مکمل ناول

ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ

یہ سعید ازلان تھا ۔ جب گھر کا دروازہ کُھلا تھا اور ایک عورت باہر آئی تھی، وہ تب ہی گاڑی اسٹارٹ کر کے نکل گیا تھا لیکن اچانک اُس کی نظر ڈیش بورڈ پر پڑے دوا کے شاپر پر پڑی جو اس نے ہسپتال کی ڈسپنسری سے ڈاکٹر صاحبہ کی تجویز کردہ دوائیاں خریدی تھیں ۔ وہ یہی دوائیں اُسے دینے کے لیے واپس آیا تھا لیکن اُسے ابھی تک یوں ہی داخلی دروازے پر کھڑے دیکھ کر اُسے شدید حیرت ہوئی تھی۔ وہ اپنی حیرت چھپاتے، اُس تک پہنچ کر اُسے پکارنے لگا۔ لیکن کچھ تھا جو اُسے غلط لگ رہا تھا۔
’’پہلے تو صرف سُنا تھا، مکمل یقین اب تک نہ تھا لیکن اب دیکھ بھی لیا ۔ واہ، حور! تم نے بہت اچھا کھیل کھیلا ۔ پہلے آفس سے ایک غیر مرد کے ساتھ بھاگ گئی اور اب جب ہماری عزتوں کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ لوگ ہمیں طرح طرح کی باتیں سُنا چکے ہیں ۔ پورے خاندان میں یہ بات پھیل چکی، تو تم اگلے ہی روز واپس لوٹ آئی ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میری بہن آخر ایسا کیسے کر سکتی ہے؟‘‘
حور کو پکارنے والے شخص پر اُن کی نظر پڑی تو بغیر کچھ سوچے سمجھے، وہ حور کے باس کی کہی باتوں پر مکمل طور پر اعتبار کر بیٹھے ۔ انہیںاِس وقت صرف یہ نظر آ رہا تھا کہ وہ کل ساری رات گھر نہیں لوٹی تھی اور وہ بھی کسی انجان نامحرم شخص کی وجہ سے ۔ مکمل حقیقت سے تو وہ بھی آگاہ نہیں تھے لیکن انہوں نے حور کو اپنا سچ بتانے کا موقع دیا ہی کب تھا۔ اور نہ ہی اُس سے اُس کی چوٹوں کی وجہ پوچھی۔
حور کے پیچھے کھڑے شخص کی بات پر سعید ازلان کے ماتھے پر بَل پڑے تھے۔ اُسے ساری بات سمجھ آ گئی تھی کہ ایک بار پھر اُس پر ہی شک کیا جا رہا تھا۔ آخر ایک نیکی کرنا اُسے اتنا بھاری کیوں پڑ رہا تھا۔
’’دیکھیں، مسٹر! میرا اِس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔‘‘
اُس کی بات پر حور کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں ۔ اب ایک انجان شخص اُس کے کردار کی وضاحتیں دے گا۔ اُن کا رشتہ اتنا کمزور کب ہوا ۔ اُس کا کردار اتنا مشکوک کب سے ہوگیا۔ اُس کا بھائی آخر اُس پر یہ الزام کیسے لگا سکتا تھا ۔ اُس نے تو آج تک کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی ۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب کسی اور کی پڑھائی پٹی تھی ۔ یہ زہر خند الفاظ کسی اور کے تھے۔ اُس کا بھائی تو بس اِن لفظوں پر یقین کر کے انہیں دہرا رہا تھا۔ انسان کے یقین کی بھی کتنی کمزور کیفیت ہوتی ہے ناں ۔ کبھی کبھی سب کچھ دیکھ کر بھی یقین نہیں کرتا اور کبھی محض کسی کی کہی باتوں پر اِس طرح ایمان لے آتا ہے، جیسے سامنے والے نے کبھی زندگی میں جھوٹ بولا ہی نہ ہو ۔ کبھی آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور کبھی محض ایک جھوٹی تصویر کو دیکھ کر ہی رشتے پر سے اعتبار کھو بیٹھتا ہے ۔ یہ اعتبار اور یقین اتنے مضبوط جذبے ہونے کے باوجود اتنے کمزور کیسے ہو سکتے ہیں ۔ لیکن انسان کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہر جذبہ کمزور ہی ہوتا ہے، اُسے انسان خود مضبوط بناتا ہے۔ جیسے محبت کمزور ہوتی ہے لیکن محبت کرنے والے اِس جذبے کو مضبوط بناتے ہیں۔ اعتبار کمزور ہی ہوتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے لیکن اعتبار کرنے والوں کے رشتے کی نوعیت ہی اِسے مضبوط بناتی ہے۔ جیسے ایک مضبوط عمارت کے لیے ایک پکی اور مضبوط بنیاد۔
’’پکڑے جانے پر سب یہی کہتے ہیں۔‘‘ اب کی بار کمال صاحب اُس انجان شخص سے مخاطب ہوئے تھے۔
’’لیکن میں نے کوئی چوری نہیں کی، جس پر پکڑا جاؤں میں نے تو بس…‘‘ وہ اُس کی بات پر دوبدو بولے تھے، جب حور کے اُسے خاموش رہنے کا کہنے پر وہ چُپ کر گیا ۔ وہ خاموش تماشائیوں کی طرح وہاں کھڑا ہو گیا۔
’’بھائی، آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ۔ بس ایک رات گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے آپ مجھے اتنا بُرا سمجھنے لگے ۔‘‘ اُس کی آنسوؤں کے درمیان کہی بات پر مسز کمال ضبط سے آنکھیں بند کر گئی تھیں ۔ انہوں نے اُسے بالکل اپنی بہنوں کی طرح ٹریٹ کیا تھا۔ اب اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر بات پسِ پشت ڈال کر حور کو بس اندر لے جائیں۔
’’اعتبار کرنے کی کوئی وجہ نہیں چھوڑی تم نے حور ۔ ایک بار بتایا تو ہوتا کہ تم کسی کو پسند کرتی ہو۔‘‘ اب کی بار کمال صاحب کے لہجے میں پہلے کی سی سختی نہیں تھی۔
’’پھر وہی بات، کون سی پسند؟ جب ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔‘‘ اُن کی دوبارہ وہی بات پر وہ اونچی آواز میں احتجاجاً بولی تھی۔
’’جھوٹ مت بولو مجھ سے حور ۔ اب میں دوبارہ تم پر اعتبار کر کے پھر وہی غلطی نہیں دہراؤں گا ۔ اب مجھ سے معافی کی کوئی امید مت رکھنا۔ چلی جاؤ واپس ۔ تمہاری جدائی کو میں نے ایک ہی بار آنسوؤں میں بہا دیا ۔ اب یہاں دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ویسے بھی بھائیوں کو یہ بات پتا چل چکی ہے کہ اُن کی اکلوتی بہن گھر سے بھاگ گئی ہے ۔ اب ویسے بھی میری پرورش پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، مزید مجھے مت ستاؤ۔چلی جاؤ!‘‘
لہجے کی وہ سختی پھر سے لوٹ آئی تھی ۔ مسز کمال نے حیرت سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا ۔ یہ انہوں نے کیا کہہ دیا تھا، انہیںاِس سنگ دلی کی امید تو نہ تھی ۔ حور اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی ۔ کردار کی صفائی دینے سے پہلے ہی اُس کے سر پر کوئی چھت آن گِری تھی ۔کتنی آسانی سے اُس کے بھائی نے کہہ دیا تھا کہ اب وہ اُس پر دوبارہ اعتبار کر کے اپنی غلطی نہیں دہرائیں گے ۔ اِس سادہ سی بات میں کتنے اہم پہلو چھپے تھے ۔ یعنی اول تو یہ کہ اُس پر سے اُس کے بھائی کا اعتبار اٹھ چکا تھا اور دوسرا یہ کہ وہ اُس پر اعتبار کرنے کو اپنی غلطی ٹھہرا رہے تھے ۔ انسان بھی کتنا عجیب ہے ۔ ہر غلطی پر کہتا ہے کہ دوبارہ اپنی غلطی نہیں دہراؤں گا، مگر پھر وہی کام کرتا ہے ۔ پھر وہی غلطیاں سر انجام دیتا ہے ۔ لیکن سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ انسان اُس کام کو غلطی کہے جو واقعی غلط ہوتا ہی نہیں ہے ۔ جب آپ نے کوئی غلطی کی ہی نہیں ہوتی تو آپ اُسے دہراؤ گے کیسے؟
سعید ازلان اپنی جگہ پریشان تھا ۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اِس سب میں اُس کا قصور آخر کہاں تھا ۔پوری بات تو وہ بھی نہیں جانتا تھا ۔ حالات کے پیشِ نظر سب اپنی اپنی جگہ صحیح تھے لیکن سب ایک دوسرے کو غلط سمجھ رہے تھے کیونکہ فساد برپا کرنے والا کوئی باہر والا تھا اور اُس پر یقین کرنے والے حور کے اپنے تھے۔
’’آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے بھائی ، سمجھے آپ! جب میں نے کچھ کیا ہی نہیں تو یہ سب کیوں…؟‘‘وہ چیخ کر بولی تھی ۔
اُس انسان کی کیا حالت ہوتی ہوگی جسے بغیر کسی جرم کے سزا سنا دی جائے ۔ بغیر جرح کیے، بغیر سچائی جانے اُسے سزا سنا دی گئی ۔ ایسی سزا جو اُس کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ گئی ۔ وہ اُس گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ وہ گھر جو اُس کا اپنا تھا۔ مگر آج اُس دہلیز کو پار کرنا اُس کے لیے ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔
آسمان پر سیاہی اپنے پَر پھیلانے لگی ۔ اسٹریٹ پولز جل اٹھیں۔ اِس سیاہ رات میں اُس کی چیختی آواز دور کہیں جا کر گم ہو گئی تھی ۔ اسٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔ یہ مدھم روشنی بھی اُس کے گالوں پر سے بہتے آنسوؤں کو واضح کرنے کے لیے کافی تھی۔ اپنی بیوی کو کھینچ کر زبردستی اندر کرتے کمال صاحب اُس کی چیختی آواز پر ٹھہر گئے تھے ۔ رقیہ کمال گیٹ سے اندر بڑھ گئی تھیں ۔ اب انہوں نے مزید نہیں رُکنا تھا کیونکہ جانتی تھیں کہ اب اُن کے شوہر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پہلے سے بھی زیادہ سنگ دِل ہوں گے ۔ وہ چاہ کر بھی اِس معاملے میں بے بس تھیں ۔ مرد جب غصے میں کوئی فیصلہ کرنے لگتے ہیں تو پھر وہ کسی کی نہیں سنتے۔
’’یہ اُسی سب کی سزا ہے، جو تم نے کیا ہے ۔ جو تم نے بویا وہی کاٹا ۔ اب مجھے ظالم مت قرار دو ۔ میں نے تو ہمیشہ تم سے محبت ہی کی اور اب اُسی کی سزا بھگت رہا ہوں ۔ اِس گھر کے دروازے تم پر ہمیشہ کے لیے بند ہیں ۔ مجھ سے اور میرے بچوں سے اب تمہارا کوئی تعلق نہیں ۔ چلی جاؤ… اب میں مزید سخت الفاظ اپنے منہ سے نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘ انہوں نے کہہ کر دروازہ کھٹاک سے بند کر دیا ۔ بد گمانی کی حدیں پھلانگتی آواز ۔ حور کا دِل سُکڑ گیا ۔ یہ سب ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ یہ سب کیا ہوگیا تھا ۔ اُس نے کوئی اتنی بڑی غلطی تو نہ کی تھی، بس ایک یہ بات ہی چھپائی تھی کہ جہاں وہ کام کرتی تھی، وہاں کا مالک اُسے پچھلے کچھ مہینوں سے پریشان کرنے لگا تھا ۔ اُس نے نارمل سی بات سمجھ کر اِس بات کو اگنور کر دیا لیکن یہ نارمل سی بات اُسے کہاں تک لے آئی تھی۔ وہ خاموش تھی۔ اُسے لگا اب اِس دنیا میں اُس کا کوئی نہیں رہا۔
’’آپ ایسا نہیں کر سکتے ۔ ایک بھائی اور بہن کے رشتے میں کم از کم اتنا بھروسہ تو ہونا چاہیے کہ وہ بھائی اپنی بہن کو اپنی بات کہنے کا ایک موقع تو دے۔‘‘ کب سے خاموش تماشائی بنے سعید ازلان نے اب کی بار اونچی آواز میں کہا تھا ۔
دروازے کے اُس پار اپنے منہ پر سختی سے ہتھیلی جمائے کمال صاحب گھٹنوں کے بَل زمین پر بیٹھ گئے ۔ اپنے لیے کسی کے آواز اٹھانے پر شکستہ سے کندھوں سے کھڑی حور نے اپنا سر اٹھا کر اُس وجود کی طرف دیکھا ۔ اُسے ایک پل کو حیرت ہوئی ۔ کیا یہ شخص اب تک یہیں موجود تھا ۔ تو اُس کی بربادی کا کوئی اور بھی گواہ تھا ۔ ایک تکلیف دہ مسکان اُس کے چہرے پر آ سمائی ۔ پھر وہ ہمت کرتے بولی تھی۔ جیسے اُسے یقین تھا کہ دروازے کے اُس پار اُس کا بھائی اب بھی موجود تھا۔
’’ایک عورت کی عزت اتنی کمزور نہیں ہونی چاہیے کہ ایک رات اُسے تباہ کر دے ۔ بھائی آپ نے تو مجھ سے پوچھا بھی نہیں کہ میں رات بھر کہاں تھی ۔ اگر مر گئی ہوتی تو اچھا ہوتا ۔ کم از کم مجھے آج یہ سب تو نہ دیکھنا پڑتا ۔ نہ جانے کس نے ہمارے رشتے میں پھوٹ ڈال دی۔‘‘
وہ روتے روتے زمین پر بیٹھ گئی۔ سر سے سیاہ چادر بہت پہلے ہی ڈھلک چکی تھی۔ اب اُس کے مسلسل دروازے پر دستک دینے سے اُس کے کندھوں پر سے بھی سِرک گئی تھی ۔ وہ یوں ہی دروازے پر دستک دیتی رہی لیکن دروازہ نہ کُھلا اور نہ ہی کُھلنا تھا ۔ وہ پہلے ہی حادثے کی وجہ سے کمزور تھی ۔ اب دوپہر سے اُس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا کہ وہ بس اپنے گھر جانے کی ضد باندھے ہوئے تھی اور اب یہ سب ہوگیا تھا ۔ سعید ازلان کچھ دیر یوں ہی منتشر ذہن کے ساتھ کھڑا اُسے دیکھتا خود سے جنگ کرتا رہا اور پھر اُس کے ہاتھوں کی حرکت رُک جانے اور اُس کے زمین پر ڈھے جانے پر دوائیاں وہیں پھینک کر تیز قدموں سے اُس کے قریب بیٹھا ۔ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی تھی ۔ اُس نے سر اٹھا کر ایک نظر بند دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر جُھک کر اُس بے ہوش وجود کو اٹھا کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ اُس نے اِسی پل ایک فیصلہ کر لیا تھا۔ ایک بہت اہم فیصلہ، جس سے اُس کی زندگی مکمل طور پر بدل جانی تھی لیکن اُسے اِس بات پر ذرّہ برابر بھی دُکھ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ کوئی گناہ نہیں کرنے والا تھا بلکہ ایک پاک اور مقدس رشتہ قائم کرنے والا تھا۔ وہ حور سے نکاح کرنے والا تھا۔
٭…٭
کمرے میں خاموشی حائل تھی ۔ گھڑی کی ٹکِ ٹِک ہی محض سنائی دے رہی تھی۔ وہ دو نفوس ساکت و جامد ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے ۔ کمال صاحب نے کچھ کہنے کے لیے لب وا کیے ہی تھے کہ اندر سے کوئی آواز آتی نہ معلوم کر کے پھر خاموش ہو گئے ۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ انہیں کیا بات کرنی چاہیے ۔گفتگو کا آغاز کہاں سے کرنا چاہیے۔ انہیں اِس پریشانی سے نکالنے کے لیے سعید صاحب نے پہل کرتے مہرِ سکوت توڑا۔
’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کبھی دوبارہ میری آپ سے ملاقات بھی ہوگی ۔ یہ ایک اتفاق ہی ہے ۔ اب اتفاق اچھا ثابت ہوتا ہے یا بُرا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘‘ اپنی بات کہہ کر وہ خاموش ہوگئے ۔ اتفاق سے اُن کی مراد اُس لڑکی کی طرف تھی، جس کے لیے وہ غنی کا رشتہ لینے آئے تھے۔
’’مجھے بھی یہ امید نہیں تھی کہ مجھے اپنی غلطی سدھارنے کا دوبارہ موقع ملے گا۔ کیا میں حور سے مل سکتا ہوں؟‘‘ اُن کی بات پر سعید صاحب کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’کچھ غلطیاں اگر وقت پر نہ سدھاری جائیں، تو پھر دوبارہ زندگی میں انہیں سدھارنے کا کبھی موقع نہیں ملتا۔‘‘وہ تلخی سے بولے۔
’’کیا مطلب ہوا اِس بات کا؟‘‘کمال صاحب ماتھے پر بَل ڈالے بولے ۔
انہیں لگا کہ وہ انہیں اپنی بہن سے ملنے سے روک رہے ہیں۔ اُن کی بات کی گہرائی تو وہ سمجھے ہی نہیں تھے۔
’’مطلب تو صاف ہے لیکن خیر مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کم از کم اتنے سالوں بعد آپ کو یہ احساس تو ہوا کہ آپ نے حور پر اعتبار نہ کرکے غلطی کی تھی۔‘‘ اُن کے اِس طرح گھما پھرا کر جواب دینے پر کمال صاحب کی تیوری چڑھی۔ اتنے برسوں بعد بھی یہ شخص نہیں بدلا تھا۔ اب بھی گھما پھرا کر ہی باتیں کرتا تھا۔
’’میں اُس غلطی کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے حور پر اعتبار کر کے واقعی غلطی کی تھی لیکن میں اب اُسے معاف کر چکا ہوں ۔ مجھے بس یہ افسوس ہے کہ مجھے اُسے غصے میں گھر سے باہر نہیں نکال دینا چاہیے تھا ۔ یہ میری غلطی تھی۔‘‘ وہ اب بھی حور کو غلط ہی سمجھتے تھے ۔ یہ جان کر سعید صاحب نے قہقہہ لگایا۔ ایک خشک قہقہہ… بغیر کسی وجہ کے ایک تلخ ہنسی۔
’’میں نے کوئی مذاق تو نہیں کیا۔‘‘ وہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کو بلاوجہ ہنستے دیکھ کر کچھ غصے سے بولے۔
’’لیکن مجھے مذاق ہی لگا ۔ آپ اتنے برسوں بعد بھی حقیقت سے انجان ہی ہیں ۔ آپ اب بھی حور کو غلط ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ جان کر مجھے حقیقتاً آپ پر افسوس ہوا۔‘‘ اب کی بار اُن کے لہجے میں افسردگی کا عنصر نمایاں تھا ۔ ایک دم جیسے احساس ہوا تھا کہ اب طنز و طعنہ کا وقت نہیں تھا ۔ اب وقت تھا کہ حقیقت سے پردہ اٹھا دیا جائے۔
’’کون سی حقیقت؟‘‘کمال صاحب نے دوبدو پوچھا۔
دِل طرح طرح کے اندیشوں میں گِر گیا ۔ کیا اُن سے واقعی کوئی سنگین جرم ہوا تھا؟ حوریہ کی اُس دن کہی بات بھی ذہن میں امنڈ آئی تھی۔
’’وہی حقیقت جس سے آپ اب تک انجان ہیں ۔ آپ حور کو غلط سمجھتے ہیں ناں تو جان لیں وہ کبھی غلط تھی ہی نہیں ۔ وہ کبھی گھر سے بھاگی ہی نہیں تھی ۔ اُس نے کبھی اپنے عزیزِ جان بھائی کا اعتبار توڑا ہی نہیں تھا۔ یہ آپ تھے جو کسی اور کی باتوں میں آگئے تھے۔ یہ آپ تھے جس نے اُس کے اعتبار کو ٹھیس پہنچائی تھی ۔ اور اِس سب کے باوجود بھی اگر اب وہ اِس دنیا میں ہوتی، تو اُس کے لیے سب سے عزیز آپ ہی ہوتے۔‘‘ وہ کہتے جا رہے تھے اور کمال صاحب کے چہرے پر سے رنگ اُڑتے جا رہے تھے اور آخری بات پر اُن کا چہرہ فق ہوگیا تھا ۔ جیسے ہر رنگ نچوڑ لیا گیا ہو۔ اور پھر جو جو باتیں سعید صاحب نے اُن سے کہیں کمال صاحب ہر ایک بات پر خود کو زمین میں دھنستا ہوا محسوس کرنے لگے۔ کبھی کبھی انسان غصے میں کتنے غلط فیصلے کر جاتا ہے۔ اتنے غلط کہ وہ فیصلے اُسے بربادی کی زنجیروں میں لپیٹ دیتے ہیں۔
٭…٭
’’مس حوریہ، آپ کو ایسے جاب نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔‘‘ موحد، حوریہ اور اُس کے گھر والوں کے ساتھ اِس وقت لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اُس کے سامنے پڑی میز پر طرح طرح کے لوازمات رکھے ہوئے تھے لیکن موحد نے پانی کے گلاس کے سوا کسی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔ وہ کچھ کنفیوز بیٹھا تھا کیونکہ اُس کے والد نجانے حوریہ کے والد کے ساتھ اندر بیٹھے کب سے کیا باتیں کر رہے تھے ۔ انہیں آئے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا ۔ وہ شروع میں کچھ دیر انہیں تعارف کرواتا رہا ۔ پھر اپنے کام کے متعلق حوریہ کی والدہ کے سوالات کا جواب دیتا رہا ۔ اور اب موقع ملنے پر وہ حوریہ سے مخاطب ہوا تھا۔ اُس کی بات پر حوریہ نے ایک نظر اپنے سامنے بیٹھے دونوں بھائیوں کو دیکھا۔ نعیم کا چہرہ بے تاثر تھا اور وہ اپنے موبائل پر جھکا ہوا تھا جبکہ ارسلان اُسے غصے سے گھور رہا تھا۔ اُس نے ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔
’’میں نے اُس وجہ سے جاب نہیں چھوڑی، جو آپ سمجھ رہے ہیں موحد سر ۔ میرے کچھ پرسنل ریزنز ہیں۔‘‘ وہ اپنے بھائی کی آنکھوں سے نظریں چرا کر بولی۔
’’وہ پرسنل ریزن بھی میں جانتا ہوں ۔ اور اُسی سلسلے میں ہم یہاں آئے ہیں۔‘‘ موحد کا یہ کہنا تھا کہ حوریہ حیرانی سے بھنویں اچکائے اُسے دیکھنے لگی۔ بھلا اِس بات کا کیا مطلب تھا۔
’’حوریہ جاؤ۔ چائے بنا کر لاؤ۔‘‘ ارسلان کچھ سختی سے بولا تھا۔
اپنے بھائی کی سخت آواز پر حوریہ فوراً اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔ اُسے معلوم تھا یقیناً ارسلان بھائی اُسے غلط سمجھ رہے ہوں گے لیکن اب وہ کیا کر سکتی تھی ۔ دوسری طرف مسز کمال بس اپنے سامنے بیٹھے نوجوان پر نظریں ٹکائے ہوئے تھیں ۔ اُن کے دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ بہت سی الجھنیں، بہت سی پریشانیاں اور حوریہ کے اٹھنے پر وہ مزید خاموش نہ رہ سکیں اور اپنی الجھنوں کا اظہار اپنی زبان سے کر ہی دیا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page