘‘ وہ جیسے حتمی لہجے میں کُرسی سے اٹھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ یہ آخری تیر تھا۔ اِس کا نشانے پر لگنا بہت ضروری تھا۔
’’آپ چاہتے ہیں کہ میں آؤں؟‘‘ اُس نے سر اٹھا کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا۔
’’اگر میں تمہارا کچھ لگتا ہوا ‘ تو آجانا۔‘‘ یہ تیز لہجے میں ایک میٹھی دھمکی تھی، جو وہ اس کے آفس سے باہر نکلنے سے پہلے دے گیا تھا ۔ تیر اپنی منزل تک پہنچ گیا تھا۔ نشانہ بالکل درست تھا۔ غنی سعید اپنے دِل کو چاہ کر بھی پتھر نہیں کر سکتا تھا۔
٭…٭
رات کی تاریکی میں آسمان پر تاروں کے جھرمٹ میں چاند اپنی ازلی چمک دمک لیے ہوئے تھا ۔ اِس سیاہ تاریکی میں ایک مصروف سڑک پر چلتی گاڑی میں مسلسل خاموشی حائل تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا غنی گاہے بگاہے اپنے پہلو میں بیٹھی سجی سنوری منکوحہ پر نظریں ڈال رہا تھا۔ وہ بغیر کچھ بولے اُس کی اِن حرکتوں پر گود میں رکھی اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ وہ دونوں اِس وقت ڈنر پر جا رہے تھے۔ اُس نے موحد کی بات مان لی تھی۔
’’پیاری لگ رہی ہو۔‘‘ اِس معنی خیز خاموشی کو غنی کی بھاری آواز نے توڑا۔
’’ہیں؟‘‘ خود میں مگن حوریہ اُس کی بات سُن نہ سکی تھی اور آواز پر بھنویں اکٹھی کیے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔
’’میں نے کہا کہ اچھی لگ رہی ہو۔‘‘ اُس نے اپنی بات پھر سے دہرائی۔
’’اچھا۔‘‘
اُس کے تعریف کرنے پر وہ پُر اعتماد اور منہ پر جواب دینے والی لڑکی کو سمجھ نہ آیا کہ اِس بات کا کیا جواب دے، اسی وجہ سے بے اختیار ’’اچھا‘‘ کہہ دیا اور اِس حرف کو بھی لمبا کھینچ ڈالا ۔ وہ اُس کے اِس انداز پر ہنس دیا۔
’’بس اچھا اور کچھ نہیں؟‘‘ وہ شاید اپنی تعریف سننے کا منتظر تھا۔
’’اور کیا؟‘‘ اب کی بار وہ ناسمجھی سے سوال کرنے لگی۔
’’مطلب کہ … چلو چھوڑو پھر کبھی سہی ۔ اب تو پہنچنے والے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا کر سر جھٹک گیا۔
حوریہ اپنے سابقہ مشغلے میں ہی مصروف ہوگئی ۔ اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ لوگ ایک بڑے سے گھر کے سامنے موجود تھے ۔ گاڑی پارک کرکے وہ باہر نکلا اور حوریہ کو ساتھ لیے آگے بڑھا ۔ اِس گھر کو دیکھتے یادداشت کے پردوں پر نجانے کتنے ہی خوشی و غم کے واقعات نمودار ہوئے تھے ۔ جنہیں اب اُسے بُھلانا تھا ۔ داخلی دروازے پر پہنچ کر پہلی ہی گھنٹی پر دروازہ کھول دیا گیا ۔ سامنے موحد کھڑا تھا مسکراتا ہوا۔ جیسے اُسے یقین تھا آج غنی سعید کو آنا ہی تھا، تب ہی تو اُس کے استقبال کے لیے وہ خود دروازے تک آیا تھا۔ ورنہ گھر میں ملازم بھی موجود تھے۔
’’تو کیا میں تمہارے لیے اہم ہوں؟‘‘ وہ محظوظ کن انداز میں مستفسر ہوا تھا۔
’’اگر آپ اہم نہ ہوتے تو میں آج یہاں کھڑا ہوتا۔‘‘ غنی نے بھی شریر لہجہ اختیار کیا۔
موحد نے فوراً سر نفی میں ہلایا ۔ وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس دیے اور ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے گلے لگایا ۔ حوریہ اُن کی باتوں پر کنفیوژ سی کھڑی تھی ۔ البتہ اُن کی کِھلکھلاہٹ پر وہ بھی مسکرا د ی ۔ وہ اِس عمر میں بچوں کی طرح کھلکھلا رہے تھے ۔ شاید اس لیے کہ بچپن میں یوں کھلکھلانے کا موقع ہی نہ ملا تھا ۔ اور اب جب موقع ملا تھا تو بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا تھا ۔ وہ دونوں اندر آگئے تھے ۔ کچن سے آتی کھانوں کی لذیذ خوشبو راہداری سے گزرتے ہوئے اُن کے ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔ اندر آتے ہی بلا اختیار غنی کی نظر اُس جگہ پر گئی جہاں وہ پچھلی مرتبہ کھڑا تھا اور ہاتھ لگنے کی وجہ سے شو پیس نیچے گِر کر کرچی کرچی ہو گیا تھا ۔ اب اُس جگہ پر ایک گلدان پڑا ہوا تھا جس میں مصنوعی پھول پڑے تھے ۔ اُس نے اُس جگہ سے نظر ہٹا کر وسیع لاؤنج کے وسط میں پڑے صوفوں پر نگاہ ڈالی ۔ سامنے ہی بڑے صوفے پر سعید صاحب بیٹھے ہوئے تھے جو اُس کے آنے پر اٹھ کر اُس کی طرف آ رہے تھے ۔ اُن کے پہلو میں ہی موحد کی والدہ بیٹھی ہوئی تھیں جنہوں نے ایک مرتبہ بھی اُس کی طرف نظر نہیں اٹھائی تھی ۔ بلکہ وہ ایمن کے ساتھ لگی ہوئی تھیں ۔ نجانے کیوں لیکن دِل کو کچھ ہوا تھا ۔
سعید صاحب اٹھ کر ان تک آئے ۔ اُسے سینے سے لگایا اور مسکرا کر گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا ۔ حوریہ کے سر پر محبت و شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انہیں لے کر صوفوں کے قریب آ گئے ۔ سعید صاحب نے حوریہ کو اپنی بیوی سے ملوایا ۔ وہ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے، اُس سے ملیں ۔ حوریہ اُن ہی کے ساتھ بیٹھ گئی تھی جبکہ غنی، موحد کے ساتھ بیٹھ گیا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ملازم لوازمات سے بھری ٹرے لے کر آ پہنچے تھے ۔ کولڈ ڈرنکس اور لوازمات کی ٹرے صوفوں کے عین وسط میں پڑی کانچ کی ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے تھے ۔ جبکہ سحر کچن سے کانچ کے گلاسوں کی ٹرے تھامے آ رہی تھی ۔ اُس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر سامنے نہ دیکھا تھا ۔ دِل عجیب کشمکش کا شکار تھا ۔ جب موحد نے اُسے غنی کے نکاح کے بارے میں بتایا تھا تو اُس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ غنی کا نکاح ہوگیا تھا اور انہیں معلوم بھی نہیں تھا ۔
اب وہ عجیب الجھن کا شکار تھی کیونکہ جب سے ملیحہ بیگم نے اُس سے بات کی تھی ۔ اُسے کسی طور سکون نہیں آ رہا تھا ۔ کل ہی انہوں نے سحر کو سمجھایا تھا کہ غنی کی بیوی سے زیادہ بات چیت مت کرے اور نہ ہی دوستانہ رویہ اپنائے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اُس کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کرے گی لیکن اُن کی یہ بات اُسے الجھا گئی تھی۔ وہ اُس وقت تو خاموش بیٹھی سُنتی رہی تھی لیکن اب کافی کنفیوژ تھی کہ اُسے کیسا رویہ رکھنا چاہیے ۔ اُس نے کانچ کے گلاسوں کی ٹرے پر سے نظریں اٹھائیں، تو سامنے کے منظر کو دیکھتے سانس سینے میں ہی اٹک گیا ۔ کیا دعائیں اتنی جلدی پوری ہو جاتی ہیں۔
ایک دم پورے لاؤنج میں زوردار آواز پیدا ہوئی ۔ چھناکے کی آواز کے ساتھ سب گلاس ٹوٹ گئے، کیونکہ سحر کے لرزتے ہاتھوں سے بے دھیانی میں ٹرے چھوٹ گئی تھی ۔ لاؤنج میں خاموشی چھا گئی ۔ سب کی نظریں سحر کی طرف اٹھیں ۔ موحد پریشانی سے اٹھ کر اُس کا نام پکارتا اُس کی طرف آیا ۔ سعید صاحب بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن وہ وہیں ساکت و جامد کھڑی تھی جیسے پیروں میں زنجیریں آن پڑی ہوں ۔ آنکھیں اُس سنہری لباس والی لڑکی کے چمکتے روشن چہرے پر جمائے ۔ وہ کتنا بدل گئی تھی۔ بال بھی اب گھنگھریالے نہیں رہے تھے۔