مکمل ناول

ٹائم مشین: پہلا حصہ

’’ اُس بے چاری لڑکی سے دھیان ہٹا لو اور اتنے غور سے تو تم کبھی میری تقریر نہ سنو جتنا اُسے سن رہے تھے۔‘‘یہ والا میسج پڑھ کر وہ مسکرا دیا۔ اور اتنے سال بعد موحد نے اُسے اپنی وجہ سے مسکراتے دیکھا تھا ۔ وہ اُس سے زیادہ دور نہیں کھڑا تھا ۔ لمبا قد ہونے کی وجہ سے وہ غنی کو واضح دیکھ پا رہا تھا ۔ دونوں کے درمیان سرد مہری کی دیوار چاہے کتنی ہی بلند ہو مگر اِس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دونوں بھائی تھے ۔ نفرتوں کا اظہار کرنے سے رشتے نہیں بدلتے ۔ رشتے وہی رہتے ہیں پھر چاہے اُن سے کتنی ہی کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ اب غنی بھی کچھ ٹائپ کر رہا تھا ۔ اُس نے میسج بھیج دیا، جس کا جواب بھی فوراً ہی حاضر تھا۔
’’اور اگر میں آپ کی تقریر بھی غور سے سن لوں تو؟ ‘‘
وہ فون رکھنے ہی والا تھا جب دوبارہ نوٹیفکیشن شو ہوا اور اسکرین پر ایک اور ٹیکسٹ جگمگایا۔
’’غور سے سننا میں نے تم سے راستے میں پوچھنا ہے کہ میں نے کیا کیا بتایا تھا۔‘‘
وہ کُھل کر ہنس دیا ۔ اُسے پتا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہونا تھا ۔ موحد بس اُس کو یہاں الجھا رہا تھا تاکہ وہ بے زاری محسوس نہ کرے ۔ وہ جواب دے کر یوں ہی سوچنے لگا کہ اگر یہ سب اُسے بچپن سے نصیب ہوا ہوتا، تو کتنا اچھا ہوتا۔ کم از کم اُس کی زندگی ایسی تو نہ گزرتی۔ اُس کی شخصیت میں اتنے جھول نہ ہوتے۔ اُس کی ذات اتنی محرومیوں کا شکار تو نہ ہوتی۔
٭…٭
’’آہ! اف میرے خدا! ‘‘ وہ ایڑیوں کے بل اوپر ہوتے ہوئے، ایک کارٹن اٹھانے لگی تھی‘ جب وزنی ہونے کی وجہ سے وہ اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور اُسی پر الٹ پڑا ۔ وہ دھڑام کی آواز سے نیچے گری ۔ دھول مٹی سمیت کارٹن کے اندر رکھا پرانا سامان اُس کے اوپر آ گرا۔
’’چھوٹی بی بی، آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ دوسری طرف سے سامان ہٹاتی، ملازمہ پریشانی سے اُس کی طرف لپکی۔
وہ دھول مٹی سے اٹے ہوئے چہرے کے ساتھ اپنا سر تھامے گری ہوئی تھی۔
’’میں تو ٹھیک ہوں مگر تم مجھے یہ بتاؤ ذرا کہ یہ کمرہ بھوت پریت کے لیے مختص کر رکھا ہے، جو تم یہاں کی صفائی نہیں کرتی۔‘‘ وہ اپنے اوپر سے کتابیں ہٹاتی اٹھ بیٹھی اور کڑے چتونوں سے اُسے گھورتے ہوئے بولی۔
’’وہ… وہ۔ ‘‘ اِس سے پہلے ملازمہ کوئی جواب ددیتی، وہ خود ہی بول اٹھی۔
’’ہاں شاباش! گھڑ دو اب کوئی بہانہ ۔ اور مجھے تو یہ ہی سمجھ نہیں آ رہی کہ کارٹنز کو یوں کھلا کون رکھتا ہے۔‘‘ وہ آس پاس بکھرا سامان ہٹا کر ایک طرف اکٹھا کرنے لگی جب اُس کے ہاتھ ٹوٹے فریم والی ایک تصویر لگی۔
’’ارے، یہ کون ہے؟‘‘ وہ تصویر میں موجود خوبصورت لڑکی کو دیکھتے ہوئے حیرانی سے بولی۔
آج وہ بانو کے سر پر کھڑے ہو کر اسٹور روم کی صفائی کروا رہی تھی، جب اُسے یہ تصویر ملی ۔ تصویر دیکھ کر اُسے حیرانی ہوئی تھی کیوں کہ تصویر میں موجود ‘ جوان خوب صورت سی لڑکی، اُس نے اِس گھر میں اپنی شادی کے اِن دو برسوں میں آج تک نہیں دیکھی تھی ۔ یہ تصویر بھی وہ نہ دیکھ پاتی، اگر آج وہ اسٹور روم کی صفائی نہ کرواتی۔ پچھلے دو برسوں سے اُس کی شادی شدہ زندگی خوب اچھی گزر رہی تھی ۔ وہ خوش تھی، شوہر بھی اچھا تھا ۔ ایک سال کی بیٹی بھی تھی ۔ ساس کے ساتھ اُس کی خوب بنتی تھی کیوں کہ اکلوتی بہو تھی ۔ گزشتہ دو برسوں میں اُس نے زیادہ تر کاموں کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، کیوں کہ گھر میں ہر کام کے لیے ملازمہ موجود تھی ۔ وہ صرف کھانا بناتی تھی ۔ بظاہر وہ خوش تھی ۔
خوشیوں بھری زندگی گزار رہی تھی مگر اندر کہیں اُس کے قلب پر داغِ ندامت بڑھتا جا رہا تھا ۔ حقیقت معلوم ہونے کے بعد اُسے ہر روز نئے سرے سے ندامت کی چار دیواری خود میں جکڑ لیتی ۔ ماضی میں کی گئی اپنی ایک غلطی پر ہونے والا پچھتاوا ۔ یہ پچھتاوا اُس کی جان نہیں چھوڑتا تھا ۔ شروع شروع میں تو وہ اپنی والدہ کے گھر چلی جایا کرتی تھی۔ وہیں زیادہ تر وقت گزار آتی تھی۔ وقت یوں ہی گزر جاتا تھا ۔ لیکن چار مہینے پہلے ہی اُس کے بھائی کی شادی ہوئی تھی ۔ اب اُس کے بار بار واپس اپنے میکے آنے سے بھابھی کا منہ بن جاتا، یہی وجہ تھی کہ اب وہ اپنے گھر ہی رہنے لگی تھی ۔ سارا دن کوئی خاص کام کرنے کو ہوتا ہی نہیں تھا۔ اب پچھلے دِنوں ہی اُس نے نئی مصروفیت نکالی تھی تاکہ اپنا وقت گزار سکے۔ اور یہ مصروفیت خود ملازمہ کے سر پر کھڑے ہو کر بند کمروں کی صفائی کروانا تھا ۔ آج وہ اسٹور روم کی صفائی ہی کروا رہی تھی، جب اُس کے ہاتھ وہ تصویر لگی۔ اُس کے سوال پر بانو نے لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ وہی تصویر تھامے اپنی ساس کے پاس چلی گئی، جو ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھیں ۔ نظریں میڈیا وال پر لگی بڑی سی ایل۔ ای۔ ڈی اسکرین پر مرکوز تھیں۔
’’امی! یہ عورت کون ہے؟‘‘ اُس نے انہیں پکار کر ساتھ ہی سوال داغ دیا۔ وہ اُن کے پاس ہی آ بیٹھی تھی۔
ملیحہ بیگم اپنی سوچوں میں مگن بے وجہ ہی اسکرین پر چلتے ڈرامے پر نظریں ٹکائے ہوئے تھیں ۔ جب اُن کی بہو سحر اُن کے پاس پرانا فوٹو فریم تھامے آ بیٹھی ۔ تصویر دیکھ کر پہلے تو وہ گڑبڑا گئیں ۔ وہ بات گول مول کرنے لگی تھیں، جب انہیں خیال آیا کہ آخر کب تک وہ یہ سچ چھپائیں گی۔
’’اب تمہیں آخر پتا لگ ہی گیا ہے تو مزید کیا چھپانا۔‘‘
وہ تصویر دیکھتے پہلے کچھ ہچکچائیں پھر یک دم روانی سے کہہ کر سیدھی ہو بیٹھیں ۔ چہرے کے تاثرات سنجیدہ سے ہوگئے ۔ انہوں نے اُس کے ہاتھ سے تصویر لی۔ تصویر دیکھتے دیکھتے ایک بار پھر اُن کے تاثرات میں بدلاؤ آیا ۔ سحر ‘ یہ صورتحال سمجھنے سے قاصر تھی ۔ وہ شَش و پنج میں مبتلا، اُن کے چہرے کے اتار چڑھاؤ ملاحظہ کر رہی تھی ۔ خاموشی سے انہیں تکتے اُن کے بولنے کی منتظر۔
’’یہ عورت … اِس کی شکل پر مت جانا ۔ یہ ڈائن ہے ۔ ڈائن … دوسروں کے گھر اجاڑنے والی۔‘‘وہ زہر خند لہجے میں بولیں۔
ناگواری اور نفرت کی چنگاریاں وجود کے انگ انگ سے اٹھنے لگیں ۔ چہرے کے عضلات میں جیسے زہر گُھل گیا ہو ۔ سحر نے انہیں آج سے پہلے اتنے نفرت آمیز لہجے میں بات کرتے نہیں سنا تھا ۔ یا شاید سنا تھا ۔ ہاں ایک مرتبہ پہلے بھی وہ کسی سے ایسے ہی مخاطب تھیں ۔ اب سحر نے اُن کے ہاتھوں میں تھامی، اُس تصویر کو ایک بار پھر غور سے دیکھا تھا۔ چہرے کے نقوش کچھ جانے پہچانے لگ رہے تھے ۔ دِماغ نے سمجھنے کے لیے لمحوں کا توقف لیا ۔ پھر آنکھوں کے پردوں پر یک دم حیرانی عود آئی تھی ۔ پیشانی پر نمایاں ہوتی سلوٹوں سے یہ ظاہر تھا کہ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ عورت کون تھی ۔ ملیحہ بیگم ابھی تک اُس عورت کو بُرا بھلا کہہ رہی تھیں ۔ مگر آج ایک معمہ حل ہو گیا تھا ۔ اُسے سمجھ آ گئی تھی کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے سے اتنی اجنبیت کیوں برتتی تھیں ۔ وہ نفرت، وہ اجنبیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ اُن کا خون تھا ہی نہیں۔
’’اِس نے میرا گھر برباد کر دیا ۔ مجھ سے میرا شوہر چھین لیا ۔ میرے حصے کی محبت کا بٹوارہ کروا دیا ۔ میرے بچوں کی جائیداد کا بٹوارہ کروا دیا ۔ یہ منحوس ماری، اِس کی تصویر تو میں نے دور کہیں کباڑ میں پھینک رکھی تھی، تمہیں کہاں سے مل گئی؟‘‘ وہ غصے کی زیادتی یا غم کی شدت سے رونے والی ہو گئی تھیں ۔
اُس عورت کو بُرا بھلا کہنے کے بعد، انہوں نے سحر سے تصویر کے متعلق سوال کیا لیکن اُس سوال کے جواب سے پہلے ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز اُن کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔ دونوں نے آواز کی طرف نظریں اٹھائیں، تو ایک کی آنکھوں میں نفرت امڈ آئی اور دوسری کی آنکھوں میں حیرانی۔
حیران ہونے والی ’’سحر موحد‘‘ تھی۔ موحد سعید کی بیوی اور نفرت کرنے والی اُس کی ماں تھی ۔ اُس کے باپ کی بیوی۔
سامنے کا منظر کچھ یوں تھا کہ موحد کے ساتھ ہی غنی کھڑا تھا ۔ جیسے وہ اکٹھے ہی اندر آ رہے ہوں ۔ لاؤنج اتنا وسیع تھا کہ لاؤنج میں ہونے والی گفتگو راہداری تک ضرور سنائی دیتی تھی ۔ اور اُن دونوں کے تاثرات سے یہ لگتا بھی تھا کہ وہ سب سُن چکے ہیں ۔ نجانے کب سے وہ وہاں کھڑے تھے ۔ ٹوٹنے کی آواز ایک قیمتی شو پیس کی تھی جو غنی سعید کی کہنی لگنے سے زمین پر جا گِرا تھا اور اپنی نا قدری پر رو رہا تھا ۔ زمین پر بکھری شیشے کی کرچیوں سے زیادہ غنی سعید کا دل کِرچی کِرچی ہوا تھا ۔ ڈائن، گھر اجاڑنے والی، منحوس ماری، اِس جیسے کئی لفظوں کی باز گشت اُس کے دل و دماغ میں جاری تھی ۔ شاید اُس کے زخموں کو تازہ رکھنے کے لیے … یہ سب سننے کے بعد، اُس کی کمر ذرا جُھک سی گئی تھی، جیسے وجود ڈھے گیا ہو ۔ جیسے کندھوں پر بھاری بوجھ لاد دیا گیا ہو ۔ جیسے برداشت ختم ہو گئی ہو ۔ اُس نے کس کرب سے نظریں موحد سعیدکی طرف اٹھائی تھیں ۔ یہ کوئی موحد سعید سے پوچھتا کہ اُس کی آنکھوں میں کتنا درد تھا ۔ موحد کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو اور پھر اُسے کچلنے کی بار ہا کوشش کر رہا ہو ۔ آج کتنی دیر بعد وہ کچھ کرنا چاہتا تھا ۔ ایک بار پھر کوشش کرنا چاہتا تھا ۔ اِس بکھرے ہوئے گھر کو سمیٹنے کی لیکن ایک بار پھر وہ ناکام ہو گیا تھا ۔ ایک بار پھر اُس نے ایک بکھر کے سِمٹنے والے شخص کو پھر سے بکھیر دیا تھا ۔ اور کیا پتا وہ شخص کبھی سمٹا ہی نہ ہو ۔ کیا معلوم اُس کا دِل بکھرنے کے بعد کبھی سمٹ ہی نہ سکا ہو ۔ کیا پتا وہ چہرے پر جھوٹی مسکان سجاتا ہو ۔ موحد سعید ایک بار پھر ہار گیا تھا ۔ کتنی مشکل سے وہ اُسے سارے راستے راضی کرتا آیا تھا کہ آج میرے ساتھ اپنے گھر چلو ۔ وہ بار بار انکار کرتا رہا مگر موحد اپنی بات پر ڈٹا رہا لیکن یہاں لانے کے بعد ، اُسی کی وجہ سے وہ وجود پھر سے ایک بار اُسی درد میں مبتلا ہو گیا ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ پھر اُسے آج اُس گھنگھریالے بالوں والی لڑکی کے الفاظ یاد آئے ۔ یہ دنیا جادوئی کیوں نہیں تھی ۔ کتنا اچھا ہوتا جو سب کچھ ایک ہی بار میں جادو سے ٹھیک کر دیا جاتا ۔ لیکن یہ ایک حقیقت تھی ۔ حقیقت اتنی دردناک کیوں تھی ۔ اگر یہ دنیا جادوئی ہوتی ۔ ہر طرف جادو بکھرا ہوتا تو’’موحد سعید‘‘ اِس وقت سے کہیں دور بھاگ جاتا ۔ ہاں کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر اِس تکلیف دہ حال سے دور کہیں اپنے مستقبل میں چلا جاتا، جہاں ہر طرف خوشیوں کا سا سماں ہوتا۔ لیکن کیا ایسا ممکن تھا۔ یہی تو ممکن نہیں اِس دنیا میں۔ یہاں کوئی جادو نہیں۔ سب حقیقت ہے۔
عبدالغنی سعید اُسی جگہ الٹے شکستہ قدموں سے واپس پلٹ گیا تھا ۔ اپنے دِل کو سنبھالتے، اپنے کرب کو چُھپاتے، وہ پلٹ گیا تھا ۔ یہ گھر اُس کے لیے تھا ہی نہیں ۔ اِس گھر میں عبدالغنی سعید کی جگہ کبھی تھی ہی نہیں ۔ اِس مکان کے مکینوں کے دِل میں عبدالغنی سعید کی جگہ کبھی بن ہی نہیں سکتی تھی ۔ وہ تو چلا گیا لیکن موحد وہیں رہ گیا ۔ بھائیوں کو یہ جدائی آخر کب تک سہنی تھی ۔ موحد سعید کی نظروں سے وہ کرب بھری آنکھیں نہیں ہٹ رہی تھیں ۔ اُس نے ایک نظر ماں کی طرف اٹھائی ۔ وہ ہمیشہ کی طرح منہ موڑ کر بیٹھ گئیں ۔ موحد سے نہیں‘ اُس کے چہرے پر لکھی تحریر سے ، جو وہ بہت پہلے ہی پڑھ چکی تھیں ۔ لیکن شاید اُن کا دل پتھر کا تھا، تب ہی فرق نہیں پڑا ۔ اِس سب میں اگر کوئی انجان تھاتو وہ سحر تھی ۔ اِن سب میں یہ جذبے، کرب، تکلیف، محبت، یہ کیسی گتھا تھی ، یہ کیسا پزل تھا ۔ وہ حل نہیں کر پا رہی تھی یا شاید اِس پزل کے کچھ حصے ابھی ادھورے تھے ۔ شاید ابھی اُن کی تلاش سحر کو خود کرنی تھی ۔ موحد اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ اُس نے اپنی ماں سے کوئی بات نہیں کی ۔ وہ ابھی کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ملیحہ بیگم کی نظروں کے سامنے ایک عکس لہرایا تھا۔ مگر وہ سر جھٹک گئیں۔ شاید وہ پتھر دل نہیں تھیں ۔ بھلا پتھر دل کون ہوتا ہے؟ کس نے کہا کہ انسان پتھر دل بھی ہو سکتا ہے؟ ہر انسان کو اُس ایک رب نے ہی بنایا ہے، تو وہ بھلا کچھ انسانوں کے دل پتھر کیسے بنا سکتا ہے ؟ یہ تو خود انسان ہوتے ہیں جو دِلوں کو پتھر کر لیتے ہیں لیکن ہوتے تو انسان ہی ہیں نا ۔ نامکمل کام کرنے والے، ادھورے سے۔ بھلا رب کے بنائے دِل کو کیسے پتھر کر سکتے ہیں، جب اُس رب نے اِس دل کی نرمی کے لیے دِل میں کوئی ہڈی تک نہیں رکھی ۔ ہاں، انسان بیوقوف بہت ہوتے ہیں یا شاید جاہل۔
٭…٭
’’السلام علیکم بابا!‘‘ وہ گھر آتے ہی باپ کو سلام کرتے اُن کے سینے سے لگی تھی۔
دل میں چاہے کتنے ہی غم ہوں، تکلیفیں چاہے کتنی ہی بڑی ہوں،ماں باپ کے سینے سے لگ جانے سے سب جیسے ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے ۔ غم مانند پڑ جاتے ہیں، چاہے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ۔ یہ طاقت کوئی اور نہیں رکھتا ۔ یہ سکون تو رب نے صرف ماں باپ کے لمس میں محفوظ کیا ہے۔
’’وعلیکم السلام ! آخر آ ہی گئی میری بیٹی ۔ ہو گئی ڈگری کمپلیٹ،کیسا رہا آج کا دِن، خوشی ہو رہی ہے کیا کہ اب مزید پڑھائی نہیں کرنی پڑے گی؟‘‘ انہوں نے جوش میں کئی سوال ایک ساتھ ہی کر ڈالے کہ حوریہ ہنس پڑی۔
’’جی بابا آ گئی ہوں میں ۔ آزاد ہو کر، قسم سے بہت سکون مل رہا ہے ۔ اب کسی اچھی یونی میں ایڈمشن لوں گی ماسٹرز کے لیے ۔ اور آج کا دِن بھی بہترین رہا ۔ ‘‘ وہ یوں ہی ہنسی کے دوران، اُن کے سارے سوالوں کے جواب دے گئی ۔ وہ دونوں اندر لاؤنج کی طرف بڑھے۔
’’کیا مطلب، ابھی آگے بھی پڑھنا ہے؟‘‘ وہ ابرو اچکائے حیرانی سے پوچھنے لگے۔
’’جی بابا! ماسٹرز تو لازمی کرنا ہے۔ ورنہ جاب میں بہت کمپیٹیشن کا سامنا ہونا ۔ اور ویسے بھی تعلیم جتنی زیادہ ہو اتنا بہتر ہوتا ہے۔‘‘وہ سر ہلا گئے ۔ جاب کا ذکر سن کر اُن کے چہرے پر ایک رنگ گزرا تھا۔
حوریہ اُن کے ساتھ صوفے پر بیٹھی معمول کے مطابق باتیں کرنے لگی ۔ اُس کے دو بھائی ایک ٹیکسٹائل کمپنی میں اچھی پوسٹس پر جاب کر رہے تھے، اسی لیے حوریہ اب اپنے بابا کو کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھی۔ سارا دن وہ اُن کے ساتھ گپ شپ لگاتی رہتی تھی۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی حوریہ کمال تھی، جو یونی ورسٹی کے چار سالوں میں ہمیشہ تنہا رہی تھی۔ ماں کے آواز دینے پر وہ کچن کی طرف بڑھی تھی۔ اُن کی مدد کرواتے ہوئے، اُس نے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگایا۔ اب وہ تینوں، حوریہ، اُس کے والد اور والدہ، بیٹھ کر کھانا کھانے لگے تھے ۔ اِس سب میں اگر کوئی پریشان تھا، تو وہ حوریہ تھی۔ جانتی تھی کہ اب جلد ہی اُس موضوع پر بات شروع ہونے والی ہے لیکن وہ کیا کرتی وہ چاہ کر بھی، اِس گفتگو سے نہیں بھاگ سکتی تھی۔
’’تو پھر آپ نے کیا سوچا حوریہ کا؟‘‘ وہ کھانا کھانے کے بعد برتن سمیٹ رہی تھی، جب اُس کی ماں نے اُس کے باپ سے بات چھیڑی ۔ وہی موضوع جس سے وہ ہمیشہ بھاگتی آرہی تھی۔
’’حوریہ تم بھی آ کر بیٹھو ساتھ، مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ مسز کمال نے حوریہ کو بھی بیٹھنے کے لیے کہہ دیا تھا ۔ یہ بات تو طے تھی کہ آج اُس کی ماں یقیناً اُس کا کوئی نہ کوئی بندوبست کر کے چھوڑے گی۔
’’بھلا مجھے حوریہ کا کچھ سوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ بچی اب بڑی ہو گئی ہے ۔ خود سوچ سکتی ہے اپنے بارے میں۔‘‘ کمال صاحب نے اطمینان سے جواب دیا تھا ۔ جہاں اُن کے جواب سے مسز کمال کو حیرت ہوئی تھی، وہیں باپ کے اطمینان پر حوریہ کو رشک آیا تھا اور ساتھ ہنسی بھی۔
’’کمال، میں حوریہ کی شادی کی بات کر رہی ہوں ۔ آپ اِس بات پر کیسے انجان بن سکتے ہیں؟‘‘ وہ حیرت سے پوچھنے لگیں۔
’’میں انجان نہیں بن رہا بیگم صاحبہ ۔ میں جانتا ہوں کہ میرے سر پر کیا ذمہ داریاں ہیں لیکن میں نے سوچا ہے کہ میں پہلے اپنی بچی کی خواہش پوری کروں گا۔‘‘ اب کی بار کمال صاحب سنجیدگی سے بولے تھے ۔ اُن کی بات سُن کر حوریہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔
’’کیا مطلب… کون سی خواہش؟‘‘ وہ متحیر سی ایک ابرو اچکا کر پوچھنے لگیں۔
’’یہی کہ میری بیٹی چاہتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے جاب کرے گی، تو میں اُسے جاب کی اجازت دے رہا ہوں ۔ ابھی وہ پڑھنا چاہتی ہے، تو پڑھ لے ۔ جاب کرنا چاہتی ہے، تو کرلے۔‘‘ وہ حوریہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے ۔
کچھ دن پہلے ہی حوریہ نے اپنے بھائی کے خیالات سن کر اُن سے اکیلے میں اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ تب انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن آج اُن کے مثبت جواب پر، وہ بہت خوش ہوئی تھی ۔ حالاں کہ ابھی اُس کا ماسٹرز کے ساتھ ساتھ جاب کرنے کا ارادہ بالکل نہیں تھا۔ مگر پھر بھی اپنی تسلی چاہتی تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے