ٹائم مشین: پہلا حصہ
’’ڈیڈ! ڈیڈ! آپ نے کسی کی چیخنے کی آواز سنی ؟ ‘‘ وہ چھ سالہ بچہ اِس وقت اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں اکیلا تھا ۔ اُن کے ہاں بیٹی ہوئی تھی اور وہ شخص ہسپتال سے اپنی ماں کو لینے کے لیے نکلا تھا ، جب ایک ویران راستے میں اچانک سے اُن کی چلتی گاڑی کے سامنے ایک عورت آ گئی۔ اور وہ اِس قدر تیزی سے بھاگتے ہوئے آ رہی تھی کہ ایک دم بریک پر پیر رکھنے کے باوجود بھی، وہ اُس عورت کو گاڑی کے نیچے آنے سے نہیں بچا سکا ۔ وہ اِس وقت شدید خوف زدہ تھا۔ ایک جان لینے کی سوچ دل و دماغ میں وحشت بھر رہی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو چُپ رہنے کا اشارہ کرتے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔
ہاتھوں میں کپکپاہٹ واضح تھی۔ وہ مرے مرے قدموں سے چل کر زمین پر گِری ہوش و حواس سے بیگانہ عورت کی طرف آیا ۔ ماتھے سے خون بہتا دیکھ کر دل ایک دم ڈر سے کانپ گیا ۔ زندگی کے اِن گزرے ماہ و سال میں آج تک اُس سے کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا تھا۔ موت کا خیال ذہن میں بجلی کی طرح کوندا تو بدن میں یک دم تیزی سی آ گئی ۔ وہ عورت کی طرف جھکا اور ناک کے قریب ہاتھ کیا ۔ سانسیں چل رہی تھیں۔ چہرے کے تاثرات فی الفور کچھ پُر سکون سے ہوئے تھے۔ وہ فوراً اُسے اٹھا کر اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ کی جانب بڑھا۔ وہاں عورت کے بے ہوش وجود کو لیٹا کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا اور زن سے گاڑی ہسپتال کی طرف بھگا لے گیا ۔ اُس عورت کے ماتھے پر گہری چوٹ آئی تھی۔ اُسے ڈر تھا کہ کوئی سنگین مسئلہ نہ ہو۔ دِل میں اللہ کو پکارتے بس یہی دعا تھی کہ سب ٹھیک ہو۔ پریشانی کی کوئی بات نہ ہو۔
’’ڈیڈ! کیا یہ آنٹی مر گئی ہیں؟‘‘ اُس کا بیٹا عورت کے بے ہوش وجود کو دیکھ کر گھبراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں بیٹا! خاموش ہو جاؤ۔ ہم انہیں ہاسپٹل لے کر جا رہے ہیں۔‘‘ وہ اپنی بے چینی کو چھپاتا اپنے بیٹے سے بولا۔
٭…٭
’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ڈیڈ سے ہوئی ایک غلطی سے ہماری زندگیاں اس موڑ پر آ جائیں گی ۔کیا ہوتا اگر وہ حادثہ ہی نہ ہوتا ۔ کیا ہوتا اگر ڈیڈ اُس عورت سے ملے ہی نہ ہوتے ۔ میری ماں آج اس قدر پتھر دل تو نہ ہوتیں ۔ ‘‘ رات کے پہلے پہر وہ دونوں ٹیرس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ شادی کے بعد آج وہ پہلی رات تھی، جب اُس شخص نے خود کو اُس کے سامنے کھولا تھا ۔ وہ بھی اتنے سال بعد ۔ اُس نے اِس شخص کو ہمیشہ ہنس مُکھ اور خوش مزاج پایا تھا ۔ کم از کم گھر میں اُس کے سامنے وہ ایسا ہی تھا۔ سنجیدگی کا نظارہ کبھی کبھار اُن لمحات میں ہو جاتا تھا، جب اُس کے بھائی کے متعلق ماں سے گفتگو ہو رہی ہوتی ۔ مگر آج اُسے یوں کھویا کھویا دیکھ کر اُسے خود پر افسوس ہوا ۔ شاید اُس نے کبھی اُسے وہ مان دیا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنا آپ اُس کے سامنے کھول سکے ۔ اِس پل سیاہ ٹراؤزر اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس اُس شخص کا چہرہ دیکھتے، اُسے لگا شاید وہ شخص بہت گہرا ہے یا شاید اُس نے کبھی اُس کے دل میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ چائے کی پیالی سے ایک گھونٹ بھر کر وہ ایک بار پھر بولنا شروع ہوا ۔ وہ بس خاموشی سے اُس کی آنکھوں میں جھانکتی رہی۔ کچھ کہنے کے لیے ابھی الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
’’اُس حادثے کے بعد ڈیڈ نے اُس عورت یا یہ کہا جائے کہ اُس لڑکی سے شادی کر لی ۔ پھر سب بدل گیا ‘ مام بدل گئیں۔ مگر ایک بات کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ‘ ہمیشہ کہ اُس وجود سے نفرت صرف میری ماں ہی نہیں کرتی تھی ۔ میں بھی اُس وجود سے نفرت کرتا تھا ۔ یہی تو زندگی بھر کا پچھتاوا ہے ۔ اور وہ بے وجہ کی نفرت و کدورت ہمیں اِس موڑ پر لے آئی۔ ‘‘ اُس نے بولتے بولتے ایک پل کے لیے آنکھیں بند کی تھیں، جیسے کچھ تصور کر رہا ہو۔
’’آج سوچتا ہوں تو خود پہ بہت حیرت ہوتی ہے کہ نفرت کرنے کی وجہ تو کوئی تھی ہی نہیں ۔ نہ انہوں نے کبھی ہم بچوں سے بد سلوکی کی تھی، نہ ہمارے حق پر کبھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی ۔ وہ تو بس ہمارے درمیان ثانوی حیثیت سے رہنے لگی تھیں۔‘‘ وہ یوں ہی کھوئے کھوئے انداز میں کہہ رہا تھا جب وہ بولی۔
’’اگر وہ یہ سب نہیں کرتی تھیں، تو پھر آپ اُن سے نفرت کیوں کرتے تھے؟‘‘ وہ لڑکی حیرت سے پوچھ رہی تھی۔
’’کیونکہ میں انہیں اپنی ماں کے نظریے سے دیکھتا تھا ۔ نفرت کا یہ بیج میری ماں نے اُس وقت میرے دل میں بویا تھا، جب میں بچہ تھا ۔ عقل نہیں رکھتا تھا لیکن میں اِس بیج کو پانی دیتا رہا، یہاں تک کہ نفرت کا پودا نکلتا بڑھ کر ایک گھنا آور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔‘‘ چائے کی پیالی خالی ہو چکی تھی ۔ چائے ختم ہو گئی تھی اور شاید اُس کے الفاظ بھی ۔ آج کے دن وہ بس اتنا ہی کہہ سکتا تھا۔ بیتے ماضی کو ایک دن میں بیان کرنا تو ممکن نہیں تھا ناں ۔ اور اُس کی مسلسل خاموشی پر وہ لڑکی سمجھ گئی تھی کہ اب وہ مزید نہیں بولے گا ۔ وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر اندر اپنے کمرے میں آ گئے۔ چائے کے دو خالی کپ وہیں باہر ٹیرس میں پڑی میز پر ہی رہ گئے تھے۔
٭…٭
کبھی کبھی لگتا ہے کہ آپ کی کچھ خواہشیں ہمیشہ خواہشیں ہی رہ جائیں گی۔ اُن کا حصول چاہے کتنا ہی آسان ہو لیکن آپ کا وقت آپ کا ساتھ ہی نہیں دیتا۔ آپ کے حالات سازگار ہی نہیں ہوتے کہ آپ اپنی خواہشوں کو حاصل کی منزل سے نواز سکیں۔ یا شاید کچھ خواہشوں کو پورا کرنا آپ کے نصیب میں ہی نہیں ہوتا۔حوریہ کمال کا نصیب بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
پچھلے اِن دِنوں میں اُس نے خوب ہاتھ پیر چلائے تھے، تاکہ کہیں اچھی جاب مل جائے لیکن شاید یہ اُس کے نصیب میں ہی نہیں تھا۔ ایک مہینہ، محض ایک مہینہ تھا اُس کے پاس، اپنے لیے کچھ کرنے کے لیے، اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے۔ لیکن اب یہ ایک ماہ کی مدت اپنے اختتام کی جانب رواں تھی۔ اور وہ اب تک کہیں جاب نہیں تلاش پائی تھی ۔ اب اُس کے ساتھ وہی ہونا تھا، جو اُس کے بھائی طے کر کے بیٹھے تھے ۔ یعنی اُس کی شادی ۔ اُس نے اپنی پوری کوشش کی تھی کہ اُسے جاب مل جائے لیکن کبھی کبھی آپ کی کوششیں آپ کو وہ ثمر ‘ دیتی ہی نہیں، جس کی آپ خواہش کرتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ ہمارے نصیب میں کچھ اور بہتر لکھا ہوتا ہے ۔ اِس ایک ماہ کا وقت ختم ہونے میں محض دو دن باقی تھے اور اب اُس نے امید بھی کھو دی تھی ۔ جب پچھلے اٹھائیس دِنوں میں کچھ نہیں ہو سکا تو اگلے دو دن میں بھلا کیا ہو سکتا تھا۔
’’حوریہ! آ کر کھانا کھا لو۔‘‘ وہ اپنے کمرے میں مختلف سوچوں میں گھری گم صُم سی بیٹھی ہوئی تھی ۔ جب اُسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی ۔ وہ یونہی اپنا فون ہاتھ میں پکڑے، سوچوں کو جھٹک کر کمرے سے باہر نکلی ۔ ڈائننگ ایریا میں سب پہلے سے ہی موجود تھے۔ وہ کرسی دھکیل کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔ سب کھانا کھانے لگے تھے۔ حوریہ نے اپنے ہاتھ میں تھاما موبائل ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیا ۔ وہ جانتی تھی کہ ارسلان بھائی اُس کی طرف طنزیہ مُسکراہٹ سے کیوں دیکھ رہے تھے ۔ مگر وہ ہار مان چکی تھی۔ اب اُسے اُن کی بات ماننی ہی تھی ۔ وہ خاموشی سے پلیٹ میں سالن ڈال کر روٹی کھانے لگی۔
’’امی! بابا! مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘وہ کھانا کھا کر فارغ ہوئے، جب ارسلان نے کمال صاحب اور مسز کمال کو مخاطب کیا ۔ نعیم نے ایک نظر سر جھکائے خاموش بیٹھی اپنی بہن کی طرف دیکھا ۔ وہ جانتا تھا کہ ارسلان بھائی کس بارے میں بات کرنے والے ہیں ۔ وہ نعیم سے پہلے ہی اِس متعلق بات کر چکے تھے ۔ وہ ابھی انہیںٹوکنے ہی والا تھا، جب اُس کا فون بج اٹھا ۔ جیب سے فون نکال کر اسکرین پر نظر دوڑائی تو چہرے پر مسکراہٹ نے بسیرا کر لیا ۔ اُس کی خالہ زاد کا فون تھا جو اُس کی منکوحہ بھی تھی ۔ ابھی پڑھ رہی تھی، یہی وجہ تھی کہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ وہ فون اٹھا کر کان سے لگاتا وہاں سے چلا گیا۔
’’ہاں کہو کیا کہنا ہے ارسل۔ ‘‘ مسز کمال بھی شاید جانتی تھیں کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔ ویسے بھی وہ بھی یہی چاہتی تھیں۔
’’میرے دوست نے اپنے بھائی کے لیے حوریہ کا ہاتھ مانگا ہے ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ آپ لوگوں سے ڈسکس کر لوں، پھر ہی وہ لوگ باقاعدہ ہمارے گھر تشریف لائیں ۔ وہ تو بہت پہلے ہی مجھ سے اِس بارے میں بات کر چکا تھا لیکن میں بابا کی حوریہ کو پڑھانے والی ضد کی وجہ سے خاموش تھا ۔ اب جب حوریہ کی پڑھائی بھی ختم ہو چکی ہے اور اب وہ جاب کی ضد بھی چھوڑ چکی ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ آپ اِس بارے میں بھی کوئی فیصلہ کر لیں۔‘‘ارسلان اطمینان سے اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا۔ اور ایک نظر سب کی طرف ڈالی۔
’’لیکن بیٹا حوریہ تو…‘‘ کمال صاحب کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن مسز کمال نے اُن کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔
’’ارسل، لڑکا اچھا ہے کیا ؟ ہماری حوریہ کے ساتھ ٹھیک تو لگے گا نا ں ؟ اور اچھا کماتا ہے؟ فیملی اچھی ہے نا؟ یہ سب دیکھ لینا تھا تم نے۔‘‘ مسز کمال اُس سے ایک ساتھ ہی کئی سوال کرنے لگیں ۔
حوریہ کی آنکھوں میں یک دم نمی چمکنے لگی ۔ اُس نے سر جھکا لیا ۔ ساتھ والی کُرسی پر سمیرا بیٹھی تھی۔ وہ اُس کی حالت سمجھتی فوراً اُس کی گود میں رکھے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ گئی ۔ حوریہ کی آنکھ سے ایک آسو ٹپکا اور کسی بے مول شے کی طرح گال پر سے لڑھک کر سمیرا کے ہاتھ کی پشت پر گِر گیا ۔ سمیرا گردن موڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔ کمال صاحب بھی اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔
’’جی امی، میں یہ سب دیکھ چکا ہوں۔ ویسے بھی وہ میرا دوست ہے، میں اُسے اچھے سے جانتا ہوں ۔ اُس کے بھائی سے بھی میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔‘‘
وہ بڑا بھائی تھا لیکن اُس کی زندگی کا حاکم تو نہیں تھا ناں ۔ پھر کیوں وہ اُس کی زندگی کے لیے خود فیصلے سنا رہا تھا ۔ اُسے یہ آزادی کیوں نہیں تھی کہ وہ اپنے لیے کچھ کر سکے ۔ وہ سمیرا کے ہاتھ پر گرے آنسو کو غور سے دیکھ رہی تھی، جب اُس کے موبائل کی میسج ٹون بجی ۔ بے اختیار ہی اُس کی نظر ٹیبل پر رکھی سالن والی پلیٹ کے ساتھ پڑے اپنے فون کی اسکرین پر پڑی ۔ وہ نظریں پھیرنے والی تھی، لیکن اسکرین پر ایسا کچھ ضرور تھا جس نے اُس کی نظریں وہیں جما دی تھیں ۔ اپنے اردگرد ہونے والی گفتگو اب مزید اُسے سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر اپنا فون اٹھایا اور ایک منٹ بھی ضائع کیے بغیر وہ ای میل کھولی۔
سکرین پر لکھے لفظ اتنے کچھ خاص نہیں تھے لیکن حوریہ کے لیے۔ حوریہ کے لیے یہ لفظ بالکل بھی عام نہیں تھے۔
’’یو آر ہائرڈ۔‘‘
آگے بھی بہت کچھ لکھا تھا لیکن حوریہ کی نظر اور زبان وہیں اٹک کر رہ گئی تھی ۔ یہ لفظ اُس کے لیے اُس آخری اینٹ کی مانند تھے، جس کے نہ ہونے کی وجہ سے پوری عمارت ڈھے جاتی ہے ۔ کوئی ایسا انسان جس نے امید بہت اونچی رکھی ہو ۔ ور رفتہ رفتہ وہ اِس اونچی سطح سے نا امیدی کی کچی زمین پر اترا ہو، اُس کے لیے کچھ ایسا ہو جائے کہ ایک پل میں اُسے دوبارہ اُس اونچی سطح پر پہنچا دیا جائے، تو اُسے کیسا لگے گا۔ حوریہ کو لگ رہا تھا کہ ہر دفعہ کی ناکامی کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ جو امید کے بلند مقام سے زینے اتر کر نیچے آ گئی تھی، اُسے ایک دم سیڑھیوں سے ہٹا کر، کسی ایلی ویٹر میں سوار کر کے پھر دوبارہ اُسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا۔ جہاں ہر طرف امید کی کِرنوں نے اُسے گھیر رکھا تھا ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے جب آپ اپنی امید بالکل کھو چکے ہوتے ہیں اور مایوسی کے دریا میں خود کو ڈبونے جا رہے ہوتے ہیں، تو کوئی ایک چیز… محض کوئی ایک بات، محض چند لفظ یا محض کوئی ایک شخص آپ کو اِس دریا میں ڈوبنے سے پہلے ہی ساحل کنارے پہنچا دیتا ہے ۔ آپ کو مایوسی کے اندھیرے میں کھو جانے سے پہلے ہی آپ کو امید کی ایک نئی کِرن دِکھا دیتا ہے۔ ایک جگنو تھما دیتا ہے۔
’’حوریہ، تم راضی ہو؟‘‘ اپنی ماں کے مخاطب کرنے پر وہ موبائل رکھ کر اطمینان سے پیچھے کُرسی پر ٹیک لگا گئی ۔ ارسلان کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالی۔ کچھ لمحے پہلے کسی بِل میں چھپ جانے والا اعتماد واپس باہر نکل کر اُس لڑکی کی طرف لوٹ آیا تھا۔
’’مجھے آپ سب سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ اُس کا لہجہ کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں تھا بلکہ وہ بہت اعتماد سے بولی تھی۔
اُن لفظوں نے اُس کے دل و دماغ کو جو طمانیت بخشی تھی، وہ بیان بھی نہیں کر سکتی تھی۔اِس اطمینان کے ساتھ ایک خوشی بھی تھی۔ اپنی خواہش پوری کر لینے کی خوشی۔
’’ارسلان بھائی، آپ کی ایک ماہ والی شرط میں ابھی دو دن باقی ہیں لیکن اِن دو دنوں کا بھی کیا انتظار کرنا ۔ مجھے آپ سے یہی کہنا ہے کہ مجھے جاب مل چکی ہے ۔ سو آپ کی شرط کے مطابق اب میں جاب کروں گی اور آپ مجھے نہیں روکیں گے ۔ ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؟‘‘ وہ سکون سے بولتے ہوئے ارسلان کا سکون غرق کر گئی۔
اُس کے اِس لہجے پر اور اپنے بیٹے کی شکل دیکھ کر کمال صاحب کے چہرے پر ایک مُسکراہٹ نمودار ہوئی تھی، جسے وہ فوراً چھپا گئے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے سر جھکا کر بیٹھی حوریہ انہیں بالکل بھی پسند نہیں آ رہی تھی لیکن اب حوریہ اپنی ٹون میں واپس آ چکی تھی۔ اب وہ جانتے تھے کہ وہ اپنی بات منوا کر ہی رہے گی۔ حوریہ بالکل کمال صاحب پر ہی گئی تھی۔ ساتھ بیٹھی سمیرا بھی اِس کایا پلٹ پر اُسے دنگ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا مطلب ہوا اِس بات کا؟ کون سی جاب؟‘‘ ارسلان اڑی اڑی رنگت والے چہرے سے اُسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگا۔
’’میرا نہیں خیال کہ اتنی سادہ سی بات کا مطلب مجھے آپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ماشاء اللہ آپ کافی سمجھ دار ہیں ۔ ‘‘ حوریہ جگ سے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے طنزیہ بولی۔
اُسے ہنسی بھی آ رہی تھی لیکن ابھی وہ ہنس کر ہرگز کام خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ مسز کمال کی نگاہیں ارسلان کی طرف جمی تھیں ۔ وہ اُس کا ردِ عمل دیکھنا چاہ رہی تھیں ۔ دور اندر اپنے بڑے سپوت کی شکل دیکھ کر، انہیںبھی ہنسی ہی آ رہی تھی۔ حوریہ کبھی بھی آسانی سے نہیں ٹلتی تھی تو بھلا وہ اِس بات میں اتنی آسانی سے ضد کیسے چھوڑ دیتی۔
’’میں نے تو بس یوں ہی کہہ دیا تھا ۔ میں تمہیں ہرگز جاب نہیں کرنے دوں گا حوریہ ۔ میں پھوپھو والی مثال دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘
وہ بہت غصے سے بول کر کُرسی پیچھے دھکیلتے اٹھ کھڑا ہوا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ڈائننگ ایریا سے نکل گیا ۔ پیچھے کمال صاحب، مسز کمال، سمیرا اور حوریہ رہ گئے تھے ۔ حوریہ حیران پریشان سی اپنے ماں باپ کی طرف دیکھ رہی تھی جن کے چہرے فق تھے۔ ارسلان یہ کیا کہہ گیا تھا ۔ یہ بات اُسے نہیں کہنی چاہیے تھی ۔ ماضی کی کتاب کے اِس باب کو وہ لوگ بند کر چکے تھے ۔ اب اِس باب کو وہ دوبارہ ہرگز نہیں کھولنا چاہتے تھے ۔ اِس کتاب کے اوراق پر لکھی کہانی کوئی افسانہ نہیں تھا ۔ یہ حقیقت تھی جو انہوں نے جی تھی ۔ اِس حقیقت پر وہ بہت پہلے ہی پردہ ڈال چکے تھے۔ حوریہ کی پیدائش سے بھی پہلے۔ سمیرا بھی نا سمجھی سے انہیںتک رہی تھی۔
’’بابا، یہ ارسلان بھائی کیا کہہ رہے تھے؟ کس پھوپھو کی بات کر رہے تھے؟‘‘ حوریہ حیرت سے کمال صاحب سے مخاطب ہوئی تھی ۔ وہ حیران تھی اور اُس کا حیران ہونا بنتا بھی تھا کیونکہ اُسے تو یہی معلوم تھا کہ اُس کی کوئی پھوپھو نہیں، اُس کے تو بس دو بڑے تایا تھے۔
’’کچھ نہیں بیٹا ۔ تم جاؤ اپنے کمرے میں اور بے فکر رہو۔تم جاب کرو گی۔ میں اُس سے بات کر لوں گا۔‘‘ کمال صاحب اٹھ کر نرمی سے کہتے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اندر لاؤنج میں چلے گئے۔ اُس کی سوالیہ نظریں ماں کی طرف اٹھیں، تو وہ بھی نظریں چرا کر میز پر سے برتن اٹھانے لگیں۔
’’آؤ حوریہ! مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی۔‘‘ سمیرا اُسے کہتی ساتھ لیے حوریہ کے کمرے میں چلی گئی ۔ ابھی اپنے کمرے میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جتنا ارسلان غصے میں تھا۔
حوریہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب یہ کون سا راز تھا ۔ اُسے تو ہمیشہ لگتا رہا کہ ارسلان بھائی بلا وجہ ہی اُسے ٹوکتے تھے ۔ یا اُس پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ مگر یہ تو کوئی اور ہی قصہ نکلا ۔ اُس کے اب تک کے ایسے رویے کے پیچھے ضرور کوئی وجہ تھی ۔ یہ بات اُس نے کبھی نہیں سوچی تھی ۔ انسان کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر رویے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹھوس وجہ ہوتی ہے۔ اب نجانے ایسا کیا تھا، جس پر اُس کے ماں باپ بھی نظریں چرا رہے تھے۔ ماضی کا یہ کونسا باب تھا، جس سے وہ انجان تھی۔
٭…٭