ٹائم مشین: پہلا حصہ
وہ کل رات سے یہی بات سوچ رہی تھی اور مسلسل سوچنے کے نتیجے میں بھی، وہ کسی جواب تک نہ پہنچ پائی تھی ۔ کل رات وہ ایک پل کے لیے بھی نہیں سوئی تھی ۔ اور اب تھکن سے آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔سر میں بھی درد تھا ۔ وہ سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے سنگل صوفے کی پشت پر سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی ۔ باہر دھوپ پورے جوبن پر تھی ۔ کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے سورج کی روشنی اندر تک آ رہی تھی۔ اُس کے دماغ میں ہر وقت اتنی ہلچل کیوں مچی رہتی تھی۔ اُسے سکون کیوں نہیں تھا۔ وہ اتنا کیوں سوچتی رہتی تھی۔ شاید اُس کے پاس سوچنے کے لیے بہت کچھ تھا۔
’’بھابھی! اب آ بھی جائیں ۔ آپ اندر کپڑے پہننے گئی ہیں یا سینے بیٹھ گئی ہیں ۔ اگر آپ اب باہر نہ آئیں، تو پھر میں جا رہی ہوں۔‘‘ کوفت سے آنکھیں کھولتی، وہ دھمکانے والے انداز میں اونچی آواز میں بولی۔
’’آ رہی ہوں یار، اب ایسے کپڑے پہننے میں دیر تو لگتی ہی ہے۔‘‘ واش روم کا دروازہ دھکیل کر سمیرا باہر نکلتے ہوئے بولی ۔
وہ اِس وقت سبز و سنہری لہنگا، چولی پہنے ہوئے تھی، جو ابھی ابھی اندر سے تبدیل کر کے آئی تھی ۔ یہ حوریہ کا لباس تھا جو اُس نے سمیرا اور ارسلان کی مہندی پر پہنا تھا ۔ سمیرا نے کل اُس سے یہی بات کرنی تھی کہ وہ محض ایک شادی کے لیے اتنے سارے جوڑے نہیں بنانا چاہتی تو حوریہ اُسے ایک دن کے لیے پہننے کے لیے دے ۔ جس پر حوریہ رضامند ہو گئی اور ابھی سمیرا وہی پہن کر ٹرائے کر کے دیکھ رہی تھی۔
’’حوریہ یار، یہ تھوڑا تنگ نہیں ہے ۔ مجھے تو لگتا تھا کہ میرے سائز کا ہی ہے۔‘‘ سمیرا سنگھار میز کے آئینے کے سامنے آتی اپنا عکس دیکھ کر بولی۔
’’دیکھیں! بھابھی، بات یہ ہے کہ میں سوکھی، اسمارٹ سی لڑکی ہوں اور آپ ماشاء اللہ شادی شدہ ہیں ۔ اور آہستہ آہستہ موٹی بھی ہو رہی ہیں ۔ تو ظاہر ہے یہ آپ کو تنگ ہی لگے گا۔‘‘ حوریہ صوفے سے اٹھ کر اُس کے قریب آتی اُسے تنگ کرتے ہوئے بولی۔ جس پر سمیرا نے اُسے گھوری سے نوازا۔
’’ویسے شرم تو نہیں آتی، اتنی اسمارٹ لڑکی کو موٹی کہتے ہوئے ۔ خود کانٹا بن گئی ہو اور چاہتی ہو باقی بھی تمہارے جیسے ہی بن جائیں۔‘‘ سمیرا نے اُسے کچھ شرم دلانا چاہی۔
’’اسمارٹ لڑکی نہیں، عنقریب موٹی ہو جانے والی عورت۔‘‘ حوریہ شرارت سے کہہ کر اُس سے دور ہوتی بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔
’’کوئی نہیں، کوئی نہیں ۔ تمہیں دیکھ لوں گی میں۔‘‘ سمیرا اُسے مستقبل کی دھمکی دینے والے انداز میں بولی۔
’’اچھا، یہ تو بتائیں، شادی ہے کس کی؟‘‘حوریہ نے عام سے انداز میں پوچھا۔
’’میری دوست کی ہے ۔ قسم سے میں تو اتنی خوش ہوں نا ۔ اب ہم دوست مل کر اُسے خوب روسٹ کریں گے ۔ پہلے ہمیں تنگ کرتی تھی، اب اُس کی باری۔‘‘ سمیرا اُسے جوش سے بتانے لگی۔ مگر حوریہ کو اچانک کچھ یاد آ گیا تھا ۔ کوئی وجود جو ماضی میں اُس کے خوشیوں بھرے لمحات میں شریک تھا ۔ یادداشت کے پردے پر ایک دم اُن لمحات کی ایک ریکارڈنگ سی چلنے لگی اور سماعتوں میں کچھ آوازیں گونجنے لگی تھیں۔
’’حوریہ، میں واحد دوست ہوں گی جو اپنی بیسٹ فرینڈ کی شادی پر خوش ہونے کی بجائے روؤں گی۔‘‘ وہ لڑکی اداس لہجے میں گود میں رکھے تکیے پر کہنیاں ٹکائے حوریہ سے مخاطب تھی۔
’’ایسا کیوں؟‘‘ رجسٹر پر لکھتی حوریہ نے سرسری انداز میں پوچھا تھا۔
’’کیونکہ پھر مجھ سے زیادہ تمہاری زندگی میں کسی اور کی اہمیت ہو گی ناں۔‘‘
’’ارے پگلی! یہ بھی کوئی بات ہے اداس ہونے والی ۔ ہمارے دل میں ہر ایک انسان کے لیے ایک الگ جگہ ہوتی ہے، ایک الگ مرتبہ، جس کی کوئی رپلیسمینٹ نہیں ہوتی۔ جیسے ماں ، باپ کی محبت کی رپلیسمینٹ شوہر کی محبت نہیں ہو سکتی ۔ سیم اِز دا کیس ہیئر ۔ دوست کی محبت محبوب کی محبت سے رِپلیس نہیں ہو سکتی۔‘‘ حوریہ رجسٹر سے نظریں اٹھاتی، اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کے سر پر چپت لگا گئی۔
’’اچھا، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ خیر میں سوچ رہی تھی کہ اپنی شادی پر تمہیں انوٹیشن بالکل نہیں بھیجوں گی۔‘‘ حوریہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے، وہ اُس کے ہاتھوں سے رجسٹر چھین کر صوفے پر اچھال گئی۔
’’کیا بدتمیزی… رجسٹر کیوں چھینا یار ۔ میں کام کر رہی تھی اور یہ ابھی کیا کہہ رہی تھی؟‘‘ ایک دم رجسٹر چھین جانے پر وہ سامنے بیٹھی لڑکی پر سخت گھوری ڈالتے ہوئے بولی۔
اُس لڑکی نے اپنی بات پھر سے دہرائی۔ جس پر حوریہ نا سمجھی سے سوال کرنے لگی۔
’’ایسا کیوں؟‘‘
’’کیونکہ… اپنوں کو انوٹیشن دینے کی ضرورت تھوڑی ہوتی ہے۔‘‘وہ تکیہ بیڈ کی دوسری طرف اچھال کر حوریہ کو تنگ کرنے کے لیے اُس کے گھنگھریالے بال کھینچنے لگی۔
’’کہاں کھو گئی ہو؟‘‘ سمیرا کے چہرے کے آگے ہاتھ ہلانے پر وہ واپس حال میں لوٹ آئی۔
”کہیں نہیں۔” وہ سر جھٹکتی اٹھ کر اُس سے کپڑوں کے متعلق باتیں کرنے لگی۔
٭…٭
’’موحد، آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کے ڈیڈ نے اُس عورت سے محبت کی وجہ سے شادی کی تھی ؟ کیا آپ نے کبھی اُن سے پوچھا اِس بارے میں؟ کیا پتا آپ غلط ہوں ۔ کیونکہ آپ نے مجھے جو اُس دن کہانی سنائی تھی مجھے اُس میں کچھ مسنگ لگا ۔ مطلب اگر حادثہ ہو گیا تھا تو پھر انہیں شادی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟‘‘ سحر مصلحتاً موحد سے بولی۔
’’کیا مطلب؟ انہوں نے خود ہم سے کہا تھا کہ انہیںاُس لڑکی سے محبت ہو گئی تھی، اسی وجہ سے انہوں نے دوسری شادی کرلی۔‘‘ موحد اُس کا چہرہ نا سمجھی سے تکتے ہوئے بولا۔
’’اور آپ نے یقین کر لیا؟ میرا مطلب، امی تو یقین کر سکتی تھیں کیوں کہ وہ مکمل بات نہیں جانتی تھیں مگر آپ تو اُس حادثے کے گواہ تھے ۔ وہ اُن کی پہلی ملاقات تھی ۔ اور پہلی ملاقات کے دو دن بعد نکاح کر لینا اور وہ بھی محبت کے نام پر، یہ کچھ عجیب نہیں۔‘‘سحر کی بات پر موحد کے ماتھے پر لکیریں ابھرنے لگیں۔ اِس نظریے سے اُس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔
’’ہر کہانی کا ایک دوسرا رُخ ہوتا ہے۔ آپ کہانی کا ایک رُخ جان کر دوسرے رُخ کے بارے میں خود سے اندازے نہیں لگا سکتے۔ آپ ڈیڈ سے یا غنی سے اِس بارے میں بات کریں، یہی ایک طریقہ ہے مام کے دل سے ڈیڈ کی سیکنڈ وائف کے لیے نفرت ختم کرنے کا۔‘‘ موحد اِس وقت آفس میں بیٹھا تھا ۔ دِماغ دور کہیں سحر کی کہی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ اُس نے سحر کو سب کچھ بتا دیا تھا کہ کیسے اُس رات کے بعد اُس کے ڈیڈ نے دوسری شادی کر لی تھی ۔ یہ سب بتانے کے بعد سحر نے یہ جواب دیا تھا۔ اُس کی کہی بات پر وہ اب تک عمل نہ کر سکا تھا۔
دوسری طرف غنی اپنے آفس میں بیٹھے عجیب سی کیفیت کا شکار تھا۔ اُسے لگتا تھا کہ اُس کی زندگی میں ایک کمی تھی ۔ اور اُسے وہ کمی حوریہ کمال کی صورت میں پوری ہوتی نظر آ رہی تھی۔ لیکن وہ اظہار نہیں کر پا رہا تھا ۔ شاید ڈر تھا کہ اُس کا ردِعمل کیا ہوگا۔ لیکن آج بالآخر اُس نے ہمت کرتے ہوئے اُسے اپنی بات کہنے کا سوچ رکھا تھا ۔ اُس نے انٹرکام سے اُسے اپنے آفس میں بلایا تھا۔ سامنے ٹیبل پر بہت سی فائلز کا ڈھیر لگا پڑا تھا۔ اُس کی نظر سب سے نیچے پڑی سُرخ فائل پر تھی۔ وہ یہ سب فائلز حوریہ کو کام کرنے کے لیے دینے والا تھا اور اُنہی فائلز میں سے ایک پر اُس نے اپنے دل کی بات لکھ رکھی تھی ۔ وہ دروازہ ناک کرتے اندر آئی، تو سب سے پہلے غنی کی نظریں اُس کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ تکان سے چور سُرخ آنکھیں جو رت جگے کی گواہی دے رہی تھیں۔ یہاں کام کرتے اُسے تقریباً سات ماہ ہو گئے تھے۔ زندگی واپس اپنی ڈگر پر چلنے لگی تھی۔
’’آپ ٹھیک ہیں مِس؟‘‘ وہ بغیر سوچے سوال کر گیا۔
’’ج…جی…‘‘ حوریہ بھاری مگر نرم آواز پر نظریں جھکا گئی۔
اُس کے جواب دینے پر وہ کچھ اور بھی پوچھنا چاہتا تھا شاید اُس کا حال لیکن باس اور ملازم کے رشتے میں غیر ضروری باتیں نہیں پوچھی جاتیں ۔ وہ خاموشی سے اُسے فائلز پر کام کرنے کے بارے میں بتانے لگا۔
’’اگر ہو سکے تو آج جانے سے پہلے آپ یہ ساری فائلز پروف ریڈ کر دیں تاکہ صبح میٹنگ سے پہلے آپ پر کام کا زیادہ بوجھ نہ ہو۔‘‘ اُس نے اپنی بات ختم کی تو وہ خاموشی سے سر ہلا کر باہر چلی گئی ۔
آخری لمحوں تک غنی سعید کی نظریں اُس سُرخ فائل پر جمی رہی تھیں ۔ پتہ نہیں اُسے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے ۔ شاید یہ اُس کا وہم تھا ۔ وہ جانتا تھا یہ فائلز کا کام اُس کی سیکرٹری کا ہے لیکن اُس نے جان بوجھ کر یہ کام حوریہ کمال کو دیا تھا۔ مقصد فائلز کا کام نہیں تھا، مقصد دِل کی بات کہنا تھا۔ وہ بات جو ہمت کر کے بھی وہ اُس سے نہیں کہہ سکا تھا۔ اسی اعتماد کی تو کمی تھی اُس میں۔ وہ کہہ نہیں پا رہا تھا، تو اُس نے لکھ کر اظہار کرنے کا سوچا۔
٭…٭
’’آپ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ نہیں جانتا کب سے شاید تب سے جب میں نے آپ کو پہلی مرتبہ روسٹرم پر تقریر کرتے ہوئے دیکھا تھا، اُس وقت ہی شاید میں اِس سحر میں قید ہو گیا تھا۔ میں نے یہ بات اب تک اپنے دِل میں چھپائے رکھی لیکن آج میں آپ سے اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟‘‘ وہ کب سے اپنی ساری تھکن بالائے طاق رکھے فائلز کا کام ختم کرنے پر لگی ہوئی تھی ۔ اب جب آخری فائل تھی تب وہ پُر جوش سی بیٹھی تھی ۔ لیکن فائل کھولتے ہوئے سامنے لکھے لفظ پڑھ کر ماتھے پر سلوٹیں نمایاں ہونے لگیں۔
’’کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟‘‘ یہ لفظ جیسے دل و دماغ میں حشر برپا کر گئے ۔ ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے وہ منظر لہرایا جب اُس کے والد پُر یقین سے اُس کے ہاتھ تھامے کھڑے تھے اور بڑے فخر سے کہہ رہے تھے۔
’’میں نے بہن کی صورت میں ایک حور کھو دی ہے، میں بیٹی کی صورت میں دوسری حور نہیں کھونا چاہتا۔ مجھے یقین ہے اپنی حوریہ پر ۔ وہ یہ سب کبھی نہیں کر سکتی۔‘‘ اُن کے لہجے میں کتنا مان تھا ‘ وہ کتنے پُر یقین تھے ۔ اور اب یہ سب، نہیں وہ اُن کا مان نہیں توڑ سکتی ۔ انہیںدوبارہ ’’وہ‘‘ تکلیف نہیں دے سکتی، جس سے وہ ایک بار پہلے بھی گزر چکے تھے۔ کاغذ پر لکھے لفظ اُسے متاثر نہیں کر رہے تھے بلکہ اُسے غصہ دِلا رہے تھے۔
وہ ساری فائلز وہیں چھوڑے کمپیوٹر ٹیبل کے پہلے دراز سے اپنا ’’ریزگنیشن لیٹر‘‘ نکالنے لگی، جو اُس نے کام کرنے سے پہلے دراز میں رکھ دیا تھا ۔ آنکھوں کے سُرخ ڈوروں کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ آج ریزائن کرنے والی تھی ۔ ارسلان کے دوست کی فیملی باقاعدہ اُن کے گھر آ کر رشتہ مانگ چکے تھے ۔ کمال صاحب نے اُس سے اجازت مانگی، تو وہ چاہ کر بھی انکار نہ کر پائی ۔ آخر ایک دن تو شادی کرنی ہی تھی۔ ختم ہو گیا جاب کا شوق، جیت گیا اُس کا بھائی ۔ مگر پھر بھی وہ سات ماہ ہی سہی مگر جاب تو کر ہی پائی تھی۔ حوریہ نے وہ سُرخ فائل اٹھائی اور اپنا ریزگنیشن لیٹر اُسی میں رکھ دیا۔ وہ بھاری اعصاب کے ساتھ اٹھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آفس کی طرف بڑھ گئی۔ آس پاس موجود ورکرز اُسے ایسے جاتا دیکھ کر ایک دوسرے سے اشاروں میں وجہ پوچھنے لگے، جس پر وہ لوگ کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کر کے رہ گئے ۔ آفس کا دروازہ اچانک دھکے کے ساتھ کھلنے پر غنی سعید کی نظریں حیرت سے اٹھیں ۔ اپنے سامنے چہرے پر تنے تاثرات کے ساتھ کھڑی حوریہ کمال کو دیکھ کر اُسے شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ اِس سے پہلے وہ کچھ بولتا حوریہ تیز آواز میں بولی۔
’’یہ سب کیا ہے؟ آپ کی ہمت کیسے ہوئی، ایسا سوچنے کی؟ میں یہاں کام کرنے آتی ہوں عشق لڑانے نہیں۔‘‘ وہ غصے میں لحاظ بالائے طاق رکھے بول رہی تھی۔ اِس وقت اُس کا دماغ بہت پیچدگیوں کا شکار تھا۔ سماعتوں میں بار بار باپ کی آواز گونج رہی تھی۔
’’حور نے میری تربیت کی لاج نہیں رکھی ۔ میرا مان توڑ دیا لیکن ارسلان غلط ہے ۔ میری حوریہ ایسا نہیں کرے گی، میں جانتا ہوں اپنی بچی کو۔ یہی وجہ ہے کہ اِس سب کے بعد بھی، میں اپنی بیٹی کو جاب کی اجازت دے رہا ہوں۔‘‘ حوریہ کے لیے وہ مان بھرا لہجہ اِن محبت بھرے لفظوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔
’’لیکن مس حوریہ میری بات…‘‘ غنی نے پریشانی سے اپنی کُرسی سے اٹھتے ہوئے وضاحت دینا چاہی، جب حوریہ نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی۔
’’سوری سر، اِس فائل میں میرا ریزگنیشن لیٹر ہے ۔ میں استعفیٰ دے رہی ہوں اور یہ آپ کی وجہ سے نہیں ہے ۔ میں آج ویسے بھی استعفیٰ دینے والی تھی۔‘‘ وہ کہہ کر بغیر کچھ سنے فائل میز پر پھینکنے والے انداز میں رکھ کر تیزی سے باہر چلی گئی ۔ وہ واپس اپنی جگہ پر آئی اور اپنا موبائل اور کچھ ضروری سامان لے کر کمپنی سے ہی باہر نکل گئی۔
ورکرز اپنا کام چھوڑ کر آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے ۔ آفس سے باہر آواز زیادہ واضح سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن وہ پھر بھی معاملہ سمجھ چکے تھے ۔ حوریہ باہر آئی تو کُھلی فضا میں آ کر اعصاب ڈھیلے پڑ گئے ۔ اُس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی۔ اُس کے بھائی کے آنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ ارسلان ہی اُسے پک اینڈ ڈراپ دیتا تھا۔ وہ سرد سانس خارج کرتی پارکنگ لاٹ میں یونہی ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی چہل قدمی کرنے لگی۔ اُس کی فائلز اُس کے ہاتھ میں تھیں ۔ باقی سامان وہ اپنے بیگ میں ڈال چکی تھی، جو اِس وقت کاندھے سے لٹکا رکھا تھا۔ نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بہت بے سکونی تھی اور اب یہ سب بھی ہو گیا تھا۔ چلتے چلتے یونہی ماضی میں کی گئی وہ باتیں اُس کے ذہن میں کسی فلم کی طرح چلنے لگیں، جو اُس کے والد نے اُس سے تب کہیں تھیں، جب اُسے جاب ملی تھی۔