ٹائم مشین: پہلا حصہ
’’جی بابا! آپ نے بلایا تھا۔‘‘
حوریہ جاب مل جانے پر بہت خوش تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ اُس کے بابا اُس کے بھائی کو منا ہی لیں گے ۔ البتہ اب تک وہ ’’پھوپھو‘‘ والی پہیلی نہیں سلجھا پا رہی تھی ۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھی انہی سوچوں میں گم تھی، جب اُسے اُس کے والد کے پکارنے کی آواز آئی اور اب وہ اُن کے کمرے میں موجود تھی۔ کمال صاحب کے اشارے پر اُس نے دروازہ بند کر دیا تھا۔ اب وہ خاموشی سے اُسے اپنے پاس بستر پر بیٹھنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ حوریہ بغیر کچھ کہے اُن کے قریب بستر پر جا بیٹھی۔
’’حوریہ! بیٹا، میں جانتا ہوں کہ تمہیں بھی یہ حقیقت جاننے کا حق ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ تم ارسلان کے رویے سے یہ سمجھو کہ تمہارے بھائی تم پر اعتبار نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں ماضی کا وہ باب دوبارہ کھولنے جا رہا ہوں۔‘‘وہ اُس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے کچھ الجھے الجھے سے انداز میں بولے تھے۔
’’لیکن بابا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’اپنی پھپھو کے بارے میں جاننا نہیں چاہو گی؟‘‘ اُن کے سوال پر وہ خاموشی سے سر اثبات میں ہلا گئی۔ ہاں وہ یہ الجھن سلجھانا چاہتی تھی۔ وہ تیار تھی ایک اور راز جاننے کے لیے۔
’’میری حور، میری گڑیا… میری معصوم بہن جس کی پرورش میں نے کی تھی ۔ ماں باپ کی وفات کے بعد جائیداد کا بٹوارہ ہوا تو سب رشتے بکھر گئے ۔ بھائی، بھائی نہ رہے ۔ ہم ایک بہن اور تین بھائی تھے ۔ باقی بھائیوں نے اپنے اپنے گھر لے لیے اور کہیں نہ کہیں سیٹل ہو گئے لیکن میں… میں کرائے کے مکان میں رہنے لگا تھا ۔ انہوں نے حور کی ذمہ داری میرے سر پر ڈال دی تھی کیونکہ حور کو سب سے زیادہ لگاؤ مجھ ہی سے تھا ۔ حور اُس وقت صرف پندرہ سال کی تھی ۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے اپنا مکان لینے کے لیے لیکن کرائے کے مکان میں ٹھہرنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے کام پر جانے کے بعد مالک مکان کی بیوی حور کے پاس آ جاتی تھیں اور میرے پیچھے اُس کا خیال رکھتی تھیں ۔ وہ ہمیں پہلے سے جانتی تھیں یہی وجہ تھی کہ اپنوں کے ساتھ چھوڑ جانے پر اُن غیروں نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ۔ میں اچھی جگہ پر کام کر رہا تھا ۔ کمائی بھی اچھی تھی۔ جب تک ہم کرائے کے مکان میں ٹھہرے تب تک میں الگ سے اپنا ذاتی گھر لے چکا تھا ۔ حور کے یونی ورسٹی جانے پر ہم اپنے گھر میں شفٹ ہو گئے ۔ اب گھر حور ہی سنبھال لیتی تھی ۔ سب کچھ بہت اچھا جا رہا تھا ۔ کبھی کبھی بڑے بھائی بھی ہم دونوں سے ملنے آ جایا کرتے تھے ۔ حور یونی ورسٹی کے آخری سال میں تھی جب میں نے شادی کی ۔ پہلے پہل مجھے یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں حور اور تمہاری ماں کے درمیان وہی روایتی نند، بھابھی والے لڑائی جھگڑے نہ ہونے لگیں لیکن تمہاری ماں نے مجھے غلط ثابت کر دیا ۔ اُس نے میرے ساتھ ساتھ حور کی ذمہ داریاں بھی باخوبی سنبھال لیں ۔ تمہاری ماں کے آنے سے جیسے گھر میں خوشیوں کی بہار آ گئی تھی ۔ سب کچھ بہت اچھا جا رہا تھا لیکن پھر ایک اندھیری رات نے ہماری زندگیاں بدل دیں۔‘‘
وہ روانی سے ماضی کے اُس باب کو دہراتے جا رہے تھے، جنہیں کبھی انہوں نے جیا تھا ۔ اُن کے رُکنے پر محویت سے سنتی حوریہ نے نظریں اُن کے چہرے پر ٹکائیں۔ یقیناً وہ اُن کے دوبارہ بولنے کی منتظر تھی۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہونے سے پہلے ہی کمال صاحب نے دوبارہ بولنا شروع کر دیا۔
’’یونی ورسٹی مکمل کرنے کے بعد حور نے جاب کرنے کا کہا، تو میں نے بلا جھجھک اُسے اجازت دے دی ۔ میں تنگ نظر بالکل نہیں تھا۔ اُسے جاب کرتے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا، جب وہ اکثر رات دیر تک باہر رہنے لگی ۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے یہی کہا کہ آج کل اُس کے باس کچھ زیادہ ہی کام دینے لگے ہیں ۔ تمہاری ماں اکثر اُس سے شادی کا ذکر کرتی تو وہ ہمیشہ انکار ہی کرتی ۔ ہم اُس کی طرف سے یک دم ہی پریشان رہنے لگے تھے ۔ میری حور کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوا کرتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مسکراتا چہرہ اداس رہنے لگا ۔ ہمارے پوچھنے پر بھی وہ کچھ نہیں بتاتی تھی ۔ یہی تو دُکھ تھا کہ وہ ہمیں کچھ بتاتی ہی نہیں تھی ۔ پھر ایک رات حور آفس سے لوٹی ہی نہیں ۔ اُس وقت ارسلان آٹھ سال کا اور نعیم پانچ سال کا تھا ۔ ہم گھر کی دہلیز پر کھڑے دیر رات تک حور کا انتظار کرتے ہی رہ گئے مگر وہ نہیں آئی ۔ میں حور کے نمبر پر مسلسل کالز کرتا رہا لیکن دوسری طرف سے کال پِک نہیں کی گئی ۔ رات ایک بجے مجھے حور کا فون آ یا ۔ میرے پریشان چہرے پر یک دم سکون کی ایک لہر بکھر گئی ۔ میں نے جب فون اٹھایا تو فون کی دوسری طرف حور نہیں بلکہ اُس کا باس موجود تھا ۔ میں نے تمہاری ماں کے کہنے پر موبائل اسپیکر پر ڈال دیا تھا ۔ دوسری طرف موجود اُس کا باس میرے حور کے بارے میں پوچھنے پر اُسے غلیظ گالیاں بکنے لگا اور پھر جو بات اُس نے ہمیں بتائی‘ اُس نے ہماری زندگی میں ایک تاریکی بکھیر دی ۔ میری حور ایسا کیسے کر سکتی ہے ۔ وہ بھاگ گئی تھی۔ اُس کے باس کا کہنا تھا کہ حور کو آفس میں کوئی اجنبی ملنے آیا تھا اور وہ گھر جلدی جانے کا کہہ کر اُس کے ساتھ چلی گئی تھی ۔ اور اب ہمارے حور کے بارے میں پوچھنے پر وہ حور پر اپنے عاشق کے ساتھ بھاگنے کا الزام لگانے لگا ۔ میں نے فون کاٹ دیا ۔ یہ ساری گفتگو ارسلان نے بھی سنی تھی اور اسی وجہ سے وہ تمہاری جاب کے خلاف ہے ۔ اُس رات کے بعد مجھے اپنی حور کبھی واپس نہیں ملی۔‘‘ انہوں نے بات ختم کی تو آنکھوں میں جھلملاتی نمی کو اندر دھکیلنے کے لیے آنکھیں موند گئے۔
’’لیکن بابا … آپ کو نہیں لگتا اِس سب میں ایک بات بہت حیران کُن ہے۔‘‘ ساری حقیقت جاننے کے بعد حوریہ کا دل اپنے باپ کے دُکھ پر بہت افسردہ ہو گیا تھا لیکن اُسے اِس سب میں ایک بات بہت حیران کر رہی تھی۔
’’کیا بیٹا؟‘‘ انہوں نے آنکھیں کھولتے ہوئے برجستہ پوچھا۔
’’یہی کہ اگر پھوپھو اُس دن بھاگ گئی تھیں، تو اُن کا فون اُن کے باس کے پاس کیا کر رہا تھا ۔ اور پھر رات کے ایک بجے اُن کا آپ کو فون کرنے کا مقصد اور وہ پھوپھو کے نام پر غلیظ گالیاں کیوں بکنے لگے تھے؟‘‘حور کی بات پر کمال صاحب بیڈ کراؤن سے ٹیک چھوڑ کر سیدھے ہو بیٹھے ۔ اِس بات پر انہوں نے پہلے غور کیوں نہیں کیا تھا۔
’’کیا پتا حور آفس میں چھوڑ گئی ہو۔‘‘ وہ اپنی بات پر خود بھی مطمئن نہ ہو سکے ۔
انہیں یاد آیا جس رات حور بھاگی تھی ۔ اُس کے اگلے دن انہیں حور کے آفس سے فون آیا تھا اور وہ فون حور کی گاڑی کے لیے کیا گیا تھا جو کل سے پارکنگ لاٹ میں موجود تھی ۔ فون بھول سکتی تھی لیکن حور گاڑی تو نہیں بھول سکتی تھی ۔ اور گاڑی کا ٹائر بھی پنکچر تھا ۔ دماغ یک دم حیرت کے سمندر میں ڈبکی لگانے لگا تھا۔ آخر حوریہ نے یہ کیا بات کہہ دی تھی۔
’’بابا کیا پھوپھو دوبارہ کبھی واپس نہیں آئی تھیں؟‘‘ حوریہ کے اِس سوال پر کمال صاحب کو وہ وقت یاد آیا جب انہوں نے حالات کے پیشِ نظر بہت ظالمانہ فیصلہ سنا دیا تھا۔ اپنی بہن کے لیے اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے تھے۔
’’آئی…‘‘ اُن کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی منظر بدل گیا ۔
گاڑی کے مسلسل بجتے ہارن پر حوریہ ماضی سے حال میں لوٹی تھی ۔ وہ پارکنگ ایریا میں چہل قدمی کرتے کرتے وہیں ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی تھی ۔ پھر سوچوں کے بھنور میں یوں پھنسی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ سامنے اُس کا بھائی کار میں موجود تھا اور مسلسل ہارن بجا رہا تھا۔ نجانے کب سے وہ یونہی بیٹھی تھی۔ وہ تیزی سے اٹھتے ہوئے کار کی طرف آئی اور دروازہ کھولتے اندر بیٹھ گئی۔ اُس کا بھائی اُس سے وہاں بیٹھنے کی وجہ پوچھ رہا تھا، جس کا وہ غائب دماغی سے جواب دینے لگی۔
٭…٭
وہ کب سے خاموش کھڑا گلاس ونڈو سے باہر نظریں ٹکائے ہوئے تھا ۔ پارکنگ لاٹ میں موجود حوریہ کمال اُسے صاف دِکھائی دے رہی تھی ۔ تھوڑی دیر پہلے ہوئے واقعے کے بعد اب اُس کا دل خاموش ہو گیا تھا ۔ شاید وہ اِس وقت غم کی وادی میں قید تھا ۔ کوئی ایسی چیز کے غم میں جسے پانے سے پہلے ہی وہ کھو بیٹھا تھا ۔ نجانے اُس کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا تھا۔ جن رشتوں کو وہ چاہتا تھا، وہ اُس سے کھو کیوں جاتے تھے ۔ وہ یوں ہی نجانے کب تک وہاں کھڑا رہتا، اگر اُسے اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس نہ محسوس ہوتا۔ وہ مُڑا تو سامنے موحد کو کھڑے پایا۔ موحد کس وقت کمرے میں آیا تھا، اِس بات کا اندازہ غنی سعید کو نہیں ہوا تھا۔ شاید وہ کچھ زیادہ ہی اپنی سوچوں میں گم تھا۔
’’غنی!‘‘ اُسے یوں گم صم دیکھتے موحد افسردگی سے مخاطب ہوا۔
’’ہمم۔‘‘ موحد کے اُسے پکارنے پر وہ یک لفظی جواب دیتا گلاس ونڈو سے ہٹ گیا ۔ باہر اب شام مکمل طور پر اتر چکی تھی۔ وہ سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے اپنی کرسی پر جا بیٹھا ۔ موحد بھی سامنے پڑی کرسی گھسیٹ کر غنی کے قریب لاتے اُسی کے ساتھ بیٹھ گیا۔
’’تم اُس لڑکی کو پسند کرتے ہو ناں؟‘‘ نجانے کس احساس کے تحت موحد اُس سے یہ سوال کر بیٹھا ۔
حالانکہ جب وہ اپنے آفس سے نکلا تھا تو غنی سے کسی اہم موضوع کے متعلق سوال کرنے کی غرض سے نکلا تھا لیکن آفس کے اسٹاف کو آپس میں چہ میگوئیاں کرتے دیکھ کر اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا ۔ پھر اُنہی سے پتا چلا کہ حوریہ کمال استعفیٰ دے چکی ہے ۔ اور اُس کی وجہ بھی معلوم ہوئی لیکن شاید غنی سعید اِس وجہ سے اب تک انجان تھا ۔ وہ سوچ چکا تھا کہ اگر غنی کا جواب مثبت ہوا تو اُسے کیا کرنا ہے۔ کم از کم وہ ایک بار کوشش ضرور کرے گا۔
’’آپ کو کیا لگتا ہے بھائی؟‘‘ غنی نے جس قسم کے لہجے میں یہ سوال کیا تھا، موحد کو اپنے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے۔ اب کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی تھی۔
’’مجھے تو یہ لگتا ہے کہ تم اُس لڑکی کو محض پسند ہی نہیں کرتے بلکہ اُس سے محبت کرتے ہو۔‘‘ موحد کا یہ کہنا تھا کہ غنی کا دل دھک سے رہ گیا ۔
کچھ وقت پہلے والا منظر آنکھوں میں گھوما، تو جیسے اندر تک کڑواہٹ گھل گئی ۔ کیا فرق پڑتا تھا کہ وہ حوریہ کمال کو پسند کرتا تھا یا محبت ۔ اُس کا حصول تو ممکن نہیں تھا۔ بس یہی سوچ اُسے اب کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے نہیں دینے والی تھی۔ اُس کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ حالات کی کڑواہٹ نے اُس کے اندر تک تلخی بھر دی تھی۔ جو لوگ محبت کے لیے ترستے ہیں، انہیں محبت اتنا ترساتی کیوں ہے۔
’’اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ اُس نے تلخی سے جواب دیا۔ اُس کے جواب پر موحد کے چہرے پر رنجیدہ تاثرات ابھرے ۔ غنی سعید یوں بجھا بجھا سا افسردہ خاطر بالکل نہیں جچ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دائمی کیوں نہیں تھی۔ کیا خوشیاں بھی کبھی دائمی ہوتی ہیں۔
’’ایسا مت کہو یار! سچی محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔‘‘ موحد کے جواب پر وہ بس سر جھٹک کر رہ گیا ۔
ماں سے بھی تو اُس نے سچی محبت ہی کی تھی ۔ وہ بھی تو چھوڑ کر چلی گئی تھیں ۔ موحد نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو اِس خوشی سے محروم نہیں رہنے دے گا ۔ وہ اپنے تئیں اُس کے لیے یہ کوشش ضرور کرے گا۔ ویسے بھی غنی سعید کے دل میں غموں کی ایک لمبی قطار لگی تھی، اِس قطار میں کم از کم محبت کا غم شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اُسے تنہائی کا غم تھا، بے سکونی کا غم تھا، بے چینی اور اضطراب اُس کی شخصیت کا حصہ بن چکے تھے ۔ اب اگر ناکام محبت کا غم لگ جاتا، تو یہ سارے غموں پر بھاری پڑ جانا تھا ۔ اگر محبت کا غم بھی اُس کے غموں میں شامل ہو جاتا، تو دل کی دنیا سے یہ ادھوری خوشیاں بھی رخصت ہو جانا تھیں ۔ اور کم از کم ’’موحد سعید‘‘ اپنے بھائی کے لیے محبت کرنے کے جرم میں اتنی کٹھور سزا نہیں چن سکتا تھا ۔ موحد سعید اُسے خوشیاں دینے میں ہمیشہ ناکام رہ جاتا تھا شاید اِس بار اُس کے لیے ’’محبت کے حصول‘‘ میں کامیاب ہو جائے۔
’’اچھا چھوڑیں یہ موضوع ۔ آپ یہ بتائیں کسی کام سے آئے تھے کیا؟‘‘ غنی کافی حد تک خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے بولا۔ مگر جب دل کی دنیا زیر و زبر ہو تو کوئی انسان کیسے نارمل ہو سکتا ہے۔
’’ہاں یار ، مجھے کچھ پوچھنا تھا۔‘‘ اب کی بار موحد بات کرتے ہوئے ذرا ہچکچا گیا ۔
وہ یہ موضوع نہیں چھیڑنا چاہتا تھا لیکن پوری بات جاننا بھی ضروری تھی، تب ہی وہ اپنی ماں کو سمجھا سکتا تھا۔
’’آپ ہچکچا کیوں رہے ہیں بھائی؟ پوچھ لیں، جو پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘ موحد کو یوں ہچکچاتا دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔
’’غنی، کیا ڈیڈ نے تمہاری مام سے محبت کی وجہ سے شادی کی تھی؟ دیکھو! میرا مطلب اگر تم کچھ جانتے ہو اِس بارے میں تو…‘‘ موحد شاید اپنے سوال کی وضاحت کرنا چاہ رہا تھا لیکن غنی حد درجہ سنجیدگی سے اُس کی بات کاٹ گیا۔
’’آپ کو اچانک یہ سب جاننے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی بھائی؟‘‘
’’غنی، میں چاہتا ہوں کہ ماما تمہیں ایکسیپٹ کر لیں ۔ لیکن اُس کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے دِل سے غلط فہمیاں دور کی جائیں ۔ دیکھو! میں نہیں جانتا ڈیڈ نے چھوٹی ماما سے کیوں شادی کی تھی جبکہ ہم سب تو ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔ اور پھر اچانک ایک رات ڈیڈ کا کسی لڑکی کو گھر لانا اور پھر اُس کا تعارف اپنی دوسری بیوی کے طور پر کروانا ‘ یہ سب… اگر میں ماما کی جگہ ہوتا، تو شاید میں بھی ڈیڈ سے بدظن ہو جاتا۔‘‘موحد وضاحتی انداز میں بولا۔
’’آپ یہ جاننا چاہتے ہیں ناں کہ ڈیڈ نے ماما سے محبت میں شادی کی تھی یا کسی اور وجہ سے تو جان لیں انہوں نے میری ماں سے محبت میں شادی نہیں کی تھی ۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔‘‘ یہ موضوع ہمیشہ اُسے ڈسٹرب کر دیتا تھا اور آج بھی کر دیا تھا۔ وہ جواب دیتا ٹیبل سے سامان سمیٹنے لگا۔
’’غنی! آج تم حقیقت بیان کیے بغیر اِس آفس روم سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالو گے اور یہ تمہارے بڑے بھائی کا حکم ہے۔‘‘ موحد سمجھ چکا تھا کہ وہ آفس چھوڑ کر جا رہا ہے ۔
اُس کے اٹھنے پر وہ رعب سے بولا تھا۔ جس پر غنی وہیں ٹھہر گیا۔ موحد بہت کم ہی اُس سے اِس انداز میں مخاطب ہوتا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ غنی سعید ماضی کا وہ باب دوبارہ نہیں کھولنا چاہتا تھا۔ لیکن شاید آج حقیقت بتائے بغیر وہ یہاں سے جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ سب جانتا تھا جتنا اُس کی ماں نے اُسے بتا رکھا تھا۔ لیکن مکمل سچ سے تو وہ بھی انجان تھا۔ نجانے کیسی گتھا تھی جو سلجھ ہی نہیں رہی تھی۔
’’ڈیڈ نے میری ماما کی عزت بچانے کے لیے اُن سے شادی کی تھی ۔‘‘ آفس کا وہ کمرہ، اُس کے سامنے بیٹھا غنی اور وہ گفتگو، سب پیچھے رہ گیا۔
٭…٭