ٹائم مشین: پہلا حصہ
’’لیکن میں …‘‘ غنی کے احتجاج میں بلند ہوتے الفاظ موحد نے اچک لیے۔
’’ لیکن ویکن کچھ نہیں ۔ بس آخری بار بتا دو چلنا ہے یا نہیں ؟ ‘‘ بھائی کی حد درجہ سنجیدگی پر وہ کچھ تذبذب کا شکار ہوگیا ۔ خاموشی کا دورانیہ لمبا ہونے سے پہلے ہی اُس نے سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے اپنی رضامندی دے دی۔
’’اچھا ٹھیک ہے ۔ میں چل رہا ہوں ساتھ لیکن میں کوئی تقریر نہیں کروں گا ۔ میں بس آپ کو اسپیچ کرتے دیکھوں گا۔‘‘
اُس نے ہار مان لی ۔ ہاں ٹھیک ہے، موحد بھائی کون سا محبت سے ساتھ چلنے کا کہہ رہے تھے ۔ وہ بس خود کو ڈیڈ کے سامنے بُرا بننے نہیں دے سکتے تھے ۔ مگر دل نے کہا کہ وہ خود آگے بڑھ کر اُس کے پاس آیا تھا۔ یقیناً وہ اُن کے رشتے میں حائل رنجشوں اور تکلفات کو مٹانا چاہتا ہوگا۔ موحد اُس کے مان جانے پر مبہم سا مسکرایا۔ ایک پل کی یہ مسکراہٹ اپنی چھاپ دِکھلا کر غائب ہو گئی۔
وہ دونوں بھائی تھے مگر پھر بھی اُن کے رشتے میں کتنی اجنبیت حائل تھی ۔ وہ بہت سخت طبیعت تھا لیکن صرف کام کے معاملوں میں، اپنوں کے معاملوں میں تو اُس کا دل بہت نرم تھا۔ مگر ’’موحد سعید‘‘ کے لیے ’’غنی سعید‘‘کبھی اُس کا اپنا نہیں رہا تھا ۔ اُس نے کبھی اُسے اپنا سمجھا ہی نہیں۔
لیکن ایک بات اُس نے جان لی تھی کہ ضروری نہیں کہ نرم دل رکھنے والے دوسروں کا دل بھی نرم کر دیں ۔ پتھر کو ریشم کا لباس بھی پہنا دو تب بھی اُس کی سختی نہیں چھپ سکتی ۔ کبھی کبھی آپ کے سمجھانے سے بھی دوسروں کے دل نرم نہیں ہوتے ۔ جیسے اُس کی ماں کا دل نرم نہیں ہو سکا مگر وہ موحد سعید تھا ۔ کامیاب نہ بھی ٹھہرا تب بھی آخری سانس تک کوشش کرتا رہے گا ۔ وہ نفرت ہو یا محبت مکمل کرنے کا عادی تھی۔ وہ جذبات کی کسی بھی جنگ کو ادھورا نہیں چھوڑتا تھا ۔ نفرت مکمل کی تھی، تو اب محبت بھی مکمل کرے گا۔ پورا زور لگائے گا۔ پوری شدت سے کرے گا۔ پتھر نرم ہو یا نہ مگر پتھروں میں دراڑیں آ جاتی ہیں۔ پتھر ٹوٹ ضرور جاتے ہیں ۔ نجانے وہ کیسا وقت ہوگا، جب اُس کے کندھوں پر سے پتھر کی یہ بھاری سل ہٹے گی۔ اُس لمحے کھینچا جانے والا سانس کتنا ہلکا ہوگا ۔ وہ لمحہ کتنا خوش کن، کتنا پُر سکون ہوگا ۔ موحد کے جاتے ہی وہ سرد سانس ہوا کے سپرد کرتا صوفہ پر دراز ہوا ۔ دماغ میں کچھ دِن پہلے ہونے والا واقعہ گردش کرنے لگا۔
’’کمپنی کو صرف موحد کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن مجھے اپنے دونوں بیٹوں کی ضرورت ہے ۔ جب اللہ نے مجھے میرے بیٹوں کی صورت میں دو مضبوط بازو دیے ہیں، تو تم کیوں نہیں میرا احساس کر رہے؟ کیا میری بوڑھی ہڈیوں پر ترس نہیں آتا، آخر کب تک میں کام کرتا رہوں؟‘‘ وہ جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بول رہے تھے ۔
وہ یہاں غنی کو اپنا بزنس جوائن کرنے کے لیے منانے آئے تھے ۔ جب اُس نے کہا کہ اُسے نہیں لگتا کہ کمپنی کو اُس کی ضرورت ہے۔ اُن کے لیے موحد ہی کافی ہے۔ جس پر وہ سخت جذباتی ہو گئے تھے۔
’’ڈیڈ۔‘‘ غنی نے ابھی کچھ کہنا ہی چاہا کہ اُن کی تیز گھوری پر وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ گیا۔
’’اور کس نے کہا کہ اگر تم کمپنی جوائن کرو گے، تو وہ سمجھے گا کہ تم اُس کے حق پر ڈاکا ڈال رہے ہو ؟ کیا اپنے بھائی کو ایسا سمجھتے ہو؟ وہ بدل گیا ہے بیٹا! تم اُس کے ساتھ کام کرو ۔ یہ صرف میری نہیں، موحد کی بھی یہی خواہش ہے۔‘‘ وہ ابھی انجان تھے کہ وہ کیوں ایسی بات کر رہا تھا ۔ یہ دماغی فتور کسی اور نے اُس کے ذہن میں ڈالا تھا۔
’’لیکن ڈیڈ میں موحد بھائی کی وجہ سے نہیں کہہ رہا۔ میں … امم … میں بڑی ماما کی وجہ سے کہہ رہا ہوں ۔ موحد بھائی نہیں تو، وہ تو مجھے ایسا ہی سمجھیں گی ناں ۔ اور ویسے بھی میں نہیں چاہتا کہ اُن کو مجھ سے نفرت جتانے کے لیے ایک اور وجہ مل جائے ۔‘‘ وہ اِس بار نظریں چراتے ہوئے بولا۔
موحد کا اُسے پتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ بدل گیا ہے۔ لیکن اُس کے کمپنی نہ جوائن کرنے کی اصل وجہ ملیحہ بیگم تھیں، جسے وہ اُن سے بیان کر گیا تھا ۔ مگر اُس نے انہیں پوری بات نہیں بتائی تھی۔
’’لوگوں کی مرضی کے مطابق جینا چھوڑ دو غنی ۔ لوگ تو آپ سے کبھی بھی راضی نہیں ہوتے۔‘‘ اگر وہ غنی تھا تو وہ بھی اُس کے والد تھے۔
’’ایسا نہیں ہے۔‘‘ اُن کا اشارہ سمجھتے وہ سختی سے بات کی نفی کرتے ہوئے بولا۔
’’بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘ وہ بھی زور دے کر بولے۔
’’آہ! ڈیڈ… اچھا، آپ جیت گئے ہیں ۔ میں جوائن کروں گا، لیکن پلیز اب اِس بحث کو چھوڑ دیں۔‘‘ وہ ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے اپنی ہار کا اقرار کرنے والے انداز میں بولا۔
سعید صاحب ہنس پڑے ۔ غنی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہر بار وہ اُن کے آگے ہار کیسے جاتا تھا ۔ موحد ہو یا اُس کے والد، وہ اُس سے اپنی بات منوا ہی لیا کرتے تھے۔ اور تھوڑے بہت تردد کے بعد، وہ بھی مان ہی جایا کرتا تھا۔ شاید وہ اُن سے بہت محبت کرتا تھا اسی لیے ہمیشہ ہار مان لیتا تھا ۔ شاید محبت انسان کو بے بس کر دیتی ہے۔ حال میں واپس لوٹتے ہی وہ اٹھ کر ناشتہ بنانے کے لیے کچھ میں بڑھ گیا۔ زندگی نے نجانے ابھی کتنے موڑ مڑنے تھے اور اُسے جھٹکے دینے تھے۔
غنی پچھلے ساڑھے تین سال سے اپنے باپ کا بزنس چھوڑ کر کسی دوسری کمپنی میں کام کر رہا تھا ۔ اُس نے موحد کے ساتھ کام کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ موحد کی جگہ لے ۔ گریجویشن کے بعد تین سال اُس نے جاب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ایم۔ بی۔ اے مکمل کیا ۔ گو کہ ایم۔ بی۔ اے دو سال کے عرصے میں مکمل ہو جاتا ہے، لیکن اُس کی فُل ٹائم انرولمنٹ نہیں تھی ۔ پارٹ ٹائم شیڈول کے ساتھ یوں اُس نے اپنی پڑھائی بھی کر لی اور کام بھی کرتا رہا ۔ یہ کچھ دِن پہلے کی بات ہے جب اُس کا باپ اُسے اپنی قسمیں دے کر منا کر گیا تھا کہ وہ اپنی کمپنی جوائن کر لے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ غنی اپنے باپ کا بزنس ہونے کے باوجود در در کے دھکے کھائے ۔ پچھلے تین برسوں سے وہ نجانے اُسے کیا کیا کہہ کر مناتے رہے تھے، لیکن وہ نہیں مانا تھا ۔ مگر اب کی بار شاید وہ اُن کے عاجز و شکستہ لہجے کے آگے ہار گیا تھا ۔ وہ اُس کے سارے خدشے دور کر کے گئے تھے کہ موحد کی جگہ موحد کی ہی رہے گی ۔ تمہارا اپنا آفس ہوگا ۔ تمہارے نام الگ سے شیئرز ہیں ۔ تم ایک الگ پارٹنر کی طرح ہوگے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اُسے ایک بات سے انجان رکھا تھا اور وہ یہ تھی کہ اُن کے نام کے آدھے شئیرز بھی وہ غنی کے نام پر ٹرانسفر کر چکے تھے۔
آج آفس میں غنی کا پہلا دِن تھا مگر چونکہ انہیں اِس تقریب میں جانا تھا، تو ممکن تھا کہ آج بھی وہ آفس نہ جا سکے ۔ موحد صبح سویرے ہی غنی کے گھر تشریف لا چکا تھا ۔ آسمان پر شفق کی لالی نے بھی ابھی زور نہ پکڑا تھا ۔ اُسے عِلم تھا کہ غنی کو راضی کرنے میں وقت لگے گا، اسی وجہ سے سویرے ہی عام سے حلیے میں ہی گھر سے نکل گیا ۔ اب اُس کے راضی ہو جانے کے بعد‘ وہ مسکرا کر ہلکے قدم اٹھاتا غنی کے گھر سے باہر نکلا تھا ۔ غنی کا گھر، وہ مکان جس کا وہ اٹھارہ سال کی عمر سے مکین تھا ۔ ہاں وہ اکیلا رہتا تھا ۔ اپنے والدین، بہن بھائیوں سے دور، اپنے ذاتی گھر میں ۔ اِس کے پیچھے جو وجہ تھی، اُس سے انجان وہ بھی نہیں تھا۔
٭…٭
یونیورسٹی میں ’’ آڈیٹوریم ہال‘‘ کا منظر
اُس کو تقریر کرتے بارہ منٹ ہو چکے تھے ۔ فیکلٹی والوں نے سختی سے کہا تھا کہ تقریر بیس منٹ سے زیادہ لمبی نہیں ہونی چاہیے، تاکہ دوسروں کو بھی موقع ملے ۔ تو اب اُسے اپنی بات، اپنا موقف باقی بچے مختصر سے وقت میں بیان کرنا تھا ۔ تقریر کا رُخ وقت و حالات سے مُڑ کر اب تصوراتی دنیا تک پہنچ گیا تھا۔
’’تصوارتی دنیا انسان کو متحیر کرتی ہے ۔ اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ہمیں وہ دکھایا جانے والا سراب خود میں جکڑ لیتا ہے ۔ کچھ اِس طرح سے کہ پھر ہم حقیقی دنیا سے بھاگنے لگتے ہیں ۔ ہم جینے کے لیے کوئی فینٹسی تلاش کرتے ہیں ۔ اور جنہیں وہ مل جائے، تو پھر وہ اسی سراب میں جینے لگتے ہیں۔‘‘ حال میں لوگوں کا ہجوم اُسی کی طرف متوجہ تھا۔ سوائے چند ایک کے جنہیں خود کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔
’’اگر میں اپنی بات کروں تو میری فینٹسی ’’ٹائم مشین‘‘ ہے ۔ یہ دنیا جادوئی ہوتی اور اِس جادوئی دنیا میں کوئی ٹائم مشین ہوتی، تو میں ضرور اُس ٹائم مشین کا استعمال کر کے اُس وقت میں چلی جاتی، جب میرے اردگرد ہر طرف خوشیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ لیکن یہی تو بات ہے ۔ یہ دنیا جادوئی نہیں، یہاں کوئی ٹائم مشین نہیں ۔‘‘
وہ دونوں ہال میں داخل ہوئے تو اُن کا استقبال ایک سحر بکھیرتی آواز نے کیا ۔ غنی کی نظر یک دم خوبصورتی سے سجے روسٹرم پر کھڑے تقریر کرتے وجود پر اٹھی۔ وہ بلیو جینز پر وائٹ چکن کی خوبصورت قمیض پہنے ہوئے تھی، جو اُس کے گھٹنوں سے نیچے تک آ رہی تھی ۔ سینے پر گہرے نیلے رنگ کا دوپٹہ پھیلا رکھا تھا جس پر سفید دھاگے کی ابھری ہوئی کڑھائی کی ہوئی تھی، جو قمیض پر بنے ڈیزائن سے میچ کر رہی تھی۔
وہ اتنے سارے ہجوم کے سامنے بہت پُر اعتماد لہجے میں اپنی بات کہہ رہی تھی، جیسے کوئی تجربہ کار ہو ۔ گنگھریالے بھورے بال کیچر میں مقید دکھائی دے رہے تھے ۔ اُسے نجانے کیوں وہ لڑکی پہلی نظر میں ہی دلچسپ لگی تھی اور پُر اعتماد بھی۔ ایک ایسی خوبی جو اُس میں سِرے سے ہی ناپید تھی۔
’’ہماری زندگیاں ’’فارورڈ موڈ‘‘ پر سیٹ ہیں ۔ خوشیوں میں زندگی گزار رہے ہوں یا غموں میں بس یہ زندگی گزرتی رہتی ہے ۔ آگے بڑھتی رہتی ہے جب تک کہ موت نہ آ جائے۔ زندگی کا کوئی ’’ریوائنڈ موڈ‘‘ نہیں ہوتا ۔ یہاں گزارے اِن چار سے پانچ برسوں میں بہت سے لوگوں نے دوستیاں کی ہوں گی ۔ بہت سوں نے وعدے لیے ہوں گے، ہمیشہ ساتھ رہنے کے ۔ ہمیشہ دوستی نبھانے کے۔ لیکن یہ وعدے… یہ گزرا ہوا وقت… یہ ساتھ گزارے پل… سب ماضی بن جاتا ہے ۔ ہم نے یہاں سے قدم باہر نکالنے ہیں اور اپنی اپنی راہ پر چل پڑنا ہے ۔ ‘‘وہ ایک لمحے کے لیے رُکی تھی۔
ہال میں نئے آنے والوں پر ایک پل کے لیے نظر اٹھی تھی اور دوبارہ واپس انہی طلبہ پر جا ٹھہری تھی ۔ ڈائس پر کھول کر رکھے کاغذ پر اُس سے نے بھولے سے بھی نگاہ نہیں دوڑائی تھی۔ بائیں کلائی پر بندھی گھڑی پر ایک نگاہ دوڑاتے، پھر سے اُس کی آواز گونجنے لگی۔
’’میں یہ نہیں کہتی کہ وعدے مت کریں، دوستیاں مت رکھیں ۔ لیکن یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ زندگی میں آپ نے صرف دوستیاں ہی نہیں کرنی کیوں کہ دوست بھی ہمیشہ ساتھ نہیں رہتے ۔ کچھ ہوتے ہیں جو آخری دم تک وفا نبھاتے ہیں ۔ ہر وقت ساتھ دیتے ہیں مگر وہ بہت کم ہوتے ہیں ۔ ہمیں اِس بڑھتے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو نکھارنا ہے ۔ ہمیں خود کو بس دوستیوں میں نہیں الجھائے رکھنا ۔ ہم نے اپنے لیے گولز سیٹ کرنے ہیں اور پھر اُن مقاصد کو پانے کے لیے جدوجہد کرنی ہے ۔ بس یہی تو زندگی ہے ۔ جن کا ساتھ آپ کے نصیب میں ہوگا، وہ آخری دم تک آپ کا ساتھ نبھائیں گے ۔ آخر ہر وعدہ توڑنے کے لیے تو نہیں کیا جاتا ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا کہ ہر کوئی ساتھ نبھانے والا نہیں ہوتا ۔ ‘‘
اُس کے چہرے پر ایک مسکان ابھری تھی ۔ کیوں کہ یہ بات واضح نظر آ رہی تھی کہ طالبات اُس کی تقریر سے متاثر ہو رہے تھے ۔ ورنہ عموماً تقاریب پر کی جانے والی تقاریر طلبہ اتنے محو ہو کر نہیں سنتے ۔ بلکہ اَسّی فیصد طلبا آپس میں ہی گپیں لڑاتے رہتے ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔
’’ایک آخری بات، کبھی بھی خود کو ماضی میں مت الجھائیں کیوں کہ جو ہو چکا وہ آپ بدل نہیں سکتے۔ گزرے زمانے تک اللہ کے سوا کسی کو رسائی نہیں ۔ آپ کا ماضی اچھا ہو یا بُرا جیسا بھی ہو وہ بیت گیا ہے ۔ اب آپ حال میں جی رہے ہیں ۔ اپنے بیتے وقت کے دُکھوں میں اپنے حال کو نظر انداز مت کریں ۔ اگر ماضی بُرا تھا تو کوئی بات نہیں ۔ حال کو بہتر کر لیں۔ حال میں اچھی یادیں بنا لیں اور اگر حال بُرا لگتا ہے اور ماضی اچھا تھا تو پھر بھی کوئی بات نہیں ۔ آپ حال کی مشکلوں سے مقابلہ کریں اور ماضی کی اچھی یادوں کے ساتھ زندگی گزار لیں ۔ بس یہ یاد رکھیں، ہمیں خود کو اپنے ماضی میں نہیں الجھانا ۔ جیسے وقت کبھی نہیں رُکتا ویسے ہی ہماری زندگی کسی ’’اسٹاپ موڈ‘‘پر نہیں آتی ۔ ہم بس اپنے حال کو نظرانداز کیے خود کو ماضی میں الجھائے رکھتے ہیں اور ہمارا اچھا مستقبل ہمارا منتظر ہی رہ جاتا ہے۔‘‘
لوگوں کو ماضی میں نہ الجھنے کا کہنے والی شاید خود دور کہیں اپنے ماضی میں ہی الجھی ہوئی تھی ۔ اسٹیج کے اردگرد کھڑے پروفیسرز اور تمام ٹیچرز بھی ’’حوریہ کمال‘‘ کے الفاظ کے چناؤ پر حیران تھے ۔ حیرانی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ اسٹوڈنٹس کب سے اتنی گہری باتیں کرنے لگے تھے ۔ ڈگری لینے کے بعد بھی کئی طلبہ اپنی زندگی کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہی دکھائی دیتے تھے ۔ اور دوسری وجہ یہ کہ حوریہ بہت کم گو تھی ۔ کسی سے بھی گُھلتی ملتی نہیں تھی ۔ دوست نہیں بناتی تھی ۔ کافی سنجیدہ مزاج کی تھی ۔ جب اُس نے تقریر میں حصہ لینے کا کہا تھا، تب ہی بہت سے ٹیچرز حیران ہوئے تھے ۔ اُس نے پریکٹس میں جو تقریر سنائی تھی، وہ تو کوئی کاغذ پر لکھی تحریر تھی اور اِس سے بالکل مختلف تھی ۔ لیکن آج جو وہ تقریر کر رہی تھی، وہ بغیر کسی کاغذ سے پڑھے کر رہی تھی ۔ اُن لفظوں سے بالکل مختلف جو انہوں نے سُن رکھے تھے ۔ لیکن جو بھی تھا، اُس کی اسپیچ انہیں بہت پسند آئی تھی ۔ تقریر کا اختتام ہوتے ہی ہال میں تالیوں کا شور گونج اٹھا ۔ یہ تھی الفاظ کی طاقت‘ وہ الفاظ جو شاید ہال میں موجود سب لوگوں کے لیے اتنے نہیں تھے، جتنے اُس کے خود کے لیے تھے ۔ وہ اپنے ہی لفظوں سے خود کو نصیحت کر رہی تھی ۔ خود کو باز رکھ رہی تھی کہ اب اُسے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھنا ۔ خود کو ماضی میں نہیں الجھانا۔
حوریہ کمال کے کلاس فیلوز اُس کو بلند آواز میں داد دے رہے تھے ۔ وہ مسکرا کر روسٹرم سے اتر چکی تھی ۔ اسٹیج پر اُن کے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ آ کر حوریہ کی تعریف کر رہے تھے ۔ وہ داد وصولتی بس سر ہلا رہی تھی ۔ کیوں کہ اپنے حال کو جیتے ہوئے بھی دور کہیں وہ اپنے ماضی میں الجھی ہوئی تھی ۔ اُس کے گنگھریالے بال لٹوں کی صورت میں آ کر چہرے پر گِرتے، جنہیں وہ بار بار کان کے پیچھے کرتی ۔
غنی سعید اِس پورے ہجوم میں بس اُس ایک وجود پر ہی نظریں ٹکائے ہوئے تھا ۔ یہ ہجوم ، یہ فنکشن اُسے ہرگز بھی بورنگ نہیں لگ رہا تھا ۔ موحد تو تقریر کے دوران ہی پروفیسرز سے ملنے جا چکا تھا ۔ وہ ایک طرف کھڑا تھا اور بس اُسے ڈھیٹ بن کر دیکھ رہا تھا، جو اب اِس ہال سے کہیں اور جا رہی تھی ۔ نجانے کہاں … لیکن وہ وہیں کھڑا رہا ۔ اب اُس نے نظر اسٹیج کی طرف اٹھائی تھی ۔ وہاں اب اُس گھنگھریالے بالوں والی لڑکی کی جگہ کوئی اور کھڑا تھا ۔ ہوسٹ آ کر پچھلی تقریر پر تعریفوں کے پل باندھ کر، اب اگلی تقریر کرنے والے کا ذکر کرنے لگی تھی ۔عبدالغنی سعید کی سوچوں کے جال میں بس ایک ہی وجود قید تھا ۔ ایک اجنبی وجود جسے وہ جانتا تک نہ تھا ۔ وہ کتنی پُر اعتماد تھی ۔ کاش، وہ بھی ایسا ہوتا ۔ اُسے اتنے رنگ برنگے لوگوں سے بھرے مجمع کے سامنے بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی ۔ سب سے بڑھ کر اُس کے الفاظ… ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صرف تقریر نہیں کر رہی تھی بلکہ اپنے تجربے سے سیکھے اسباق بانٹ رہی تھی ۔ اُن لفظوں میں کہیں کوئی لغزش نہ تھی ۔ کاش، وہ بھی ایسا ہی ہوتا ۔ لیکن ابھی اُسے یہ سب پسِ پشت ڈالنا پڑا کیوں کہ پینٹ کی جیب میں موجود اُس کا فون بار بار وائبریٹ ہو رہا تھا ۔ یہاں آنے سے قبل اُس نے فون کو وائبریشن پر لگا دیا تھا ۔ اُس نے فون نکال کر دیکھا تو موحد کی مسڈ کالز تھیں اور سامنے ہی اسکرین پر ٹیکسٹ جگمگا رہا تھا۔
پہلا میسج کچھ یوں تھا۔
’’اب تو گھٹن نہیں ہو رہی نا۔ ‘‘ میسج کے ساتھ ایک آنکھ مارنے والا ایموجی بھی تھا۔
پھر دوسرا کچھ ایسے تھا۔
’’ویسے اتنی دور سے بھی تمہیں دیکھ کر لگ تو نہیں رہا کہ کہیں کوئی مسئلہ ہے ۔ بلکہ تم تو میری سوچ سے بڑھ کر دلچسپی دِکھا رہے ہو۔ ‘‘
تیسرے پر نظر پڑی تو اُس میں اُسی لڑکی کا ذکر تھا۔