مکمل ناول

ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ

زندگی بھی کتنی غیر یقینی ہے۔ بعض دفعہ آپ زندگی کے اُس مقام پر کھڑے ہوتے ہیں، جہاں تک پہنچنا کبھی آپ کے لیے ناممکنات میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ بعض دفعہ یہ آپ کو ایسے حالات سے دوچار کرتی ہے، جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ زندگی تو بہت سے ناممکنات کا ڈھیر ہے۔ معلوم ہی نہیں کب ناممکن آپ کے سامنے ممکن بن کر کھڑا ہو جائے اور آپ کو تکنے لگے۔ جیسے حالات بھی آپ کا مذاق اڑا رہے ہوں کہ دیکھ انسان! جسے تو ناممکن سمجھتا تھا، رب نے اُسے ممکن بنا کر تیرے سامنے لا کھڑا کیا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ زندگی ناممکنات کا ڈھیر ہے۔ حوریہ کمال اب تک یہ تو جان ہی گئی تھی کہ اِس دنیا میں ممکن اور ناممکن پر بحث کرنا، سب سے فضول کام ہے ۔ لیکن اب جو بات تھی وہ تھی اتفاق کی یا یہ کہا جائے کہ نصیب کی ۔ کیا نصیب کے کھیل اتنے دلچسپ ہوتے ہیں ؟ کیا اتفاقات اتنے حسین ہوتے ہیں؟ اگر نہیں ہوتے تو اُس کی زندگی میں ایسا حسین اتفاق کیسے ہوگیا تھا۔ کیا زندگی ناممکنات کے ساتھ ساتھ اتفاقات کا بھی ڈھیر ہے ؟ شاید ہے ۔
اُس نے جس شخص کو کبھی سوچا ہی نہ تھا، آج وہ اُس کی ملکیت تھی ۔ وہ تو محض ایک اجنبی تھا لیکن آج اجنبیت کی دیوار پھلانگ کر اُس کا سب سے قریبی رشتہ بن چکا تھا ۔ حوریہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا ’’عبدالغنی سعید‘‘ کے ساتھ سے ۔ اُسے اعتراض ہوگا بھی کیوں ۔ بلکہ اُسے تو ڈر تھا اپنی قسمت سے ۔ یہ اچانک قسمت اُس پر اتنی مہربان کیسے ہوگئی تھی ۔ یا شاید قسمت نہیں تھی جو مہربان ہوئی تھی ۔ یہ قدرت تھی ۔ اور وہ تو ہمیشہ سے ہی مہربان تھی ۔ وہ اِس وقت آئینے کے سامنے کھڑی اپنا سجا سنورا روپ دیکھ رہی تھی ۔ ابھی کچھ دیر پہلے سمیرا اُسے چھیڑتی ’’اُس‘‘ شخص کے آنے کا پیغام دے کر گئی تھی جس سے تھوڑی دیر پہلے ہی نصیب جڑا تھا ۔ آئینے میں اپنے سجے سنورے عکس کو دیکھتی وہ نجانے سوچوں کی کس وادی میں سفر کرنے نکل پڑی تھی ۔ اِس سفر میں خللّ ڈالنے والی آواز اُسی شخص کی تھی، جو اُس کی سوچوں کا محور تھا ۔ اُس کی آواز پر حوریہ نے گردن موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ اُسے گردن موڑنے کی بجائے سر جھکا لینا چاہیے تھا۔ مگر وہ خود کو پُر اعتماد ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ وہ وہیں کھڑا تھا بالکل پہلے کی سی وجاہت کے ساتھ مگر چہرے پر رونق اضافی
’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں مس… میرا مطلب ہے مسز غنی ؟ ‘‘
وہ تقریباً مکمل اندر آ چکا تھا۔ اب اُس کی خاموشی پر اجازت طلب کرنے لگا۔ پہلے زبان ’’مس‘‘ خطاب پر اٹک کر رہ گئی ۔ وہ اُسے عادتاً اُسی فارمل انداز میں مخاطب کرنے والا تھا، جس انداز میں آفس میں کیا کرتا تھا۔ لیکن پھر کچھ دیر پہلے ہوئے نکاح کو یاد کرتے مسکرا کر شریر لہجے میں اپنا نام جوڑ کر اُسے بُلایا ۔ اب کی بار حوریہ سر جھکا گئی۔ گالوں پر سُرخی نمودار ہوئی تھی۔ جسے سر جھکانے پر آگے آنے والے اُس کے بالوں نے چھپا
’’تم نے بتایا نہیں؟‘‘ وہ آج ہی سارے تکلف ختم کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا۔ ’’آپ ‘‘سے ’’تم‘‘ تک کا سفر بھی لمحوں میں طے کیا۔
’’آپ پہلے ہی اندر آ چکے ہیں سر۔‘‘ اُس نے دھیمے سے کہہ کر رُخ موڑ لیا ۔ وہ خجل سی ہو رہی تھی ۔ سارا اعتماد دھواں بن کر اڑ گیا تھا ۔ اُس کے جواب پر دروازہ بند کرتا غنی ہنس پڑا۔ حوریہ کا یوں شرمانا دیکھ کر اُسے ہنسی آ رہی تھی ۔ آفس میں تو اُس کا شمار اپنے کام سے کام رکھنے والی بیزار مخلوق میں سے ہوتا تھا ۔ اور کبھی ہی وہ کسی بات پر ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی تھی ۔ اسی لیے یہ انداز حیران کُن تو تھا۔
’’تو کیا تم مجھے ابھی بھی ’’سر‘‘کہہ کر مخاطب کرو گی؟‘‘ اُس نے اندر آ کر اُس سے دو قدموں کے فاصلے پر کھڑے ہوتے، اُس کے سر کہنے پر چوٹ کی ۔ اگرچہ انداز اور لہجہ شریر ہی تھا۔
’’نہیں وہ… میرا مطلب ہے… غن… مطلب کہ سر…‘‘ وہ ایک دم بوکھلا کر نجانے کیا بولتی جا رہی تھی۔
’’ریلیکس ! کیا ہو گیا ہے؟ کچھ نہیں ہوتا ۔ آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی۔‘‘
اُس کی بوکھلاہٹ پر غنی کی ساری شوخی و شرارت ہوا ہوئی ۔ وہ اُس کی دونوں کلائیاں تھام کر اُسے چپ کرا گیا ۔ اُس کے کلائیاں تھامنے پر تن کا سارا خون چہرے پر آ سمایا ۔ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ ماتھا پٹی سِرک کر ایک طرف ہوچکی تھی۔
’’میں نہیں جانتا کہ مجھے آج کیا کیا کہنا چاہیے ؟ یا یہ سمجھ لو، میری حیرانی اور خوشی نے مجھ سے میرے سارے لفظ سلب کر لیے ہیں ۔‘‘اُس نے نظر اٹھا کر اُس کے سجے سنورے چہرے کی طرف دیکھا۔
’’مجھے آج تک یہ معلوم ہی نہ تھا کہ انتہائی خوشی میں انسان کے پاس لفظوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے یا اُس خوشی کا اظہار ہی نہیں ہو پاتا ۔ شاید اس لیے کہ آج سے پہلے میں کبھی مکمل خوش ہوا ہی نہ تھا۔‘‘
حوریہ کا جھکا ہوا چہرہ ، اُس کی اِس اداس سی بات پر ایک دم اٹھا تھا ۔ وہ مسکرا رہا تھا لیکن آنکھیں، وہ اتنی اداس کیسے ہو گئی تھیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو آنکھیں بھی مسکرا ہی رہی تھیں ۔ اگر کوئی دوسرا دیکھتا تو شاید اِس مسکراتے چہرے پر سجی اداس آنکھوں پر غور نہ کر پاتا۔ لیکن وہ حوریہ تھی۔ ایک عام سی سادہ سی لڑکی، جسے اداسی اور اُسے چھپانے کے فن سے آگہی تھی۔ وہ بھی تو نجانے کتنے ہی دُکھوں کو ایک مسکراہٹ سے چھپا دیا کرتی
’’لیکن خیر وہ رب ہے ناں ۔ وہ اپنے بندوں کو کسی بھی چیز سے محروم نہیں رکھتا ۔ بس ہر چیز کا، ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ۔ ایسے ہی اُس نے مجھے بھی مکمل خوشیوں سے محروم نہیں رکھا ۔‘‘ یہ بات اُس کی اب تک کی پوری زندگی کا خلاصہ تھی ۔ وہ اللہ سے تو کبھی شکوے شکایات کرتا ہی نہیں تھا، بس اپنے باپ سے کیا کرتا تھا۔ اپنی محرومیاں انہیں گنوایا کرتا تھا۔ لیکن شاید اللہ نے اُس کی اپنے باپ سے کی گئی باتوں کو بڑے غور سے سنا تھا اور اُس کی محرومیوں کو اِس طرح دور کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ ہنس دیا۔ نجانے کیوں لیکن اِس سوچ نے اُسے ہنسا دیا۔ اندر تک اترتی ہنسی۔ حوریہ بس حیرت سے اُس کے پل پل بدلتے تاثرات دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ بھی تاثرات چھپانے کے فن سے آگہی رکھتا تھا؟
’’میں کوئی وعدہ نہیں کروں گا۔ کوئی قسم نہیں کھاؤں گا۔ کوئی فلمی ڈائیلاگ بھی نہیں بولنا چاہتا لیکن بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم میری اب تک کی زندگی کی وہ خوشی ہو جو مجھے مکمل ملی ہے اور وہ بھی تحفے میں ۔ تم میری وہ محبت ہو، جسے میں دِل میں دفن کرنے کا ارادہ کیے بیٹھا تھا۔ تم میری زندگی کا وہ حاصل ہو جسے میں نے بغیر جدوجہد کے پایا ہے۔‘‘
ایک فسوں تھا، جو اُس کی باتوں سے پورے ماحول کو اپنے حصار میں جکڑ گیا تھا ۔ اور وہ اِس فسوں میں کچھ ایسے قید ہوئی تھی کہ نجانے کب وہ اور بھی باتیں کہہ کر اُس کی کلائی پر خوبصورت بریسلیٹ پہنا کر چلا گیا تھا اور اب تک وہ اُنہی باتوں کے سحر میں جکڑی جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی تھی ۔ جیسے وقت رُک گیا ہو ۔ جیسے سوچوں کو ایک نیا دلچسپ پہلو مِل گیا ہو ۔ جیسے دِل کو تیز رفتار پر دھڑکنے کی کوئی نئی بیماری لاحق ہو گئی ہو۔ جیسے سانسوں کو مسلسل بے ترتیبی کا حکم سنا دیا گیا ہو۔ اور اس جیسی بہت سی تمثیلیں تھیں لیکن جذبوں کی عکاسی تو لفظوں سے مکمل ہو ہی نہیں پاتی۔ یہ مکمل عکاسی تو آنکھیں اور تاثرات کرتے ہیں۔
اور اسی عکاسی کے لیے وہ بستر پر دھپ سے بیٹھی سامنے موجود ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں ایک بار پھر خود کو دیکھنے لگی تھی۔ نجانے کب آپ کو قدرت انمول تحفوں سے نواز دیتی ہے کہ آپ کو خبر ہی نہیں ہو پاتی۔
٭…٭
’’کمال! آپ حوریہ کے لیے خوش ہیں؟‘‘
دِن کے سب اہم کام نمٹا کر اب انہیں سارے وقت میں سکون سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ آج سب ہی صبح سویرے کے جاگے ہوئے تھے، اسی لیے اپنے اپنے کمروں میں سو چکے تھے۔ حوریہ کو سوتا دیکھ کر ہی اب مسز کمال خود بھی سکون سے اپنے کمرے میں آئی تھیں۔ اِس وقت وہ بستر پر بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کو مخاطب کیا۔
’’خوش؟ میں اِس وقت جو محسوس کر رہا ہوں، اُسے محض خوشی کا نام دینا بہت کم ہوگا۔‘‘ وہ مسکرا کر اپنی بیوی کی طرف رُخ موڑ کر بولے تھے ۔ اُن کی مسکراہٹ دیکھ کر مسز کمال بھی مسکرا دی تھیں۔
’’تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ میں رب کا کتنا شکر گزار ہوں ۔ پچھلے کئی برسوں سے دِل میں اتنی بے چینیاں تھیں کہ کسی پل سکون میسر نہیں آتا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اتنے سالوں سے کسی معصوم کے ساتھ زیادتی کرکے سکون کی تلاش کر رہا تھا۔‘‘ وہ افسردہ لہجے میں انہیں دیکھتے ہوئے بولے تھے۔
’’لیکن میرے اللہ نے اِس سب کے بعد بھی مجھے اتنی خوشی دے دی ۔ مجھے میری حور کے بیٹے سے ملا دیا۔ مجھے ایک اور موقع دے دیا کہ میں اپنے گناہ کی تلافی کر سکوں۔ تم نہیں جانتی رقیہ کہ اُس بچے سے بات کر کے میرے دِل کی کیا حالت تھی۔‘‘ وہ نہایت غم سے بولے تھے۔
’’کیا زندگی کے اتنے برس ساتھ گزارنے کے بعد بھی آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کے دِل کی حالت سے انجان ہوں گی؟‘‘ مسز کمال کے سوال پر وہ ہنس دیے۔
’’نہیں۔ تم جانتی ہی ہوگی ۔ کیونکہ تم تو حور کو مجھ سے بھی بہتر جانتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اُس وقت سے لے کر بغیر سچ جانے بھی اُسے کبھی غلط یا بُرا بھلا نہیں کہا تھا۔‘‘ وہ آسودہ سی مسکراہٹ لیے بولے تھے۔
’’وہ اس لیے کیونکہ میں بھی تو ایک عورت ہوں۔ دوسری عورت کے لہجے اور اُس کے چہرے کو پرکھ سکتی ہوں۔‘‘
’’ہاں لیکن میں تمہیں ایک بات بتاؤں میں بھی تو مرد ہوں۔ دوسرے مرد کے لہجے اُس کی نظریں اور اُس کے تاثرات پہچان سکتا ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج حور کے بیٹے کے چہرے کو پرکھا تھا۔‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے تھے ۔
اِس پہچان کے باوجود کئی برس پہلے وہ ایک مرد کو پہچان نہیں سکے تھے ۔ شاید نیتوں کی شناخت کرنا رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
’’رقیہ ! وہ بچہ بالکل حور جیسا ہے ۔ بلکہ حور سے بھی زیادہ گہرا ، بند … میں کہتا تھا کہ حور اپنی باتیں کسی کے ساتھ کیوں نہیں کرتی، اپنی خواہشیں نہیں بتاتی، کوئی فرمائشیں نہیں کرتی لیکن آج اُس بچے کے ساتھ کچھ گھنٹے گزار کر مجھے اِس سوال کا جواب بھی مل گیا۔‘‘ وہ اپنی گود میں نظریں جمائے کہہ رہے تھے۔ حور کا ذکر اُن کی آنکھوں میں نمی کا باعث بن رہا تھا۔ اور جھکا سر اِسی نمی کو چھپانے کا ایک پرانا حربہ تھا۔
’’سعید نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا کہ کیسے اُس کی دوسری بیوی اور بچوں نے حور اور غنی کے ساتھ بُرا رویہ رکھا تھا ۔ کیسے اُس نے حور کو الگ گھر لے کر دیا تھا لیکن حور کے اصرار پر وہ دوبارہ اُس کے ساتھ پچھلے گھر میں ہی آ گئے تھے کیونکہ حور کسی کا حق چھیننا نہیں چاہتی تھی ۔ کیسے اُس کی بیوی نے وہ گھر اور کمپنی زبردستی اپنے اور اپنے بچوں کے نام کروا لی تھی لیکن اِس سب کے باوجود بھی آج اُس بچے کی زبان پر ایک بھی گِلا شکوہ یا کسی کے لیے بھی شکایت نہ تھی۔ جانتی ہو کیوں؟‘‘ نمی کو اندر دھکیل کر وہ سر اٹھا کر اُن سے پوچھنے لگے۔ وہ سر نفی میں ہلا گئیں۔
’’کیونکہ اُس کی ماں کو بھی صبر کرنا آتا تھا اور اُسے بھی ۔ وہ دونوں ہی اِس فن سے باخوبی واقف تھے ۔ جانتی ہو غنی نے آج مجھ سے کیا کہا؟‘‘ وہ ایک ابرو اچکا کر مستفسر ہوئے۔
’’جب آپ کو معلوم ہے کہ میں نہیں جانتی تو پھر بار بار جانتی ہو، جانتی ہو کہنے کا مقصد؟‘‘ اُن کی بار بار ہر بات میں ’’جانتی ہو‘‘ کی تکرار سُن کر وہ بھنویں اکٹھی کیے مسکرا کر بولیں ۔ وہ قہقہہ لگا اٹھے۔ یہ ایک طریقہ تھا مسز کمال کا، اُانہیں رنجیدگی سے باہر نکالنے کے لیے،چہرے پر مسکان لانے کے لیے۔
’’اچھا چھوڑو ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ آپ میرے ماموں ہیں لیکن میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں ۔ کہہ رہا تھا کہ میں کبھی بھی حوریہ پر اِس بات کا شک نہ کروں کہ وہ آفس میں ہی کوئی چکر چلائے ہوئے تھی ۔ یہ سب اُس کی طرف سے تھا۔ حوریہ تو واقف بھی نہ تھی۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’کہہ رہا تھا کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی دوسرے، تیسرے انسان کی باتیں سُن کر آپ کبھی بھی اپنی بیٹی پر شک مت کیجیے گا کیونکہ اُس پر شک کرنا، آپ کی اپنی تربیت پر شک کرنا ہوگا۔ اور اُس کی اِس بات نے مجھے یہ باور کروا دیا کہ اللہ نے مجھے حور کے بدلے ایک بیٹے سے نواز دیا ہے ۔ جو بالکل میری حور کا عکس ہے۔ ‘‘ لہجے میں خوشیاں گُھلی ہوئی تھیں۔ اِس لمحے انہیں وہ سب یاد آ گیا تھا کہ کئی برس پہلے انہوں نے حور پر نہیں بلکہ اپنی تربیت پر انگلی اٹھائی تھی ۔ کئی برس پہلے انہوں نے صرف حور پر نہیں بلکہ اپنی تربیت پر بھی اعتبار نہیں کیا تھا۔ اور ہر چیز کے باوجود ماضی میں کیے اِس عمل پر اُن کا ضمیر شرمندہ تھا۔ نادم تھا۔ پچھتاوے کے گہرے تالاب میں غوطے لگا رہا تھا۔
’’میں حیران ہوں کہ اُس نے مجھ سے ایک بار بھی یہ نہیں پوچھا کہ میں اگر اُس کی ماں کا بھائی ہوں تو اب تک کہاں تھا ۔ اُن سے ملنے کیوں نہیں آتا تھا؟‘‘ اب کی بار اُن کی آواز بہت دھیمی تھی۔ انداز خود کلامی کا سا تھا۔ رات یوں ہی بیت جانی تھی۔ وقت تو ہمیشہ کی طرح گزر ہی رہا تھا۔
٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page