مکمل ناول

ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ

’’آپ یہ سب مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں ۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں نہیں جانتا کچھ بھی۔‘‘ وہ جیسے اُن کے مسلسل شک کرنے پر چِڑ کر بولا تھا۔ یہاں اُسے نیکی گلے پڑتی محسوس ہو رہی تھی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ جب اُن کا حادثہ ہوا تھا تو آپ کو اُن کے ساتھ کوئی ہینڈ بیگ یا فون وغیرہ دِکھا تھا؟‘‘ وہ اُس کے بیزار لہجے پر سوال بدل گئی تھیں۔
’’نہیں، ایسا تو کچھ نہیں تھا۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولا۔
’’صحیح ! ویسے وہ خطرے سے باہر ہیں ۔ سر پر چوٹیں آئی ہیں لیکن کوئی خطرے کی بات نہیں ۔ گھٹنا زخمی ہوا تھا اُس پر بھی پٹی باندھ دی گئی ہے ۔ ابھی وہ دوا کے زیرِ اثر بے ہوش ہیں۔ صبح تک ہوش میں آ جائیں گی ۔ اُن کے ہوش میں آنے کا انتظار کر لیتے ہیں، پھر ہی معاملے کی طے تک پہنچ پائیں گے ۔ ورنہ پولیس کو انفارم کر دیا جائے گا۔‘‘ وہ کچھ سوچ کر آخر میں دھمکانے والے انداز میں بولی تھیں اور پھر کُرسی کی پشت سے ٹیک لگا گئیں۔ اُن کی بات سنتے سعید ازلان نے اثبات میں سر ہلا کر ٹھنڈی سانس بھری تھی۔ خیر جو بھی تھا ابھی کے لیے یہ معاملہ ٹل گیا تھا۔
’’تو کیا میں واپس جا سکتا ہوں۔ میرے ساتھ میرا چھوٹا بیٹا بھی ہے۔‘‘ اس نے واپس جانے کی اجازت طلب کی۔
’’آپ جا سکتے ہیں، اِس شرط پر کہ صبح آپ دوبارہ یہاں موجود ہوں گے۔ ورنہ ہمارا کیا ہے، ہم پولیس کو خبر کر دیں گے۔‘‘ وہ اجازت بھی تنبیہ کرنے والے انداز میں دے رہی تھیں۔
وہ سر ہلا کر اُن کے کمرے سے باہر نکل گیا ۔ وہ باہر آ کر سٹنگ ایریا کی طرف بڑھا ۔ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھاتے ہسپتال سے نکل گیا ۔ اب اُس کی منزل اپنے گھر کے قریب والا ہسپتال تھی جہاں اُس کی بیوی موجود تھی ۔ اپنی والدہ کو صبح اُن سے ملوانے کا ارادہ باندھتے وہ گاڑی زن سے بھگانے لگا۔ رات کے سناٹے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ اور پھر رفتہ رفتہ یہ پُر اسرار سی رات بھی سِرک گئی۔ وہ صبح سویرے اپنے کہے کے مطابق ہسپتال میں موجود تھا ۔ رات اُس کی بیوی کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا ۔ وہ اسے اور بچی کو لے کر گھر گیا، تو وہ راستے میں دیر سے آنے کی وجہ اور نجانے کون کون سے سوالات پوچھتی رہی ۔ جنہیں وہ ٹالتا رہا ۔ اُس کے گھر بیٹی ہوئی تھی، خوشیوں کا سماں تھا ۔ ایسے میں اُسے یہ پریشانی لاحق ہو گئی تھی، جس نے اُسے مکمل طور پر خوش بھی نہیں ہونے دیا ۔ دِل عجیب وسوسوں اور اندیشوں میں گِھرا ہوا تھا ۔ وہ جب ہسپتال پہنچا تھا، تب بھی وہ لڑکی ہوش میں نہیں آئی تھی ۔ ابھی تک اُس کی نیند نہیں ٹوٹی تھی ۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے ہسپتال کے اُس کمرے میں داخل ہوگیا، جس میں وہ لڑکی موجود تھی ۔ وہ بستر کے قریب رکھے صوفے پر آ بیٹھا ۔ نجانے اِس لڑکی کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا، جو وہ رات کو اکیلی سڑک پر بھاگ رہی تھی ۔ پھر آستین کا بھی پھٹا ہونا، گردن پر موجود ناخنوں کے نشان، یہ سب جس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے، اُس سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ وہ اُنہی سوچوں میں گرفتار تھا، جب اسے کسی کی دھیمی آواز میں پکار سنائی دی۔
’’بھائی!‘‘وہ بستر کے قریب گیا تو اُس لڑکی کو نیند میں ایک ہی لفظ بار بار دہراتے ہوئے پایا۔
شاید وہ اپنے بھائی کو پکار تھی۔ وہ ہچکچاتے ہوئے اُس کا کندھا ہلانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے ہی والا تھا، جب وہ اچانک سسکنے لگی۔
’’بھائی، مجھے بچا لیں۔‘‘
’’بھائی، مجھے بچا لیں۔‘‘ وہ اونچی آواز میں سسکتے ہوئے یہ الفاظ دہرانے لگی ۔ سعید ازلان کچھ نہ سمجھتے ہوئے کمرے سے باہر کی طرف بھاگا تاکہ کسی ڈاکٹر کو بُلا سکے ۔ اُس کی بات سنتے تیزی سے ڈاکٹر کمرے میں آئے۔ نرس اُسے سکون کا انجیکشن لگانے کے لیے جوں ہی آگے بڑھی۔ وہ چیختے ہوئے بولنے لگی۔
’’چھوڑو مجھے ذلیل انسان۔‘‘ وہ جیسے اپنی کیفیت سے اب تک باہر نہیں آئی تھی ۔
اُس کے احتجاج کے باوجود انہوں نے زور زبردستی کرتے اُسے بے ہوشی کا انجیکشن لگا دیا ۔ سعید ازلان کھڑے تماشائیوں کی طرح یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اُسے ہوش میں آنے سے پہلے ہی دوبارہ بے ہوش کر دیا گیا تھا۔ یہ سب آخر کیا ہو رہا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ یقیناً وہ لڑکی اذیت میں ہوگی، تب ہی اپنے ڈر و خوف کی کیفیت سے باہر نہیں آ پا رہی تھی لیکن اِس وقت وہ خود مشکل میں تھا۔ جب تک کہ اُس لڑکی کو ہوش نہیں آ جاتا، وہ اب کہیں نہیں جا سکتا تھا۔ گھر سے وہ آفس جانے کا بتا کر نکلا تھا اور اب راستے میں اپنے مینیجر کو فون کر کے سارا کام وہ اُس کے حوالے کر چکا تھا ۔ ڈاکٹرز کے باہر نکلنے پر وہ سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے واپس اپنی سابقہ جگہ پر جا بیٹھا۔
٭…٭
’’بھائی! ‘‘ اُس نے مندی مندی آنکھیں کھولیں، تو تیز روشنی کی وجہ سے چند پل کے لیے آنکھیں چندھیا گئیں ۔ منہ سے بے اختیار بھائی لفظ کی پکار نکلی۔ جیسے زبان یہ لفظ دہرانے کی عادی ہو۔
’’آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ سعید ازلان ابھی دوپہر کا کھانا کھا کر لوٹا ہی تھا جب ایک بار پھر وہی شناسا سی آواز میں ’’بھائی ‘‘ لفظ کی پکار اُس کی سماعت سے ٹکرائی ۔ تب وہ تیزی سے بستر کے قریب آ کر پوچھنے لگا ۔ کسی اجنبی آواز پر اُس نے دوبارہ آنکھیں کھولی، تو نظریں سفید چھت سے ٹکرائیں۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اُس نے آواز کی طرف نظریں موڑیں تو اجنبی چہرہ دیکھ کر ایک پل کو حیران ہوئی۔
’’آپ کون ہیں؟ م…میں کہاں ہوں؟‘‘ اُس نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی تو سر میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی جس پر وہ ماتھے پر ہوئی پٹی پر ہاتھ رکھ کر واپس لیٹنے پر مجبور ہوگئی۔
’’آپ اٹھیں مت! آپ اِس وقت ہسپتال میں ہیں۔ آپ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ کیا آپ کو یاد ہے؟‘‘ سعید ازلان نے نرمی سے کہا تھا۔
’’ایکسیڈنٹ!‘‘ یہ لفظ سننا تھا کہ اُس کے دل و دماغ میں سارے واقعات طوفان کی طرح امڈ آئے ۔
اُس کا آفس سے اپنی جان اور عزت بچا کر بھاگنا ۔ انجان راستوں پر نکل آنا۔ موبائل کا بھی پاس نہ ہونا ۔ اندھیرا گہرا ہوتا جانا ۔ اُس کا یوں ہی سڑک پر چلتے رہنا ۔ کچھ آوارہ لڑکوں کا اس کے پیچھے پڑنا اور پھر اُس کا کسی گاڑی کے سامنے آ جانا ۔ سب کسی فلم کی طرح ذہن میں چلنے لگا تھا ۔ یہ سب کچھ ایک ہی دِن میں ہو گیا تھا ۔ یہ اُس کے ساتھ کیا ہو گیا تھا۔ آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا۔ وہ نم لہجے میں پھر سے اپنے بھائی کو پکارنے لگی۔
’’بھائی!‘‘ اُسے یوں روتے دیکھ کر وہ پریشان ہوگئے۔
’’مجھے میرے بھائی کے پاس جانا ہے۔‘‘ وہ نم لہجے میں سامنے کھڑے اجنبی سے بولی۔
’’لیکن یہ آپ کی گردن پر نشانات، کیا آپ کے ساتھ کچھ ہوا ہے؟‘‘ وہ بے اختیار پوچھ بیٹھا۔
’’نہیں، مجھے بس اپنے بھائی کے پاس جانا ہے۔‘‘ وہ سر نفی میں ہلاتی بار بار دہرانے لگی۔
وہ اُسے یوں ہی چھوڑ کر باہر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا ۔ وہی لیڈی ڈاکٹر جو کل اُس سے سوالات کر رہی تھیں، وہ فوراً سے اُس کے ساتھ اندر کمرے میں آ گئیں ۔ لیڈی ڈاکٹر نے اُس لڑکی سے بہت سے سوالات پوچھے لیکن وہ ہر سوال کا یہی جواب دیتی کہ میرے ساتھ کچھ نہیں ہوا ۔ مجھے بس گھر جانا ہے ۔ حادثے کے نتیجے میں بروقت بریک لگانے کی وجہ سے اُسے زیادہ چوٹیں نہیں آئی تھیں ۔ بازوؤں پر کچھ خراشیں آئی تھیں اور ماتھے پر گہرا زخم آیا تھا جس کی وجہ سے اُس کے ماتھے پر بینڈج کر دی گئی تھی ۔ دائیں ٹانگ کے گھٹنے والے مقام پر بھی لباس پر خون لگا تھا۔ وہاں بھی پٹی کر دی گئی تھی۔
اُس نے لڑکی کی یہ حالت دیکھتے ہوئے، سب باتیں پسِ پشت ڈال کر لڑکی کے بتائے گئے نمبر پر کال کی ۔ اُسے بس اپنے بھائی کا نمبر ہی یاد تھا کیونکہ اُس نے کبھی کسی اور کا نمبر یاد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی ۔ لیکن جو نمبر اُس لڑکی نے بتایا تھا وہ بند تھا۔ اُس نے بار بار کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔
’’کیا آپ کو اپنے گھر کا ایڈریس یاد ہے؟‘‘ وہ لیڈی ڈاکٹر اُس لڑکی سے ایسے سوال کر رہی تھیں، جیسے اُس کی یادداشت چلی گئی ہو۔
’’ج…جی بالکل۔‘‘ اُس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
لڑکی کا جواب سُنتے ہی ڈاکٹر صاحبہ نے صوفے پر بیٹھے سعید ازلان کی طرف دیکھا ۔ وہ اُن کی نظروں پر ناسمجھی کا اظہار کرنے لگا ۔ پھر اُن ہی کے اشارے پر وہ ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکلنے پر، اُن کے پیچھے ہی خود بھی نکل گیا۔
٭…٭
شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ وقت اپنی رفتار پر سِرکتا جا رہا تھا ۔ ایسے میں تارکول کی سڑک پر رواں دواں گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ وہ ریر ویو مِرر پر سے وقفے وقفے سے اُس لڑکی پر نظریں ڈال رہا تھا جو خاموش سی گلاس وِنڈو سے باہر دوڑتے مناظر پر نظریں جمائے ہوئے تھی ۔ اِس خاموشی میں خلل اُس کی گھمبیر آواز نے ڈالا۔
’’کیا آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ نجانے کیوں اُس نے یہ سوال کیا تھا۔ وہ خود بھی حیران تھا۔
’’ہمم۔‘‘ وہ لڑکی کچھ پل خاموش رہنے کے بعد جھجک کر بولی تھی۔
ہسپتال میں اُس لیڈی ڈاکٹر نے اُسے ہی اعتبار والا سمجھ کر، اُسی کے ساتھ اُس کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ویسے بھی اُن کا کہنا تھا کہ ہسپتال کا کام بس علاج کرنا ہے باقی معاملات سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں اور جب لڑکی نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ اُس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا، تو پولیس کو انوالو کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اور سعید ازلان پر شک کرنے کی کوئی وجہ بھی اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ جب اُس نے حور (لڑکی نے اپنا نام ہسپتال میں بتایا تھا ) سے پوچھا کہ اُسے اُس کے ساتھ واپس جانے میں کوئی مسئلہ تو نہیں، تب اُس نے یہ کہہ کر ہاں کر دی تھی کہ اگر آپ بُرے ہوتے تو مجھے ہسپتال لے کر ہی نہ آتے بلکہ اُسی سنسان راہ پر مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ۔ اُس کی اِس بات پر وہ بہت حیران ہوا ۔ وہ اُس پر محض ایک بات کی وجہ سے کیسے اعتبار کر سکتی ہے ۔ شاید اُسے لوگوں کو پرکھنا آتا تھا یا وقت نے اُسے لوگوں کی پہچان کرنا سکھا دی تھی۔ اور اِس کی بھی اُس نے بڑی قیمت ادا کی تھی۔ یوں ہی خاموشی میں یہ وقت بھی سِرک گیا اور وہ اُس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچ گیا ۔ اِس وقت مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ گھر ایک اچھی سوسائٹی میں تھا ۔ وہ جب اُس گھر تک پہنچے تھے، تب پیچھے بیٹھے اداس اور ویران چہرے پر ایک دم بہار کے موسم سی رونق اور تازگی آن ٹھہری تھی ۔ وہ ایک پل کی بھی دیری کیے بغیر گاڑی سے باہر نکل گئی تھی ۔ لڑکھڑاتی چال چلتے بھی وہ تیزی سے اپنے گھر کے دروازے تک پہنچ گئی ۔ اُس نے اپنے پُرانے پھٹی آستین والے لباس پر سعید ازلان کا سیاہ کوٹ پہن رکھا تھا ۔ وہ کوٹ جو اُسے سعید ازلان نے ہی دیا تھا ۔ کیونکہ یوں اُس حلیے میں اُس کا واپس جانا ٹھیک نہیں تھا ۔ سعید ازلان اِس سوچ میں غرق ہوگیا کہ اب اُسے واپس جانا چاہیے یا یہیں ٹھہر کر اُس لڑکی کے اندر جانے کا انتظار کرے ۔ اُس نے نا چاہتے ہوئے بھی ٹھہرنے کا انتخاب کیا ۔ دِل نے کہا کہ جب یہاں تک آ گئے ہو تو مزید کچھ پل انتظار کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ وہ گاڑی کی وِنڈو کھول کر اُس پر کہنی ٹکا گیا۔باہر نکلنے کی بھی اُس نے زحمت نہ کی۔
وہ جو خوشی سے باہر نکل کر اپنے گھر کے داخلی دروازے تک پہنچی تھی، اب یک دم کچھ سوچ کر وہیں ٹھہر گئی تھی ۔ چہرے کے تاثرات پل بھر میں تبدیل ہوئے تھے ۔ اُسے کچھ بہت اہم یاد آ گیا تھا ۔ ہاں ایک اہم بات جس کی بنا پر اب اُسے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا تھا ۔ وہ ایک رات سے باہر تھی۔ اُسے اچانک ہی یہ پریشانی لا حق ہو گئی تھی کہ نجانے اُس کے بھائی نے اُس کے بارے میں کیا سوچا ہوگا ۔ ہاں وہ کردار کی صفائی دینے کے لیے تیار تھی لیکن اگر اُسے اپنی صفائی دینے کا موقع دیا جائے تو لیکن یہ سب ثانوی باتیں تھیں۔ اِس وقت سب سے اہم بات یہ تھی کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود وہ صحیح سلامت اپنے گھر پہنچ گئی تھی، یہی سوچ اُسے مطمئن کر گئی۔ اُس کے گھر کے قریب والی مسجد میں اذان ہونے لگی ۔ اُس نے اِس وقت اپنے وہی پُرانے کپڑے اوڑھ رکھے تھے جس کی آستین پھٹی ہوئی تھی لیکن ڈاکٹر صاحبہ کی دی گئی سیاہ چادر نے کپڑوں کی بوسیدہ حالت چھپا رکھی تھی۔ پھر اُس نے اُس انجان شخص کا کوٹ بھی تو پہن رکھا تھا ۔ اُس نے اذان کی آواز پر سر پر وہی سیاہ چادر اوڑھ لی ۔ پھر اللہ کا نام لے کر دروازے کی گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیا ۔ کچھ ہی دیر بعد دروازہ کھول دیا گیا۔ سامنے ہی اُس کی بھابھی کھڑی تھیں۔ اُسے دیکھ کر اُن کی آنکھوں میں پل بھر کے لیے حیرانی آ سموئی تھی لیکن پھر انہوں نے روتے ہوئے آگے بڑھ کر اُسے گلے سے لگا لیا۔
’’حور، تم کہاں تھی؟ ساری رات ہم تمہارا انتظار کرتے رہے۔‘‘ وہ گلو گیر لہجے میں پوچھنے لگیں جس پر حور کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
’’اب کون ہے رقیہ ؟‘‘
اِس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی اور اپنے اوپر گزری داستان سناتی، اُس کے کانوں سے ایک شناسا سی آواز ٹکرائی ۔ اُس کے بھائی کی آواز ۔ وہ آواز جس سے سب سے زیادہ شناسائی تھی ۔ اُس نے تڑپ کر نظریں اٹھائیں، تو سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر ڈوبتے سورج کے ساتھ اُس کا دل بھی ڈوب گیا ۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے، اجڑی بکھری حالت ۔ یہ اُس کے اچھے خاصے بھائی کو کیا ہو گیا تھا ۔ وہ ایسے تو نہیں تھے ۔ وہ تو روشن نکھرے نکھرے سے چہرے والے وجیہہ شخص تھے ۔ بس ایک دن پہلے کی ہی تو بات ہے ۔ یوں لگتا تھا جیسے گزری رات کی سیاہی اُن کے چہرے کی رونق لے گئی تھی۔
’’بھائی…‘‘ حور تڑپ کر اُن کی طرف بڑھی تھی، جب اُنہوں نے سامنے کھڑی اپنی بہن کو دیکھ کر ہاتھ اٹھا کر اُسے وہیں روک دیا۔
’’خبردار! خبردار! جو تم نے مجھے اپنا بھائی کہا۔‘‘ وہ کڑک آواز میں اتنی سختی سے بولے تھے کہ حور اپنی جگہ لرز کر رہ گئی۔
’’بھائی، یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ میری بات تو سن…‘‘ وہ دروازہ عبور کر کے ایک قدم اندر آئی تھی۔ اُس کی بات انہوں نے مکمل ہونے سے پہلے ہی درشتی سے کاٹ دی۔
’’سُن لی جتنی باتیں ہم نے سننی تھیں، اب تم یہاں کیا لینے آئی ہو؟ کسی خبطی شخص کے ساتھ بھاگ ہی گئی تھی، تو واپس آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ بے رونق سے چہرے پر اِس وقت اتنے سخت تاثرات کا پہرہ تھا کہ حور پہچان ہی نہیں پا رہی تھی کہ واقعی یہ اُس کے بھائی ہی ہیں۔ جنہوں نے آج تک اُس سے اِس قدر سخت لہجے میں بات نہ کی تھی ۔ اُن کی کسی شخص کے ساتھ بھاگنے والی بات پر، اُس کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات چھائے تھے۔
’’بھائی، یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کون سا شخص؟ میں کسی کے ساتھ نہیں بھاگی۔‘‘ اُسے لگا کہ اس کے ایک رات باہر رہنے کی وجہ سے انہیں لگا ہے کہ شاید وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی ۔ اُن کی یہی غلط فہمی کو وہ دور کرنے کی غرض سے بولی تھی، جب پیچھے سے اُس کے نام کی پکار اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’حور، یہ آپ اپنی دوائیاں گاڑی میں چھوڑ گئی تھیں؟‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page