ٹائم مشین: پہلا حصہ
’’اور تم سے کس نے کہا کہ تمہارے وہاں کام کرنے سے تم موحد کے حق پر ڈاکا ڈالتے محسوس ہو گے؟” غنی کی بات پر وہ ماتھے پر تیوری چڑھائی بولے۔
”ڈیڈ! ظاہر ہے کہ یہ کمپنی آپ کی بیوی کی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے نام کر دی۔ اور اُن کا بیٹا میں نہیں، موحد بھائی ہیں۔ اِس کمپنی کو میری نہیں، موحد بھائی کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ انہیں اپنے اب تک کے انکار کی وجہ بیان کر رہا تھا، جو کہ حقیقت ہی تھی ۔ مگر یہ حقیقت اُسے غلط پیرایہ میں بیان کی گئی تھی۔
’’اور تم سے یہ فضول گوئی کس نے کی؟‘‘ ماتھے پر رگیں ابھرتی جا رہی تھیں ۔ وہ جانتے تھے کہ اِس کے پیچھے کون ہوگا، مگر پھر بھی اُس کے منھ سے سننا چاہ رہے تھے۔
’’ڈیڈ، آپ جانتے ہی ہیں۔ پھر بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟‘‘ وہ گہری سانس ہوا کے سپرد کرتا بیٹھا بیٹھا ہی پیچھے بستر پر گِر گیا۔ یوں کہ کمر بستر پر تھی اور ٹانگیں زمین پر۔
’’غنی، تمہارا سب سے بڑا مسئلہ جانتے ہو کیا ہے؟‘‘ وہ سنجیدگی سے اُسے دیکھنے لگے۔ غنی نے سوالیہ ابرو اچکائی تو وہ گویا ہوئے۔
’’تم ہر کسی کی بات کو سچ مان لیتے ہو ۔ پھر اُن باتوں کو دل میں ہی رکھے اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہو ۔ بیٹے، دنیا اتنی معصوم نہیں ہے۔ نہ ہی لوگ اتنے سچے ہیں ۔ یہ جو زبان ہے نا، یہ مرچ سے بھی زیادہ تیکھی ہے ۔ یہ ایسے ایسے لوگوں کا دل جلاتی ہے، اس طرح آگ لگاتی ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا ۔ آج کل تو سچ کو بھی کڑوے پیرایہ میں بیان کیا جاتا ہے اور تم تو پھر ایک جھوٹ کو دل سے لگائے بیٹھے ہو۔‘‘ وہ سخت افسردگی سے کہہ رہے تھے۔ غصہ اپنی جگہ مگر ابھی دُکھ اُس پر حاوی تھا۔
’’کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟‘‘ وہ باپ کی ذو معنی بات پر ناسمجھی سے بولا۔ کیا وہ کچھ مس کر رہا تھا۔۔
’’یہی کہ کمپنی کے شیئرز ملیحہ کے نام کبھی تھے ہی نہیں ۔ وہ گھر اُس کے نام ہے۔ تمہارا باپ اتنا بھی بیوقوف نہیں ہے۔‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ یک دم سخت پریشان ہوگیا۔ ٹیک چھوڑ کر فوراً اٹھ بیٹھا۔
’’ابھی کہا تھا نا کہ اِس زبان سے ہمیشہ سچ نہیں نکلتے ۔ اگر میں نے دو شادیاں کی تھیں، تو نبھانا بھی مجھے ہی تھیں ۔ کمپنی کے چالیس فیصد شیئرز تمہاری ماں کے نام تھے ۔ اور صرف بیس فیصد ملیحہ کے ‘ کیونکہ اُس کے نام میں نے گھر کر دیا تھا۔‘‘ وہ مسکرا کر بولے تو وہ دنگ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔
’’جہاں تک موحد کے حق کی بات ہے تو وہ بیس فیصد ویسے ہی ملیحہ نے موحد کو دے دیے اور اپنا حصہ میں نے تم دونوں بھائیوں میں بانٹ دیا ۔ بچیوں کو الگ سے مکان دے دیے۔ یوں ہی تو نہیں سعید احمد اتنے عرصے سے اکیلا بزنس سنبھال رہا۔‘‘آخر میں وہ کچھ اپنی تعریف کرتے ہوئے بولے، جس پر اتنی سنجیدہ گفتگو میں بھی غنی ہنس دیا۔ دل یک دم بہت ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا تھا۔ شاید یہ دل پر سے بوجھ ہٹ جانے کی وجہ سے تھا۔
’’اچھا، اب میں ناشتہ بنا لوں ۔ پہلے ہی دن کمپنی کے مالک نے مجھے لیٹ کروا دیا ہے۔‘‘ وہ اٹھتا، مزاح میں بات کہہ کر ایک آنکھ موڑتا انہیں دیکھنے لگا، جو اُس کی بات پر ناک پُھلائے اُسے گھورنے لگے تھے۔
’’جب آپ ایسے دیکھتے ہیں ناں، تو قسم سے سفید بالوں کے ساتھ بھی ایک دم بچے لگتے ہیں۔‘‘ وہ ہنس کر اُن کے گال کھینچتا کمرے سے بھاگ گیا۔ پیچھے وہ بھی ہنس دیے۔
٭…٭
’’دیکھیں! بھابھی، آپ ہی ارسلان بھائی کو سمجھائیں ۔ جب بابا مانے ہوئے ہیں، تو یہ کیوں نہیں مان رہے۔‘‘ وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے، جب حوریہ نے اپنی بھابھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
اُن دونوں کی کافی بنتی تھی۔ بلکہ ارسلان سے زیادہ اُسے سمیرا(ارسلان کی بیوی) فیور کرتی تھی ۔ دو سال کا عرصہ دیکھتے ہی دیکھتے کٹ گیا تھا ۔ گھر میں ہوئے نئے فرد کے اضافے نے ماحول تھوڑا بدل دیا تھا ۔ اب تو سب سمیرا کے کافی عادی ہو چکے تھے ۔ خاص طور پر حوریہ، جو اپنی ہر بات اُس سے شیئر کرنے لگی تھی۔ ماسٹرز اُس کا مکمل ہو چکا تھا ۔ اب آج کل وہ جاب کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھی ۔ مسز کمال نے تو اُسے، اُس کے حال پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ زبردستی اُسے شادی کے لیے رضامند نہیں کر سکتے تھے۔
’’ہاں۔ ارسلان، آپ کیوں…‘‘ اِس سے پہلے سمیرا اپنی بات مکمل کرتی، ارسلان اُس کی بات کاٹ گیا۔
’’جب اصل بات کا انسان کو پتا نہ ہو نا، تو اُسے خاموش ہی رہنا چاہیے۔‘‘ روٹی کا آخری لقمہ چباتے ارسلان سختی سے سمیرا کو ٹوکتے ہوئے بولا۔ جس پر سمیرا بے چارگی سے حوریہ کو دیکھنے لگی۔
’’ارسلان! ‘‘کمال صاحب نے سختی سے اُسے باز رکھنے کی کوشش کی۔
’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟‘‘وہ ابرو اچکاتا اُن کے چہرے پر سوالیہ نگاہیں جما گیا۔ جیسے کچھ جتا رہا ہو۔
’’حوریہ! جب تمہارا باپ تمہیں اجازت دے رہا ہے، تو تمہیں اِس کی اجازت کی کیوں پڑی ہے ۔ اگر اِس نے زیادہ بڑا پن دِکھانا ہے، تو کہیں اور جا کر دِکھائے۔‘‘ کمال صاحب سخت روکھے انداز میں بول کر اٹھ گئے۔ ارسلان کی بات کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔
’’تو ٹھیک ہے پھر تمہارے پاس ایک مہینہ ہے ۔ اِس ایک مہینے میں تمہیں کوئی جاب مل گئی، تو میں تمہیں جاب کرنے دوں گا اور اگر نہ ملی تو…‘‘ ارسلان نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ حوریہ پیچھے مُڑتے بے چینی سے بولی تھی۔
’’تو…؟‘‘اُسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ارسلان اتنی جلدی مان جائے گا ۔ لیکن جو بھی تھا، اُس کے حق میں بہت بہتر تھا۔ ویسے بھی ایک مہینہ کم تو نہیں ہوتا جاب ڈھونڈنے کے لیے۔
’’تو پھر تمہیں ہماری بات ماننی پڑے گی ۔ اور ہم تمہاری شادی کر دیں گے۔‘‘ وہ اپنی بات کہہ کر سمیرا کو ساتھ لیے وہاں سے باہر نکل گیا۔
نعیم بھی کھانا کھا کر اٹھ گیا ۔ مسز کمال اور حوریہ مل کر میز سے برتن اٹھانے لگے ۔ سارے وقت میں وہ خاموش ہی رہیں تھیں۔ ارسلان کو یقین تھا کہ حوریہ کو اتنی جلدی جاب نہیں ملنی تھی۔ کیونکہ اُسے کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اور بغیر کسی تجربے کے جاب مشکل سے ہی مل پاتی ہے۔ فی الحال حوریہ اتنے میں ہی خوش تھی کہ اُسے جاب کی اجازت مل گئی تھی۔ وہ خوشی سے فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے میں آتی باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭
آسمان پر شاہ خاور خوب آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ دھوپ اتنی تیز تھی کہ اس کی تپش کی تاب لانا بہت مشکل کام تھا۔ ایسے میں وہ گھر سے باہر جاب ڈھونڈھنے کے لیے ماری ماری پھر رہی تھی ۔ حوریہ کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ جاب ملنا اتنا مشکل بھی ہو سکتا ہے ۔ وہ پچھلے دو ہفتوں سے جاب کی تلاش میں تھی لیکن جتنی بھی کمپنیز میں انٹرویو دیا، ہر جگہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور وجہ محض ایک تھی کہ اُس کا پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ ابھی بھی وہ ایک کمپنی میں انٹرویو دینے ہی جا رہی تھی۔ نجانے کیوں اُسے لگ رہا تھا کہ اِس ایک ماہ میں تو اُسے جاب نہیں مل پانی۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
وہ کمپنی کے ویٹنگ ہال میں پہنچی، تو سب امیدواروں کو وہاں اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے پایا ۔ وہ بھی انہی انتظار کرنے والوں میں شامل ہو گئی ۔ کچھ لوگ وہاں بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے، تو کچھ لوگ اپنے ہاتھوں میں پکڑی فائل پر نظریں دوڑا رہے تھے۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنی سی وی اپنی گود میں رکھ گئی اور وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔ باہر کے مقابلے کمپنی کے اندر گرمی کا احساس زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ اُس نے ہاتھ کی ہتھیلی سے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا ۔ وہ اِس وقت وائٹ جینز پر نیوی بلیو کلر کی پرنٹڈ کُرتی پہنے ہوئے تھی ۔ گلے کے اردگرد سفید اسکارف مفلر کی طرح لپیٹا ہوا تھا ۔ سفید اسکارف کے کناروں پر نیوی بلیو کلر کے ٹسلز لگے ہوئے تھے۔ ہلکے بھورے رنگ کے بال اونچی پونی میں مقید تھے ۔ میک اپ کے نام پر ہونٹوں پر گلابی رنگ کا لپ گلوز لگا رکھا تھا۔
کچھ ہی دیر میں اُس کی باری بھی آ ہی گئی ۔ وہ اندر سے گھبرائی ہوئی بھی تھی لیکن چہرے پر اپنی گھبراہٹ کا ایک تاثر بھی نمودار نہ ہونے دیا ۔ شاید وہ اپنے جذبات چھپانے میں بہت ماہر تھی ۔ وہ اطمینان سے چلتے ہوئے، دستک دے کر آفس کا دروازہ دھکیلتے اندر داخل ہوئی ۔ اُس کی سفید ہیلز کی ٹک ٹک نے اندر بیٹھے نفوس کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔ سامنے دو ہی شخص بیٹھے ہوئے تھے، جس میں سے ایک کسی سے فون پر بات کر رہا تھا، تو دوسرا اُس کے اندر آنے پر اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔ کرسی پر براجمان وجیہہ شخص کی نظریں سب سے پہلے اُس کے پاؤں میں مقید سفید ہیلز سے ٹکرائیں اور پھر سِرکتے سرکتے اُس لڑکی کے چہرے پر ٹِک گئیں ۔ اُسے دیکھ کر سامنے بیٹھا شخص ذرا چونکا تھا، پھر اُس کے سلام کرنے پر سر ہلا کر اُسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص اُس کے بال گھنگھریالے نہ دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ شاید اُس نے اپنی لُک تبدیل کر لی تھی ۔ وہ سحر انگیز آواز والی لڑکی سے اُس کی پھر دوبارہ کبھی ملاقات ہوگی، یہ اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اور اُس کے چونکنے کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ وہ تو سمجھا تھا شاید وہ لڑکی کوئی کامیاب پوسٹ پر متعین ہے، اسی وجہ سے اسپیچ دے رہی تھی لیکن یہ معاملہ تو کچھ اور ہی نکلا ۔ شاید وہ وہاں کی اسٹوڈنٹ تھی ۔ مگر جو بھی تھا، غنی سعید کو اُس کی یہاں موجودگی بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی ۔ ساتھ بیٹھا شخص فون رکھ چکا تھا۔ اور دوسرے شخص کے کان میں گُھس کر نجانے کیا سرگوشیاں کر رہا تھا۔ حوریہ خاموشی سے نظریں اپنی گود میں رکھے ہاتھوں پر مرکوز کر گئی۔
’’ارے یار! یہ تو وہی تقریب والی لڑکی ہے ناں، جسے تو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔‘‘ موحد، غنی کے کان میں گُھس کر سرگوشی میں اُسے کہہ رہا تھا، جس پر غنی نے آنکھیں سکیڑ کر موحد کو دیکھا ۔ غنی کے اِس طرح دیکھنے پر وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ گیا ۔ بزنس جوائن کیے اُسے دو برس یو گئے تھے ۔ تب سے ہی دونوں بھائی اکٹھے کام کر رہے تھے ۔ اب تک سب کچھ بہت خوشگوار جا رہا تھا ۔ اِس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ابھی تک ملیحہ بیگم اِس بات سے بے خبر تھیں ورنہ کوئی نہ کوئی دھماکا ضرور ہو چکا ہوتا۔
’’اچھا غنی! مجھے کچھ کام ہے ۔ میں جا رہا ہوں، باقی کے انٹرویوز تم دیکھ لینا۔‘‘ موحد سامنے رکھے ٹیبل پر سے اپنا موبائل اٹھا کر عجلت میں کہتا باہر نکل گیا ۔
اب کی بار حوریہ نے نظریں اٹھائی تھیں۔ سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر اُسے ایسا لگا جیسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو لیکن یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حوریہ کو یہ یاد ہو کہ اُس دن فنکشن میں غنی سعید بھی موجود تھا ۔ موحد نے اسپیچ دی تھی لیکن اُس کی اسپیچ سے پہلے ہی حوریہ آڈیٹوریم ہال سے نکل گئی تھی ۔ اُس دن باقی کا وقت اُس نے ریسٹ روم میں گزارا تھا اور پھر سب کے ساتھ کھانا کھا کر واپس لوٹ گئی تھی۔
’’اپنی سی وی دکھائیں۔‘‘ بھاری گمبھیر آواز پر وہ اپنی سوچوں سے باہر آئی اور فوراً اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل اُسے پکڑا دی ۔ اس نے فائل کھول کر دیکھی اور پھر سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے بولا۔
’’تو حوریہ، آپ یہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں؟‘‘ اُس کی سی وی پر نظریں دوڑا کر اُسے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ یہ لڑکی اُن کی کمپنی میں جاب کے لیے اہلیت کے معیار پر پوری اترتی ہے لیکن وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہے ۔ کیونکہ وہ کوئی ضرورت مند تو نہیں لگتی تھی۔
’’میں… میں جاب کرنا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے شوق ہے۔‘‘ حوریہ کو اِس سوال کی توقع نہ تھی۔
اُسے لگا تھا کہ سی وی دیکھنے کے بعد سب سے پہلا ضروری سوال ’’آپ کو کام کا تجربہ ہے‘‘ ہوتا ہے لیکن یہ اُس کی توقع کے برخلاف تھا تب ہی جو منہ میں آیا بول گئی۔
’’صرف شوق کے لیے تو کام نہیں کیے جاتے ۔ ہر ایک کام کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔‘‘وہی بھاری لہجہ۔
’’میں جاب اس لیے کرنا چاہتی ہوں تاکہ میری تعلیم ضائع نہ ہو۔‘‘ اُس کے جاب کرنے کا ایک ریزن یہ بھی تھا۔
’’تو آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ جاب نہیں کریں گی، تو آپ کی تعلیم ضائع ہو جائے گی۔‘‘ غنی سعید سنجیدگی سے سوال کر رہا تھا۔
’’ہرگز نہیں ۔ اگر میں جاب نہیں بھی کروں گی، تو میری تعلیم ضائع نہیں ہوگی ۔ عورت اگر تعلیم یافتہ ہو تو علم نسلوں میں تیرتا ہے۔‘‘ وہ اِس قدر اعتماد سے بولی کہ غنی حیران ہوا تھا۔ اُس کا اعتماد قابلِ دید تھا ۔ پہلی بار انجان جگہ پر، انجان شخص کے سامنے بھی، وہ گھبرا نہیں رہی تھی۔ یہ حیران کن تھا۔ کم از کم اُس کے لیے تو تھا۔
’’تو پھر آپ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ کیا آپ کو ضرورت ہے؟‘‘ غنی نجانے کیوں اِس ایک سوال پر اڑ ہی گیا تھا جیسے وجہ جان کر ہی رہے گا۔
’’دیکھیں سر! میں نہیں جانتی آپ اِس سوال سے کیا جاننا چاہتے ہیں لیکن میں جاب کرنا چاہتی ہوں ۔ اس لیے نہیں کہ مجھے جاب کی ضرورت ہے، ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ میں جاب اس لیے کرنا چاہتی ہوں تاکہ میں اپنے والدین کو کچھ لوٹا سکوں ۔ میں چاہتی ہوں، میں انہیں صِلہ دے سکوں، اُن کی محنت کا، جو انہوں نے مجھے اِس مقام تک لانے کے لیے کی ہے۔ اگرچہ میں انہیں ایک دن کا بھی صِلہ نہیں دے سکتی لیکن میں پھر بھی کوشش کرنا چاہتی ہوں۔‘‘حوریہ کو نہیں پتا تھا کہ اُسے یہ سب کہنا چاہیے یا نہیں لیکن اُس نے اپنے دل میں آئی بات کہہ دی تھی۔ کیونکہ یہی اصل وجہ تھی۔
’’ہمم…‘‘ وہ بس یہی کہہ سکا۔
اُس کے جواب نے غنی سعید کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا تھا ۔ پہلی نظر میں یہ لڑکی غنی سعید کو دلچسپ لگی تھی ۔ دوسری ملاقات میں اِس لڑکی نے غنی سعید کو حیران کر دیا تھا ۔ اور اُس پر اپنا گہرا تاثر چھوڑا تھا ۔ تیسری ملاقات میں نجانے حوریہ کمال کی ذات کے کونسے پہلو سے غنی سعید کا سامنا ہونا تھا۔
’’آپ جا سکتی ہیں۔‘‘ اُس نے کچھ سوچتے ہوئے اُسے جانے کا کہہ دیا ۔ حوریہ کو لگا شاید اُس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے یا شاید انہیںاُس کا جواب پسند نہیں آیا ۔ اور اُسے معلوم بھی نہیں تھا کہ اُس کے چہرے پر اِس کشمکش کے تاثرات ظاہر ہونے لگے تھے ۔ شاید حوریہ کمال اب کی بار اپنے تاثرات کو نہیں چھپا پائی تھی ۔ اُسے وہیں جما دیکھ کر وہ پھر بولا تھا۔
’’اگر آپ کو رکھنا ہوا، تو آپ کو ای میل کر دی جائے گی۔‘‘ غنی نے اُس کی مشکل آسان کرنا چاہی۔
’’لیکن سر، آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ مجھے کام کا تجربہ ہے یا نہیں؟‘‘ یہ وہ سوال تھا جو وہ کافی دیر سے کرنا چاہتی تھی۔
’’نہیں ۔ ہمیں کام سے مطلب ہے، تجربے سے نہیں ۔ اگر اچھا کام ہوا تو نو میٹر کہ آپ تجربہ کار ہیں یا نہیں۔‘‘
وہ سامنے ٹیبل پر رکھے پیپر کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔ وہ سابقہ لوگوں کی سی ویز تھیں ۔ سب سے اوپر اُس نے حوریہ کمال کی بھی رکھ دی ۔ وہ لڑکی شکریہ کہتے ’’خدا حافظ‘‘ کہہ کر چلی گئی تھی ۔ اُس کی ہیل کی ٹک ٹک مدھم ہوتی گئی لیکن غنی سعید نے ٹیبل پر سے نظریں نہ اٹھائیں ۔ آج وہ لڑکی اُسے گہری سوچوں کے بھنور میں قید کر گئی تھی۔
٭…٭
’’سب کچھ شروع ہوا تھا اُس اندھیری رات سے۔ اُس رات کے بعد کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ سب بدل گیا۔ ایک تبدیلی آئی اور اُس تبدیلی کی لپیٹ میں ہماری خوشیاں آ گئیں۔ ہم سے ہماری خوشیاں چھینی نہیں گئی تھیں ۔ بلکہ خوشیوں کا بٹوارہ کر دیا گیا ۔ محبت کا بٹوارہ کر دیا گیا، مگر کیا کریں، ہم انسان بہت خودغرض ہوتے ہیں۔ نہ بٹی ہوئی خوشیاں چاہتے ہیں اور نہ ہی بٹی ہوئی محبت اور اسی خودغرضی میں ہم بہت سی جانیں تباہ کر دیتے ہیں۔‘‘ہاتھ میں چائے کی پیالی تھامے، وہ دور کہیں خلا میں دیکھتے ہوئے بول رہا تھا ۔
سامنے بیٹھی لڑکی نے اُسے پہلی دفعہ اِس قدر رنجیدگی سے بات کرتے سنا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ اچانک اتنا اداس کیوں ہو گیا تھا۔ اُس نے تو بس ساری حقیقت جاننے کی خواہش کی تھی ۔ شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص اِس وقت خود بھی کہیں، اُس اندھیری رات میں کھو گیا تھا ۔وہ دوبارہ بولنا شروع ہوا تو اُسے ماضی کی اُس اندھیری رات کا بتانے لگا۔ وہ وقت جو اُن کی زندگیوں میں بالکل غیر متوقع تھا۔ ایک بار پھر وہ یادوں کے سہارے اُس رات کا سفر کرنے لگا۔
٭…٭