ٹائم مشین: پہلا حصہ
نیلگوں آسمان سیاہ رنگ کا لباس اوڑھ چکا تھا ۔ طیور اپنے گھروں کو کب کے لوٹ چکے تھے ۔ شہر کے اِس گوشے میں اِس وقت اکثر ویرانی کا پڑاؤ رہتا تھا ۔ لوگ کاموں پر جاتے تھے اور وقتِ مغرب تک لوٹ آتے تھے ۔ اب بھی یہ گوشہ کنج عافیت بنا ہوا تھا ۔ کمرے کی کھلی کھڑکی سے مدھم روشنی باہر کود رہی تھی ۔ اندر کا منظر صاف روشنی نہ ہونے کے باوجود انسانی آنکھ کے لیے واضح تھا۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ اپنی سوچوں میں گم تھیں جب دھپ کی آواز سے وہ اُن کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا ۔ وہ ابھی ابھی اپنے باپ کے ساتھ واپس آیا تھا۔
’’بابا چلے گئے تمہارے؟‘‘ وہ خوبصورت مسکراہٹ کے سنگ پوچھنے لگیں۔ چہرے پر ازلی نرمی تھی۔
’’ہمم… چلے گئے۔‘‘
وہ غور سے زیرو بلب کی مدھم پیلی روشنی میں اپنی ماں کا چہرہ دیکھتا رہا ۔ کچھ پل خاموشی کے یوں ہی سِرک گئے۔ آنکھوں میں کوئی جھوٹی چمک نہیں تھی ۔ چہرے پر کوئی تلخ تاثر نہیں تھا ۔ مسکان میں کوئی فریب نہیں تھا ۔ مگر پھر بھی یہ چہرہ دیکھ کر اُس کے دِل میں درد اٹھ رہا تھا ۔ یہ چہرہ اُسے بے رنگ کیوں لگتا تھا ۔ مگر یہ بے رنگ چہرہ نہیں تھا ۔ یہ پُر رونق چہرہ تھا ۔ جیسا صبر کرنے والوں کا ہوتا ہے، نرم تاثرات والا، انوکھی چمک لیے ہوئے۔
’’مما، آپ شکایت کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ بے اختیار اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا، جس کی اُس نے لفظوں میں ترجمانی کردی۔ وہ ہنس دیں۔ کھلکھلاتی ہنسی، بغیر کسی کھوکھلے پن کے۔
’’کیوں کہ مجھے صبر کرنا آتا ہے۔‘‘ وہ عورت اُس کے بال سہلانے لگیں۔
’’اور صبر کیسے آتا ہے؟‘‘ اُس نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’بس اللہ دے دیتا ہے۔‘‘ وہ سادگی سے بولیں۔
’’کن لوگوں کو دیتا ہے؟‘‘ سوال برجستہ حاضر تھا۔
’’اپنے پیارے بندوں کو۔‘‘ وہ بغیر توقف کے بولیں۔
’’تو میں پیارا نہیں ہوں کیا؟‘‘ حسبِ عادت وہ بات خود پر لے گیا ۔ وہ بے ساختگی کے عالم میں اُسے چند پل نرم نگاہوں سے دیکھتی رہیں ۔ بہت صبر کرنے والا تھا اُن کا بیٹا، اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ اتنا سمجھ دار ہو گیا تھا۔ ہر بات چپ کر کے سہہ جاتا تھا۔
’’اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں سے محبت کرتے ہیں ۔ مگر وہ بندے اللہ کو بے حد پیارے ہو جاتے ہیں، جو چوٹ لگنے پر شکایت نہیں کرتے ۔ بلکہ درد سہہ کر انتظار کرتے ہیں، کب انہیں آرام آئے گا ۔ کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے کہ وہ اُن کی تکلیف دور کر دے گا۔‘‘ وہ اُسے آسان الفاظ میں سمجھانے لگیں۔
’’مجھے بھی آپ کے جیسا بننا ہے ۔ میں آپ کے جیسا کیوں نہیں ہوں مما ؟ مجھے رونا کیوں آتا ہے ؟ مجھے اتنی تکلیف کیوں ہوتی ہے؟‘‘ وہ اپنے بالوں میں چلتا، اُن کا ہاتھ تھام کر شدت سے بولا ۔
ذہن کے پردے پر کچھ دِن پہلے ہونے والا تازہ واقعہ رونما ہوا ۔ وہ تلخ الفاظ، وہ اپنوں سے دور کرنے کی کوشش، بھائی کی طرف سے دیا جانے والا دھکا ۔ اور پھر اُس کا پھوٹ پھوٹ کر سب کے سامنے رونا ۔ آخر وہ کوئی اتنا بھی بڑا نہیں تھا ۔ بس بارہ سال کا ہی تو تھا۔
’’بیٹے آپ سے کس نے کہا کہ صبر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کو تکلیف نہ ہو، وہ آنسو نہ بہائے؟‘‘
’’مگر بابا نے تو کہا کہ انسان کو صبر کرنا چاہیے اور یوں سب کے سامنے رو کر اپنی کمزوری نہیں بتانی چاہیے۔‘‘ وہ اپنے باپ کی بات دہراتے ہوئے بولا۔
’’ہمم، ٹھیک کہا اُنہوں نے لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ صبر کیا ہوتا ہے؟‘‘وہ دلچسپی سے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے بولیں ۔ فضا میں چھائی اداسی کا اثر زائل ہوگیا۔ کوئی نئی بات جاننے کا تجسس اُس پر بھاری ہوگیا۔ وہ سر ’’ہاں‘‘میں ہلا گیا۔
’’صبر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اتنی تکلیف ہو کہ اُس کا دِل پھٹنے کے قریب ہو جائے ۔ وہ روئے اور پھوٹ پھوٹ کر بھی روئے تو صرف ایک ہی جگہ پر، ایک ہی ذات کے سامنے ۔ صبر کا مطلب ہوتا ہے اپنے آنسوؤں کا مقام بدل لینا۔‘‘ اُن کی بات پر اُس کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے۔
’’کیا مطلب مما؟ میں سمجھا نہیں۔‘‘اُس نے ناسمجھی کا اظہار کیا تو وہ پھر سے گویا ہوئیں۔
’’اِس کا مطلب یہ کہ بیٹا آپ کو جتنی بھی تکلیف ہو ، جتنے بھی دکھ ملیں ۔ چاہے دنیا بھر کے غم آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں مگر آپ روئیں تو صرف اپنے رب کے سامنے ۔ آپ کے آنسوؤں کا مقام کوئی ہو تو صرف اللہ کی بارگاہ ۔ آپ اِسے جائے نماز سمجھ لو۔ اوکے؟‘‘وہ کہہ کر اُس کا چہرہ دیکھنے لگیں، جو اب سمجھنے والے انداز میں سر ہلا رہا تھا۔
’’اچھا سہی ہے۔‘‘ وہ جیسے اب کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا ۔
اُس کا دھیان ہٹ گیا تو انہیں وہ بات یاد آئی، جو وہ اُس کے آنے سے پہلے سوچ رہی تھیں ۔ خاموشی کا کمرے میں ایک بار پھر سے راج شروع ہو چکا تھا ۔ مناسب موقع دیکھ کر انہوں نے اِس موضوع کے متعلق بھی بات کرنے کی ٹھانی اور اُس کے پُر سوچ چہرے پر نظریں ٹکائے بول اٹھیں۔
’’آپ اپنے بھائی کو معاف کر دو، بیٹا۔‘‘ اُن کی بات پر اُس کی بھنویں اکٹھی ہوئیں۔ جیسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’نہیں۔ ہرگز نہیں ۔ اُنہوں نے مجھے بابا سے دور کرنے کی کوشش کی‘ میں انہیں معاف نہیں کروں گا ۔وہ مجھے ہمیشہ ڈانٹتے رہتے ہیں ۔ ‘‘وہ خفگی کے تاثرات چہرے پر سجائے، اُن کی گود سے سر اٹھا کر پاس رکھے تکیے پر ڈال گیا۔
’’تو کیا ہوا بچے، آپ کے بابا آپ سے دور تو نہیں ہوئے نا۔‘‘ وہ پھر بھی اُس کے سیاہ بالوں میں ہاتھ چلانے لگیں۔
’’وہ تو اِس لیے کیونکہ بابا مجھ سے پیار کرتے ہیں۔‘‘وہ ہنوز اُسی انداز میں بولا۔
’’تو وہ آپ کا بھائی ہے ۔ آپ کے بابا اُس سے بھی پیار کرتے ہیں۔‘‘ وہ ٹیک چھوڑ کر اُس کے ساتھ ہی لیٹ گئیں۔
’’مگر…‘‘ انہوں نے اُس کے الفاظ اچک لیے۔
’’اگر مگر کچھ نہیں ۔ اگر آپ معاف کرنا نہیں سیکھو گے تو آپ کے پاس صبر کیسے آئے گا؟‘‘ وہ اُس کی طرف رُخ موڑے آہستگی سے بات کر رہی تھیں۔
’’مگر مما وہ آپ سے نفرت کرتا ہے ۔ وہ مجھے بھی لائک نہیں کرتا۔‘‘
اور اب کی بار خاموش ہونے کی باری اُن کی تھی ۔ وہ کیا جواب دیتیں اِس کا۔ یہ تو ایک سچ تھا، جس کے جواب میں وہ کسی جھوٹے دلائل سے بھی قائل ہونے والا نہیں تھا ۔ وہ چپ ہی رہیں، تو وہ خود ہی بول پڑا۔ اور جو بات اُس نے کہی، وہ اِس موضوع کے متعلق بالکل نہیں تھی ۔ وہ تو ابھی تک صبر پر ہی اٹکا ہوا تھا۔ وہ اُسی گفتگو کو سوچتے ہوئے اپنی طرف سے نتیجہ نکال رہا تھا۔
’’مما، جو آپ نے صبر کے بارے میں بتایا، اُس کا مطلب تو یہ ہوا ناں کہ آپ کو بھی بہت درد ہوتا ہے اور آپ روتی بھی ہیں ۔ اس کا مطلب آپ چھپ چھپ کر روتی ہیں… ہیں نا؟‘‘ اور جو نتیجہ اُس نے نکالا تھا وہ انہیں ششدر کر گیا ۔ وہ مسکراتی رہتی تھیں اُس کے سامنے، تاکہ وہ اپنی ماں کے آنسو کبھی نہ دیکھے ۔ اُسے یہ لگے کہ اُس کی ماں بہت مضبوط ہے ۔ آنسو نہیں بہاتی مگر وہ اُسی سے یہ پوچھ رہا تھا کہ وہ روتی ہے نا۔ وہ چھپ چھپ کر روتی ہے نا…
٭…٭
’’زندگی کا سامنا اچھے اور بُرے دونوں وقتوں سے ہوتا ہے ۔ مگر یہ وقت جیسا بھی ہو بیت جاتا ہے ۔ یہ گزرتا وقت چاہے اچھا ہو یا برا مگر یہ ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ حالات موڑ دیتا ہے ۔ لوگوں کے چھپے چہرے آشکار کر دیتا ہے ۔ فریب بے نقاب کر دیتا ہے اور سب سے اہم تو یہ کہ یہ ہمیں تاحیات کے لیے بہت کچھ سکھا جاتا ہے۔‘‘
مائیک سے ابھرتی آواز پورے ہال میں گونج رہی تھی ۔ روسٹرم پر کھڑی لڑکی کے چہرے پر اِس وقت کہیں کوئی گھبراہٹ نہ تھی ، کوئی ہچکچاہٹ نہ تھی ۔ آواز میں کوئی لڑکھراہٹ نہ تھی۔ چال میں کوئی ڈگمگاہٹ نہ تھی ۔ اتنے بڑے ہجوم کے سامنے کھڑے بھی دِل میں کوئی لرزش نہ تھی۔
’’وقت کی سب سے اچھی بات یہی تو ہے کہ یہ جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے اور سب سے بُری بات … سب سے بُری بات یہ ہے کہ وقت رُکتا نہیں ۔ کسی کے لیے بھی نہیں ۔ اگر ہم وقت روکنے کی طاقت رکھتے، تو اپنے خوشیوں بھرے لمحات میں وقت روک لیتے ۔ ‘‘ وہ پھر سے گویا ہوئی تو ذہن پیچھے لوٹ گیا ۔ اُلٹا دوڑنے لگا ۔ یہاں تک کہ اُس کے خوشیوں بھرے لمحات میں پہنچ گیا ۔ مگر وہ اِس وقت تقریر کر رہی تھی ۔ یہ وقت نہیں تھا پیچھے لوٹنے کا۔ اسی لیے لمحوں میں ذہن دوبارہ سفر کر کے حال میں پہنچ گیا۔ ماضی کو پیچھے چھوڑ آیا۔ اور ماضی پیچھے ہی رہ جائے تو بہتر ہوتا ہے۔
آنکھوں کے سامنے لوگوں کا ہجوم تھا اور دماغ میں کچھ بیتے لمحات، خوشیوں بھرے لمحات، کچھ لوگ جو کبھی اُس کی خوشیوں کی وجہ ہوا کرتے تھے اور پھر وہ وجہ ایک دِن ختم ہوگئی ۔ اُن لوگوں تک اُس کی رسائی ممکن نہ رہی تو کیا اب وہ خوش نہیں رہتی تھی؟
’’کچھ لوگ آپ کی زندگی سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں، جیسے وہ کبھی وجود ہی نہ رکھتے ہوں۔ جیسے اُن کا آپ کی زندگی میں آنا محض ایک خواب سے زیادہ کی حیثیت نہ رکھتا ہو۔‘‘
’’آئی کانٹ بلیو! یہ اتنی اچھی اسپیچ بھی دے سکتی ہے مگر کلاس میں تو یہ موڈی سی رہتی تھی۔‘‘ یہ اُس کا ایک کلاس فیلو تھا ۔
تمام کلاس فیلوز قریب قریب ہی کھڑے آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے ۔ تقریر کرتی لڑکی وہ تھی، جو پورے بَیچ میں سب سے بیزار رہی تھی ۔ اپنی ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائے سب سے الگ تھلگ رہتی تھی۔ دوستیوں سے خار کھاتی تھی۔ زیادہ لوگوں سے کلاس میں مخاطب بھی نہیں ہوتی تھی۔ بس کام کی حد تک بات کر لی۔ اور آج جب وہ یوں سب سے مخاطب ہوئی تھی تو کلاس سخت حیران تھی۔
’’مگر اُس کی اسپیچ ڈیپ ہے۔‘‘ ایک لڑکا سخت متاثر کن لہجے میں بولا۔
’’یہ کتنا اچھا بولتی ہے۔‘‘ ایک اور تبصرہ حاضر تھا۔
’’ارے یہ تو وہی تنہائی پسند آدم بیزار لڑکی ہے ناں، اِس نے آج اسپیچ بھی دینی تھی۔‘‘ ہجوم میں سرگوشیاں جوں کی توں جاری تھیں اور اُس کی تقریر بھی۔ بغیر رُکے، بغیر ہچکچائے آج وہ بول رہی تھی ۔ وہ بھی سب کے سامنے، جماعت کی سب سے رُوڈ، موڈی اور آدم بیزار لڑکی ۔
یونیورسٹی کے اِن چار سالوں میں پہلی مرتبہ وہ لوگ اُسے اتنا بولتے دیکھ رہے تھے اور وہ بھی اُس دن جس دن کے بعد سب نے اپنی اپنی راہوں پر چل نکلنا تھا ۔ الوداعی تقریب کے بعد اُن کا زیرو سمسٹر لگ گیا۔ جو کہ اچانک ہی یونی ورسٹی والوں نے شروع کر دیا ۔ زیرو سمسٹر میں کچھ عملی زندگی میں کیسے انہوں نے اپنے پیشے کو لے کر چلنا ہے اور اسی کے متعلقہ شعبوں کے بارے میں لیکچرز ہوتے رہے ۔ چونکہ یہ سمسٹر صرف سیکھانے کے لیے تھا، اسی لیے ایک ماہ کے مختصر عرصے میں ہی تمام ہوا اور پھر اُن کے لیے اَینول فنکشن منعقد کر دیا گیا ۔ اور آج وہی سالانہ تقریب تھی ۔ جس میں طلبا و طالبات کے لیے، اُن کے پیشے میں کامیاب اور مہارت رکھنے والے سابقہ طلبا کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ اِس یونی ورسٹی میں ہر بَیچ کے اختتام پر اسٹوڈنٹس کے لیے الوداعی تقریب کے بعد ایک اینول فنکشن منعقد کرایا جاتا تھا جس میں اُسی مخصوص شعبے کے سابقہ کامیاب گریجویٹس کو بھی مدعو کیا جاتا تھا تاکہ فریش گریجویٹس اُن سے موٹیویٹ ہوں اور اُسی بَیچ کے کچھ طلبا کو مختلف موضوعات پر تقاریر کرنے کے لیے بھی منتخب کیا جاتا تھا ۔ یہ تقریر بھی اِس ہی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
٭…٭
’’مجھے نہیں جانا موحد بھائی، آپ چلے جائیں۔‘‘ وہ جھنجھلاہٹ سے پُر لہجے میں بول رہا تھا۔ طبیعت میں زمانے بھر کی بیزاری تھی۔
آج وہ لوگ اپنی سابقہ یونی ورسٹی کے اَینول فنکشن میں مدعو تھے ۔ اُنہوں نے جس یونیورسٹی سے پڑھا تھا وہاں کے پروفیسرز نے اُن سابقہ اسٹوڈنٹس کو دعوت دی تھی جو اب کامیاب عہدوں پر تھے ۔ تاکہ دوسرے طلبہ اُن سے متاثر ہو کر اپنے مستقبل کے لیے بھی سنجیدہ ہوں۔
’’مجھے بھی تمہیں ساتھ لے کر جانے کا کوئی شوق نہیں ہے ۔ وہ تو بس ڈیڈ نے فورس کیا کہ تمہیں ساتھ لے کر ہی جاؤں تو اسی لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘
موحد کے انداز میں ذرہ برابر بھی نرمی نہ تھی یا شاید تھی بھی تو چھپانے کی کوشش پورے جوبن پر تھی ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اُسے اپنے ساتھ چلنے کا کہہ کر کوئی احسان کر رہا ہو ۔ مگر درحقیقت وہ سچ میں چاہتا تھا کہ غنی اُس کے ساتھ جائے ۔ کم از کم کچھ دِن پہلے ہونے والے واقعے کے بعد تو وہ اُن کے رشتے سے تلخیاں سمیٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
’’لیکن میں نہیں جانا چاہتا ۔ آپ ہی بتائیں بھلا میں وہاں جا کر کیا کروں گا ؟ ویسے بھی مجھے لوگوں کے ہجوم میں گھٹن ہوتی ہے۔‘‘ موحد کے اندازِ گفتگو سے اُسے رتی بھر بھی فرق نہ پڑا ۔ جیسے یہ عام سی بات ہو۔ جیسے وہ ایک دوسرے کو ایسے ہی مخاطب کرنے کے عادی ہوں۔
’’تم نے مجھے اب تک معاف نہیں کیا ناں؟‘‘ وہ یک دم لہجے میں رنجیدگی طاری کرتے ہوئے بولا ۔ رنجیدہ آواز پر موحد کے ملول چہرے کو دیکھتا غنی گڑبڑا کر بولا۔
’’نہیں، نہیں بھائی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ میں نے آپ کو بہت پہلے ہی معاف کر دیا تھا ۔ آپ کے معافی مانگنے سے کہیں بہت پہلے ہی۔‘‘
وہ کہنا چاہتا تھا کہ اُس نے دِل میں کبھی نفرت پالی ہی نہیں تھی ۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ انہیں بہت پہلے ہی معاف کر چکا تھا کیوں کہ اُس کی ماں نے اُسے معاف کرنا سکھایا تھا ۔ کیوں کہ اُس نے صبر کرنا اپنی ماں سے سیکھا تھا ۔ وہ بس آگے بڑھ کر اُن کی طرف آنے سے ڈرتا تھا کیوں کہ اِس قدم پر ماضی میں ہر بار دھتکار نصیب ہوئی تھی ۔ دھتکارے جانے سے ڈرتا تھا۔
’’عبدالغنی صاحب ! آپ مجھے بس ڈیڈ کی نظر میں بُرا بنانا چاہتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ لیکن یہ بات جان لیں کہ میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔‘‘موحد سنجیدگی سے بولا۔
چہرے پر نرم تاثرات مکمل طور پر رخصت ہو چکے تھے ۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ وہ سب ٹھیک کر دے مگر غنی اُس کی کسی کوشش کو خاطر میں لاتا ہی نہیں تھا ۔ اُس کے باپ نے نہیں بولا تھا کہ غنی کو لازمی ساتھ لے کر جانا، یہ بات اُس نے خود سے کہہ ڈالی تھی ۔ مگر اب اُسے چِڑ ہو رہی تھی۔ وہ یوں کسی پر اپنے فیصلے تھوپنے کا عادی نہیں تھا ۔ نہ کسی کے مسلسل انکار کو اقرار میں بدلنے کا‘ نہ کسی کے اتنے نخرے برداشت کرنے کا ۔ بس ایک تقریب میں ہی تو شرکت کرنی تھی ۔ ساتھ چل لے تو کیا ہو جائے گا۔ چاہے وہاں جا کر کوئی تقریر نہ کرے مگر ساتھ تو چل لے۔ مگر ’’عبدالغنی سعید‘‘ ہمیشہ گیدرنگز سے دور بھاگتا تھا ۔ ہجوم میں شرکت نہیں کیا کرتا تھا ۔ کیوں کہ اُس کے پاس نہ رشتے داروں کے ہجوم تھے اور نہ ہی دوستوں کے حلقے۔ یوں ہی تنہا رہنے کا وہ عادی ہوگیا تھا۔