ٹائم مشین: دوسرا اور آخری حصہ
’’دیکھو، ملیحہ! میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو۔ لیکن میں نے دوسری شادی کر کے کوئی گناہ تو نہیں کیا۔‘‘
’’میں اس سے محبت کرتا ہوں، اسی وجہ سے میں نے اُس سے نکاح کر لیا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میرے اِس فیصلے سے تمہاری حق تلفی نہیں ہوگی ۔ میں تم میں اور اُس میں کوئی فرق نہیں کروں گا ۔ میری محبت بٹی ضرور ہے لیکن کم نہیں ہوئی۔‘‘ باپ کا وہ سنجیدہ لہجہ۔ ماں کا اداس چہرہ اور دروازے کی آڑ سے یہ سب دیکھتا وہ معصوم بچہ۔
’’موحد، یہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے ۔ اپنے بھائی کا خیال رکھو گے ناں؟‘‘ اپنے ہاتھوں میں چھوٹے سے معصوم بچے کو تھامے اپنے باپ کی بات سنتا وہ آٹھ سالہ بچہ۔
’’موحد، تم اُس سے پیار نہیں کرو گے ۔ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے سمجھے ۔ وہ تم سے تمہارے ڈیڈ کو چھین لے گا۔‘‘ اپنی ماں کی سمجھائی گئی باتوں پر اثبات میں سر ہلاتا وہ بچہ۔
یہ سب مناظر کسی فلم کی طرح اُس کے دماغ میں چلنے لگے ۔ سماعتوں میں بار بار مختلف لوگوں کی آوازیں گونجنے لگیں ۔ کل غنی کے حقیقت بتانے پر اُسے معلوم ہوا کہ اب تک وہ جو سمجھتا رہا تھا، وہ بالکل غلط تھا ۔ اگر یہ سب سچ تھا، تو وہ ماضی میں کتنی زیادتی کر چکے تھے ۔ غنی نے جو بات بتائی تھی، وہ مکمل سچ نہیں تھا۔ موحد جانتا تھا کیونکہ وہ حادثے والی رات میں اُس منظر کا گواہ رہ چکا تھا۔ اُس نے اِس حادثے کا ذکر غنی سے نہیں کیا تھا۔ وہ بس اُس کی طرف کا سچ سنتا رہا۔
مکمل حقیقت تو اُس کے والد ہی جانتے تھے اور ابھی اُن سے یہ سب گفتگو کرنے کا بالکل وقت نہیں تھا ۔ کیونکہ ابھی کسی اور موضوع پر بات چیت کرنا زیادہ اہم تھی ۔ وہ سر جھٹکتے ہوئے ماضی کی یادوں سے باہر آیا ۔ اِس وقت وہ تن تنہا شہرِ خموشاں میں ایک قبر کے سامنے کھڑا تھا ۔ سامنے موجود تختے پر لکھا نام ’’حور سعید‘‘ پڑھ کر وہ گھٹنوں کے بل قبر کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔ قبر پر گلاب کی پتیاں پھیلاتے، اُس کے اعصاب بھاری ہو رہے تھے۔
’’چھوٹی ماما! مجھے معاف کر دیں ۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے بہت دیر کر دی ہے لیکن میں اب کچھ نہیں کر پا رہا ۔ ہم نے آپ کے ساتھ بہت غلط کیا ۔ ماما تو چلو آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرتی ہی تھیں، مگر میں نے بھی آپ کے ساتھ بہت بُرا رویہ رکھا…م…میں چھوٹا تھا۔ آپ کے بیٹوں جیسا تھا، آپ نے کیوں نہیں اُس وقت مجھے ایک تھپڑ لگایا۔‘‘ وہ بہت رنجیدہ لہجے میں قبر پر نظریں ٹکائے بول رہا تھا۔
’’آپ سب کچھ چپ کر کے کیوں سہتی رہیں ؟ آپ نے کیوں نہیں اپنے لیے آواز اٹھائی ۔ آپ غلط نہیں تھیں ۔ ڈیڈ بھی غلط نہیں تھے اور اگر دیکھا جائے تو ماما بھی غلط نہیں تھیں لیکن پھر بھی ہم نے آپ کے ساتھ بہت زیادتی کی ۔ آپ اُس سلوک کے لائق نہیں تھیں، جو ہم نے آپ کے ساتھ رکھا ۔ اور اب پچھتاوں نے مجھے گھیر لیا ہے ۔ میں اِن سب سے نہیں نکل پا رہا ۔ میں سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن… موحد سے سب کچھ ٹھیک بھی نہیں ہوتا۔‘‘ وہ آخری بات کہتے خود پر سے اختیار کھو بیٹھا ۔ آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا ۔ شہرِ خموشاں میں تو ہمیشہ کی طرح خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن اِس وقت اُس کا دل بھی بہت ویران ہو گیا تھا۔ بے بسی ہی بے بسی تھی۔
’’اگر فینٹسی لینڈ کی طرح یہاں بھی کوئی ٹائم مشین ہوتی، تو میں اُس میں سفر کر کے واپس اُس وقت میں لوٹ جاتا، جب ہم آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے ۔ جب آپ خاموشی سے ہماری نفرت سہا کرتی تھیں ۔ میں اُس وقت میں واپس لوٹ کر سب کچھ ٹھیک کر دیتا ۔ میں نفرتوں کی دیوار گِرا دیتا لیکن، سچ تو یہ ہے کہ یہاں کوئی ٹائم مشین نہیں ۔ اور گزرا وقت پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔‘‘ وہ اپنے چہرے پر سے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے تلخی سے مسکرایا۔
’’میں ماضی میں تو نہیں لوٹ سکتا لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں غنی کا ہمیشہ خیال رکھوں گا ۔ میں غنی کو اِن سب غموں سے باہر نکال لوں گا ۔ اب غنی کے ساتھ کوئی حق تلفی نہیں ہوگی ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کو اُس کی خوشیاں لوٹا دوں گا۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے عزم سے اٹھا ۔ پھر اپنے چہرے کو اپنی شرٹ کی آستین سے صاف کرتا، وہ واپس جانے کے لیے باہر کی طرف قدم بڑھا گیا۔
قبرستان سے باہر نکلتے اپنی گاڑی کے پاس آ کر، اُس نے پینٹ کی جیب میں سے اپنا موبائل نکالا اور اپنے والد کو فون ملایا ۔دوسری طرف سے کال اٹھا لینے پر سلام دعا کے بعد وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔
’’ڈیڈ! آج رات آپ غنی کی طرف مت جائیے گا ۔ گھر لوٹ جائیں، مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ وہ دوسری طرف کا جواب سنتے ہوئے مزید بات جاری رکھتے کار میں بیٹھ گیا ۔
شام کی سُرخیاں آسمان پر پھیلی ہوئی تھیں۔ رات کی سیاہی جلد ہی آسمان پر اپنے پَر پھیلانے والی تھی۔ اور پھر ہمیشہ کی طرح یہ رات بھی ڈھل جانی تھی۔ مگر آج کی رات ڈھلنے سے پہلے موحد سعید کچھ بہت اہم کام سر انجام دینے کے بارے میں سوچے ہوئے تھا۔
٭…٭
’’حوریہ!‘‘ حوریہ اور مسز کمال ڈاننگ ٹیبل پر رات کا کھانا لگا رہے تھے، جب مسز کمال نے اُسے مخاطب کیا۔ سمیرا اِن دِنوں اپنے میکے گئی ہوئی تھی۔
’’جی ماما!‘‘ وہ میز کے قریب کھڑی تھی، جب اُس نے اپنے نام کی پکار سنی۔ وہ وہیں ٹھہر گئی۔ مسز کمال بھی اُس کے پاس ہی آ گئی تھیں۔ میز پر تقریباً کھانا لگ چکا تھا۔
’’کتنی عجیب بات ہے ناں ۔ لوگوں کے گھر میں شادی، بیاہ یا منگنی کی تقریبات وغیرہ ہوں تو اُن کے گھر کتنی رونق ہوتی ہے اور ایک ہمارا گھر ہے، ایسے موقع پر بھی ویران پڑا ہے۔‘‘
اُن کی بات پر حوریہ کے دمکتے چہرے پر افسردہ تاثرات پھیل گئے ۔ وہ کیا کہتی جب اُس کے خود کا دل ہی ویران پڑا تھا ۔ ایسے میں گھر ویران ہونے پر وہ کیا جواب دے سکتی تھی ۔ اِن دنوں اُسے اپنی پرانی دوست اور اُس کی باتیں کچھ زیادہ ہی یاد آ رہی تھیں ۔ اُس کے خاموش رہنے پر مسز کمال اُس کا ہاتھ تھامتے ہوئے، کُرسی دھکیل کر بیٹھ گئیں اور حوریہ کو بھی اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔
’’تمہارے بابا نے تمہارے بڑے تایا کو منگنی کا بتایا تو وہ کہہ رہے تھے کہ منگنی پر تو نہیں لیکن وہ شادی پر ضرور آئیں گے اور تمہارے ماموں تو ظاہر ہے، میری بیٹی کی خوشی میں آئیں گے ہی ۔ لیکن مجھے یہ بتاؤ، کیا تم خوش ہو؟‘‘ اُسے پچھلے دِنوں سے یوں ہی افسردہ خاطر دیکھ کر وہ کچھ تشویش سے بولی تھیں ۔ وہ ماں تھیں آخر کیسے نہ محسوس کرتیں کہ بیٹی کے چہرے پر رونق مانند پڑتی جا رہی ہے۔
’’ج… جی ماما، میں خوش ہوں۔‘‘ اُن کے اچانک ایسے سوال پر وہ کچھ جھجک سے گڑبڑا کر بولی ۔ نظریں گود میں رکھے اپنے ہاتھوں پر مرکوز کر لیں ۔ وہ جھوٹ بول رہی تھی اور اس سے مسز کمال باخوبی واقف تھیں۔
’’لیکن مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ حوریہ صاحبہ جھوٹ بول رہی ہیں۔‘‘ اُس کے جھوٹ بولنے پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے اُسے گھور کر بولیں ۔ اُن کی گھوری پر حوریہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دی ۔ مگر مسز کمال نہیں ہنسی تھیں بلکہ اُن کی اگلی بات پر ہنستی حوریہ بھی سنجیدہ ہو گئی تھی۔
’’کیا اپنی دوست کی وجہ سے اداس ہو؟ اُسے یاد کر رہی ہو؟‘‘ انہیں لگا کہ اُس کی یہ اداسی اُس کی بچپن کی دوست کی وجہ سے ہے۔
شاید وہ صحیح تھیں۔ کہیں نہ کہیں حوریہ کے دل میں یہ بات بھی تھی، جو اُس کی اداسی کی وجہ تھی لیکن اُس کی اداسی محض اِس وجہ سے تو نہیں تھی ۔ اِس بار کوئی اور بھی وجہ تھی ۔ شاید کسی کا دل توڑنے پر افسوس یا پچھتاوا ۔ وہ آنکھیں اُس کی نظروں سے ہٹ نہیں رہی تھیں جن میں التجا تھی ۔ جن میں ٹھکرائے جانے کا خوف تھا ۔ مگر اُس وقت غصہ اتنا شدید تھا کہ پتا نہیں کیا کیا بک آئی تھی ۔ یہی بات آرام سے، شائستہ انداز میں بھی کہی جا سکتی تھی ۔ انکار کرنے کے اور سو طریقے ہوتے ہیں ۔ وہ یہی سب سوچتی تھی پھر اپنا پچھتاوا ختم کرنے کے لیے خود کو صحیح ہونے پر اِن الفاظ میں تسلی دیتی ۔ ’’نہیں حوریہ، تم نے بالکل ٹھیک کیا۔ ویسے بھی غیر مردوں سے نرم لہجے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ اِس وقت مسز کمال کی بات پر وہی پُرانا قصہ یاد آ گیا تھا۔ وہ سنجیدگی سے انہیں دیکھنے لگی۔
’’ماما! آپ سے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ وہ میری دوست نہیں تھی ۔ آپ اُس کا ذکر مت کیا کریں اور میں سچ میں خوش ہوں ۔ یہ دیکھیں، مسکرا تو رہی ہوں، اب کیا بھنگڑے ڈالوں۔‘‘ وہ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجاتے انہیں قائل کرنے والے انداز میں بولی۔
اِس سے پہلے مسز کمال اُسے مزید کچھ کہتیں ، کمال صاحب ، ارسلان اور نعیم کھانا کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر آ گئے ۔ ارسلان ، کمال صاحب سے کچھ بزنس کی باتیں کر رہا تھا، جس میں نعیم بھی شامل تھا ۔ اُنہی باتوں کے دوران وہ میز پر بیٹھ گئے ۔ مسز کمال انہیں آتا دیکھ کر خاموش ہو گئی تھیں ۔ سب نے خاموشی سے کھانا کھایا ۔ کھانے کے بعد ارسلان، نعیم اور کمال صاحب لاؤنج میں جا بیٹھے جبکہ حوریہ میز پر سے برتن اٹھانے لگی ۔ برتن اٹھا کر وہ ابھی لاؤنج میں آئی ہی تھی، جب دروازے کی گھنٹی بجی ۔ حوریہ نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے وال کلاک پر نظر دوڑائی ۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے ۔ اِس وقت بھلا اُن کے گھر کون آ سکتا تھا ؟ ہمسائے تو بالکل بھی نہیں آ سکتے تھے کیونکہ وہ دیر رات ہی اپنے کاموں سے گھر لوٹتے تھے ۔ پھر کون…؟ وہ یہی سوچتے ہوئے دروازہ کھولنے کے لیے بڑھی ۔ ارسلان بھی لاؤنج سے اٹھ کر راہداری عبور کرتا دروازے کی طرف آیا ۔ اُس نے حوریہ کو پیچھے کیا اور خود آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔
’’سر آپ…‘‘ دروازہ کُھلنے پر اپنے بھائی کے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ کچھ پل کے لیے حیران رہ گئی ۔ کسی اجنبی کو دیکھ کر ابھی وہ سوال کرنے ہی والا تھا کہ حوریہ بول پڑی۔ اور اُس کے ’’سر‘‘ کہنے پر وہ معاملے کو اپنے نظریے سے دیکھتا، حوریہ کو مُڑ کر گھورنے لگا ۔ تو نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ غیر مرد اُس کی بہن کے پیچھے اُس کے گھر تک آ گئے تھے۔
اِس غیر متوقع صورتحال میں وہ یوں ہی بے حس و حرکت کھڑی تھی، جب اُس کی سماعتوں سے بھاری گھمبیر محظوظ کن آواز ٹکرائی۔
’’ہیلو مس حوریہ! لگتا ہے آپ ہمیں اندر نہیں بلائیں گی؟‘‘ سامنے موحد کھڑا تھا ۔ وہ حوریہ کو یوں حیران و پریشان دیکھ کر ابرو اچکاتے محظوظ کن انداز میں بولا ۔
کل رات ہی اُس نے سعید صاحب سے اِس بارے میں بات کر لی تھی ۔ اُس کی بات سُن کر وہ بیک وقت خوشی و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ موحد کی بات مانتے ہوئے انہوں نے اُس آفس والی لڑکی کے گھر جانے کے لیے ہامی بھر لی تھی ۔ موحد نے حوریہ کے گھر کا پتا کمپنی سے نکلوا لیا تھا ۔ یہ اُس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ سی وی پر ویسے بھی ساری معلومات درج تھیں ۔ آج وہ اپنے والد کے ساتھ حوریہ کے گھر موجود تھا ۔ اُس نے غنی کو اِس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا ۔ وہ اُسے بے خبر اِس لیے رکھ رہا تھا تاکہ اگر یہاں بات نہ بنی، تب بھی کم از کم اُس کی کوئی امید تو نہیں ٹوٹے گی۔ مختصراً وہ اُسے کوئی جھوٹی امید کے جگنو نہیں تھمانا چاہتا تھا۔
’’کون ہے حوریہ؟‘‘ کمال صاحب اب تک بچوں کو واپس آتا نہ دیکھ کر خود دروازے تک چلے آئے تھے ۔ دروازے کے قریب پہنچتے حوریہ کو یوں ساکن کھڑے دیکھ کر کمال صاحب بولے ۔ حوریہ پیچھے ہٹی تو سامنے نوجوان شخص کے ساتھ کھڑے وجود کو دیکھ کر وہ وہیں تھم گئے ۔ پتھر کا مجسمہ بن گئے ۔ یوں لگا جیسے وہ چوبیس سال پیچھے لوٹ گئے ہوں ۔ یوں لگا جیسے وہ اُسی وقت میں پہنچ گئے ہوں، جہاں اُن کی بہن ایک انجان شخص کے ساتھ کھڑی تھی ۔ وقت جیسے تھم سا گیا یا شاید وقت نہیں تھما تھا ۔ دھڑکنوں کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی ۔ دوسری طرف موجود سعید صاحب دنگ تھے ۔ چوبیس سال بعد اُن کا پھر دوبارہ اُس شخص سے سامنا ہوا تھا ۔ کتنا وقت بیت چکا تھا ۔ کتنے موسم گزر چکے تھے ۔ جوانی بھی تو اب ڈھل چکی تھی۔
چوبیس سال، کتنا لمبا عرصہ ہوتا ہے، وہ شخص تو اُن کے لیے محض ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ گیا تھا۔ لیکن اب وہ سامنے کھڑا تھا ۔ ایک بار پھر اور وہ بھی یوں اچانک ۔ یوں لگا وقت کی تلوار اپنے زور پر خود ماضی کی کتاب کے اُس باب کو کھلوانا چاہ رہی تھی۔
انہیں یوں کھڑے ایک دوسرے پر نظریں جمائے دیکھ کر ارسلان نے حوریہ کی طرف دیکھا ۔ اسی لمحے حوریہ نے بھی اپنے بھائی کی طرف نظریں اٹھائیں۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے دونوں کندھے اچکا گئے۔
’’ڈیڈ! چلیں ناں۔ آپ ایسے کھڑے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ موحد نے اپنے باپ کا کندھا ہلاتے ہوئے کہا، تب کہیں جا کر وہ حال میں لوٹے ۔ موحد کے ڈیڈ کہنے پر کمال صاحب کی نظریں موحد کی طرف اٹھیں ۔ تو کیا یہ میری حورکا؟اُن کے ذہن میں سوال بیدار ہوا ۔ حوریہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی ۔ وہ حوریہ کی طرف دیکھتے دھیمے سے اثبات میں سر ہلا کر مہمانوں کو لیے اندر بڑھ گئے۔ ارسلان بھی نہیں سمجھا تھا کہ اُس کے والد ایسا رویہ کیوں برت رہے تھے۔
٭…٭
چوبیس سال پہلے:
رات کا پہلا پہر اپنے اختتام کو تھا ایسے میں وہ بے چینی سے ہسپتال کے کوریڈور میں ٹہل رہا تھا ۔ اِس وقت ہسپتال میں زیادہ رش نہیں تھا ۔ وقت سِرکنے کے ساتھ ساتھ باہر درختوں کے سائے گھنے اور پُراسرار ہوتے جا رہے تھے اور یہاں اُس کا دِل مزید بے چین ہوتا جا رہا تھا ۔ یہ اُس سے کیا ہو گیا تھا ۔ وہاں اُس کی بیوی ہسپتال میں تھیں۔ یقیناً اُس کا انتظار کر رہی ہو گی اور یہاں اُس سے کسی کا حادثہ ہو گیا تھا ۔ اُس شخص کا بیٹا اِس وقت اُن کے ساتھ ہی تھا ۔ وہ یہاں ہسپتال میں موجود نشستوں پر بیٹھے بیٹھے ہی سو چکا تھا ۔ پہلے پہل مریضہ کو جب وہ ہسپتال لے کر داخل ہوا تو ڈاکٹر اُس کا علاج کرنے پر ہی رضا مند نہیں تھے ۔ اُن کے نزدیک یہ ایک پولیس کیس تھا ۔ لیکن پھر اُس کی منت سماجت کرنے پر وہ مان گئے۔ کیونکہ چوٹ صرف ایک ٹانگ اور ماتھے پر لگی تھی۔ گو کہ سر سامنے گاڑی میں لگنے کی وجہ سے، ماتھے سے بہت خون بہہ رہا تھا مگر شکر تھا کہ بر وقت بریک لگانے کی وجہ سے جان محفوظ تھی۔ وہ انہی سب سوچوں میں گم تھا، جب اندر سے ایک لیڈی ڈاکٹر باہر آئیں۔
’’اندر موجود پیشنٹ کے ساتھ آپ ہیں؟‘‘وہ پیشہ وارانہ لہجے میں بولی تھیں، جس پر اُس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
’’آپ کا مریضہ سے کیا رشتہ ہے؟‘‘ وہ آنکھیں سکیڑ کر مشکوک انداز میں بولیں۔
’’ڈاکٹر صاحبہ! میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میرا اُن سے کوئی رشتہ نہیں ۔ یہ بس اچانک میری گاڑی کے سامنے آ گئیں۔ جس کے نتیجے میں یہ حادثہ ہوا اور میں انہیں یہاں لے آیا۔‘‘ وہ اپنی بات پر زور دیتا بولا۔
’’آپ میرے ساتھ آئیں۔‘‘ لیڈی ڈاکٹر کے لہجے سے لگ رہا تھا جیسے وہ اُس کی بات سے مکمل طور پر قائل نہ ہوئی ہوں۔ کیونکہ اکثر ایسے کیسز میں آدمی مریضہ سے لاتعلقی کا اظہار کرنے لگتے تھے۔ لیکن وہ ڈاکٹر صاحبہ کی بات مانتے، اُن کے ساتھ ہی اُن کے کیبن میں داخل ہوا۔
وہ اپنی نشست پر براجمان ہوئیں تو اُن کے سامنے رکھی کُرسی پر وہ بھی اشارے پر بیٹھ گئے ۔ دونوں کے درمیان بس ایک میز موجود تھی۔ انہوں نے اسٹیتھو اسکوپ گلے سے اتار کر ایک طرف رکھا اور سرد سانس ہوا میں خارج کرتے ہوئے گویا ہوئیں۔
’’آپ کا نام؟‘‘
’’محمد سعید ازلان۔ ‘‘ اس نے بغیر توقف کے جواب دیا۔
’’تو سعید صاحب آپ کا کہنا ہے کہ آپ اُس لڑکی کو نہیں جانتے؟‘‘ انہوں نے مشکوک لہجے میں ابرو اچکا کر پوچھا۔ جیسے اُسے پرکھ رہی ہوں۔
’’جی بالکل۔‘‘ وہ اعتماد سے بولا تھا۔ اسے بس جلد سے جلد یہ معاملہ حل کر کے لوٹنا تھا۔
’’تو پھر آپ یقیناً یہ بات تو جانتے ہی ہوں گے کہ جس لڑکی کو آپ ہسپتال لائے ہیں، اُس کے زیب تن کر رکھے لباس کی آستین پھٹی ہوئی تھی یوں جیسے…‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’جی دیکھا تھا۔ لیکن یقین کریں یہ سب میں نے نہیں کیا۔‘‘ وہ نظر جھکا کر بولا تھا۔
جب وہ اُس لڑکی کو اٹھا کر گاڑی کی پچھلی نشست پر لیٹا رہا تھا تب اس نے کار کی مدھم روشنی میں اُس کی پھٹی آستین دیکھی تھی۔
’’اچھا، ٹھیک ہے۔ فرض کریں، میں آپ کی بات مان لیتی ہوں ۔ تو یہ بتائیں کہ اُن کی گردن پر جو خراشیں ہیں وہ یقیناً بلی کے ناخنوں کی تو بالکل نہیں ہوگی ۔ تو پھر وہ کس نے کیا ہے؟‘‘ وہ بہت سنجیدگی سے استفسار کر رہیں تھیں۔