مکمل ناول

ٹائم مشین: پہلا حصہ

’’کمال، مجھے نہیں لگتا کہ حوریہ کو جاب کی ضرورت ہے ۔ لڑکیاں باہر دفتروں میں کام کرتیں، اچھی لگتی ہیں بھلا ۔ یہ آپ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ مسز کمال اُن کی بات سے بالکل راضی نہیں تھیں ۔ اُن کا یہ خیال تھا کہ لڑکیوں کی جلدی شادی کر دینا بہتر ہوتا ہے۔
’’میں نے کوئی عجیب بات نہیں کی رقیہ ، اور لڑکیاں دفتروں میں کام کرتی کیوں نہیں اچھی لگتیں ؟ آخر کب تک ہم زمانہ جاہلیت کی سوچ پر عمل کرتے رہیں گے؟‘‘ کمال صاحب کا لہجہ حد درجہ سنجیدہ تھا۔
’’ٹھیک ہے ۔ آپ کو میری باتیں جاہلیت کی باتیں لگتی ہیں، تو کوئی بات نہیں ۔ جو مرضی کریں، آپ باپ بیٹی ۔میری تو کوئی سنتا ہی نہیں سوائے میرے بیٹوں کے۔‘‘ کمال صاحب کی بات پر انہیں بُرا لگا تھا حالاں کہ انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی۔ وہ غصے میں کہہ کر اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
’’ بابا … ‘‘ حوریہ ابھی کچھ کہنے ہی والی تھی جب اندر کمرے سے ایک بار پھر مسز کمال کی آواز آئی تھی۔
’’کمال، آپ سے اب میرے بیٹے ہی بات کریں گے ۔ میری تو آپ مانتے نہیں۔‘‘ اُن کی بات پر باہر لاؤنج میں بیٹھے کمال صاحب اور حوریہ مسکرا دیے ۔ وہ جانتی بھی تھیں کہ اِس دھمکی کا دونوں باپ، بیٹی پر کوئی اثر نہیں ہونا تھا مگر پھر بھی دھمکانا ضروری تھا۔
’’تم فکر مت کرو حور ۔ میں تمہاری ماں کو منا لوں گا۔ پتا ہے نا میرا۔‘‘ وہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے بولے ۔ حوریہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اُن کے سینے سے لگی تھی۔
’’آپ ورلڈز بیسٹ بابا ہیں۔‘‘ وہ آنکھوں میں آئی نمی اندر دھکیلتے ہوئے، رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
’’اور حوریہ ورلڈز بیسٹ ڈاٹر ہے ۔ کیا میں نے پہلے کبھی یہ بات بتائی؟‘‘ وہ اپنی ہمیشہ دہرانے والی بات پھر سے دہرا رہے تھے۔
’’ہمیشہ۔‘‘ اُس کے جواب پر وہ دونوں ہنس دیے تھے۔ ماں باپ بھی اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہوتے ہیں ناں۔
٭…٭
’’مما، میں اکثر سوچتا ہوں کہ آپ سے ناراض ہو جاؤں ۔ آپ مجھے یہاں اکیلے چھوڑ کر چلی گئی ہیں لیکن پھر دل میں آتا ہے کہ آپ سے ناراض ہو جاؤں گا، تو میں بات کس سے کیا کروں گا ۔ میرے پاس تو کوئی ہے بھی نہیں۔‘‘ بڑے سے کشادہ کمرے میں کنگ سائز بیڈ پر بیٹھے، بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے، وہ اپنے ہاتھوں میں تھامے فوٹو فریم سے باتیں کر رہا تھا ۔ تصویر ایک خوبصورت جوان خاتون کی تھی، جو خوبصورت نقوش کی مالک تھیں۔
’’ڈائن…گھر اجاڑنے والی … مما، کیا ایسے الفاظ کوئی اپنی ماں کے لیے سُن سکتا ہے؟‘‘ وہ بہت پُر درد لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
’’میں تو آپ کے بارے میں یہ سب نہیں سُن سکتا ۔ مما، آپ کو سب بُرا کیوں کہتے ہیں ۔ غنی کو تو آپ بُری نہیں لگتیں۔‘‘ گھر اتنا ویران اور خاموش تھا کہ سوئی گِرنے کی بھی آواز سنائی دیتی ۔ ایسے میں وہ تنہا بیٹھا، ایک تصویر سے باتیں کرتا شخص، کوئی پاگل لگ رہا تھا۔
’’مما، میں کتنا اکیلا ہوں نا ۔ مجھے آپ کی گود میں سر رکھ کر سونا ہے بالکل پہلے کی طرح ۔ مجھے آپ کی بہت یاد آ رہی ہے۔‘‘ آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور گال پر سے سرکتا ہلکی داڑھی میں جذب ہوگیا ۔ وہ خود سے یوں ہی باتیں کر رہا تھا، جب ذہن میں کسی کا عکس لہرایا اور سماعتوں میں ایک بار پھر وہ سحر انگیز آواز سنائی دی۔
’’اگر یہ دنیا جادوئی ہوتی اور اِس جادوئی دنیا میں کوئی ٹائم مشین ہوتی تو میں ضرور اُس ٹائم مشین کا استعمال کر کے اُس وقت میں چلی جاتی ۔ جب میرے اردگرد ہر طرف خوشیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ لیکن یہی تو بات ہے ۔ یہ دنیا جادوئی نہیں ہے ۔ یہاں کوئی ٹائم مشین نہیں۔‘‘ اُس لڑکی کی کہی یہ بات اُس کے دل پر لگی تھی ۔ دماغ میں نقش ہو گئی تھی۔ وہ تصویر سینے سے لگاتا آنکھیں موند گیا۔
’’اگر واقعی اِس دنیا میں کوئی ٹائم مشین ہوتی ناں ، تو میں اُس وقت میں چلا جاتا، جب آپ میرے پاس تھیں مما ۔ بہت کچھ بُرا ہو کر بھی سب اچھا تھا ۔ موحد بھائی مجھے نہیں بُلاتے تھے ۔ آسیہ اور سمیہ(موحد کی بہنیں ) مجھے تنگ کرتی تھیں ۔ لیکن میرے پاس آپ تھیں ۔ میں جب بھی روتا تھا، آپ میرا سر اپنی گود میں رکھ کر مجھے سُلا دیتی تھیں۔‘‘ اُس کا لہجہ اِس حد تک رندھ گیا تھا کہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اگلے لمحے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے والا ہو۔
’’لیکن اب میرے پاس آپ نہیں ۔ نہ ہی کوئی گود، نہ ہی کوئی سُلانے والا، مما میں کتنا اکیلا ہوں ناں۔‘‘ اُس کی خود کلامی آگے بھی جاری رہتی اگر کوئی اُس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر نہ آتا ۔ اُس وجود کا چہرہ دیکھ کر غنی کا دل ایک دم خوش ہوا تھا ۔ ایک گود اُس کے پاس اب بھی تھی ۔ ایک وجود اب بھی اُسے سُلا سکتا تھا ۔ اور وہ تھا غنی سعید کا باپ۔
’’ڈیڈ، آپ یہاں؟ ‘‘ انہیں یہاں دیکھ کر اُسے حیرانی بھی ہوئی تھی اور خوشی بھی۔
’’کیوں میں اپنے بیٹے کے گھر نہیں آ سکتا کیا ؟ اگر نہیں آ سکتا تھا تو مجھے اپنے گھر کی چابی کیوں دی تھی؟‘‘ اُس کے بستر سے اٹھنے سے پہلے ہی وہ جوتا اتار کر بیڈ پر اُس کے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور خفگی سے بولے تھے۔
’’نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا۔‘‘ وہ اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے بولا ۔ ہاتھ میں پکڑا فوٹو فریم بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر تھوڑا پیچھے ہوتے، وہ اُن کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ دل میں ایک دم کچھ سکون سا اترا تھا۔ غنی سعید نے اُن کا سخت ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما تھا۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ اِس وقت میں خود کو بہت تنہا محسوس کر رہا ہوں؟‘‘ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اُس کے دِل کی بات اُن تک کیسے پہنچ گئی۔
’’غنی، تمہیں کیا لگتا ہے، اولاد پریشان ہو تو صرف ماں کا دل بے چین ہوتا ہے ۔ باپ کے دل میں بے چینی پیدا نہیں ہوتی کیا؟ کیا باپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اُس کی اولاد اِس وقت تکلیف میں ہے؟‘‘ انہوں نے اُس کے سیاہ بالوں پر جھک کر بوسہ دیا تھا اور ماتھے پر بکھرے بال اپنے دوسرے ہاتھ سے سمیٹے تھے۔
’’ڈیڈ کبھی کبھی میرا رونے کا بہت دل کرتا ہے۔‘‘ اُس کی بات پر اُن کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی تھی۔
’’تو رو لیا کرو بیٹے ۔ اکیلے میں رونے سے تو کوئی مسئلہ نہیں ناں۔‘‘ انہوں نے نرمی سے جواب دیا تھا۔ اُن کا دل اُس کے درد پر کتنی تکلیف میں مبتلا تھا، یہ وہ اور اُن کا رب ہی جانتا تھا۔
’’لیکن میں نے تو سنا ہے کہ مرد روتا نہیں۔‘‘ وہی سنی سنائی بات۔
’’بیٹے، تم رو لیا کرو ۔ چھوڑو یہ لوگوں کی باتیں ۔ جانتے ہو مرد بہت مضبوط ہوتا ہے کیونکہ جب مرد روتا ہے، تب وہ اپنے دل پر آنسو گِرا گِرا کر تھک چکا ہوتا ہے ۔ تب ہی تو وہ اپنے آنسوؤں کو آنکھوں کے راستے سے باہر آنے دیتا ہے ۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ دل پر آنسو گِرانا آسان ہوتا ہے؟‘‘ اُن کے سوال پر انہیں خاموشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے نظریں جھکائیں، تو اُسے سوتے ہوئے پایا۔ وہ مسکرا دیے ۔ وہ بچپن کی طرح اب بھی گود میں سر رکھتے ہی جلد سو جاتا تھا ۔ کمپنی سے سیدھا وہ غنی کی طرف ہی آ گئے تھے۔ شام سے اُن کا دل بہت بے چین تھا ۔ جب تک وہ غنی کو دیکھ نہ لیتے، انہیں سکون نہیں آنا تھا۔ آج موحد بھی آفس نہیں آیا تھا، اسی وجہ سے بہت سے کام انہیں خود ہینڈل کرنا پڑے، جس کی وجہ سے انہیں آنے میں دیر ہو گئی۔ اُن کی زندگی میں بہت کچھ دیر سے ہی تو ہوا تھا۔ محبت بھی دیر سے ہی ہوئی اور اگر وہ محبت نہ ہوتی تو آج حالات کتنے مختلف ہوتے ناں۔
٭…٭
’’موحد آپ نے پہلے کبھی بتایا نہیں کہ غنی آپ کا سوتیلا بھائی ہے۔‘‘
کمرے میں آنے کے بعد سے اُن کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔ سحر کو موحد کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا، اسی لیے اُس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی لیکن اب صبح وہ کچھ سوچتے ہوئے اُس سے مخاطب ہوئی تھی ۔ آخر اُسے یہ پزل بھی تو حل کرنا تھا۔
’’اِس میں بتانے والی کیا بات ہے۔ میں نے اُسے کبھی سوتیلا سمجھا ہی نہیں۔‘‘ اُس کے خود کے جواب پر وہ حیران ہوا تھا۔
دل نے یک دم یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا واقعی یہ سچ تھا؟ اُس نے کبھی غنی کو سوتیلا نہیں سمجھا تھا کیا ۔ لیکن پھر دماغ نے دل کو پُرانی باتیں یاد دلانے پر ڈپٹ دیا تھا۔ جو بھی تھا، ماضی میں اُس نے ایک بڑی غلطی کی تھی اور اب وہ اپنی غلطی سُدھار رہا تھا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اپنی اُس غلطی کا اعلانیہ سب کو بتاتا پھرے۔
’’تو غنی کی مام کی ڈیتھ ہو گئی ہے کیا ؟ اور امی(موحد کی والدہ) کا اُن سے ایسا رویہ کیوں تھا؟‘‘ وہ مزید سوال کرنے لگی تھی۔
’’سحر، ابھی اِس گفتگو کا وقت نہیں ہے ۔ یہ بہت لمبی کہانی ہے پھر کبھی سہی۔ ابھی مجھے آفس کے لیے نکلنا ہے۔‘‘
وہ مکمل تیار تھا۔ ناشتہ وہ پہلے ہی کر چکے تھے، اسی لیے وہ آخری بات کہہ کر، اپنی سوئی ہوئی ایک سالہ بیٹی کا ماتھا چومتا کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭
ایک نئی صبح بیدار ہو چکی تھی ۔ وہ صبح جو پچھلی رات کی تمام تاریکیوں کو خود میں سمیٹ کر سنہری کِرنوں میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ باہر پرندے چہچہا رہے تھے، یوں جیسے اپنی چہچہاہٹ سے صبح کی آمد کا پیغام دے رہے ہوں۔ اور گھروں کے اندر کئی انسان سُستی کے مارے ابھی بستروں سے ہی لگے پڑے تھے۔
وہ اپنی عادت کے مطابق صبح سات بجے ہی اٹھ چکی تھی لیکن ابھی تک بستر سے نہیں اٹھی تھی ۔ یوں ہی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ آنکھیں موندے اپنے دماغ کو دور کہیں ماضی میں الجھائے ہوئے تھی ۔ اُس نے دوبارہ آنکھیں کھول کر وال کلاک پر نظر دوڑائی ۔ گھڑی ساڑھے آٹھ بجنے کا پتا دے رہی تھی ۔ کبھی کبھی تو اُسے بہت حیرت ہوتی تھی کہ ماضی میں گم ہونے سے وقت اتنی جلدی کیسے گزر جاتا ہے ۔ وہ ابھی بیڈ سے اٹھنے ہی والی تھی، جب اُس کے کمرے کا دروازہ زوردار آواز سے کُھلا ۔ حوریہ تو رات سے ہی اس سب کا انتظار کر رہی تھی لیکن شاید رات کو اُس کے بھائی دیر سے گھر لوٹے تھے۔
’’یہ میں کیا سُن رہا ہوں حوریہ؟‘‘ یہ اُس کا بڑا بھائی تھا ارسلان۔ جو کافی سخت طبیعت کا مالک تھا۔
’’کیا سُن رہے ہیں؟‘‘ وہ جانتی تھی کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر اٹل تھی ۔ اُسے جاب کرنی تھی تو کرنی ہی تھی ۔ پھر چاہے وہ اب ہو یا ماسٹرز کے بعد۔
’’یہی کہ تم جاب کرو گی ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ۔ معاشرے میں ہماری کوئی عزت ہے ۔ ہم اپنے گھر کی لڑکی کو یوں غیر مردوں کے بیچ کام کرنے کے لیے بھیج دیں ۔ ابھی اتنا دماغ خراب نہیں ہوا ہمارا۔‘‘ وہ اِس وقت انتہائی غصہ تھا ۔ رات وہ دونوں بھائی کام پر سے دیر سے لوٹے تھے ۔ صبح انہیں اپنی ماں سے حوریہ کی فرمائش کا پتا چلا، تو وہ اُس کی خبر لینے اُس کے کمرے میں پہنچ گئے۔
’’آپ بھول رہے ہیں کہ میں نے اُنہی غیر مردوں میں رہ کر پڑھائی کی ہے ۔ آپ بھی غیر عورتوں کے درمیان رہ کر ہی جاب کر رہے ہیں، ارسلان بھائی۔‘‘ وہ اپنے جواب سے اُسے بہت کچھ جتا گئی تھی ۔ یہ تو واضح تھا کہ وہ جاب ضرور کرے گی ۔ نعیم، ارسلان سے چھوٹا تھا لیکن حوریہ سے بڑا ہی تھا ۔ اِس معاملے میں وہ ایک طرف خاموش کھڑا تھا کیونکہ سارا معاملہ ارسلان نے خود ہی ہینڈل کر لینا تھا ۔ وہ دونوں ہی ابھی غیر شادی شدہ تھے ۔ دو ماہ بعد ارسلان کی شادی تھی اور نعیم کا خالہ زاد سے نکاح تھا۔
’’میری الگ بات ہے ۔ میں ایک مرد ہوں ۔ لیکن میرا یہ آخری فیصلہ ہے کہ تم جاب نہیں کرو گی۔ اب بس ہم تمہاری شادی کریں گے ۔ شادی کے بعد جو مرضی کرتی رہنا۔‘‘ وہ جیسے حتمی لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’ہرگز نہیں بھائی، میں جاب کروں گی ۔ بابا نے مجھے اجازت دے دی ہے۔ اور ابھی آپ اپنی شادی پر دھیان دیں، مجھے دو، تین سال تک معاف ہی رکھیں ۔ اور ہاں، اگر آپ بھی اجازت دے دیں تو اچھا ہے، ورنہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘ وہ اپنی بات کہہ کر بستر سے اٹھتی کمرے سے ملحقہ باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔
’’میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی حوریہ۔‘‘ ارسلان اُس کے اٹھ کر جانے پر بُھنائے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
’’لیکن میں اپنی بات ختم کر چکی ہوں۔‘‘اِس سے پہلے وہ غسل خانے میں جاتی، ارسلان کی بات نے چند پل کے لیے اُس کے قدم وہیں جما دیے مگر پھر وہ نظرانداز کرتی اندر چلی گئی۔ جب وقت آئے گا، دیکھا جائے گا۔
’’میں بھی دیکھتا ہوں کہ میرے رہتے تم کیسے جاب کرو گی۔‘‘ وہ تندہی سے کہتا واک آؤٹ کر گیا۔
٭…٭
’’غنی!‘‘ وہ کچن میں کھڑا کافی بنا رہا تھا جب سعید صاحب نے اُسے آواز دی ۔ وہ رات یہیں رُک گئے تھے ۔ اکثر وہ غنی کے ساتھ ہی رُک جایا کرتے تھے۔
’’جی ڈیڈ!‘‘ وہ کافی بیٹ کرنا چھوڑ کر مگ کاؤنٹر پر رکھتے کچن سے نکلا ۔ گھر زیادہ بڑا نہیں تھا کیونکہ غنی کو زیادہ بڑے گھر اچھے نہیں لگتے تھے ۔ اسی لیے اُس نے اپنے لیے سادہ سے گھر کا انتخاب کیا تھا ۔
وہ اِس وقت سیاہ ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس تھا ۔ شرٹ کی آستینوں کو کہنیوں تک موڑ رکھا تھا ۔ سیاہ گیلے بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے ۔ گیلے بال اِس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ وہ شاور لینے کے بعد سیدھا کچن میں ہی آ گیا تھا ۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو انہیں بستر پر ہی بیٹھے پایا۔
’’آپ کچھ کہہ رہے تھے ڈیڈ؟‘‘ وہ استفہامیہ لہجے میں اُن سے مخاطب ہوا ۔ جواب میں سعید صاحب نے اُسے اپنے پاس بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ وہ سر ہلاتا اُن کے ساتھ ہی آ بیٹھا ۔ ابھی صبح کے آٹھ بج رہے تھے اور نو بجے تک اُسے آفس جانا تھا۔
’’غنی… بیٹے، میری خاطر ایک بات مانو گے؟‘‘ وہ بہت نرمی سے آنکھوں میں ڈھیروں امید کے دیے جلائے، اُس سے مخاطب ہوئے۔
غنی نے پہلے اپنے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا‘ جس پر پہلے کی طرح شادابی اور رونق نہیں رہی تھی ۔ بلکہ اب بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ چہرے کی رونق ختم ہوتی جا رہی تھی ۔ اب کون جانتا تھا کہ یہ بڑھتی عمر کی وجہ سے تھا یا اندر کے دُکھوں کی وجہ سے یا شاید اپنی اولاد کے غموں نے اُن کے چہرے سے جوانی کا حُسن نچوڑ لیا تھا۔
’’جی ڈیڈ!‘‘وہ کہہ کر نظریں اپنی جھولی میں رکھے ہاتھوں پر مرکوز کر گیا ۔ وہ شاید جانتا تھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار انہیں انکار کر چکا تھا۔ لیکن ابھی اُن کی آنکھوں میں جلتے امید کے دیے بجھانے کا اُس کا بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر رضامندی دینا بھی اُس کے بس میں نہیں تھا۔ بے بسی ہی بے بسی تھی۔
’’بیٹے، یہ گھر چھوڑ دو اور میرے ساتھ آ کر اپنے گھر میں رہو ۔ کیا میری اتنی سی بات نہیں مان سکتے؟‘‘ وہ بہت مان سے کہہ رہے تھے۔
’’ڈیڈ، وہ گھر میرا نہیں ہے ۔ یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں کہ میرے وہاں ہونے سے صرف گھر کا ماحول خراب ہوگا اور کچھ نہیں۔‘‘وہ آزردہ دل کے ساتھ بولا۔
’’اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ میں صرف آپ کی وجہ سے ہی آپ کا بزنس جوائن کرنے پر مانا ہوں۔‘‘ سعید صاحب کچھ پل اُسے خاموشی سے تکتے رہے۔ پھر جب بولے تو گفتگو کا رُخ موڑ گئے۔
’’تو مجھے یہ ہی بتا دو کہ اب تک کیوں نہیں جوائن کر رہے تھے ہمیں؟ کیا مسئلہ تھا؟‘‘ وہ مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے پوچھنے لگے۔
’’میں نہیں چاہتا تھا کہ موحد بھائی کو یہ لگے کہ میں اُن کے حق پر ڈاکا ڈال رہا ہوں۔ بس اسی وجہ سے اب تک نہیں جوائن کر رہا تھا۔‘‘غنی نظریں چراتا ہوا بولا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے