ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ
’’کیا تم حور کے بیٹے ہو؟‘‘ ارسلان حوریہ کے باس کو کچھ سخت سنانے کا سوچ ہی رہا تھا، جب اپنی ماں کی آواز پر اُس نے حیرت سے پہلے اپنی ماں کو دیکھا اور پھر اُس شخص کو۔
’’ک…کیا…؟‘‘ موحد ایک پل کو تو کچھ بول ہی نہ سکا۔ اُسے سمجھ ہی نہ آئی کہ اُسے کیا کہنا چاہیے لیکن جب بولا تو زبان لڑکھڑا گئی۔
’’کیا تم حور کے بیٹے ہو؟‘‘ انہوں نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔
’’آپ چھوٹی ماما میرا مطلب ہے کہ حور ماما کو کیسے جانتی ہیں؟‘‘ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے پہلے سوال کو موحد نے فوراً زبان دے دی۔
’’کیا مطلب ہوا چھوٹی ماما سے؟ کیا تم حور کے بیٹے نہیں ہو؟‘‘ وہ کچھ الجھ کر بولی تھیں۔
’’میں اتنا خوش قسمت نہیں ہوں۔ لیکن وہ مجھے اپنا بیٹا ہی مانتی تھیں۔‘‘ ایک اداس سی مسکراہٹ نے اُس کے چہرے کا احاطہ کیا۔
’’میں کچھ سمجھی نہیں۔‘‘ وہ اپنی ناسمجھی کا اظہار کرنے لگیں۔
اُسی لمحے حوریہ چائے لے کر آئی ۔ اُس کے آنے پر لاؤنج میں دوبارہ خاموشی چھا گئی ۔ موحد نے ایک نظر اپنے قریب بیٹھے لوگوں پر دوڑائی اور ایک سرد سانس خارج کر کے چائے کا کپ تھام لیا ۔ لیکن بے چینی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک طرف مسز کمال بے چین تھیں تو دوسری طرف موحد ۔ ایک طرف حوریہ پریشان تھی، تو دوسری طرف ارسلان اور نعیم غصے میں چپ سادھے بیٹھے تھے۔ نعیم فون رکھ چکا تھا۔
’’آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ آپ حور ماما کو کیسے جانتی ہیں؟‘‘ وہ چائے کا ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ سے مستفسر ہوا۔
’’انہیں ہم سے بہتر اور کوئی جان ہی نہیں سکتا ۔ آخر پھوپھو صاحبہ ہمارے گھر سے ہی تو بھاگی تھیں ۔ کوئی خاص اچھے گُل کِھلا کر نہیں گئی تھیں تمہاری، حور ماما۔‘‘ مسز کمال کی بجائے زہر خند لہجے میں الفاظ چبا چبا کر ارسلان کی طرف سے جواب آیا تھا۔
’’بھائی…‘‘ اِس سے پہلے وہ مزید زہریلے الفاظ بولتا نعیم نے اُسے چپ کرا دیا ۔
لاؤنج میں ایک دم سناٹا چھا گیا ۔ موحد کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔ اب یہ کیا معاملہ تھا ۔ موحد اب تک اُس بھاگنے والی بات اور پھوپھو صاحبہ کے لفظ میں ہی اٹکا ہوا تھا ۔ تو کیا اُس کی چھوٹی ماما حوریہ کی پھوپھو تھیں ۔ لیکن یہ سب وہ کیوں نہیں جانتا تھا ۔ تو اگر یہ اُن کے بھائی کا گھر تھا تو وہ کبھی حور ماما سے ملنے کیوں نہیں آئے تھے ۔ اور یہ شخص کیا کہہ رہا تھا۔ کون سی بھاگنے کی بات کر رہا تھا۔
’’کیا ہوا اتنے حیران کیوں ہو، اپنی حور ماما کی سچائی سے اب تک انجان تھے کیا؟‘‘ اُسے دنگ کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر صوفے کے اُس پار بیٹھا ارسلان ایک بار پھر بولا تھا۔
’’شٹ اپ ! خبردار! جو مزید اُن کے متعلق ایک لفظ بھی بُرا اپنے منہ سے نکالا ۔ وہ ایسی نہیں تھیں۔ وہ اپنے گھر سے نہیں بھاگی تھیں ۔ انہوں نے میرے بابا سے بھاگ کر شادی نہیں کی تھی ۔‘‘اب کی بار موحد غصے سے اونچی آواز میں بولا تھا۔ اُس کی تیز آواز پر ارسلان کو پہلے سے بھی زیادہ غصہ آ گیا۔
’’اگر بھاگی نہیں تھیں، تو پھر کیسے کی تھی انہوں نے تمہارے باپ سے شاد ی؟ ہاں، ہمارے گھر میں ہی کھڑے ہو کر ہم پر ہی چِلّا رہے ہو ۔ ‘‘
ارسلان اپنی جگہ سے اٹھ کر موحد کی طرف بڑھا لیکن بیچ میں ہی مسز کمال اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ لیکن صرف وہ نہیں اٹھی تھیں بلکہ ارسلان پر اُن کا ہاتھ بھی اٹھ گیا تھا ۔ حوریہ نے حیرت سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔ موحد بھی حیران تھا ۔ نعیم پہلے سے ہی ارسلان کو روکنے کے لیے اُس کا دایاں بازو تھامے کھڑا تھا اور اب تھپڑ پر اپنی ماں کی طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے ارسلان پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ۔ گھر میں سب سے زیادہ لاڈ وہ ارسلان کے ہی اٹھاتی تھیں لیکن آج اُن کی حرکت پر وہ گال پر ہاتھ رکھے انہیںدنگ نگاہوں سے دیکھے گیا۔
’’آپ نے مجھے مارا؟‘‘ منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ہاں مارا کیونکہ تم اپنی حدیں پھلانگ چکے ہو ارسل ۔ جب مکمل حقیقت جانتے ہی نہیں ہو تو کس طرح تم اپنی پھوپھو کے بارے میں اتنے بُرے الفاظ بول سکتے ہو؟‘‘ وہ سخت مایوسی سے بولی تھیں ۔ اور اسی لمحے سامنے والے کمرے کا دروازہ کُھلا تھا ۔ باہر آنے والے دونوں افراد کے چہروں پر اداسی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ کمال صاحب پھر بھی کچھ افسردہ معلوم ہوتے تھے لیکن سعید صاحب کے چہرے پر سے جھلکنے والی خوشی واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔
وہ اُن تک چل کر آئے تو سب کی نظریں اُن پر اٹھیں ۔ موحد کی بھی سوالیہ نگاہیں اپنے باپ کی طرف اٹھیں ۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں جیسے اُسے تسلی رکھنے کا اشارہ کیا تھا، جس پر وہ مسکرا کر ٹھنڈی سانس فضا کے سپرد کر گیا۔ حوریہ بھی اپنی نشست سے کھڑی ہو چکی تھی۔
’’کیا ہوا بھئی؟ آپ سب اِس طرح کیوں کھڑے ہو؟‘‘ یہ سوال کمال صاحب کی طرف سے تھا۔
’’بابا! آپ اتنی دیر اندر کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘ حوریہ نے اُن کے سوال کے جواب میں ایک اور سوال پوچھ لیا۔
’’ خیر … مجھے کہنا یہ تھا کہ میں نے اگلے جمعہ حوریہ کا نکاح طے کر دیا ہے۔‘‘ اُن کا یہ کہنا تھا کہ موحد اور سعید صاحب کو چھوڑ کر سب ہی دنگ رہ گئے ۔ سب سے زیادہ حیران تو حوریہ ہوئی تھی۔
’’کیا…؟‘‘ اُسے لگا اُس نے کچھ غلط سن لیا ہے ۔ ابھی کچھ دِن پہلے تک تو اگلے جمعہ اُس کی منگنی تھی، اب اچانک یہ نکاح کہاں سے آ گیا تھا۔
’’میں نے کہا کہ میں نے حور کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح طے کر دیا ہے۔‘‘ اب کی بار انہوں نے کچھ اور لفظوں کو بھی شامل کیا ۔ حوریہ کو لگا کہ چھت اُس کے سر پر آن گِری ہو۔ حور کا بیٹا سے جو اُن کی مراد تھی، وہ خوب سمجھ رہی تھی۔ ارسلان نے شاکی نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔
’’بابا، اگلے جمعہ کو حوریہ کی منگنی ہے میرے دوست کے بھائی کے ساتھ یہ بات شاید آپ بھول چکے ہیں۔‘‘ وہ جیسے انہیں کچھ یاد دِلاتے ہوئے بولا۔
’’منگنی ہے نہیں ، منگنی تھی۔ مجھے سب اچھے سے یاد ہے بیٹا جی ۔ لیکن اب میں نے فیصلہ بدل دیا ہے۔ میری حوریہ کے لیے حور کے بیٹے سے اچھا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ ویسے بھی میں بہت کچھ غلط کر چکا ہوں۔ اب مزید کچھ غلط نہیں ہوگا۔‘‘ انہوں نے سعید صاحب کی طرف ایک نظر اٹھائی تھی۔
’’مجھے یقین ہے آپ نے حوریہ کے لیے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا۔‘‘ یہ آواز مسز کمال کی تھی۔
جو اِس فیصلے سے مطمئن نظر آ رہی تھیں۔ اگر کوئی مطمئن نہیں تھا تو وہ ارسلان، نعیم اور حوریہ تھے۔ جو یہ ہی سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ ہو کیا رہا ہے ۔مسز کمال موحد کی طرف بڑھی تھیں ۔ وہ شاید ابھی بھی پوری بات نہیں سمجھی تھیں اور اُسے ہی حور کا بیٹا سمجھ رہی تھیں۔
’’یہ حور کا بیٹا نہیں ہے رقیہ ۔‘‘ کمال صاحب نے فی الفور اُن کی غلط فہمی دور کی تھی۔ وہ اُلجھ کر سعید صاحب کی طرف دیکھنے لگیں۔
’’یہ میری پہلی بیوی سے ہے۔ میرا بڑا بیٹا۔‘‘ سعید صاحب وضاحت کرتے بولے۔
’’بیٹھ جاؤ سب ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سب کو یہ حقیقت پتا چل جانی چاہیے۔‘‘ کمال صاحب کے کہنے پر سب سر ہلا کر بیٹھ گئے۔ کیوں کہ سب ہی اپنی اپنی جگہ پر الجھے ہوئے تھے۔ سب کے ذہنوں میں کئی سوالات تھے۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اِس پُر اسرار سی رات میں اب نجانے کیا کیا راز کھلنے تھے۔
٭…٭
’’مجھے معاف کردو ۔ زندگی کے اتنے ماہ و سال گزارنے کے بعد بھی میں خود کو اس پچھتاوے سے باہر نہیں نکال پائی کہ میں نے تم پر الزام لگایا تھا ۔‘‘ کمرے کی خاموش فضا میں اُس کی مدھم آواز نے خلل ڈالا ۔ وہ بیڈ پر بیٹھی ہاتھوں میں اپنی شادی کی تصویروں کا البم پکڑے تصویروں کو الٹتی پلٹتی خود کلامی کر رہی تھی ۔ صبح ایمن(بیٹی) کو اسکول بھیج کر وہ اپنی کپڑوں والی الماری سمیٹ رہی تھی جب اُسے نچلے دراز سے اپنی شادی کا البم ملا ۔ وہ یونہی البم لیے بیڈ پر بیٹھی تصاویر دیکھنے لگی ۔ بہت سی یادیں وابستہ تھی اُس کی اُس دن سے ۔ اور اُن یادوں کے ساتھ وہ عکس بھی آنکھوں کے پردوں پر ابھرنے لگا۔ وہ جسے ماضی میں دور کہیں پیچھے چھوڑ آئی تھی۔
’’میں جانتی ہوں میں نے غلط کیا تھا لیکن اُس وقت میں بھی سچ سے انجان تھی ۔ کاش کہ میں وقت میں واپس لوٹ سکتی۔‘‘ وہ یوں ہی خود کلامی کرتی رہتی اگر دروازہ کُھلنے کی آواز پر اُس کی حسِ سماعت اُسے ہوشیار نہ کرتی ۔
اُس نے تیزی سے اپنے بھیگے رُخسار صاف کیے ۔ سامنے تھکی ہوئی حالت میں موحد کھڑا تھا ۔ وہ رات بھر اُس کا انتظار کرتی رہی لیکن نجانے رات کے کس پہر اُس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ جب وہ صبح اٹھی، تب بھی اُسے کمرے میں نہ پا کر وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ رات واپس آیا ہی نہیں تھا۔ وہ سامنے کل والے کپڑوں میں ہی کھڑا تھا ۔ اُس کے اندر آنے پر وہ اٹھ کر البم کو الماری میں رکھ گئی۔
’’موحد، کیا آپ رات کو غنی کی طرف ٹھہرے تھے؟‘‘ وہ کمرے میں آتے ہی سلام کرکے اپنے کپڑے لیے بیڈ روم سے ملحقہ باتھروم کی طرف جا رہا تھا، جب سحر نے اُسے مخاطب کیا۔
’’ہاں میں ڈیڈ کے ساتھ ہی کل غنی کی طرف رُک گیا تھا ۔‘‘ وہ جو خاموشی سے باتھ روم کی طرف بڑھ رہا تھا، سحر کے سوال پر اپنی جگہ پر ٹھہر گیا ۔ وہ پہلے انکار کرنے والا تھا، مگر اُس کی طرف نظر اٹھانے پر اپنا جواب بدل گیا ۔ اب اگر وہ نہ کہتا تو وہ مزید سوال کرتی جن کے جواب شاید ابھی وہ نہ دے پاتا ۔ گزشتہ رات معلوم ہونے والی باتوں سے اُس کے اعصاب چٹخ گئے تھے۔ غلط فہمیاں انسان کو کس مقام تک پہنچا دیتی ہیں۔
’’صحیح ۔ میں رات دیر تک آپ کا انتظار کرتی رہی۔ آپ کال بھی نہیں اٹھا رہے تھے۔ پھر آپ کے نہ آنے پر ماما سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ شاید آپ اپنے ڈیڈ کے ساتھ غنی کی طرف رُک گئے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہے ۔ تم ناشتہ لے آؤ پھر مل کر کرتے ہیں ۔ میں نے جلدی میں غنی کی طرف سے ناشتہ نہیں کیا تھا ۔‘‘ موحد نظریں چراتا کہہ کر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ عموماً سحر سے جھوٹ نہیں بولتا تھا بلکہ اب تو اُس نے اپنے اور غنی کے بارے میں بھی اُسے سب کچھ بتا دیا تھا لیکن اب اُسے جھوٹ بولتے ہوئے بُرا لگ رہا تھا ۔ رات انہوں نے حوریہ کے گھر ہی قیام کیا تھا ۔ وہ تو جانے کے لیے تیار تھے مگر حوریہ کے والد نے انہیں اتنی دیر رات کو واپس جانے سے روک دیا تھا۔
وہ شاور لے کر فریش ہو کر باہر آیا، تو تب تک سحر ناشتہ لگا چکی تھی۔ وہ خاموشی سے اُس کے ساتھ آ بیٹھا اور ناشتہ کرنے لگا۔
’’ایمن کہاں ہے؟‘‘ وہ ناشتہ کرنے کے دوران یوں ہی خاموشی کو زائل کرنے کی غرض سے سوال کرنے لگا۔
’’موحد اب وہ اسکول جاتی ہے۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟‘‘ اُس کے سوال پر سحر حیرت و تشویش کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے بولی۔
’’ہاں، ذہن سے ہی نکل گیا تھا۔‘‘ وہ ہنس دیا۔
’’سحر!‘‘ ذہن میں اچانک کچھ دیر پہلے والا منظر آنے پر وہ اُسے مخاطب کر گیا ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تھا تو اُس نے سحر کو روتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
’’ہمم ۔ آپ کو کچھ چاہیے کیا؟‘‘ وہ ناشتہ کر چکی تھی ۔ ابھی وہاں سے اٹھنے ہی والی تھی، جب موحد نے اُس کی کلائی پکڑ کر واپس اُسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
’’نہیں، مجھے کچھ نہیں چاہیے بس یہاں بیٹھ کر میری بات سنو۔‘‘ وہ ناشتے سے ہاتھ کھینچ گیا اور میز پر پاس رکھے رومال سے ہاتھ صاف کرنے لگا۔
’’جی۔‘‘ اُس نے محض یک لفظی جواب دیا۔
’’کیا شادی کے اِن ساڑھے چار سالوں میں تمہیں مجھ سے کوئی شکایت رہی ہے؟‘‘ اُس کے اچانک ایسے سوال پر وہ کچھ حیران ہوئی تھی۔
’’نہیں تو … یہ آپ اچانک ایسی بات کیوں کرنے لگے۔‘‘
’’تو پھر مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیا پرابلم ہے ؟ کیوں تم اکثر باتیں کرتے کرتے خاموش ہو جاتی ہو ۔ اگر اکیلی ہو تو گم صم سی بیٹھی رہتی ہو ۔ ‘‘ وہ جیسے اُس کے اب تک کے رویے کا کافی گہرا تجزیہ کرتا آیا تھا لیکن آج تک اُس سے اِس بارے میں کوئی سوال نہ کیا تھا۔
’’ن… نہیں، مجھے تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔‘‘وہ نظریں جھکاتے ہوئے کچھ لڑکھڑا کر بولی۔
’’سحر مجھ سے جھوٹ بولو گی اب؟‘‘ وہ اتنے پُر یقین انداز میں بولا تھا کہ سحر کو اُس پل یہ لگا جیسا وہ اُسے اندر تک جان گیا ہو۔
’’نہیں، میں واقعی ٹھیک ہوں ۔ بس کبھی کبھار مجھے آپ کی اور اپنی سچویشن بالکل ایک جیسی لگتی ہے ۔ ‘‘وہ کسی سوچ میں گم بولی۔ موحد کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات کا جال بکھرا۔
’’کیا مطلب؟ کون سی سچویشن؟‘‘
’’یہی کہ آپ نے غلط فہمی میں کسی سے نفرت کا اظہار کرتے کرتے اُن کا دِل دکھایا اور میں نے غلط فہمی میں کسی کا دِل توڑ د یا ۔‘‘ یہ پہلی بار تھا جب سحر نے اُس سے اپنے ماضی کے متعلق کوئی بات کی تھی ۔ ہمیشہ وہ اُسے سنتی تھی۔ اُسے سمجھاتی تھی۔ آج اُس کی باری تھی کہ وہ اپنی بیوی کو سنے۔
’’موحد، میں نے کسی پر جھوٹا الزام لگایا تھا لیکن اب تک اپنے اُس گناہ کی معافی نہیں مانگ سکی ۔ لیکن اب یہ پچھتاوا میری جان نہیں چھوڑتا ۔ آپ تو پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ آپ کے پاس معافی مانگنے کا آپشن تو تھا ۔ مگر میں اپنے دل پر سے یہ بوجھ کیسے اتاروں؟‘‘ وہ نظریں جھکائے بے حد اداس لہجے میں بولی تھی کہ موحد بس اُس کے جھکے سر کو دیکھتا رہا۔ اُسے لگا کہ وہ اور سحر بالکل ایک مقام پر ہی کھڑے ہیں ۔ وہ بھی تو پچھتاووں کی چار دیواری میں قید تھا۔ اُس نے بھی تو کسی کو جھوٹ کی بنیاد پر تکلیف دی تھی۔
’’سحر، تم نے کس پر جھوٹا الزام لگایا تھا، بات کیا تھی؟ مجھ سے اصل بات شیئر کرو۔‘‘ وہ خود کو اپنی سوچوں سے باہر دھکیلتا اُس سے پوچھنے لگا۔ ابھی اُس کی بات نہیں ہو رہی تھی۔ ابھی اُس کی بیوی کی بات ہو رہی تھی۔ اگر وہ پریشان تھی تو اُسے اُس کی پریشانی سے نکالنا اُس کا فرض بنتا تھا۔ اسے ہی تو دکھ، سکھ کا ساتھی کہتے ہیں۔
’’موحد، میری ایک فرینڈ تھی ۔ وہ مجھ سے تین سال چھوٹی تھی ۔ ہم میں گہری دوستی تھی ۔ ہم ایک ہی اسکول میں پڑھے اور کالج بھی اکٹھے ہی گئے ۔ آپ میری فیملی کو تو جانتے ہی ہیں ۔ جہاں ہمارے گھر میں بچیوں کو اتنا زیادہ پڑھانے لکھانے کا رواج نہیں تھا ۔ وہیں دوسری طرف وہ کافی جدید خیالات رکھنے والے لوگ تھے ۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا، جب ایک دن مجھے پتا لگا کہ میری اکلوتی دوست نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ وہ اُس کے اصرار پر اب جیسے ہر بات بتانے کا سوچ چکی تھی ۔ دُکھ آخر کتنی دیر چھپائے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی وہ اب یہ باتیں اپنے اندر رکھ رکھ کر تھک چکی تھی۔ اب یہ بوجھ اکیلا نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں اُسے دیکھنے لگا۔
’’آپ تو میرے بھائیوں کو جانتے ہی ہیں کہ وہ کتنے سخت ہیں ۔ میرے ابو بھی سخت طبیعت کے مالک ہیں ۔ انہوں نے مجھے کالج جانے کی اجازت اِس شرط پر دی تھی کہ کل کو انہیںمیرے بارے میں کچھ الٹا سیدھا نہ معلوم ہو ورنہ وہ میری شادی کر دیں گے ۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی میری دوست نے میرے ساتھ غلط کیا ۔ اُس نے مجھے پھنسایا ۔ یہ مجھے لگتا تھا۔‘‘ وہ کچھ لمحے رُکی تھی اور موحد کی نظریں اپنے چہرے پر ٹکی دیکھ کر دوبارہ گویا ہوئی۔