ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ
’’اُس نے میرا نمبر کسی لڑکے کو دے دیا تھا جو مسلسل مجھے تنگ کرتا تھا ۔ اور ایک دن وہ میرے گھر ہی پہنچ گیا ۔ میری امی ہی صرف اُس وقت گھر پر موجود تھیں ورنہ نجانے کیا ہو جاتا۔ اور اُس دن کے بعد سے میں نے اُس سے دوستی ختم کر دی اور پھر کبھی اُس سے نہیں ملی ۔ وہ کیسے سب جانتے بوجھتے میرے ساتھ ایسا کر سکتی تھی۔‘‘ وہ بات کے اختتام پر مزید سر جھکا گئی تھی۔ آنسو آنکھوں کی دیوار پھلانگ کر رُخساروں پر سفر کرنے لگے تھے۔ موحد یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اِس پورے واقعے میں سحر کا الزام لگانا کہاں پر آتا تھا۔
’’تمہیں کس نے بتایا تھا کہ اُس لڑکے کو تمہاری دوست نے نمبر دیا تھا؟‘‘ اُس نے اپنی الجھن کو سوال کی صورت میں پیش کیا۔
’’امی نے اُس لڑکے سے پوچھا تھا اور اُس کا کہنا تھا کہ میری دوست نے اُسے میرا نمبر اور گھر کا ایڈریس دیا تھا۔ میری دوست تو بس وہی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے غصے میں اُس کے گھر جا کر اُسے بہت باتیں سنا دیں۔ لیکن اب اپنی اُنہی باتوں پر مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ وہ اپنی نم آنکھوں کو بند کر گئی۔
’’آپ سوچ رہے ہوں گے کہ غلط اُس نے کیا تھا لیکن میں خود کو غلط سمجھ رہی ہوں جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ وہ کبھی غلط تھی ہی نہیں ۔ وہ تو اُس لڑکے کو جانتی بھی نہیں تھی ۔ میرا نمبر اور گھر کا پتہ دینا تو دور کی بات ۔ اور یہ حقیقت مجھے بہت دیر بعد معلوم ہوئی تھی ۔ لیکن تب میرے پاس وہ نہیں رہی تھی ۔ میں نے اُسے کھو دیا ۔ اپنے کیے وعدے خود ہی توڑ دیے۔‘‘ وہ سسکنے لگی تھی۔ اور موحد محض آگے بڑھ کر اُس کے سسکتے وجود کو تھام گیا تھا۔ وہ اور کیا کر سکتا تھا۔ یہ اُس کی کہانی تھی۔ اِس میں موحد کا کردار کہیں نہیں تھا۔
’’سحر، ہم سب اپنی زندگیوں میں کبھی نہ کبھی ایسی غلطیاں ضرور کرتے ہیں جنہیں اگر وقت پر سدھارا نہ جائے تو وہ ہمیں پچھتاووں کی چار دیواری میں قید کر دیتی ہیں ۔ لیکن ہر قید سے رہائی ممکن ہے۔ رہائی کی ایک راہ ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔‘‘
’’مجھے بھی پہلے وہ راہ نہیں دکھتی تھی لیکن اب مجھے وہ راہ دکھائی دینے لگی ہے ۔ یہ مسلسل تلاش کا نتیجہ ہے ۔ میں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا اُس تک پہنچ رہا ہوں تاکہ خود کو اِن پچھتاووں سے نکال سکوں ۔ تم بھی اِس چار دیواری سے نکلنے کے لیے دروازہ تلاش کرو ۔ اپنے دل کو اِن کی قید سے خود رہائی دلواؤ۔‘‘ وہ اُس کی نم آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولتا گیا۔
’’لیکن کیسے؟ مجھے اگر معلوم ہوتا تو میں بہت پہلے ہی کچھ کر چکی ہوتی ۔ پہلے میں نے اُسے بلاک کر دیا تھا ۔ اور اب شاید وہ نمبر تبدیل کر چکی ہے ۔ میں اُن کے گھر بھی گئی تھی لیکن اب وہ وہاں نہیں رہتے۔ مجھے نہیں معلوم میں کیا کروں۔‘‘ وہ ایک بار پھر رو پڑی تھی۔
’’دعا کرو ۔ دعائیں وہ کچھ کر دیتی ہیں جو ہم انسان نہیں کر پاتے ۔ ہم فرش والے، عرش پر جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن یہ دعائیں عرش تک اور عرش والے تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘
سحر بھیگی آنکھوں سے اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ زندگی نے اُسے اِس شخص کی صورت میں ایک خزانہ دیا تھا۔ وہ تو شاید اُسے ڈیزرو بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔ اور وقت نے انہیںہمسفر کے ساتھ سے نواز دیا تھا۔ کچھ لمحے کمرے کی فضا میں خاموشی چھائی رہی جسے موبائل کی گھنٹی نے توڑا۔ وہ اُس سے پیچھے ہٹ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اپنے فون کی طرف بڑھا۔ جبکہ سحر گال صاف کرتی ناشتے کے خالی برتن اٹھانے لگی۔
’’اور ہاں اب رونا نہیں ۔ رونا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا ۔ ویسے بھی ایمن کی ماما مجھے روتے ہوئے بالکل اچھی نہیں لگتی۔‘‘وہ خالی برتن ٹرے میں رکھے کمرے سے نکلنے ہی والی تھی، جب اُسے پیچھے سے موحد کی آواز سنائی دی، جو اُس نے فون اٹھانے سے پہلے اُسے شرارت سے کہی تھی۔ چہرے پر ایک خوب صورت مسکان پھیل گئی۔ وہ سر جھٹکتی آگے بڑھ گئی۔
’’وعلیکم السلام! ہاں غنی…‘‘ دوسری طرف سے سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ گفتگو میں مصروف ہو گیا۔ فون غنی کا تھا جو اُس سے آفس نہ آنے کی وجہ پوچھ رہا تھا۔
’’غنی آج کسی وجہ سے میں نے چھٹی کر لی۔ تمہیں بعد میں سب بتاؤں گا۔‘‘ وہ کمرے سے نکل کر ٹیرس میں آ گیا۔
’’لیکن بھائی، آج دوپہر میں ہماری سیف کے ساتھ میٹنگ ہے۔ آپ کو یاد ہے ناں؟‘‘ وہ کچھ تشویش سے بولا تھا۔
’’ہاں، ہاں، مجھے یاد ہے۔ میں سیدھا میٹنگ وینیو پر پہنچ جاؤں گا تم بے فکر رہو۔‘‘ وہ اِس میٹنگ کے بارے میں تو بھول ہی گیا تھا ۔ ابھی غنی کے یاد دِلانے پر جیسے اُس کے سر پر دھماکا ہوا تھا ۔ پچھلے کچھ دِنوں سے وہ اِنہی سب مسئلوں میں پڑا ہوا تھا کہ میٹنگ کو تو وہ بھول بیٹھا تھا۔ لیکن ابھی سر کھجاتا ہوا وہ غنی کو تسلی کروا رہا تھا کہ وہ بالکل تیار ہے۔ فائلز تو اُس نے پہلے سے ہی تیار کر رکھی ہیں۔ فون بند ہونے پر اُس نے سکون کا سانس لیا۔
’’نجانے آج کتنے جھوٹ بُلوائے گی یہ زبان۔‘‘ وہ اپنے جھوٹوں کی لمبی لسٹ کے بارے میں سوچتا، اپنی زبان کو کوستا اندر کمرے میں چلا گیا۔ اب اُس کے لیے سب سے اہم کام میٹنگ کی تیاری کرنا ہی تھا۔
٭…٭
’’اگر حور گھر سے نہیں بھاگی تھی تو اس کا مطلب…‘‘ کمال صاحب نے سرگوشی نما آواز میں کہہ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ اُن کی نظریں سامنے بیٹھے شخص پر تھیں۔ اُس شخص کا چہرہ دیکھتے اب آنکھوں میں جہاں بھر کی ندامت آ سمائی تھی۔ وہ اب تک اُسے کتنا غلط سمجھتے رہے تھے۔
’’اِس کا مطلب تم نے اُس سے میرے سرد رویے پر نکاح کیا تھا مطلب وہ اپنی مرضی سے…‘‘ وہ ایک بار پھر بولے تو آواز کسی گہری کھائی سے آتی معلوم ہوئی۔ وہ اب کی بار بھی اپنا جملہ مکمل نہیں کر پائے تھے۔ سعید صاحب نے سر اثبات میں ہلا کر اُن کی بات پر یقین کی مہر لگا دی۔ اُن کا سر ہلانا تھا کہ کمال صاحب کے کندھے جھک گئے۔ جیسے نجانے کتنا بوجھ اُن کے شانوں پر لاد دیا گیا ہو۔ وہ آنکھیں میچ گئے۔ دِل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔ شاید ندامت نے یا شاید پچھتاوے نے لیکن جس نے بھی جکڑا تھا، گرفت بے حد سخت تھی، بے انتہا تکلیف دہ، ایسی تکلیف جو اعصاب پر بہت بھاری پڑ رہی تھی۔ مختلف پراگندہ سوچیں انہیں اپنے حصار میں جکڑنے لگیں۔ حور کی چیختی احتجاج کرتی آوازیں سماعت سے ٹکرانے لگیں۔
’’زندگی میں ہر حادثہ بُرا نہیں ہوتا ۔ کچھ حادثے بہت خوب صورت ہوتے ہیں ۔ اور میری زندگی میں بھی حور کا آنا ایک خوبصورت حادثہ تھا۔‘‘ سعید صاحب نے نجانے کس احساس کے زیرِ اثر یہ بات کہی تھی۔ شاید یہ سامنے بیٹھے شخص کی ندامت کم کرنے کی ایک کوشش تھی۔
’’تم پہلے سے شادی شدہ تھے ۔ تمہاری بیوی، بچے انہوں نے حور کو…‘‘ وہ شکستگی کا شکار جو پوچھنا چاہ رہے تھے، سعید صاحب ایک پل میں سمجھ گئے۔ انہوں نے کمال صاحب کی بات کاٹ دی۔
’’اُس نے حور کو کبھی قبول نہیں کیا تھا ۔ بلکہ اپنی ماں کی دیکھا دیکھی میرے بچے بھی حور سے نفرت کرنے لگے تھے۔‘‘ ایک تلخ مسکراہٹ اُن کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ دل اُن کا بھی دور اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔
’’اور مجھے زندگی بھر یہی افسوس رہے گا کہ میں حور کو وہ سب نہیں دے سکا جو اُس کا حق تھا ۔ شاید اس لیے کہ میں ایک بزدل شخص ہوں ۔ میں اپنے بچوں کو نہیں کھونا چاہتا تھا ۔ اور میری اِسی بزدلی نے حور کو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور کر دیا۔‘‘ سعید صاحب کی بات پر کمال صاحب آہ بھر کر رہ گئے۔
اُس وقت پر سخت پچھتاوا ہوا جس وقت وہ کسی اور کی باتوں میں آ گئے تھے اور اپنی بہن کو خود ہی خود سے دور کر بیٹھے ۔ محض ایک پرائے شخص کی باتوں نے انہیں کس قدر اندھا کر دیا تھا۔ نجانے اُس نے کیسے یہ زخم سہے ہوں گے۔ نجانے اُس نے کیسے خود کو سنبھالا ہو گا۔
’’کاش! میں وقت میں واپس لوٹ کر سب ٹھیک کر سکتا ۔ ایک غلط فہمی نے مجھ سے میرا انمول رشتہ چھین لیا ۔‘‘کمال صاحب کی آواز رنجیدگی سے لبریز تھی۔
افسوس وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا ۔ باقی رہ جاتا ہے انسان اور اُس کے نہ ختم ہونے والے پچھتاوے۔ اگر یہ دنیا ایک فینٹسی لینڈ ہوتی تو شاید انسان کسی ٹائم مشین میں سفر کر کے وقت میں واپس لوٹ جاتا ۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ دنیا ایک حقیقت ہے۔ کسی کے لیے ایک تلخ حقیقت، بالکل موت کی طرح اور کسی کے ایک خوب صورت حقیقت بالکل زندگی کی طرح۔
’’محض غلط فہمیاں ہم سے ہمارے رشتے دور نہیں کرتیں ۔ یہ ہم خود ہوتے ہیں، جو اُن غلط فہمیوں کو بنیاد بنا کر بڑے بڑے فیصلے سنا دیتے ہیں ۔ بغیر حقیقت جانے بغیر کسی کو صفائی دینے کا موقع دیے۔‘‘ اُن کی بات پر کمال صاحب نے ندامت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھا ۔ اِس بات کا اشارہ واضح طور پر انہیںخود پر محسوس ہوا ۔ ہاں انہوں نے ہی تو برسوں پہلے ایک ظالمانہ فیصلہ سنا دیا تھا جس نے اُن سے اُن کی بہن کو دور کر دیا۔
’’تو اب میں کیا کروں ۔ حور تو مجھے معاف کیے بغیر ہی ہم سے ہمیشہ کے لیے روٹھ کر چلی گئی۔ میں اب اپنی ذات کو کیسے اِس پچھتاوے سے باہر نکالوں گا۔‘‘ کافی دیر سے روک رکھے گرم سیال کو انہوں نے آنکھوں سے بہنے کی اجازت دے دی۔ آنسو لڑھک کر گال پر سے اُن کی جھولی میں گرنے لگے۔ داغِ ندامت کا بوجھ لیے دل کے راستے سے تیر کر آتے اشکِ ندامت۔
’’حور نہیں ہے تو کیا ہوا۔ حور کی اولاد تو ہے ناں۔‘‘
سعید صاحب اُن کے آنسوؤں پر نظریں چرا گئے۔ وہ انہیں رُلانا نہیں چاہتے تھے ۔ اگر حور ہوتی تو وہ کبھی ایسا نہ ہونے دیتی لیکن وہ حور نہیں تھے ۔ کئی برسوں سے اُن کے لیے جو دِل میں تلخی چھپی بیٹھی تھی، وہ اب لہجے سے عیاں ہو رہی تھی ۔ وہ کوشش کر رہے تھے کہ اُن کی باتیں کسی چابک کی طرح انہیںتکلیف نہ دے لیکن شاید ایسا ممکن نہ تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اُن کی بات پر وہ ناسمجھی سے استفسار کرنے لگے۔
’’آپ کو کیا لگتا ہے کہ آج میرا آپ سے ملنا کوئی اتفاق تھا؟‘‘ اُن کی بات پر کمال صاحب کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات چھائے۔
’’ہاں لیکن تمہیں میرے گھر کا پتا کہاں سے ملا؟‘‘ وہ ابھی بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ شاید اُن سے ہی ملنے آئے تھے۔ اُن کے سوال پر سعید صاحب مسکرا کر سر نفی میں ہلانے لگے۔
’’میں آپ سے ملنے تو آیا ہی نہیں تھا ۔ میں تو حوریہ کمال کے والد سے ملنے آیا تھا۔‘‘ اُن کی بات پر کمال صاحب کے پیوٹے نا فہمی کے زیرِ اثر اکٹھے ہوئے۔ پشیمانی کو ایک طرف رکھے وہ ناسمجھی سے انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
’’یاد ہے آپ نے برسوں پہلے حور سے کہا تھا کہ اِس کے بعد حور کا آپ کے اور آپ کے بچوں سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ وہ اُن کے سنگین فیصلے یاد دِلا رہے تھے۔ کمال صاحب ایک بار پھر نظریں جھکا گئے۔
’’تو میں چاہتا ہوں کہ اب آپ خود ہی اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ جائیں ۔ آپ ایک تعلق قائم کر دیں۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہے تھے۔
کمال صاحب معاملہ سمجھنے سے عاری تھے۔ اسی وجہ سے محض خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’جانتے ہیں، میں یہ عِلم رکھتے ہوئے بھی کہ آپ کی بیٹی کی اگلے جمعہ کو منگنی ہے، یہاں کیوں آیا تھا؟‘‘ اب کی بار اُن کی بات پر کمال صاحب کو سخت حیرانی ہوئی تھی ۔ یہ سب معلومات تو اُن کے گھر کی تھیں۔ اِس سب کا انہیں کیسے عِلم تھا۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے انہیں تَک رہے تھے جب انہوں نے سلسلہ کلام پھر سے جوڑا۔
’’کیونکہ میں اپنے بیٹے کی زندگی میں ایک اور محرومی شامل نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ وہ پہلے ہی بہت محرمیوں کا شکار ہے ۔ میں اُسے مزید ترستا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔ میں اُسے شاید ایک اچھی محبت سے لبریز زندگی نہیں دے سکا لیکن میں اب کی بار اُسے اُس کی محبت دینا چاہتا تھا ۔ اور دیکھیں! اللہ کے کام…‘‘ جملے کے آغاز میں اُن کے چہرے پر جو درد رقم تھا اُسے دیکھ کر کمال صاحب کو تعجب ہوا۔ وہ کس بیٹے کی بات کر رہے تھے۔ کونسی محرومیاں، کیا ابھی بھی وہ کسی اور کہانی سے ناواقف تھے۔
’’میں آج یہاں حوریہ کمال کے والد سے اُن کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا تھا، جو مجھے ناممکن سا کام لگ رہا تھا کیونکہ میری سوچ تھی بھلا جس لڑکی کی پہلے سے ہی منگنی طے ہو، اُس کے والد کیوں کسی اور کا رشتہ قبول کریں گے ۔ لیکن میرے رب کا معجزہ دیکھیں، جو کام مجھے ناممکن لگ رہا تھا ناں، اُس نے وہ بھی ممکن کر دیا۔‘‘ انہوں نے نگاہ اوپر کی جانب اٹھائی تھی۔ نظریں کمرے کی چھت سے ٹکرائیں۔ یہ نظریں تشکرانہ تھیں۔ شاید اپنے رب سے شکریہ کا اظہار۔ کمال صاحب بس منہ کھولے انہیں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’آپ نے کہا تھا کہ آپ کی اولاد سے حور کا کوئی تعلق نہیں ۔ لیکن میں چاہتا ہوں اب آپ خود اپنی بیٹی کے ساتھ حور کی اولاد کا تعلق قائم کر دیں۔ آپ میرے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کروا دیں۔‘‘ اُن کی کہی آخری بات نے اُن کی پچھلی تمام باتوں کا مقصد کمال صاحب کو اچھے سے سمجھا دیا تھا ۔ سارے سوالوں کا جواب انہیں مل گیا۔ اور اسی لمحے اُنہوں نے اپنے دِل میں ایک عہد کیا تھا۔
’’بابا…‘‘
حوریہ کی پکار پر وہ اپنی سوچوں کے گہرے بھنور سے باہر آئے ۔ وہ غائب دماغی سے سامنے کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھنے لگے ۔ پھر ایک دم اُنہیں یاد آ گیا کہ حوریہ یہاں کیوں کھڑی ہے۔ انہوں نے ہی کچھ دیر پہلے حوریہ کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا تھا اور خود وہ اُس کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے پھر سے اُنہی سب سوچوں میں کھو گئے تھے۔ وہی باتیں جو انہوں نے سعید صاحب سے کی تھیں۔ دِل و دماغ اُسی میں اٹک کر رہ گیا تھا۔
’’ہمم۔‘‘ حوریہ کے ایک بار پھر پکارنے پر انہوں نے مدھم آواز میں جواب دیا۔
’’بابا آپ کو کوئی کام تھا؟‘‘ حوریہ مستفر ہوئی۔
’’نہیں حوریہ بیٹا۔ بیٹھ جاؤ، مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ انہوں نے اُسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ سر ہلا کر بیٹھ گئی۔
’’حوریہ! بیٹا، میں جانتا ہوں کہ ہمارا تم پر حق ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم تمہاری اجازت کے بغیر تمہاری زندگی کے بارے میں فیصلے کرتے رہیں ۔ لیکن دیکھو بیٹا…‘‘
وہ کچھ نادم سے تھے ۔ کیونکہ انہوں نے بغیر حوریہ کی اجازت کے اُس کا نکاح طے کر دیا تھا ابھی اُن کی بات جاری تھی جب حوریہ نے اُن کے الفاظ مکمل ہونے سے پہلے ہی اچک لیے۔
’’بابا، آپ کو یہ سب کہنے کی ضرورت ہے؟‘‘ حوریہ نے محبت سے اُن کے ہاتھ تھام کر استفسار کیا۔
’’میں جانتا ہوں اپنی بیٹی کو لیکن پھر بھی مجھے تمہاری خوشی کا خیال ہے ۔ م…میں نہیں جانتا کہ ارسلان نے جس لڑکے کا کہا تھا، وہ کیسا انسان تھا، وہ تمہیں خوش رکھ پاتا یا نہیں۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میری بیٹی کے لیے میری بہن کے بیٹے سے بڑھ کر کوئی اچھا ساتھی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اُس کی پرورش حور نے کی ہے اور حور کی میں نے۔‘‘ اُن کی بات پر حوریہ کے چہرے پر ایک بھرپور مسکان نے لبوں کا احاطہ کیا۔
’’اگر آپ کو ایسا لگتا ہے، تو آپ کو اپنے فیصلے پر مطمئن ہونا چاہیے ناں۔‘‘ وہ نرم سی مسکان سجائے اُن کے شانے پر لاڈ سے کہنی ٹکاتی بولی۔
’’میں صرف مطمئن نہیں ہوں بلکہ بہت خوش ہوں۔‘‘ اُن کے لہجے میں سے خوشی جھلک رہی تھی۔
’’تو پھر میں بھی خوش ہوں بابا ۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
حوریہ کے کہنے پر انہوں نے محبت و شفقت سے اپنا ہاتھ اُس کے سر پر پھیرا ۔ ہاں وہ واقعی بہت خوش تھے کہ برسوں کی خلش کے بعد بھی انہیں ایک موقع مِل گیا تھا، اپنی بہن سے محبت کا اظہار کرنے کا ۔ اور زندگی ہر ایک کو موقع نہیں دیا کرتی ۔ اور جنہیں دیتی ہے اُن میں سے اکثر نا قدرے ہوتے ہیں۔
٭…٭
شام ڈھل گئی تھی۔ رات کی آمد آمد تھی۔ جہاں آسمان نے سیاہ فام چادر اوڑھ لی تھی وہیں زمین پر طرح طرح کی بتیوں اور قمقموں کی روشنیاں بِکھر گئی تھیں۔
وہ دونوں اِس وقت روشن دُکانوں کے درمیان بنی سڑک پر چلتی گاڑیوں میں سے ایک میں سوار تھے ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر موحد بیٹھا تھا۔ جو سنجیدہ سا ڈرائیو کر رہا تھا اور سامنے کی جانب نظریں ٹکائے ہوئے تھا۔ اُس کے ساتھ والی جگہ پر غنی بیٹھا تھا۔ وہ دونوں اِس وقت بقول موحد کے کسی سے ملاقات کرنے جا رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آفس سے نکلنے کے بعد اپنی گاڑی اپنے گھر پارک کرنے کے بعد وہ موحد کے ساتھ اُسی فارمل حُلیے میں آ گیا تھا۔
’’موحد بھائی، آپ نے کل مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ آپ نے میٹنگ کی تیاری کر رکھی ہے؟‘‘ یہ سوال کل سے غنی کے دِماغ میں مچل رہا تھا۔ جو وہ اب پوچھ بیٹھا تھا۔
’’میں نے جھوٹ تو نہیں بولا تھا، میں نے تیاری کی تھی بس مکمل نہیں کرسکا۔‘‘ موحد نے بغیر غنی کی طرف دیکھے روانی سے کہا۔ غنی کے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا۔
’’بھائی، آخر اِن دنوں آپ کہاں ہوتے ہیں؟ آفس بھی بہت کم آتے ہیں۔ اور اب آپ مجھ سے جھوٹ بھی بول رہے ہیں۔ اگر کل وقت پر مینجر ہمیں کَور اپ نہ کرتا تو اتنا اہم پراجیکٹ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔‘‘ غنی سنجیدگی سے استفسار کر رہا تھا۔
’’ارے کہیں نہیں! بس آج کل کچھ اہم کام نمٹا رہا ہوں۔ اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ موحد نے اُس کی سنجیدگی کو خاطر میں لائے بغیر بات ہوا میں اڑا دی۔
’’لیکن…‘‘ اِس سے پہلے غنی مزید کچھ کہتا موحد نے جھٹکے سے گاڑی روکی۔
’’چلو! بس اب یہ بات چھوڑو ہم پہنچ گئے ہیں۔‘‘ وہ سیٹ بیلٹ ہٹا کر بغیر غنی کو چوں چراں کرنے کا موقع دیے باہر نکل گیا۔
’’یہ کیا ہے۔ آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کے کسی دوست نے ہمارے نئے پراجیکٹ میں انویسٹمنٹ کرنے کے لیے ہم سے ملنا ہے، لیکن یہ کیا ہے؟‘‘ باہر نکل کر سامنے شاپنگ مال کو دیکھ کر غنی نے حیرت و تعجب سے گردن گھما کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا ۔ موحد اُس کے سوال پر محض سر کھجا کر رہ گیا ۔ اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ جس مقصد کے لیے وہ اُسے یہاں لایا ہے، کہیں اُسے سُن کر غنی کو کوئی صدمہ ہی نہ لگ جائے۔
’’وہ تو میں نے تمہیں ویسے ہی کہا تھا ۔ اگر میں تمہیں اپنے ساتھ شاپنگ مال آنے کا کہتا تو کیا تم آتے۔‘‘ وہ شرارت سے کہہ کر مال کے داخلی دروازے کی طرف چلنے لگا۔
’’یہ آپ مجھے کون سی جگہ لائے ہیں۔ لائک سیریسلی ؟ آپ کو بھی اچانک سے لڑکیوں والا شاپنگ کا شوق چڑھ گیا ہے کیا ؟ جو مجھے جھوٹ بول کر اپنے ساتھ لے آئے ہیں۔ میں نے تو کچھ کھایا بھی نہیں تھا جلدی میں۔‘‘ وہ سخت افسوس کرنے والے انداز میں بولا۔ وہ اب تک وہیں کھڑا تھا۔ موحد نے اپنی جگہ رُک کر پیچھے مُڑ کر اُس کی ایکٹنگ دیکھی۔
’’اچھا! چلو بھی اب! اندر سے کچھ کھالیں گے۔‘‘ موحد اُس کی ایکٹنگ پر اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ گھسیٹنے والے انداز میں اندر لے گیا۔
وہ دونوں اِس وقت مال کے اندر کی ایک دُکان میں کھڑے تھے ۔ جہاں پر سیلز مین موحد کے بتائے گئے کچھ ڈریسز اُنہیں دِکھا رہا تھا۔
’’بھائی! کیا آپ نے کسی کی شادی پر جانا ہے؟‘‘ اُسے عام کپڑوں کی بجائے ایک طرف شیروانیاں اور دوسری طرف قیمتی سوٹ پسند کرتے دیکھ کر غنی دھیمی آواز میں استفسار کرنے لگا۔
’’ہاں! اِس جمعہ کو میرے بھائی کا نکاح ہے ۔ ‘‘
غنی کی بات پر موحد نے انتہائی سادہ انداز میں بغیر اُس کی طرف نظر اٹھائے کہا ۔ اول تو غنی کو اُس کی بات سمجھ ہی نہ آئی ۔ ثانیاً جب سمجھ آئی تو دل و دماغ دونوں ’’بھائی‘‘ لفظ میں اٹک کر رہ گئے ۔ اور جب بھائی کے لفظ سے ہٹ کر نکاح کے لفظ پر غور کیا تو حیرانی سے آنکھیں پورے حجم پر پھیلیں ۔ پھر لوحِ جبیں پر لکیریں نمودار ہوئیں ۔ اور اسی کیفیت کے زیرِ اثر اُس نے موحد کی طرف دیکھا۔ جو کپڑے دیکھتے ہوئے گاہے بگاہے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’میں سمجھا نہیں آپ کی بات ۔ کیا مطلب کون سا بھائی؟‘‘ اُسے لگا شاید اُس نے غلط سُن لیا ہوگا۔ اِسی وجہ سے دوبارہ پوچھنے لگا۔
’’میرے آخر کتنے کے بھائی ہیں؟ یہی کوئی سو دو سو، ہیں ناں؟‘‘
موحد کا انداز اب بھی سادگی لیے ہوئے تھا ۔ جیسے کوئی عام سی بات ہو ۔ اور اِس سادگی و معصومیت سے بھرپور انداز میں اُس نے پاس کھڑے بھائی پر ایک عدد بم تو گِرا ہی دیا تھا۔
’’بھائی، یہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں آپ؟ کون سانکاح؟ مجھے تو کسی نے بتایا نہیں اور نہ ہی پوچھا ہے۔‘‘ غنی حیرت کی زیادتی سے تیز آواز میں بولا۔
اُس کی اونچی آواز پر آس پاس موجود چند لوگ اور سیلز مین مُڑ کر اِن دونوں کو دیکھنے لگے۔ لیکن پھر کوئی معاملہ نہ دیکھ کر واپس اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے ۔
’’شی، آہستہ بولو! میں یہیں تو ہوں ۔ اور جہاں تک نکاح کا بتانے کی بات ہے، تو میں اب بتا تو رہا ہوں ۔ اب ہائپر مت ہو ۔ کھانا کھانے کے دوران پوری بات بتا دوں گا۔‘‘ وہ اُسے ڈپٹتے ہوئے کہہ کر واپس کپڑے دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔
’’مجھے ہی میرے نکاح میں مہمانوں کی طرح انوائٹ کر کے کہہ رہے ہیں کہ ہائپر نہ ہوں۔‘‘ غنی دھیمی آواز میں بڑبڑایا۔ وہ ابھی تک دنگ تھا۔ اِس کے بعد سارا وقت غنی اُس کے ساتھ جبڑے بھینچے خاموش رہا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ضبط کی آخری چوٹی پر کھڑا ہو۔
٭…٭